الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
20. باب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الإِيمَانِ وَأَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ وَأَنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ:
20. باب: اس بات کا بیان کہ بری بات سے منع کرنا ایمان کی علامت ہے، اور یہ کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر دونوں واجب ہیں۔
حدیث نمبر: 177
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة كلاهما، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، وهذا حديث ابي بكر، قال: اول من بدا بالخطبة يوم العيد، قبل الصلاة، مروان، فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال ابو سعيد : اما هذا فقد قضى ما عليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من راى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الإيمان ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كِلَاهُمَا، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ، قَبْلَ الصَّلَاةِ، مَرْوَانُ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، فَقَالَ: قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ ".
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان سے حدیث سنائی، نیز محمد بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے اورانہیں شعبہ نے حدیث سنائی، ان دونوں (سفیان اور شعبہ) نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی، الفاظ ابو بکر بن ابی شیبہ کے ہیں۔ طارق بن شہاب نے کہا کہ پہلا شخص جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبے کا آغاز کیا، مروان تھا۔ ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: نما ز خطبے سے پہلے ہے؟ مروان نے جواب دیا: جو طریقہ (یہاں پہلے) تھا، وہ ترک کر دیا گیا ہے۔ اس پر ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس انسان نے (جس سے صحیح بات کہی تھی) اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
طارق بن شہاب ؒ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ کا آغاز مروان نے کیا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے جواب دیا: یہ طریقہ ترک کر دیا گیا ہے۔ ابو سعیدؓ نے کہا: اس انسان نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: تم میں سے جو شخص منکر کام دیکھے اس پر لازم ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے (یعنی زورو قوت) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو پھر اپنی زبان ہی سے اس کو بدلنے کی سعی کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو اپنے دل میں سے اس کے بدلنے کی تدبیر سوچے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 49

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد فى ((سننه)) فى الصلاة، باب: الخطبة يوم العيد برقم (1140) وفى الملاحم، باب: الامر والنهى برقم (4340) مختصراً بدون ذكر القصة والترمذي فى ((جامعه)) فى الفتن، باب: ما جاء فى تغيير المنكر باليد، او باللسان، او بالقلب - وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2172) والنسائى فى ((المجتبى من السنن)) 111/8-112 فى الايمان، باب: تفاضل اهل الايمان وابن ماجه فى ((سننه)) فى اقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء فى صلاة العيدين برقم (1275) مطولا - وفي الفتن، باب: الامر بالمعروف والنهي عن المنكر - مطولا برقم (4013) انظر ((التحفة)) برقم (4032 و 4085)»

   صحيح مسلم177سعد بن مالكمن رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   جامع الترمذي2172سعد بن مالكمن رأى منكرا فلينكره بيده ومن لم يستطع فبلسانه ومن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن أبي داود4340سعد بن مالكمن رأى منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده وقطع هناد بقية الحديث وفاه ابن العلاء فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع بلسانه فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن أبي داود1140سعد بن مالكمن رأى منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن ابن ماجه1275سعد بن مالكمن رأى منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع بلسانه فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن ابن ماجه4013سعد بن مالكمن رأى منكم منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5012سعد بن مالكمن رأى منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5012سعد بن مالكمن رأى منكرا فغيره بيده فقد برئ ومن لم يستطع أن يغيره بيده فغيره بلسانه فقد برئ ومن لم يستطع أن يغيره بلسانه فغيره بقلبه فقد برئ وذلك أضعف الإيمان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1140  
´عید کے دن خطبہ دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان عید کے روز منبر لے کر گئے اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو آپ عید کے روز منبر لے کر گئے حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا: اس شخص نے اپنا حق ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1140]
1140۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی مروان کو عید سے پہلے خطبہ دینے سے منع کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث: 956]
اور اس روایت میں انکار کرنے والے کا نام عمار بن رویبہ یا ابومسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ [عون المعبود]
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت ازحد گراں گزرتی تھی۔
➌ دل سے بُرا جانے کا مفہوم یہ ہے کہ عزم رکھے کہ جب بھی موقع ملا اس برائی کو ختم کر کے رہوں گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1275  
´عیدین کی نماز کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (گورنر) مروان عید کے دن (عید گاہ) منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت عمل کیا، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص خلاف شرع کام ہوتے ہوئے دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1275]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینا درست نہیں۔

(2)
عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔

(2)
لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔
تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔
کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔
عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔
اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکنا ضروری ہے۔
تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔

(4)
حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔
تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔
اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔

(5)
اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔
جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔

(6)
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔
اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔
سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔
لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا۔

(7)
غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کا فرض ہے۔
یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جا سکتا ہے۔
مثلاً، غلام،   ماتحت، اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔

(8)
زبان سے منع کرنا علماء کا فریضہ ہے۔
اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔

(9)
اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔
گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لحاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1275   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2172  
´ہاتھ، زبان یا دل سے منکر (بری باتوں) کو روکنے کا بیان۔`
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کو صلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر مروان سے کہا: آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا: اے فلاں! چھوڑ دی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈتے ہو (یہ سن کر) ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنا فرض پورا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو شخص کوئی برائی دیکھے تو چاہیئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اور جسے اس کی طاقت بھی نہ ہو وہ اپنے دل میں اسے برا جانے ۱؎ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
یعنی:
خود اس برائی سے الگ ہوجائے،
اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2172   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 177  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
مُنْكَرٌ:
برا،
ناپسندیدہ،
شریعت اور عقل و عرف کے خلاف کام۔
فَلْيُغَيِّرْهٌ اس کو تبدیل کرے،
بدلنے اور درست کرنے کی کوشش کرے۔
(2)
يَدْ:
ہاتھ کو کہتے ہیں،
یہاں مراد بزور بازو ہے کہ قوت و طاقت استعمال کرے۔
فوائد ومسائل:
(1)
برائی،
شرارت اور خلاف شریعت کا م کو روکنے اور اس کو بدل ڈالنے کی بقدر استطاعت سعی وکووشش کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے،
یہ کسی خاص فرد،
گروہ،
طبقہ یا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے،
اور اس کے تین درجات یا مراتب ہیں:
(الف)
اگر اقتدار واختیار حاصل ہو اور قوت وطاقت کے ذریعہ اس برائی کو بند کیا جا سکتا ہو،
تو قوت وطاقت،
یا حکومت واقتدار کا استعمال کرنا ضروری ہے۔
(ب)
اگر اقتدار واختیار یا طاقت وقوت کا استعمال ممکن نہیں،
یا یہ چیزیں حاصل نہیں ہیں،
تو زبانی اور تحریری طور پر افہام وتفہیم اور پند ونصیحت ہی سے اس کو روکنے اور اصلاح کرنے کی کوشش کرنا ہوگا۔
(ج)
اگر حالات اس قدر سنگین اور ایسے نا موافق ہیں کہ انسان اس برائی کے خلاف زبان کھولنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا،
یا اہل دین اس قدر کمزور پوزیشن میں ہیں کہ اجتماعی طو پر بھی اس کے خلاف زبان کھولنے کی گنجائش نہیں ہے،
تو آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو دل سے برا سمجھا جائے،
اور اس کو مٹانے اور بدلنے کا جذبہ دل میں رکھا جائے،
اور اس کو مٹانے کی تدابیر سوچی جائیں،
اور جس کی کم از کم صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر جیسے بھی ممکن ہو مٹانے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اور یہ ایمان کا آخری اور کمزور درجہ ہے کہ اس کے بعد کوئی اور درجہ ایمان کا ہے ہی نہیں۔
(2)
یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے خود مروان کو کیوں نہیں روکا،
کیونکہ متفق علیہ روایت میں موجود ہے:
کہ جب نماز سے پہلے مروان خطبہ کے لیے منبر کی طرف بڑھا تو حضرت ابو سعیدؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا کر کھینچا اور کہا:
پہلے نماز پڑھ۔
(فتح الباری: 2/579)
اور جب اس انسان نے یہ فریضہ سر انجام دیا تو پھر دوبارہ آپ نے اس کی تائید فرمائی۔
(3)
اگر برائی اور منکر کا ارتکاب سب کے سامنے کیا جا رہا ہو تو پھر یہ فرض عین نہیں ہوگا،
فرض کفایہ ہوگا،
جب بعض لوگ اس فرض کو ادا کر لیں گے تو دوسروں سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔
جس جگہ کوئی اور شخص برائی سے روکنے والا موجود نہ ہو تو جو اس برائی کو جاننے والاشخص موجود ہوگا،
تو اس پر روکنا فرض عین ہوگا،
برائی کا مرتکب باز آئے یا نہ آئے،
ہر حالت میں روکنا ذمہ داری ہے۔
(شریعت نے کسی شرعی کام اور عمل کے لیے جو صورت اور شکل وہیئت مقرر کی ہے اس میں تبدیلی کرنا جائز نہیں۔
مروان نے صرف نماز اور خطبہ میں تقدیم وتاخیر کی تھی،
کسی کام کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔
محض تقدیم وتاخیر اور ترتیب کی تبدیلی کی بنا پر اس کے فعل کو منکر قرار دیا گیا،
امت کے کسی امام نے اس تبدیلی قبول نہیں کیا،
حالانکہ اس میں ایک مصلحت اور فائدہ ہے کہ اس طرح دیر سے آنے والے بھی نماز میں شریک ہوجاتے ہیں اور خطبہ جمعہ میں بھی،
خطبہ نماز سے پہلے ہے جب ہیئت وشکل میں تبدیلی گوارا نہیں ہے تو اپنی طرف سے کسی عمل کےلیے ہیئت وکیفیت یا طریقہ مقرر کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 177   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.