الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
950. حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
حدیث نمبر: 21467
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن مجاهد ، عن إبراهيم يعني ابن الاشتر ، ان ابا ذر حضره الموت وهو بالربذة فبكت امراته، فقال: ما يبكيك؟ قالت: ابكي، انه لا يد لي بنفسك، وليس عندي ثوب يسعك كفنا، فقال: لا تبكي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وانا عنده في نفر، يقول: " ليموتن رجل منكم بفلاة من الارض، يشهده عصابة من المؤمنين"، قال: فكل من كان معي في ذلك المجلس مات في جماعة وفرقة، فلم يبق منهم غيري، وقد اصبحت بالفلاة اموت، فراقبي الطريق فإنك سوف ترين ما اقول، فإني والله ما كذبت ولا كذبت، قالت: وانى ذلك وقد انقطع الحاج؟ قال: راقبي الطريق، قال: فبينا هي كذلك إذا هي بالقوم تخد بهم رواحلهم كانهم الرخم، فاقبل القوم حتى وقفوا عليها فقالوا: ما لك؟ قالت: امرؤ من المسلمين تكفنونه وتؤجرون فيه! قالوا: ومن هو؟ قالت: ابو ذر، ففدوه بآبائهم وامهاتهم، ووضعوا سياطهم في نحورها يبتدرونه، فقال: ابشروا، انتم النفر الذين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم ما قال، ابشروا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من امراين مسلمين هلك بينهما ولدان او ثلاثة فاحتسبا وصبرا فيريان النار ابدا" ثم قد اصبحت اليوم حيث ترون ولو ان ثوبا من ثيابي يسعني، لم اكفن إلا فيه، فانشدكم الله ان لا يكفنني رجل منكم كان اميرا او عريفا او بريدا، فكل القوم كان قد نال من ذلك شيئا إلا فتى من الانصار كان مع القوم، قال: انا صاحبك، ثوبان في عيبتي من غزل امي، واحد ثوبي هذين اللذين علي، قال: انت صاحبي فكفني" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ الْأَشْتَرِ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَضَرَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ بِالرَّبَذَةِ فَبَكَتْ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: أَبْكِي، أَنَّهُ لَا يَدَ لِي بِنَفْسِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ كَفَنًا، فَقَالَ: لَا تَبْكِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ، يَقُولُ: " لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، يَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ"، قَالَ: فَكُلُّ مَنْ كَانَ مَعِي فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِي جَمَاعَةٍ وَفُرْقَةٍ، فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ غَيْرِي، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلَاةِ أَمُوتُ، فَرَاقِبِي الطَّرِيقَ فَإِنَّكِ سَوْفَ تَرَيْنَ مَا أَقُولُ، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، قَالَتْ: وَأَنَّى ذَلِكَ وَقَدْ انْقَطَعَ الْحَاجُّ؟ قَالَ: رَاقِبِي الطَّرِيقَ، قَالَ: فَبَيْنَا هِيَ كَذَلِكَ إِذَا هِيَ بِالْقَوْمِ تَخُدُّ بِهِمْ رَوَاحِلُهُمْ كَأَنَّهُمْ الرَّخَمُ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتَّى وَقَفُوا عَلَيْهَا فَقَالُوا: مَا لَكِ؟ قَالَتْ: امْرُؤٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ تُكَفِّنُونَهُ وَتُؤْجَرُونَ فِيهِ! قَالُوا: وَمَنْ هُوَ؟ قَالَتْ: أَبُو ذَرٍّ، فَفَدَوْهُ بِآبَائِهِمْ وَأُمَّهَاتِهِمْ، وَوَضَعُوا سِيَاطَهُمْ فِي نُحُورِهَا يَبْتَدِرُونَهُ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا، أَنْتُمْ النَّفَرُ الَّذِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ مَا قَالَ، أَبْشِرُوا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنَ امْرَأَيْنِ مُسْلِمَيْنِ هَلَكَ بَيْنَهُمَا وَلَدَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَاحْتَسَبَا وَصَبَرَا فَيَرَيَانِ النَّارَ أَبَدًا" ثُمَّ قَدْ أَصْبَحْتُ الْيَوْمَ حَيْثُ تَرَوْنَ وَلَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِيَابِي يَسَعُنِي، لَمْ أُكَفَّنْ إِلَّا فِيهِ، فَأَنْشُدُكُمْ اللَّهَ أَنْ لَا يُكَفِّنَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ كَانَ أَمِيرًا أَوْ عَرِيفًا أَوْ بَرِيدًا، فَكُلُّ الْقَوْمِ كَانَ قَدْ نَالَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: أَنَا صَاحِبُكَ، ثَوْبَانِ فِي عَيْبَتِي مِنْ غَزْلِ أُمِّي، وَأَحِدُ ثَوْبَيَّ هَذَيْنِ اللَّذَيْنِ عَلَيَّ، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبِي فَكَفِّنِّي" .
حضرت ام ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں رونے لگی انہوں نے پوچھا کہ کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا روؤں کیوں نہ؟ جبکہ آپ ایک جنگل میں اس طرح جان دے رہے ہیں کہ میرے پاس آپ کو دفن کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے اور نہ ہی اتنا کپڑا ہے جس میں آپ کو کفن دے سکوں، انہوں نے فرمایا تم مت رو اور خوشخبری سنو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی دو یا تین مسلمان بچوں کے درمیان فوت ہوتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ کبھی نہیں دیکھے گا۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی ضرور کسی جنگل میں فوت ہوگا جس کے پاس مؤمنین کی ایک جماعت حاضر ہوگی اب ان لوگوں میں سے تو ہر ایک کا انتقال کسی نہ کسی شہر یا جماعت میں ہوا ہے اور میں ہی وہ آدمی ہوں جو جنگل میں فوت ہو رہا ہے واللہ نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ ان کی بیوی نے کہا کہ اب تو حجاج کرام بھی واپس چلے گئے اب کون آئے گا؟ انہوں نے فرمایا تم راستے کا خیال رکھو ابھی وہ یہ گفتگو کر رہی تھیں کہ انہیں کچھ لوگ نظر آئے جو اپنی سواریوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے چلے آرہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گدھ تیزی سے آتے ہیں وہ لوگ اس کے قریب پہنچ کر رک گئے اور اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ (جو یوں راستے میں کھڑی ہو) اس نے بتایا کہ یہاں ایک مسلمان آدمی ہے اس کے کفن دفن کا انتطام کردو تمہیں اس کا بڑا ثواب ملے گا انہوں نے پوچھا وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے اپنے ماں باپ کو ان پر قربان کیا اپنے کوڑے جانوروں کے سینوں پر رکھے اور تیزی سے چلے۔ وہاں پہنچے تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ہی وہ لوگ ہو جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا خوشخبری ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جن دو مسلمان مرد و عورت کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ دونوں اس پر ثواب کی نیت سے صبر کریں تو وہ جہنم کو کبھی نہیں دیکھیں گے اب آج جو میری حالت ہے وہ تمہارے سامنے ہے اگر میرے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا ایسا مل جائے جو مجھے پورا آجائے تو مجھے اسی میں کفن دیا جائے اور میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے تم سے کوئی ایسا آدمی کفن نہ دے جو امیر ہو، یا چوہدری ہو، یا ڈا کیا ہو، اب ان لوگوں میں سے ہر ایک میں ان میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور پائی جاتی تھی صرف ایک انصاری نوجوان تھا جو لوگوں کے ساتھ آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ میں آپ کو کفن دوں گا میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ نے بنے تھے ان میں سے ایک میرے جسم پر بھی ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم ہی میرے ساتھی ہو لہٰذا تم ہی مجھے کفن دینا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منطقع، إبراهيم بن الأشتر لم يسمع من أبى ذر


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.