الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
14. بَابُ : النَّهْىِ عَنِ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
14. باب: میت پر رونا منع ہے۔
Chapter: Prohibition of weeping for the dead
حدیث نمبر: 1848
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، قال: قال معاوية بن صالح، وحدثني يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت: لما اتى نعي زيد بن حارثة وجعفر بن ابي طالب وعبد الله بن رواحة جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن وانا انظر من صئر الباب، فجاءه رجل , فقال: إن نساء جعفر يبكين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انطلق فانههن" فانطلق، ثم جاء , فقال: قد نهيتهن فابين ان ينتهين، فقال:" انطلق فانههن" فانطلق، ثم جاء , فقال: قد نهيتهن فابين ان ينتهين , قال:" فانطلق فاحث في افواههن التراب" , فقالت عائشة: فقلت: ارغم الله انف الابعد إنك والله ما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم وما انت بفاعل.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا أَتَى نَعْيُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صِئْرِ الْبَابِ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ يَبْكِينَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْطَلِقْ فَانْهَهُنَّ" فَانْطَلَقَ، ثُمَّ جَاءَ , فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْتَهِينَ، فَقَالَ:" انْطَلِقْ فَانْهَهُنَّ" فَانْطَلَقَ، ثُمَّ جَاءَ , فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْتَهِينَ , قَالَ:" فَانْطَلِقْ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ" , فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَ الْأَبْعَدِ إِنَّكَ وَاللَّهِ مَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) کے مرنے کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (اور) آپ (کے چہرے) پر حزن و ملال نمایاں تھا، میں دروازے کے شگاف سے دیکھ رہی تھی (اتنے میں) ایک شخص آیا اور کہنے لگا: جعفر (کے گھر) کی عورتیں رو رہی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جاؤ انہیں منع کرو، چنانچہ وہ گیا (اور) پھر (لوٹ کر) آیا اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں منع کرو (پھر) وہ گیا (اور پھر لوٹ کر آیا، اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مان رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ ان کے منہ میں مٹی ڈال دو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے، تو اللہ کی قسم! نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنا چھوڑ رہا ہے، اور نہ تو یہی کر سکتا ہے (کہ انہیں سختی سے روک دے) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 40 (1299)، 45 (1305)، والمغازی 44 (4763)، صحیح مسلم/الجنائز 10 (935)، سنن ابی داود/الجنائز 25 (3122)، (تحفة الأشراف: 17932)، مسند احمد 6/58، 277 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ تو بار بار شکایات کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنے سے بھی باز نہیں آتا ہے، اور نہ یہی کرتا ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کر عورتوں کو رونے سے منع کر دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري4263عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن من التراب قالت عائشة فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت تفعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1305عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1299عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله ولم تترك رسول الله من العناء
   صحيح مسلم2161عائشة بنت عبد اللهاذهب فاحث في أفواههن من التراب
   سنن أبي داود3122عائشة بنت عبد اللهيعرف في وجهه الحزن
   سنن النسائى الصغرى1848عائشة بنت عبد اللهانطلق فاحث في أفواههن التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1848  
´میت پر رونا منع ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) کے مرنے کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (اور) آپ (کے چہرے) پر حزن و ملال نمایاں تھا، میں دروازے کے شگاف سے دیکھ رہی تھی (اتنے میں) ایک شخص آیا اور کہنے لگا: جعفر (کے گھر) کی عورتیں رو رہی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جاؤ انہیں منع کرو، چنانچہ وہ گیا (اور) پھر (لوٹ کر) آیا اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں منع کرو (پھر) وہ گیا (اور پھر لوٹ کر آیا، اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مان رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ ان کے منہ میں مٹی ڈال دو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے، تو اللہ کی قسم! نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کرنا چھوڑ رہا ہے، اور نہ تو یہی کر سکتا ہے (کہ انہیں سختی سے روک دے) ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1848]
1848۔ اردو حاشیہ:
➊ کسی قریبی کی موت پر انسان گھر سے باہر کسی کھلی جگہ غم کی حالت میں بیٹھ سکتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی افسوس کے لیے آئیں اور اس کے پاس بیٹھیں اور تعزیت کریں۔
➋ کسی کی شہادت پر بھی اظہار غم کیا جائے گا اگرچہ یہ اعلیٰ درجے کی موت ہے، مگر ہے تو موت ہی جو غم و اندوہ کا موجب ہے۔
اللہ اس بے سمجھ کو ذلیل کرے انسان کو اسی کام میں داخل دینا چاہیے جو اس کے بس میں ہو۔ ظاہر ہے عورتوں کو ان کا کوئی قریبی ہی چپ کرا سکتا ہے۔ یہ اجنبی کیا کر سکتا تھا؟ لہٰذا اسے اطلاع کرنے کے بعد آرام سے بیٹھ جانا چاہیے تھا تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی متعلق شخص کو بھتیجے مگر اس نے خود آرام کیا نہ آپ کو آرام سے بیٹھنے دیا، حالانکہ یہ غم کا موقع تھا۔ ایسے موقع پر زیادہ شور و غل مناسب نہیں۔ بہرصورت وہ شخص نیک تھا۔ ثابت ہوا میت پر آواز کے ساتھ رونا جائز نہیں، تبھی آپ نے روکنے کا حکم دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عمل درآمد نہ کراس کا۔
➍ تاکید کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1848   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122  
´مصیبت کے وقت (غم کے سبب سے) بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3122]
فوائد ومسائل:
اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔
کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔
اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔
یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔
تو برا منایا جاتا ہے۔
اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔
دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔
با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔
اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔
یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔
حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔
گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔
صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔
اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔
جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔
اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔
تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔
اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔
تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔
(إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔
میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔
اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔
اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔
جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔
مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔
انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔
تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔
جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔
جو اس نے دیا۔
اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔
جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔
تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ» (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔
اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔
اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔
جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔
تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔
اور ا س قسم کی باتیں کرے۔
جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔
اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔
اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3122   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.