(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا قبيصة، عن سفيان، عن ابن جريج، عن عبد الحميد، عن ابن يعلى، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم " طاف بالبيت مضطبعا وعليه برد ". قال ابو عيسى: هذا حديث الثوري، عن ابن جريج، ولا نعرفه إلا من حديثه، وهو حديث حسن صحيح، وعبد الحميد هو ابن جبيرة بن شيبة، عن ابن يعلى، عن ابيه وهو يعلى بن امية.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَى بْنُ أُمَيَّةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں ۱؎ بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اسے ہم صرف کے انہی طریق سے جانتے ہیں، ۳- عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلیٰ سے اور ابن یعلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلیٰ سے مراد یعلیٰ بن امیہ ہیں رضی الله عنہ۔
وضاحت: ۱؎: چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے، بخلاف رمل کے، وہ صرف شروع کے تین پھیروں (چکروں) میں ہے، طواف کے علاوہ کسی جگہ اور کسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج و عمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 859
اردو حاشہ: 1؎: چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے، بخلاف رمل کے، وہ صرف شروع کے تین پھیروں (چکروں) میں ہے، طواف کے علاوہ کسی جگہ اور کسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج و عمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 859
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1883
´طواف میں اضطباع کا بیان۔` یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہری چادر میں اضطباع کر کے طواف کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1883]
1883. اردو حاشیہ: ➊ احرام کے لئے ضروری نہیں کہ چادرسفید ہی ہو دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہی ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے۔ جب کہ سفید اور افضل اور مستحب ہے۔ ➋ طواف شروع کرتے ہوئے اپنے اوپر کی چادر کو دایئں بغل کے نیچے سے نکال کربایئں کندھے پر ڈال لینا اضطباع کہلاتا ہے۔ یہ عمل صرف طواف قدوم میں ثابت ہے۔ جس میں رمل کیا جاتا ہے خیال رہے کہ اضطباع صرف طواف قدوم میں کرنا ہے۔اس کی مشروعیت کا مقصود رمل کی طرح قوت کا اظہار تھا۔اس کے بعدنماز اور دیگر اعمال میں اضطباع نہیں کیا جاتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1883
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 618
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز چادر میں طواف کیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 618]
618 لغوی تشریح: «مضطبعا» «اضطباع» سے ماخوذ ہے۔ اپنی چادر کے درمیانی حصے کو اپنی دائیں بغل کے نیچے کر کے اس کے دونوں کنارے (پلو) بائیں کندھے پر ڈال لینا۔ اس طرح دایاں کندھا ننگا رہتا ہے۔ فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، نیز سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں اسے سنداً ضعیف قرار دینے کے بعد لکھا ہے کہ سنن بیہقی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ جبکہ دیگر محقیقین نے اسے صحیح، حسن اور قوی قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ «والله اعلم» مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسعة الحديثية مسند الامام احمد:473/29 و صحيح سنن ابن ماجه الباني، رقم 2409] ➋ اضطباع پہلے پہل عمرۃ القضاء میں کیا گیا کیونکہ اس وقت مشرکین کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمان جسمانی و بدنی طور پر کمزور نہیں ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق رمل اور اضطباع دونوں ہمیشہ کے لیے مسنون قرار پائے۔ اب اس طرح کے لباس کے علاوہ مردوں کے لیے کسی بھی طرز و ڈھنگ کا لباس جائز نہیں، البتہ یہ اضطباع صرف طواف قدوم میں مسنون ہے۔ طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے وقت دونوں کندھے ڈھانک لینے چاہییں۔ ➌ رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے مشروع ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ ➍ احرام کے لیے ضروری نہیں کہ چادر سفید ہو، دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے جبکہ سفید افضل اور مستحب ہے۔
راوئ حدیث: حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ، ان کی کنیت ابوصفوان تمیمی ہے۔ مکہ کے رہنے والے قریش کے حلیف تھے۔ مشہور و معروف صحابی رسول ہیں۔ فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ حنین، طائف اور تبوک کے معرکوں میں حاضر ہو کر داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی جانب سے عامل مقرر کیے جاتے رہے۔ تقریباً پچاس برس کی عمر تک حیات رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 618
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2954
´طواف کے دوران اضطباع کا بیان۔` یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کر کے طواف کیا، قبیصہ کے الفاظ اس طرح ہیں: «وعليه برد» اور آپ کے جسم پر چادر تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2954]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن بیہیقی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے صحیح حسن اور قوی قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 29/ 473 وصحيح سنن ابن ماجة، للألباني رقم: 2409 و سنن ابن ماجة، بتحقيق الدكور بشار عواد حديث: 2954)
(2) اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ چادر اس انداز سے اوڑھی جائے کہ دائیں بازو کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالی جائے۔
(3) اضطباع صرف طواف قدوم میں مسنون ہے۔ طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے وقت دونوں کندھے ڈھانک لینے چاہییں۔
(4) رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے مشروع ہیں عورتوں کے لیے نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2954