(قدسي) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قال الله تعالى: اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات، ولا اذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر، وتصديق ذلك في كتاب الله عز وجل: فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون سورة السجدة آية 17 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے، اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون»”کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک (کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے“(السجدۃ: ۱۶)، سے ہوتی ہے“۔
أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر ذخرا بله ما أطلعتم عليه قرأ فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون
أعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رأت ولا أذن سمعت ولا خطر على قلب بشر ومن بله ما قد أطلعكم الله عليه اقرءوا إن شئتم فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 31
´نیکوکار لوگوں کے لیے جنت میں عجیب و غریب نعمتیں` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”اللہ نے فرمایا: میں نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک (پیدا) ہوا ہے۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 31]
شرح الحديث: اس حدیث قدسی میں صراحت کے ساتھ سب انسانوں کو حصول جنت کی رغبت دلائی گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ جو کوئی الله تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار بن جائے، تو وہ اسے ایسے بلند پایہ انعام و اکرام سے نوازے گا جو اس کے تصور و خیال سے بھی بالاتر ہوں گے۔ جنت میں ایسی ایسی نعمتوں اور راحتوں کا منظر ہوگا، جنہیں اہل دنیا کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا تک نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں وہ نعمتیں ایسے انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں، جن کے متعلق کسی دل میں خیال و تصور تک پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ لوگوں کے پاس وہ دل نہیں جو جنت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قائم کر سکیں، یعنی کہ ایسے دلوں میں قوت تصور موجود نہیں ہے۔ الله تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی تباہی اور بربادی کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: «إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ»[ق: 37] "یقیناً ان (گزشتہ واقعات) میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہو۔ " اس آیت مبارکہ سے پوری طرح واضح ہو گیا کہ گوشت کا ٹکڑا یعنی دل تو سب کے پاس موجود ہے، مگر اس دل سے مراد نصیحت قبول کرنے والا دل ہے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ کوئی آنکھ جنت اور اس کی بہار اور نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتی، جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر ان کا نظارہ کیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مطلق نفی سے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰة والسلام کا نہ دیکھنا مراد ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔
خیالات انسانی سے بالاتر نعمتیں: «وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبٍ بَشَرٍ» "اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک (پیدا) ہوا۔ " اس حدیث میں ایک لفظ "بشر" استعمال ہوا ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں اور راحتیں فقط انسانوں کے لیے بنائی گئی ہیں نہ کہ فرشتوں کے لیے، چناچہ انسانوں کو شوق دلانے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے الله تعالیٰ سے پوچھا کہ (اے الہی!) اہل جنت کے لیے جنت میں سب سے بڑا مقام کون سا ہوگا؟ (اس کے جواب میں) ذات باری تعالیٰ نے فرمایا: (وہ ایسا مقام ہے) جہاں پر میں نے اپنے ہاتھ سے پودے گاڑے ہیں اور ان پر مہریں ثبت کر دیں، تاکہ کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ پائے، کوئی کان انہیں سن نہ پائے اور کسی دل میں ان کا خیال تک پیدا نہ ہو۔ ایک دوسری روایت کے آخر میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ "اور اسی بات کی تصدیق کتاب الہی میں بھی موجود ہے۔ جیسا کہ فرمایا: «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ»[سورة السجده: 17] "کوئی نفس (یہ بات) نہیں جانتا کہ ان کے لیے تسکین کا کون سا سامان مخفی رکھا گیا ہے۔ " [صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 465 - سنن ترمذي، رقم: 3198 - فتح الباري: 516/8]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 31
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4328
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمت تیار کر رکھی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی آدمی کے دل میں اس کا خیال آیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان نعمتوں کے علاوہ جو تم کو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور بھی نعمتیں ہیں، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون»”کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ بدلہ ہے اس کے نیک اعمال کا“(سورۃ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4328]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان انھی نعمتوں کا تصور کر سکتا ہے جو اسے حاصل ہوں یا ان سے ملتی جلتی نعمتوں کا تصور کر سکتا ہے۔ جبکہ جنت کی نعمتیں ان سے بلکل منفرد اور انوکھی ہیں۔
(2) جنت کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جنکی ہم نام اشیاء دنیا میں پائی جاتی ہیں مثلاً مختلف پھل اور میوے پرندوں کا گوشت طرح طرح کے مشروبات وغیرہ ان میں بھی دنیا کی نعمت اور جنت کی نعمت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے علاوہ بھی ایسی نعمتیں ہیں جن کا ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ دنیا کی نعمتوں سے کسی طرح بھی مشابہ نہیں ہیں۔
(3) کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں۔ اس سے مراد انسان اور جن ہیں۔ انھوں نے یہ نعمتیں نہ دیکھیں نہ سنیں جو حضرات فوت یا شہید ہوکر جنت میں پہنچ گئے وہ ان نعمتون سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
(4) جنت کی ہر نعمت خالص مسرت اور خوشی کا باعث ھے۔ دنیا کی چیزوں کی طرح ان کے حصول کے لیے تکلیف و مشقت اور حصول کے بعد گم ہونے، چوری ہونے یا ختم ہونے کا خطرہ یا ان کے استعمال کے کچھ ضمنی ناپسندیدہ اثرات جیسے زیادہ کھا لینے سے پیٹ کی تکلیف وغیرہ بلکل نہیں۔
(5) قرآن مجید کے بعض الفاظ کو ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے۔ کہ وہ طریقہ معتبر انداز سے مروی ہو۔ علمائے قرات و تجوید نے ایسے کلمات اورانکو پڑھنے کے طریقے بیان کر دیے ہیں۔ ان سے ہٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4328
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3292
´سورۃ الواقعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہے، تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون»”ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے طور پر جو چیز تیار کی گئی ہے اسے کوئی بھی نہیں جانتا“(السجدۃ: ۱۷)، جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی (گھنی) چھاؤں میں سوار سو برس تک بھی چلتا چلا جائے تو بھی اس ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3292]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے طور پر جو چیز تیار کی گئی ہے اسے کوئی بھی نہیں جانتا (السجدۃ: 17)
2؎: پھیلاہوا لمبا لمبا سایہ (الواقعہ: 30) 3؎: جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے (آل عمران: 85 1)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3292
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1167
1167- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز تیار کی ہے، جسے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہے، کسی کان نے (اس کے بارے میں) سنا نہیں ہے اور کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آیا (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) اگر تم لوگ چاہو، تو یہ آیت تلاوت کرلو۔ «فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ»(32-السجدة:17)”کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1167]
فائدہ: یہ حدیث قدسی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی کہ دنیا میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل کمزور پیدا کیا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے تقویٰ کو ضائع نہیں کرتے، اور اس کو اس کی محنت کا صلہ ضرور دیں گے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1166
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3244
3244. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں۔ جنھیں نہ کسی کی آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دن میں ان کا خیال ہی گزرا۔ اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ ”کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3244]
حدیث حاشیہ: یہ آیت سوہ الم سجدہ میں ہے۔ قیامت کے دن یہ ایمان والوں کے اعمال صالحہ کا بدلہ ہوگا جو بالضرور ان کو ملے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3244
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7498
7498. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ تو انکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7498]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں صاف اللہ کا کلام نقل ہوا ہے اللہ پاک آج کے معتزلیوں اور منکروں کو ان احادیث پرغور کرنے کی ہدایت بخشے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7498
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3244
3244. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں۔ جنھیں نہ کسی کی آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دن میں ان کا خیال ہی گزرا۔ اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ ”کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3244]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابھی تک کوئی بندہ بشرجنت کی نعمتوں پر مطلع نہیں ہو اور نہ کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل ہی کو اس کی خبر ہے لیکن رسول اللہ ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ آپ نے ایک مرتبہ نماز کسوف میں جنت اور اس کے پھل دیکھے اور انھیں توڑنا چاہا لیکن بعض مصالح کے پیش نظر اپنا ارادہ ترک کردیا۔ معراج کے موقع پر بھی آپ نے جنت اور اس کی نعمتوں کا مشاہدہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نعیم جنت پر مطلع ہیں۔ 2۔ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ کے نیک بندے رات کو چھپ کر اللہ کی عبادت کیا کرتے اور تہجد پڑھا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لیے پیش قیمت انعامات چھپا کررکھے ہیں۔ جس کا کسی کو علم ہی نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3244
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7498
7498. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ تو انکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7498]
حدیث حاشیہ: اس حدیث قدسی میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نقل ہوا ہے جو قرآن کریم کےعلاوہ ہے اور یہ کلام مبنی برحقیقت ہے، نیز یہ کلام غیرمخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جسے چاہے اس قسم کے کلام سے عزت دیتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7498