الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
950. حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
حدیث نمبر: 21289
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت الاعمش يحدث، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث ، عن حبيب بن حماز ، عن ابي ذر ، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزلنا ذا الحليفة، فتعجلت رجال إلى المدينة، وبات رسول الله صلى الله عليه وسلم وبتنا معه، فلما اصبح سال عنهم، فقيل تعجلوا إلى المدينة، فقال: " تعجلوا إلى المدينة والنساء! اما إنهم سيدعونها احسن ما كانت"، ثم قال:" ليت شعري متى تخرج نار من اليمن من جبل الوراق، تضيء منها اعناق الإبل بروكا ببصرى كضوء النهار" ..حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حِمَازٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَتَعَجَّلَتْ رِجَالٌ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِتْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ سَأَلَ عَنْهُمْ، فَقِيلَ تَعَجَّلُوا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: " تَعَجَّلُوا إِلَى الْمَدِينَةِ وَالنِّسَاءِ! أَمَا إِنَّهُمْ سَيَدَعُونَهَا أَحْسَنَ مَا كَانَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" لَيْتَ شِعْرِي مَتَى تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْيَمَنِ مِنْ جَبَلِ الْوِرَاقِ، تُضِيءُ مِنْهَا أَعْنَاقُ الْإِبِلِ بُرُوكًا بِبُصْرَى كَضَوْءِ النَّهَارِ" ..
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر سے واپس آرہے تھے ہم نے ذوالحلیفہ میں پڑاؤ کیا کچھ لوگ جلد بازی کر کے مدینہ منورہ چلے گئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رات وہیں گذاری ہم بھی ہمراہ تھے جب صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے متعلق پوچھا، بتایا گیا کہ وہ جلدی مدینہ چلے گئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی تو یہ مدینہ منورہ اور عورتوں کی طرف جلدی سے چلے گئے ہیں لیکن ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب یہ مدینہ منورہ کو بہترین حالت پر ہونے کے باوجود چھوڑ جائیں گے پھر فرمایا عنقریب یمن کے جبل وراق سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصرے کے جوان اونٹوں کی گردنیں دن کی روشنی کی طرح روشن ہوجائیں گی۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره لكن بلفظ: تخرج نار من الحجاز، وهذا إسناد ضعيف لأجل حبيب بن حماز
حدیث نمبر:
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدیث نمبر: 21290
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث البكري ، عن حبيب بن حماز ، عن ابي ذر ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر معناه.حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْبَكْرِيِّ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ حَمَّازٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا جب اپنے کام سے فارغ ہوتا تو مسجد میں آکر لیٹ جاتا، ایک دن میں لیٹا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور مجھے اپنے مبارک پاؤں سے ہلایا، میں سیدھاہو کر اٹھ بیٹھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تم مدینہ سے نکال دیئے جاؤ گے؟ عرض کیا میں مسجد نبوی اور اپنے گھر لوٹ جاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جب تمہیں یہاں سے بھی نکال دیا جائے گا تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ اس وقت میں اپنی تلوار پکڑوں گا اور جو مجھے نکالنے کی کوشش کرے گا اسے اپنی تلوار سے ماروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنا دست مبارک میرے کندھے پر رکھا اور تین مرتبہ فرمایا ابوذر! درگذر سے کام لو وہ تمہیں جہاں لے جائیں وہاں چلے جانا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا اور نماز کھڑی ہوئی تو ایک سیاہ فام آدمی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھا جو وہاں زکوٰۃ کے جانوروں پر مامور تھا اس نے مجھے دیکھ کر پیچھے ہٹنا اور مجھے آگے کرنا چاہا تو میں نے اس سے کہا کہ تم اپنی جگہ ہی رہو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کروں گا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لأجل حبيب بن حماز
حدیث نمبر: 21291
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان ، اخبرنا إسماعيل بن عياش ، عن عبد الله بن ابي حسين ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن ابي ذر ، قال: كنت اخدم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم آتي المسجد إذا انا فرغت من عملي، فاضطجع فيه، فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم يوما وانا مضطجع، فغمزني برجله، فاستويت جالسا فقال لي:" يا ابا ذر، كيف تصنع إذا اخرجت منها؟" فقلت: ارجع إلى مسجد النبي صلى الله عليه وسلم وإلى بيتي، قال:" فكيف تصنع إذا اخرجت منها؟" فقلت: إذا آخذ بسيفي، فاضرب به من يخرجني، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يده على منكبي، فقال:" غفرا يا ابا ذر ثلاثا، بل تنقاد معهم حيث قادوك، وتنساق معهم حيث ساقوك ولو عبدا اسود"، قال ابو ذر: فلما نفيت إلى الربذة اقيمت الصلاة، فتقدم رجل اسود كان فيها على نعم الصدقة، فلما رآني اخذ ليرجع وليقدمني، فقلت: كما انت، بل انقاد لامر رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ آتِي الْمَسْجِدَ إِذَا أَنَا فَرَغْتُ مِنْ عَمَلِي، فَأَضْطَجِعُ فِيهِ، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَأَنَا مُضْطَجِعٌ، فَغَمَزَنِي بِرِجْلِهِ، فَاسْتَوَيْتُ جَالِسًا فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْهَا؟" فَقُلْتُ: أَرْجِعُ إِلَى مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى بَيْتِي، قَالَ:" فَكَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْهَا؟" فَقُلْتُ: إِذًا آخُذَ بِسَيْفِي، فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ يُخْرِجُنِي، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي، فَقَالَ:" غَفْرًا يَا أَبَا ذَرٍّ ثَلَاثًا، بَلْ تَنْقَادُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَادُوكَ، وَتَنْسَاقُ مَعَهُمْ حَيْثُ سَاقُوكَ وَلَوْ عَبْدًا أَسْوَدَ"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَلَمَّا نُفِيتُ إِلَى الرَّبَذَةِ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ أَسْوَدُ كَانَ فِيهَا عَلَى نَعَمْ الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَآنِي أَخَذَ لِيَرْجِعَ وَلِيُقَدِّمَنِي، فَقُلْتُ: كَمَا أَنْتَ، بَلْ أَنْقَادُ لِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام طبعاً سہل دین ہے اور اس پر سہل آدمی ہی سواری کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إسماعيل بن عياش ضعيف فى روايته عن غير أهل بلده، وهذه منها ، وشهر بن حوشب ضعيف، وقد اختلف عليه فى إسناده
حدیث نمبر: 21292
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو اليمان ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، عن معان بن رفاعة ، عن ابي خلف ، عن انس بن مالك ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " الإسلام ذلول، لا يركب إلا ذلولا" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُعَانِ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ أَبِي خَلَفٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْإِسْلَامُ ذَلُولٌ، لَا يَرْكَبُ إِلَّا ذَلُولًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو آدمی ایک سے تین دو سے اور چار تین سے بہتر ہیں اس لئے تم پر جماعت کے ساتھ چمٹے رہنا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ میری امت کو ہدایت کے علاوہ کسی اور نکتے پر کبھی متفق نہیں کرسکتا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، معان بن رفاعة لين، وأبو خلف متروك
حدیث نمبر: 21293
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو اليمان ، حدثنا ابن عياش ، عن البختري بن عبيد بن سلمان ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " اثنان خير من واحد، وثلاث خير من اثنين، واربعة خير من ثلاثة، فعليكم بالجماعة، فإن الله لن يجمع امتي إلا على هدى" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ الْبَخْتَرِيِّ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ سَلْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " اثْنَانِ خَيْرٌ مِنْ وَاحِدٍ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ مِنَ اثْنَيْنِ، وَأَرْبَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ ثَلَاثَةٍ، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَجْمَعَ أُمَّتِي إِلَّا عَلَى هُدًى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی ساتھی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اس کے گھر جائے اور اسے بتائے کہ وہ اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہے اور اے ابوذر! میں اسی وجہ سے تمہارے گھر آیا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، البختري بن عبيد متروك الحديث وأبوه مجهول
حدیث نمبر: 21294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن الحجاج ، حدثنا عبد الله ، اخبرنا ابن لهيعة ، حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، ان ابا سالم الجيشاني اتى إلى ابي امية في منزله، فقال: إني سمعت ابا ذر ، يقول: إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا احب احدكم صاحبه، فلياته في منزله، فليخبره انه يحبه لله، وقد جئتك في منزلك" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ أَبَا سَالِمٍ الْجَيْشَانِيَّ أَتَى إِلَى أَبِي أُمَيَّةَ فِي مَنْزِلِهِ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ صَاحِبَهُ، فَلْيَأْتِهِ فِي مَنْزِلِهِ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ لِلَّهِ، وَقَدْ جِئْتُكَ فِي مَنْزِلِكَ" .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى حبيب إن كان ثقة لكنه قد كان يرسل، ولم يبين هنا عمن رواه، وابن الهيعة سيئ الحفظ، وقد تفرد فى هذا الحديث بقوله: فليأته فى منزله
حدیث نمبر: 21295
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يونس ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن برد ابي العلاء قال عفان : قال: اخبرنا برد ابو العلاء ، عن عبادة بن نسي ، عن غضيف بن الحارث ، انه مر بعمر بن الخطاب، فقال: نعم الفتى غضيف، فلقيه ابو ذر ، فقال: اي اخي استغفر لي، قال: انت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانت احق ان تستغفر لي! فقال: إني سمعت عمر بن الخطاب، يقول: نعم الفتى غضيف، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل ضرب بالحق على لسان عمر وقلبه"، قال عفان:" على لسان عمر يقول به" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ بُرْدٍ أَبِي الْعَلَاءِ قَالَ عَفَّانُ : قَالَ: أَخْبَرَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلَاءِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّهُ مَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْفَتَى غُضَيْفٌ، فَلَقِيَهُ أَبُو ذَرٍّ ، فَقَالَ: أَيْ أُخَيَّ اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي! فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: نِعْمَ الْفَتَى غُضَيْفٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ بِالْحَقِّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ"، قَالَ عَفَّانُ:" عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چہل قدمی کر رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس سے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دجال کے علاوہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گمراہ کن ائمہ۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، اخبرني ابو تميم الجيشاني ، قال: اخبرني ابو ذر ، قال: كنت امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " لغير الدجال اخوفني على امتي"، قالها: ثلاثا، قال: قلت: يا رسول الله، ما هذا الذي غير الدجال اخوفك على امتك؟ قال:" ائمة مضلين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي"، قَالَهَا: ثَلَاثًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ:" أَئِمَّةً مُضِلِّينَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چہل قدمی کر رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کے علاوہ ایک اور چیز ہے جس سے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دجال کے علاوہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گمراہ کن ائمہ۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدیث نمبر: 21297
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى بن داود ، اخبرنا ابن لهيعة ، عن ابن هبيرة ، عن ابي تميم الجيشاني ، قال: سمعت ابا ذر ، يقول: كنت مخاصر النبي صلى الله عليه وسلم يوما إلى منزله، فسمعته يقول: " غير الدجال اخوف على امتي من الدجال" فلما خشيت ان يدخل، قلت: يا رسول الله، اي شيء اخوف على امتك من الدجال؟ قال:" الائمة المضلين" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةُ ، عَنِ ابْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: كُنْتُ مُخَاصِرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى مَنْزِلِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ عَلَى أُمَّتِي مِنَ الدَّجَّالِ" فَلَمَّا خَشِيتُ أَنْ يَدْخُلَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ شَيْءٍ أَخْوَفُ عَلَى أُمَّتِكَ مِنَ الدَّجَّالِ؟ قَالَ:" الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! کیا جنت میں کے ایک خزانے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ لاحول ولاقوۃ الاباللہ کہا کرو۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدیث نمبر: 21298
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عمار بن محمد ، عن الاعمش ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟ قل: لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟ قُلْ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں چنانچہ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور ایک مہینے کی مسافت پر ہی دشمن مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دے دیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ مانگیے آپ کو دیا جائے گا تو میں نے اپنا یہ حق اپنی امت کی سفارش کے لئے محفوظ کرلیا ہے اور یہ شفاعت تم میں سے ہر اس شخص کو مل کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21299
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني سليمان الاعمش ، عن مجاهد بن جبر ابي الحجاج ، عن عبيد بن عمير الليثي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اوتيت خمسا لم يؤتهن نبي كان قبلي نصرت بالرعب، فيرعب مني العدو عن مسيرة شهر، وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا، واحلت لي الغنائم ولم تحل لاحد كان قبلي، وبعثت إلى الاحمر والاسود، وقيل لي: سل تعطه، فاختباتها شفاعة لامتي، وهي نائلة منكم إن شاء الله، من لقي الله لا يشرك به شيئا"، قال الاعمش فكان مجاهد يرى ان الاحمر الإنس، والاسود الجن .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ أَبِي الْحَجَّاجِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُوتِيتُ خَمْسًا لَمْ يُؤْتَهُنَّ نَبِيٌّ كَانَ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، فَيُرْعَبُ مِنِّي الْعَدُوُّ عَنْ مَسِيرَةِ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَبُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَقِيلَ لِي: سَلْ تُعْطَهْ، فَاخْتَبَأْتُهَا شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا"، قَالَ الْأَعْمَشُ فَكَانَ مُجَاهِدٌ يَرَى أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ، وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورج عرش کے نیچے غائب ہوتا ہے اسے اجازت ملتی ہے تو واپس آجاتا ہے جب وہ رات آجائے گی جس کی صبح کو سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے اجازت نہیں ملے گی اور جب صبح ہوگی تو اس سے کہا جائے گا کہ اسی جگہ سے طلوع ہو جہاں سے غروب ہوا تھا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی " یہ لوگ کسی اور چیز کا انتظار نہیں کر رہے سوائے اس کے کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا آپ کا رب آجائے یا آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21300
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، حدثنا يونس ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " تغيب الشمس تحت العرش، فيؤذن لها فترجع، فإذا كانت تلك الليلة التي تطلع صبيحتها من المغرب، لم يؤذن لها، فإذا اصبحت قيل لها: اطلعي من مكانك"، ثم قرا هل ينظرون إلا ان تاتيهم الملائكة او ياتي ربك او ياتي بعض آيات ربك سورة الانعام آية 158 .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَغِيبُ الشَّمْسُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُؤْذَنُ لَهَا فَتَرْجِعُ، فَإِذَا كَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُ الَّتِي تَطْلُعُ صَبِيحَتَهَا مِنَ الْمَغْرِبِ، لَمْ يُؤْذَنْ لَهَا، فَإِذَا أَصْبَحَتْ قِيلَ لَهَا: اطْلُعِي مِنْ مَكَانِكِ"، ثُمَّ قَرَأَ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ سورة الأنعام آية 158 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہر مہینے تین روزے رکھ لے یہ ایسے ہے جیسے اس نے ہمیشہ روزے رکھے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3199، م: 159، وهذا إسناد ضعيف لضعف مؤمل، وقد خولف
حدیث نمبر: 21301
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا إسرائيل ، عن عاصم بن سليمان ، عن ابي عثمان ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من صام ثلاثة ايام من كل شهر، فقد صام الدهر كله" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَقَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی مرضی سے انسان کو اس کی آنکھ کسی چیز کا اتنا گرویدہ بنا لیتی ہے کہ وہ مونڈنے والی چیز پر چڑھتا چلا جاتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس سے نیچے گرپڑتا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف ، أبو عثمان لم يسمعه من أبى ذر
حدیث نمبر: 21302
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا ديلم ، عن وهب بن ابي دبي ، عن ابي حرب ، عن محجن ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن العين لتولع بالرجل بإذن الله، حتى يصعد حالقا ثم يتردى منه" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا دَيْلَمٌ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ أَبِي دُبَيٍّ ، عَنْ أَبِي حَرْبٍ ، عَنْ مِحْجَنٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْعَيْنَ لَتُولِعُ بِالرَّجُلِ بِإِذْنِ اللَّهِ، حَتَّى يَصْعَدَ حَالِقًا ثُمَّ يَتَرَدَّى مِنْهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟ کسی نے نماز اور زکوٰۃ کا نام لیا اور کسی نے جہاد کو بتایا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ کے لئے کسی سے محبت یا نفرت کرنا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة محجن
حدیث نمبر: 21303
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسين ، حدثنا يزيد يعني ابن عطاء ، عن يزيد يعني ابن زياد ، عن مجاهد ، عن رجل ، عن ابي ذر ، قال خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اتدرون اي الاعمال احب إلى الله؟" قال قائل الصلاة والزكاة، وقال قائل الجهاد، قال:" إن احب الاعمال إلى الله الحب في الله، والبغض في الله" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَطَاءٍ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟" قَالَ قَائِلٌ الصَّلَاةُ وَالزَّكَاةُ، وَقَالَ قَائِلٌ الْجِهَادُ، قَالَ:" إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، يزيد بن عطاء و يزيد بن أبى زياد ضعيفان ولإبهام الراوي عن أبى ذر
حدیث نمبر: 21304
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني عامر، قال: كنت كافرا، فهداني الله للإسلام، وكنت اعزب عن الماء، ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، وقد نعت لي ابو ذر ، فحججت فدخلت مسجد منى فعرفته بالنعت، فإذا شيخ معروف آدم، عليه حلة قطري، فذهبت حتى قمت إلى جنبه وهو يصلي، فسلمت عليه فلم يرد علي، ثم صلى صلاة اتمها واحسنها، واطولها، فلما فرغ رد علي، قلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي ليزعمون ذلك! قال كنت كافرا فهداني الله للإسلام، واهمني ديني، وكنت اعزب عن الماء ومعي اهلي، فتصيبني الجنابة، فوقع ذلك في نفسي، قال: هل تعرف ابا ذر؟! قلت: نعم، قال: فإني اجتويت المدينة، قال ايوب او كلمة نحوها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود من إبل وغنم، فكنت اكون فيها، فكنت اعزب من الماء ومعي اهلي فتصيبني الجنابة، فوقع في نفسي اني قد هلكت، فقعدت على بعير منها، فانتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم نصف النهار، وهو جالس في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فنزلت عن البعير، وقلت: يا رسول الله، هلكت، قال:" وما اهلكك؟" فحدثته فضحك، فدعا إنسانا من اهله، فجاءت جارية سوداء بعس فيه ماء، ما هو بملآن، إنه ليتخضخض، فاستترت بالبعير، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من القوم فسترني فاغتسلت، ثم اتيته، فقال: " إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء، ولو إلى عشر حجج، فإذا وجدت الماء فامس بشرتك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، قَالَ: كُنْتُ كَافِرًا، فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، وَقَدْ نُعِتَ لِي أَبُو ذَرٍّ ، فَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ مَسْجِدَ مِنًى فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَإِذَا شَيْخٌ مَعْرُوفٌ آدَمُ، عَلَيْهِ حُلَّةٌ قِطْرِيٌّ، فَذَهَبْتُ حَتَّى قُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، ثُمَّ صَلَّى صَلَاةً أَتَمَّهَا وَأَحْسَنَهَا، وَأَطْوَلَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ رَدَّ عَلَيَّ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي لَيَزْعُمُونَ ذَلِكَ! قَالَ كُنْتُ كَافِرًا فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَهَمَّنِي دِينِي، وَكُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ ذَلِكَ فِي نَفْسِي، قَالَ: هَلْ تَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي اجْتَوَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ أَيُّوبُ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ مِنْ إِبِلٍ وَغَنَمٍ، فَكُنْتُ أَكُونُ فِيهَا، فَكُنْتُ أَعْزُبُ مِنَ الْمَاءِ وَمَعِي أَهْلِي فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنِّي قَدْ هَلَكْتُ، فَقَعَدْتُ عَلَى بَعِيرٍ مِنْهَا، فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِصْفَ النَّهَارِ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَنَزَلْتُ عَنِ الْبَعِيرِ، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْتُ، قَالَ:" وَمَا أَهْلَكَكَ؟" فَحَدَّثْتُهُ فَضَحِكَ، فَدَعَا إِنْسَانًا مِنْ أَهْلِهِ، فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ بِعُسٍّ فِيهِ مَاءٌ، مَا هُوَ بِمَلْآنَ، إِنَّهُ لَيَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالْبَعِيرِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْقَوْمِ فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ، وَلَوْ إِلَى عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا وَجَدْتَ الْمَاءَ فَأَمِسَّ بَشَرَتَكَ" .
بنی عامر کے ایک صاحب کا کہنا ہے (وہ صاحب ابوالمہلب خرمی ہیں) کہ میں کافر تھا اللہ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اہلیہ میرے ساتھ تھی جس کی بناء پر بعض اوقات مجھے جنابت لاحق ہوجاتی، میرے دل میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کی اہمیت بیٹھ گئی کسی شخص نے مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا پتہ بتادیا میں حج کے لئے روانہ ہوا اور مسجد منٰی میں داخل ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو پہچان گیا وہ عمر رسیدہ تھے انہیں پسینہ آیا ہوا تھا اور انہوں نے اونی جوڑا پہن رکھا تھا میں جا کر ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا خوب اچھی طرح مکمل نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ہی ابوذر ہیں؟ انہوں نے فرمایا میرے گھر والے تو یہی سمجھتے ہیں پھر میں نے انہیں اپنا واقعہ سنایا انہوں نے فرمایا کیا تم ابوذر کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! انہوں نے فرمایا مجھے مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی تھی یا فرمایا کہ مجھے پیٹ کا مرض لاحق ہوگیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ اونٹوں اور بکریوں کے دودھ پینے کا حکم فرمایا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں پانی (کے علاقے) سے دور رہتا تھا میرے ساتھ اہل و عیال بھی تھے جب مجھے غسل کی ضرورت پیش آتی تو میں بغیر پاکی حاصل کئے ہوئے نماز پڑھ لیا کرتا ایک مرتبہ جب میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو وہ دوپہر کا وقت تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مسجد کے سایہ میں تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوگئی؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں پانی (کے علاقے سے) دور تھا میرے ہمراہ میری اہلیہ بھی تھی مجھے غسل کی جب ضرورت پیش آجاتی تو میں بغیر غسل کئے ہی نماز پڑھ لیا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے پانی منگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ ایک کالے رنگ کی باندی میرے لئے بڑے پیالے میں پانی لے کر آئی۔ پیالہ کا پانی ہل رہا تھا کیونکہ پیالہ بھرا ہوا نہیں تھا میں نے ایک اونٹ کی اڑ میں غسل کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک مٹی بھی مطہر ہوتی ہے جب تک پانی نہ ملے اگرچہ تم کو دس سال تک بھی پانی میسر نہ آسکے البتہ جب پانی مل جائے تو اس کو بدن پر بہا لو۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21305
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن رجل من بني قشير، قال: كنت اعزب عن الماء، فتصيبني الجنابة، فلا اجد الماء، فاتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، فاتيت ابا ذر في منزله فلم اجده، فاتيت المسجد وقد وصفت لي هيئته، فإذا هو يصلي فعرفته بالنعت، فسلمت، فلم يرد علي حتى انصرف، ثم رد علي، فقلت: انت ابو ذر؟ قال: إن اهلي يزعمون ذاك! فقلت: ما كان احد من الناس احب إلي رؤيته منك، فقال: قد رايتني! فقلت: إني كنت اعزب عن الماء فتصيبني الجنابة، فلبثت اياما اتيمم، فوقع في نفسي من ذلك، او اشكل علي! فقال: اتعرف ابا ذر؟! كنت بالمدينة فاجتويتها، فامر لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بغنيمة، فخرجت فيها فاصابتني جنابة، فتيممت بالصعيد، فصليت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فامرت بناقة لي او قعود، فشد عليها ثم ركبت، قال: حتى قدمت المدينة، فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ظل المسجد في نفر من اصحابه، فسلمت عليه، فرفع راسه وقال:" سبحان الله، ابو ذر؟!" فقلت: نعم يا رسول الله، إني اصابتني جنابة، فتيممت اياما، فوقع في نفسي من ذلك حتى ظننت اني هالك، فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فجاءت به امة سوداء في عس يتخضخض، فاستترت بالراحلة، وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فسترني فاغتسلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، إن الصعيد الطيب طهور ما لم تجد الماء ولو في عشر حجج، فإذا قدرت على الماء فامسه بشرتك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي قُشَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ، فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَا أَجِدُ الْمَاءَ، فَأَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَتَيْتُ الْمَسْجِدَ وَقَدْ وُصِفَتْ لِي هَيْئَتُهُ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي فَعَرَفْتُهُ بِالنَّعْتِ، فَسَلَّمْتُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: أَنْتَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلِي يَزْعُمُونَ ذَاكَ! فَقُلْتُ: مَا كَانَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَحَبَّ إِلَيَّ رُؤْيَتُهُ مِنْكَ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتَنِي! فَقُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ أَعْزُبُ عَنِ الْمَاءِ فَتُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ، فَلَبِثْتُ أَيَّامًا أَتَيَمَّمُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، أَوْ أُشْكِلَ عَلَيَّ! فَقَالَ: أَتَعْرِفُ أَبَا ذَرٍّ؟! كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَاجْتَوَيْتُهَا، فَأَمَرَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغُنَيْمَةٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا فَأَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّيْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَأَمَرْتُ بِنَاقَةٍ لِي أَوْ قَعُودٍ، فَشُدَّ عَلَيْهَا ثُمَّ رَكِبْتُ، قَالَ: حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ الْمَسْجِدِ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، أَبُو ذَرٍّ؟!" فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَتَيَمَّمْتُ أَيَّامًا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي هَالِكٌ، فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَجَاءَتْ بِهِ أَمَةٌ سَوْدَاءُ فِي عُسٍّ يَتَخَضْخَضُ، فَاسْتَتَرْتُ بِالرَّاحِلَةِ، وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَسَتَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورٌ مَا لَمْ تَجِدْ الْمَاءَ وَلَوْ فِي عَشْرِ حِجَجٍ، فَإِذَا قَدَرْتَ عَلَى الْمَاءِ فَأَمِسَّهُ بَشَرَتَكَ" .
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبیداللہ بن زیاد نے کسی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیا میں نے عبداللہ بن صامت رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہی سوال میں نے اپنے دوست حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہی سوال میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21306
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابي العالية ، قال: اخر عبيد الله بن زياد الصلاة، فسالت عبد الله بن الصامت فضرب فخذي، قال: سالت خليلي ابا ذر فضرب فخذي، وقال: سالت خليلي يعني النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " صل لميقاتها، فإن ادركت فصل معهم، ولا تقولن: إني قد صليت فلا اصلي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، قَالَ: أَخَّرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الصَّامِتِ فَضَرَبَ فَخِذِي، قَالَ: سَأَلَتُ خَلِيلِي أَبَا ذَرٍّ فَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: سَأَلْتُ خَلِيلِي يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَلِّ لِمِيقَاتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَ فَصَلِّ مَعَهُمْ، وَلَا تَقُولَنَّ: إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21307
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن سعيد الجريري ، عن عبد الله بن بريدة الاسلمي ، عن ابي الاسود ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احسن ما غير به هذا الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ هَذَا الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ" .
مخارق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حج کے ارادے سے نکلے جب ہم مقام ربذہ میں پہنچے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم آگے چلو اور میں خود پیچھے رہ گیا میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے میں نے طویل قیام اور کثرت رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھا میں نے ان سے اس چیز کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنی طرف سے بہتر سے بہتر میں کوئی کمی نہیں کرتا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص ایک رکوع یا ایک سجدہ کرتا ہے اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہو کردیا جاتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21308
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن المخارق ، قال: خرجنا حجاجا، فلما بلغنا الربذة، قلت لاصحابي: تقدموا وتخلفت، فاتيت ابا ذر وهو يصلي، فرايته يطيل القيام، ويكثر الركوع والسجود، فذكرت ذلك له، فقال: ما الوت ان احسن، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ركع ركعة او سجد سجدة رفع بها درجة، وحطت عنه بها خطيئة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُخَارِقِ ، قَالَ: خَرَجْنَا حُجَّاجًا، فَلَمَّا بَلَغْنَا الرَّبَذَةَ، قُلْتُ لِأَصْحَابِي: تَقَدَّمُوا وَتَخَلَّفْتُ، فَأَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَهُوَ يُصَلِّي، فَرَأَيْتُهُ يُطِيلُ الْقِيَامَ، وَيُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: مَا أَلَوْتُ أَنْ أُحْسِنَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَكَعَ رَكْعَةً أَوْ سَجَدَ سَجْدَةً رُفِعَ بِهَا دَرَجَةً، وَحُطَّتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تلخ باتیں کرتے تھے جس کی شکایت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ام حرام رضی اللہ عنہ کے سامنے کی اور فرمایا کہ جیسے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے آپ لوگوں کو بھی یہ شرف حاصل ہے اور جس طرح انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے آپ نے بھی کی ہے آپ لوگ مناسب سمجھیں تو ان سے بات کریں انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ جب وہ آگئے تو مذکورہ حضرات نے ان سے گفتگو کی انہوں نے فرمایا اے ابو الولید! آپ نے تو مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا ہے آپ عمر اور فضیلت میں مجھ سے بڑھ کر ہیں میں ایسی مجلس سے آپ کو بچنے کی ترغیب دیتا ہوں اور اے ابودرداء آپ نے اسلام اس وقت قبول کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا زمانہ قریب آگیا تھا آپ نیک مسلمان ہیں اور اے عمرو بن عاص! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ سے جہاد کیا ہوا ہے اور اے ام حرام! آپ ایک عورت ہیں اور آپ کی عقل بھی عورت والی ہے آپ اس معاملے میں نہ پڑیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ یہ رنگ دیکھ کر کہنے لگے یہ بات طے ہوگئی کہ آج کے بعد ایسی مجالس میں نہیں بیٹھوں گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة المخارق
حدیث نمبر: 21309
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الله، قال: قرات على ابي هذا الحديث فاقر به، حدثني مهدي بن جعفر الرملي ، حدثني ضمرة ، عن ابي زرعة السيباني ، عن قنبر حاجب معاوية ، قال: كان ابو ذر يغلظ لمعاوية، قال: فشكاه إلى عبادة بن الصامت، وإلى ابي الدرداء، وإلى عمرو بن العاص، وإلى ام حرام، فقال: " إنكم قد صحبتم كما صحب، ورايتم كما راى، فإن رايتم ان تكلموه، ثم ارسل إلى ابي ذر فجاء فكلموه، فقال: اما انت يا ابا الوليد، فقد اسلمت قبلي، ولك السن والفضل علي، وقد كنت ارغب بك عن مثل هذا المجلس، واما انت يا ابا الدرداء، فإن كادت وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تفوتك، ثم اسلمت، فكنت من صالحي المسلمين، واما انت يا عمرو بن العاص، فقد جاهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، واما انت يا ام حرام، فإنما انت امراة، وعقلك عقل امراة، واما انت وذاك؟! قال: فقال: عبادة لا جرم لا جلست مثل هذا المجلس ابدا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد الله، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ فَأَقَرَّ بِهِ، حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ ، عَنْ قَنْبَرٍ حَاجِبِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُغَلِّظُ لِمُعَاوِيَةَ، قَالَ: فَشَكَاهُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَإِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَإِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَإِلَى أُمِّ حَرَامٍ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ قَدْ صَحِبْتُمْ كَمَا صَحِبَ، وَرَأَيْتُمْ كَمَا رَأَى، فَإِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُكَلِّمُوهُ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَجَاءَ فَكَلَّمُوهُ، فَقَالَ: أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ، فَقَدْ أَسْلَمْتَ قَبْلِي، وَلَكَ السِّنُّ وَالْفَضْلُ عَلَيَّ، وَقَدْ كُنْتُ أَرْغَبُ بِكَ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْمَجْلِسِ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أبا الدَّرْدَاءِ، فَإِنْ كَادَتْ وَفَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَفُوتَكَ، ثُمَّ أَسْلَمْتَ، فَكُنْتَ مِنْ صَالِحِي الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَمْرُو بْنَ الْعَاصِ، فَقَدْ جَاهَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا أَنْتِ يَا أُمَّ حَرَامٍ، فَإِنَّمَا أَنْتِ امْرَأَةٌ، وَعَقْلُكِ عَقْلُ امْرَأَةٍ، وَأَمَّا أَنْتَ وَذَاكَ؟! قَالَ: فَقَالَ: عُبَادَةُ لَا جَرَمَ لَا جَلَسْتُ مِثْلَ هَذَا الْمَجْلِسِ أَبَدًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے خالص کرلیا اور اسے قلب سلیم، لسان صادق، نفس مطمئنہ اور اخلاق حسنہ عطاء کئے گئے ہوں اس کے کانوں کو شنوائی اور آنکھوں کو بینائی دی گئی ہو اور کانوں کی مثال پیندے کی سی ہے جبکہ آنکھ دل میں محفوظ ہونے والی چیزوں کو ٹھکانہ فراہم کرتی ہے اور وہ شخص کامیاب ہوگیا جس کا دل محفوظ کرنے والا ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وفي بعض حروفه نكارة، قنبر مجهول
حدیث نمبر: 21310
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، حدثنا بقية ، قال: واخبرني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، قال: قال ابو ذر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " قد افلح من اخلص قلبه للإيمان، وجعل قلبه سليما، ولسانه صادقا، ونفسه مطمئنة، وخليقته مستقيمة، وجعل اذنه مستمعة، وعينه ناظرة، فاما الاذن فقمع، والعين بمقرة لما يوعى القلب، وقد افلح من جعل قلبه واعيا" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ، وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا، وَلِسَانَهُ صَادِقًا، وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً، وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً، وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً، وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً، فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ، وَالْعَيْنُ بِمُقِرَّةٍ لِمَا يُوعَى الْقَلْبُ، وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہ کرے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش تیرے لئے مقرر کردوں گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية لم يصرح بالتحديث فى جميع طبقات السند، وخالد بن معدان كان يرسل، ولم يصرح بسماعه من أبى ذر
حدیث نمبر: 21311
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن سابق ، حدثنا إبراهيم بن طهمان ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقول الله: يا ابن آدم، لو عملت قراب الارض خطايا ولم تشرك بي شيئا، جعلت لك قراب الارض مغفرة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَوْ عَمِلْتَ قِرَابَ الْأَرْضِ خَطَايَا وَلَمْ تُشْرِكْ بِي شَيْئًا، جَعَلْتُ لَكَ قُرَابَ الْأَرْضِ مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2687
حدیث نمبر: 21312
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن سالم بن غيلان ، عن سليمان بن ابي عثمان ، عن عدي بن حاتم الحمصي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تزال امتي بخير ما عجلوا الإفطار، واخروا السحور" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْإِفْطَارَ، وَأَخَّرُوا السُّحُورَ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوتا تو ان سے ایک سوال ہی پوچھ لیتا، انہوں نے فرمایا تم ان سے کیا سوال پوچھتے؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ سوال پوچھتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کی زیارت کی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ سوال تو میں ان سے پوچھ چکا ہوں جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ ، وسليمان بن أبى عثمان وعدي بن حاتم مجهولان
حدیث نمبر: 21313
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت لابي ذر لو رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم لسالته، قال: وما كنت تساله؟ قال: كنت اساله هل راى ربه؟ قال: فإني قد سالته، فقال: " قد رايته نورا، انى اراه؟!"، قال عفان: وبلغني عن ابن هشام يعني معاذا، انه رواه عن ابيه كما قال همام:" قد رايته" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: وَمَا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَى رَبَّهُ؟ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " قَدْ رَأَيْتُهُ نُورًا، أَنَّى أَرَاهُ؟!"، قَالَ عَفَّانُ: وَبَلَغَنِي عَنْ ابْنِ هِشَامٍ يَعْنِي مُعَاذًا، أَنَّهُ رَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ كَمَا قَالَ هَمَّامٌ:" قَدْ رَأَيْتُهُ" .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 178
حدیث نمبر: 21314
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سليمان الاعمش ، عن مجاهد ، عن عبيد بن عمير الليثي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خمسا لم يعطهن احد قبلي بعثت إلى الاحمر والاسود، وجعلت لي الارض طهورا ومسجدا، واحلت لي الغنائم، ولم تحل لاحد قبلي، ونصرت بالرعب، فيرعب العدو وهو مني مسيرة شهر، وقيل لي سل تعطه، واختبات دعوتي شفاعة لامتي، فهي نائلة منكم إن شاء الله، من لم يشرك بالله شيئا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، فَيُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَهُوَ مِنِّي مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَقِيلَ لِي سَلْ تُعْطَهْ، وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، فَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں چنانچہ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور ایک مہینے کی مسافت پر ہی دشمن مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دے دیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ مانگیے آپ کو دیا جائے گا تو میں نے اپنا یہ حق اپنی امت کی سفارش کے لئے محفوظ کرلیا ہے اور یہ شفاعت تم میں سے ہر اس شخص کو مل کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21315
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا عاصم ، عن المعرور بن سويد ، ان ابا ذر ، قال: حدثنا الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه عز وجل، انه قال: " الحسنة بعشر امثالها او ازيد، والسيئة بواحدة او اغفر، ولو لقيتني بقراب الارض خطايا، ما لم تشرك بي، لقيتك بقرابها مغفرة" ، قال: وقراب الارض ملء الارض، حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم ، عن المعرور بن سويد، عن ابي ذر ، قال: سمعت الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم، فذكر معناه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهُ قَالَ: " الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا أَوْ أَزِيدُ، وَالسَّيِّئَةُ بِوَاحِدَةٍ أَوْ أَغْفِرُ، وَلَوْ لَقِيتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، مَا لَمْ تُشْرِكْ بِي، لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً" ، قَالَ: وَقُرَابُ الْأَرْضِ مِلْءُ الْأَرْضِ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صادق ومصدوق نے ہم سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے جس میں میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں اور ایک گناہ کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے اور میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں اور اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2687، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21316
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2687، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21317
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن مطرف ، قال: قعدت إلى نفر من قريش، فجاء رجل فجعل يصلي يركع ويسجد ثم يقوم، ثم يركع ويسجد لا يقعد، فقلت والله ما ارى هذا يدري ينصرف على شفع او وتر، فقالوا: الا تقوم إليه فتقول له؟! قال: فقمت، فقلت: يا عبد الله، ما اراك تدري تنصرف على شفع او على وتر، قال: ولكن الله يدري، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من سجد لله سجدة، كتب الله له بها حسنة، وحط بها عنه خطيئة، ورفع له بها درجة"، فقلت: من انت؟ فقال ابو ذر: فرجعت إلى اصحابي، فقلت: جزاكم الله من جلساء شرا، امرتموني ان اعلم رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَجَعَلَ يُصَلِّي يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ لَا يَقْعُدُ، فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى هَذَا يَدْرِي يَنْصَرِفُ عَلَى شَفْعٍ أَوْ وِتْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَقُومُ إِلَيْهِ فَتَقُولَ لَهُ؟! قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مَا أَرَاكَ تَدْرِي تَنْصَرِفُ عَلَى شَفْعٍ أَوْ عَلَى وَتْرٍ، قَالَ: وَلَكِنَّ اللَّهَ يَدْرِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَجَدَ لِلَّهِ سَجْدَةً، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَحَطَّ بِهَا عَنْهُ خَطِيئَةً، وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً"، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: جَزَاكُمْ اللَّهُ مِنْ جُلَسَاءَ شَرًّا، أَمَرْتُمُونِي أَنْ أُعَلِّمَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں قریش کے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے لگا وہ رکوع سجدہ کرتا پھر کھڑا ہو کر رکوع سجدہ کرتا اور درمیان میں نہ بیٹھتا، میں نے کہا بخدا! یہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتا کہ جفت یا طاق رکعتوں پر سلام پھیر کر فارغ ہوجائے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اٹھ کر ان کے پاس جاتے اور انہیں سمجھاتے کیوں نہیں ہو؟ میں اٹھ کر اس کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا کہ اے بندہ خدا! لگتا ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ جفت یا طاق رکعتوں پر نماز سے فارغ ہوجائیں، اس نے کہا کہ اللہ تو جانتا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے کوئی سجدہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابوذر ہوں تو میں نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آکر کہا کہ اللہ تمہیں تمہارے ساتھیوں کی طرف سے برا بدلہ دے تم نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دین سکھانے کے لئے بھیج دیا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الضعف على بن زيد
حدیث نمبر: 21318
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال علي بن مدرك : اخبرني، قال: سمعت ابا زرعة يحدث، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم"، قال: قلت: يا رسول الله، من هم؟ خسروا وخابوا! قال: فاعاده رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، قال:" المسبل، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب، او الفاجر، والمنان" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ : أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ خَسِرُوا وَخَابُوا! قَالَ: فَأَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ:" الْمُسْبِلُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ، أَوْ الْفَاجِرِ، وَالْمَنَّانُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور خسارے میں پڑگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا کر فرمایا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 106
حدیث نمبر: 21319
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحارث بن حصيرة ، حدثنا زيد بن وهب ، قال: قال ابو ذر : لان احلف عشر مرار ان ابن صائد هو الدجال، احب إلي من ان احلف مرة واحدة انه ليس به، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني إلى امه، فقال: " سلها كم حملت به"، قال: فاتيتها فسالتها، فقالت: حملت به اثني عشر شهرا، قال: ثم ارسلني إليها، فقال:" سلها عن صيحته حين وقع"، قال: فرجعت إليها فسالتها، فقالت: صاح صيحة الصبي ابن شهر، ثم قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني قد خبات لك خبئا" قال: خبات لي خطم شاة عفراء والدخان، قال: فاراد ان يقول: الدخان فلم يستطع، فقال: الدخ الدخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخسا، فإنك لن تعدو قدرك" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : لَأَنْ أَحْلِفَ عَشْرَ مِرَارٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً وَاحِدَةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: " سَلْهَا كَمْ حَمَلَتْ بِهِ"، قَالَ: فَأَتَيْتُهَا فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: حَمَلْتُ بِهِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، قَالَ: ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَيْهَا، فَقَالَ:" سَلْهَا عَنْ صَيْحَتِهِ حِينَ وَقَعَ"، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهَا فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: صَاحَ صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا" قَالَ: خَبَأْتَ لِي خَطْمَ شَاةٍ عَفْرَاءَ وَالدُّخَانَ، قَالَ: فَأَرَادَ أَنْ يَقُولَ: الدُّخَانَ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: الدُّخُّ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے دس مرتبہ یہ قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک مرتبہ اس کے دجال نہ ہونے کی قسم کھاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اس کی ماں کے پاس بھیجا اور فرمایا اس سے پوچھ کر آؤ کہ وہ ابن صیاد سے کتنے عرصے تک حاملہ رہی؟ چنانچہ میں نے اس سے جاکر پوچھا تو اس نے بتایا میں اس سے بارہ مہینے تک حاملہ رہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ اس کے پاس بھیجا اور فرمایا اس سے یہ پوچھو کہ جب وہ پیدا ہوا تو اس کی آواز کیسی تھی؟ میں نے دوبارہ جا کر اس سے یہ سوال پوچھا تو اس نے بتایا جیسے ایک مہینے کے بچے کی آواز ہوتی ہے یہ اس طرح رویا چیخا تھا۔ پھر ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے ایک بات اپنے ذہن میں سوچی ہے بتا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ نے میرے لئے ایک سفید بکری کی ناک اور دھواں سوچا ہے وہ " دخان " کا لفظ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہ سکا اس لئے صرف دخ دخ ہی کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا دور ہو تو اپنی حیثیت سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکتا۔

حكم دارالسلام: حديث منكر لأجل الحارث بن حصيرة، وأما حديث صياد يعني أصل حديثه فقد رواه جماعة من أصحاب النبى عنه بأسانيد صحاح
حدیث نمبر: 21320
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا ابو مسعود الجريري ، عن ابي عبد الله الجسري ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم اي الكلام افضل؟ قال: " ما اصطفاه الله لعباده سبحان الله وبحمده" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " مَا اصْطَفَاهُ اللَّهُ لِعِبَادِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کلام سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے منتخب کیا ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2731
حدیث نمبر: 21321
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن علي بن زيد ، عن ابي معروف ، ان ابا ذر حدثهم، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لو ان عبدي استقبلني بقراب الارض خطايا، استقبلته بقرابها مغفرة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْرُوفٍ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُمْ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ أَنَّ عَبْدِي اسْتَقْبَلَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، اسْتَقْبَلْتُهُ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اگر میرا بندہ زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ میرے سامنے آئے تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ اس کے سامنے آؤں گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف، على بن زيد ضعيف، وأبو معروف مجهول
حدیث نمبر: 21322
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: اخبرني عمرو بن مرة ، عن سويد بن الحارث ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما يسرني ان لي احدا ذهبا، اموت يوم اموت وعندي منه دينار او نصف دينار، إلا ان ارصده لغريم" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا، أَمُوتُ يَوْمَ أَمُوتُ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ أَوْ نِصْفُ دِينَارٍ، إِلَّا أَنْ أَرْصُدَهُ لِغَرِيمٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سعيد بن الحارث خطأ، صوابه سويد بن الحارث، وسويد هذا مجهول
حدیث نمبر: 21323
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرني حميد بن هلال ، سمع عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقطع صلاة الرجل، إذا لم يكن بين يديه كآخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود"، قلت: ما بال الاسود من الاحمر؟ قال: ابن اخي، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قُلْتُ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ؟ قَالَ: ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21324
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مرحوم بن عبد العزيز العطار ، حدثني ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، صل الصلاة لوقتها، فإن اتيت الناس وقد صلوا، كنت قد احرزت صلاتك، وإن لم يكونوا صلوا، صليت معهم وكانت لك نافلة" .حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ ، حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَتَيْتَ النَّاسَ وَقَدْ صَلَّوْا، كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ، وَإِنْ لَمْ يَكُونُوا صَلَّوْا، صَلَّيْتَ مَعَهُمْ وَكَانَتْ لَكَ نَافِلَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بوذر! نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرنا اگر تم اس وقت آؤ جب لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو تم اپنی نماز محفوظ کرچکے ہوگے اور اگر انہوں نے نماز نہ پڑھی ہو تو تم ان کے ساتھ شریک ہوجانا اور یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21325
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مرحوم ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم حمارا واردفني خلفه، وقال:" يا ابا ذر، ارايت إن اصاب الناس جوع شديد لا تستطيع ان تقوم من فراشك إلى مسجدك، كيف تصنع؟" قال الله ورسوله اعلم، قال:" تعفف"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن اصاب الناس موت شديد يكون البيت فيه بالعبد يعني القبر كيف تصنع؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" اصبر"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن قتل الناس بعضهم بعضا يعني حتى تغرق حجارة الزيت من الدماء، كيف تصنع؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" اقعد في بيتك، واغلق عليك بابك"، قال: فإن لم اترك؟ قال:" فات من انت منهم، فكن فيهم"، قال: فآخذ سلاحي؟ قال:" إذا تشاركهم فيما هم فيه، ولكن إن خشيت ان يروعك شعاع السيف، فالق طرف ردائك على وجهك حتى يبوء بإثمه وإثمك" .حَدَّثَنَا مَرْحُومٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ، وَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ أَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ شَدِيدٌ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ، كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" تَعَفَّفْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ شَدِيدٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْعَبْدِ يَعْنِي الْقَبْرَ كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" اصْبِرْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَتَلَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا يَعْنِي حَتَّى تَغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ مِنَ الدِّمَاءِ، كَيْفَ تَصْنَعُ؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" اقْعُدْ فِي بَيْتِكَ، وَأَغْلِقْ عَلَيْكَ بَابَكَ"، قَالَ: فَإِنْ لَمْ أُتْرَكْ؟ قَالَ:" فَأْتِ مَنْ أَنْتَ مِنْهُمْ، فَكُنْ فِيهِمْ"، قَالَ: فَآخُذُ سِلَاحِي؟ قَالَ:" إِذًا تُشَارِكَهُمْ فِيمَا هُمْ فِيهِ، وَلَكِنْ إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَرُوعَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ، فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ حَتَّى يَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے اور مجھے اپنا ردیف بنالیا اور فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدید قحط میں مبتلا ہوجائیں گے اور تم اپنے بستر سے اٹھ کر مسجد تک نہیں جاسکو گے تو اس وقت تم کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی اپنے آپ کو سوال کرنے سے بچانا پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدت کے ساتھ بکثرت مرنے لگیں گے اور آدمی کا گھر قبر ہی ہوگی تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی صبر کرنا، پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے اور حجارۃ الزیت " خون میں ڈوب جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا اپنے گھر میں بیٹھ جانا اور اس کا دروازہ اندر سے بند کرلینا۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر مجھے گھر میں رہنے ہی نہ دیا جائے تو کیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ان لوگوں کے پاس چلے جانا جن میں سے تم ہو اور ان میں شامل ہوجانا انہوں نے عرض کیا میں تو اپنا اسلحہ پکڑ لوں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم بھی ان کے شریک سمجھے جاؤ گے اس لئے اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلوار کی دھار سے تمہیں خطرہ ہے تو تم اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لینا تاکہ وہ اپنا اور تمہارا گناہ لے کر لوٹ جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21326
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له:" يا ابا ذر، إذا طبخت فاكثر المرقة، وتعاهد جيرانك" او" اقسم بين جيرانك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِذَا طَبَخْتَ فَأَكْثِرْ الْمَرَقَةَ، وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ" أَوْ" اقْسِمْ بَيْنَ جِيرَانِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا اے ابوذر! جب کھانا پکایا کرو توشوربہ بڑھا لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2625
حدیث نمبر: 21327
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، ما آنية الحوض؟ قال: " والذي نفسي بيده، لآنيته اكثر من عدد نجوم السماء وكواكبها في الليلة المظلمة المصحية، آنية الجنة من شرب منها لم يظما آخر ما عليه، يشخب فيه ميزابان من الجنة، من شرب منه لم يظما، عرضه مثل طوله، ما بين عمان إلى ايلة، ماؤه اشد بياضا من اللبن، واحلى من العسل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ؟ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا فِي اللَّيْلَةِ الْمُظْلِمَةِ الْمُصْحِيَةِ، آنِيَةُ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ، يَشْخَبُ فِيهِ مِيزَابَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ، عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ، مَا بَيْنَ عَمَّانَ إِلَى أَيْلَةَ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ حوض کوثر پر کتنے برتن ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تاریک رات میں آسمان کے نجوم و کواکب کی تعداد سے بھی زیادہ اس کے برتن ہوں گے وہ جنت کے برتن ہوں گے جو شخص اس حوض کا پانی ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اس پر جنت کے دو پرنالے بہہ رہے ہوں گے جو اس کا پانی پی لے گا اسے دوبارہ کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اس کی چوڑائی بھی لمبائی کے برابر ہوگی اور اس کی مسافت اتنی ہوگی جتنی عمان سے ایلہ تک ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2300
حدیث نمبر: 21328
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثني فليت العامري ، عن جسرة العامرية ، عن ابي ذر ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فقرا بآية حتى اصبح، يركع بها ويسجد بها إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 118، فلما اصبح، قلت يا رسول الله، ما زلت تقرا هذه الآية حتى اصبحت تركع بها وتسجد بها! قال: " إني سالت ربي الشفاعة لامتي فاعطانيها، وهي نائلة إن شاء الله، لمن لا يشرك بالله شيئا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنِي فُلَيْتٌ الْعَامِرِيُّ ، عَنْ جَسْرَةَ الْعَامِرِيَّةِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَرَأَ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ، يَرْكَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا زِلْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى أَصْبَحْتَ تَرْكَعُ بِهَا وَتَسْجُدُ بِهَا! قَالَ: " إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي الشَّفَاعَةَ لِأُمَّتِي فَأَعْطَانِيهَا، وَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی اور ساری رات صبح تک ایک ہی آیت رکوع و سجود میں پڑھتے رہے کہ اے اللہ " اگر تو انہیں عذاب میں مبتلا کر دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے " جب صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صبح تک ساری رات رکوع و سجود میں مسلسل ایک ہی آیت پڑھتے رہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے سفارش کا حق مانگا تھا جو اس نے مجھے عطاء کردیا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہر اس شخص کو نصیب ہوگی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21329
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا سالم يعني ابن ابي حفصة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن ابي ذر . ومنصور ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، اي جبل هذا؟" قلت: احد يا رسول الله، قال: " والذي نفسي بيده، ما يسرني انه لي ذهبا قطعا انفقه في سبيل الله، ادع منه قيراطا"، قال: قلت: قنطارا يا رسول الله؟ قال:" قيراطا" قالها: ثلاث مرات، ثم قال:" يا ابا ذر، إنما اقول الذي اقل، ولا اقول الذي هو اكثر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَفْصَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ . ومَنْصُورٍ ، عَنْ زَيْد بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَيُّ جَبَلٍ هَذَا؟" قُلْتُ: أُحُدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَسُرُّنِي أَنَّهُ لِي ذَهَبًا قِطَعًا أُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَدَعُ مِنْهُ قِيرَاطًا"، قَالَ: قُلْتُ: قِنْطَارًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قِيرَاطًا" قَالَهَا: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّمَا أَقُولُ الَّذِي أَقَلُّ، وَلَا أَقُولُ الَّذِي هُوَ أَكْثَرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل احد کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھا ابو ذر! یہ کون سا پہاڑ ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ احد پہاڑ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ یہ میرے لئے سونے کا بن جائے جس میں سے میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہوں اور ایک قیراط بھی چھوڑ دوں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قنطار؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا ایک قیراط پھر فرمایا ابوذر! میں تو کم از کم کی بات کر رہا ہوں، زیادہ کی بات ہی نہیں کر رہا۔

حكم دارالسلام: هذا الحديث له اسنادان، اما الاول فضعيف لضعف سالم بن ابي حفصة، وسالم بن ابي الجعد حديثه منقطع عن ابي ذر. واما اسناده الثاني فصحيح
حدیث نمبر: 21330
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن ابي الاحوص ، عن ابي ذر يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم " إذا قام احدكم إلى الصلاة، فإن الرحمة تواجهه، فلا يمسح الحصى" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا يَمْسَحْ الْحَصَى" .
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا اسے کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21331
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ابي مراوح ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اي العمل افضل؟ قال: " إيمان بالله، وجهاد في سبيله"، قلت: يا رسول الله، فاي الرقاب افضل؟ قال:" انفسها عند اهلها، واغلاها ثمنا"، قال: فإن لم اجد؟ قال:" تعين صانعا، او تصنع لاخرق"، قال فإن لم استطع؟ قال:" كف اذاك عن الناس، فإنها صدقة تصدق بها عن نفسك" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، وَأَغْلَاهَا ثَمَنًا"، قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَجِدْ؟ قَالَ:" تُعِينُ صَانِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ"، قَالَ فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ؟ قَالَ:" كُفَّ أَذَاكَ عَنِ النَّاسِ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَنْ نَفْسِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے نفیس اور گراں قیمت ہو عرض کیا کہ اگر مجھے ایسا غلام نہ ملے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ضرورت مند کی مدد کردو یا کسی محتاج کے لئے محنت مزدوری کرلو عرض کیا کہ اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟ فرمایا لوگوں کو اپنی تکلیف سے محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم اپنی طرف سے دیتے ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2518، م: 84
حدیث نمبر: 21332
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هارون ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: سمعت ابا الاحوص مولى بني ليث يحدثنا في مجلس ابن المسيب، وابن المسيب جالس، انه سمع ابا ذر ، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا قام احدكم إلى الصلاة، فإن الرحمة تواجهه، فلا يحرك الحصى" او" لا يمس الحصى" .حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ مَوْلَى بَنِي لَيْثٍ يُحَدِّثُنَا فِي مَجْلِسِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ جَالِسٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا يُحَرِّكْ الْحَصَى" أَوْ" لَا يَمَسَّ الْحَصَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا اسے کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21333
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال:" المسجد الحرام" قلت: ثم اي؟ قال:" ثم المسجد الاقصى" قلت: كم بينهما؟ قال:" اربعون سنة" قلت: ثم اي؟ قال:" ثم حيثما ادركت الصلاة فصل، فكلها مسجد" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ" قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى" قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ سَنَةً" قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ حَيْثُمَا أَدْرَكْتَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ، فَكُلُّهَا مَسْجِدٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21334
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، قال سمعناه من اثنين وثلاثة، حدثنا حكيم بن جبير ، عن موسى بن طلحة ، عن ابن الحوتكية ، قال عمر من حاضرنا يوم القاحة؟ فقال ابو ذر : انا" امره رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيام البيض الغر ثلاث عشرة، واربع عشرة، وخمس عشرة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ سَمِعْنَاهُ مِنَ اثْنَيْنِ وَثَلَاثَةٍ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ ، قَالَ عُمَرُ مَنْ حَاضِرُنَا يَوْمَ الْقَاحَةِ؟ فَقَالَ أَبُو ذَرّ : أَنَا" أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِيَامِ الْبِيضِ الْغُرِّ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ" .
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ " یوم القاحہ " کے موقع پر تم میں سے کون موجود تھا؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں موجود تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو ایام بیض یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف حكيم بن جبير ، وقد توبع، وابن الحوتكية مجهول، وقد اختلف فيه على موسى
حدیث نمبر: 21335
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، حدثنا اثنان، عن موسى بن طلحة : محمد بن عبد الرحمن ، وحكيم بن جبير ، عن ابن الحوتكية ، عن ابي ذر ، انه قال: إن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم، " فامره بصيام ثلاث عشرة واربع عشرة وخمس عشرة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا اثْنَانِ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَة : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَحَكِيمُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَأَمَرَهُ بِصِيَامِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف
حدیث نمبر: 21336
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، سمع محمد بن السائب بن بركة ، عن عمرو بن ميمون ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قلت: بلى، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21337
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن إدريس ، قال: سمعت الاجلح ، عن ابن بريدة ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من احسن ما غيرتم به الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَجْلَحَ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَّاءَ وَالْكَتَمَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات لأجل الأجلح، وقد توبع
حدیث نمبر: 21338
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن سعيد الجريري ، عن عبد الله بن بريدة الاسلمي ، عن ابي الاسود ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احسن ما غير به الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحْسَنِ مَا غُيِّرَ بِهِ الشَّيْبُ الْحِنَّاءَ وَالْكَتَمَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21339
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، عن الجريري ، عن ابي السليل ، عن نعيم بن قعنب الرياحي ، قال: اتيت ابا ذر ، فلم اجده، ورايت المراة فسالتها، فقالت: هو ذاك في ضيعة له، فجاء يقود او يسوق بعيرين قاطرا، احدهما في عجز صاحبه، في عنق كل واحد منهما قربة، فوضع القربتين، قلت: يا ابا ذر، ما كان من الناس احد احب إلي ان القاه منك، ولا ابغض ان القاه منك! قال: لله ابوك، وما يجمع هذا؟! قال: قلت: إني كنت وادت في الجاهلية، وكنت ارجو في لقائك ان تخبرني ان لي توبة ومخرجا، وكنت اخشى في لقائك ان تخبرني انه لا توبة لي! فقال: افي الجاهلية؟ قلت: نعم، فقال: عفا الله عما سلف، ثم عاج براسه إلى المراة فامر لي بطعام فالتوت عليه، ثم امرها فالتوت عليه، حتى ارتفعت اصواتهما، قال: إيها دعينا عنك، فإنكن لن تعدون ما قال لنا: فيكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وما قال لكم: فيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: " المراة ضلع، فإن تذهب تقومها تكسرها، وإن تدعها ففيها اود وبلغة"، فولت فجاءت بثريدة كانها قطاة، فقال: كل ولا اهولنك، إني صائم، ثم قام يصلي، فجعل يهذب الركوع ويخففه، ورايته يتحرى ان اشبع او اقارب، ثم جاء فوضع يده معي، فقلت: إنا لله وإنا إليه راجعون! فقال: ما لك؟ فقلت: من كنت اخشى من الناس ان يكذبني، فما كنت اخشى ان تكذبني! قال: لله ابوك إن كذبتك كذبة منذ لقيتني، فقال: الم تخبرني انك صائم، ثم اراك تاكل؟!، قال: بلى، إني صمت ثلاثة ايام من هذا الشهر، فوجب لي اجره، وحل لي الطعام معك .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ الرِّيَاحِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ ، فَلَمْ أَجِدْهُ، وَرَأَيْتُ الْمَرْأَةَ فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: هُوَ ذَاكَ فِي ضَيْعَةٍ لَهُ، فَجَاءَ يَقُودُ أَوْ يَسُوقُ بَعِيرَيْنِ قَاطِرًا، أَحَدَهُمَا فِي عَجُزِ صَاحِبِهِ، فِي عُنُقِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِرْبَةٌ، فَوَضَعَ الْقِرْبَتَيْنِ، قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَاهُ مِنْكَ، وَلَا أَبْغَضَ أَنْ أَلْقَاهُ مِنْكَ! قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، وَمَا يَجْمَعُ هَذَا؟! قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي كُنْتُ وَأَدْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكُنْتُ أَرْجُو فِي لِقَائِكَ أَنْ تُخْبِرَنِي أَنَّ لِي تَوْبَةً وَمَخْرَجًا، وَكُنْتُ أَخْشَى فِي لِقَائِكَ أَنْ تُخْبِرَنِي أَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لِي! فَقَالَ: أَفِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ، ثُمَّ عَاجَ بِرَأْسِهِ إِلَى الْمَرْأَةِ فَأَمَرَ لِي بِطَعَامٍ فَالْتَوَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمَرَهَا فَالْتَوَتْ عَلَيْهِ، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، قَالَ: إِيهًا دَعِينَا عَنْكِ، فَإِنَّكُنَّ لَنْ تَعْدُونَ مَا قَالَ لَنَا: فِيكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَمَا قَالَ لَكُمْ: فِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " الْمَرْأَةُ ضِلَعٌ، فَإِنْ تَذْهَبْ تُقَوِّمُهَا تَكْسِرْهَا، وَإِنْ تَدَعْهَا فَفِيهَا أَوَدٌ وَبُلْغَةٌ"، فَوَلَّتْ فَجَاءَتْ بِثَرِيدَةٍ كَأَنَّهَا قَطَاةٌ، فَقَالَ: كُلْ وَلَا أَهُولَنَّكَ، إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَجَعَلَ يُهَذِّبُ الرُّكُوعَ وَيُخَفِّفُهُ، وَرَأَيْتُهُ يَتَحَرَّى أَنْ أَشْبَعَ أَوْ أُقَارِبَ، ثُمَّ جَاءَ فَوَضَعَ يَدَهُ مَعِي، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ! فَقَالَ: مَا لَكَ؟ فَقُلْتُ: مَنْ كُنْتُ أَخْشَى مِنَ النَّاسِ أَنْ يَكْذِبَنِي، فَمَا كُنْتُ أَخْشَى أَنْ تَكْذِبَنِي! قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ إِنْ كَذَبْتُكَ كِذْبَةً مُنْذُ لَقِيتَنِي، فَقَالَ: أَلَمْ تُخْبِرْنِي أَنَّكَ صَائِمٌ، ثُمَّ أَرَاكَ تَأْكُلُ؟!، قَالَ: بَلَى، إِنِّي صُمْتُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ، فَوَجَبَ لِي أَجْرُهُ، وَحَلَّ لِي الطَّعَامُ مَعَكَ .
نعیم بن قعنب ریاحی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ نہیں ملے میں نے ان کی اہلیہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی زمین میں گئے ہیں تھوڑی دیر میں وہ دو اونٹوں کو ہانکتے ہوئے آگئے ان میں سے ایک اونٹ کا لعاب اپنے ساتھی کی سرین پر گر رہا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن میں ایک ایک مشکیزہ تھا انہوں نے وہ دونوں مشکیزے اتارے تو میں نے عرض کیا اے ابوذر! مجھے آپ کی نسبت کسی دوسرے سے ملنے کی محبت تھی اور نہ ہی کسی سے اتنی نفرت تھی جتنی آپ سے ملنے کی تھی انہوں نے فرمایا بھئی! یہ دونوں چیزیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بچی کو زندہ درگور کیا تھا مجھے آپ سے ملاقات کرنے میں یہ امید تھی کہ آپ مجھے توبہ اور بچاؤ کا کوئی راستہ بتائیں گے (اس لئے آپ سے ملنے کی خواہش تھی) لیکن آپ سے ملنے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ میرے لئے توبہ کا کوئی راستہ نہیں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ کام تم سے زمانہ جاہلیت میں ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا اللہ نے گزشتہ سارے گناہ معاف کردیئے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے اپنی بیوی کو میرے لئے کھانا لانے کا حکم دیا لیکن اس نے توجہ نہ دی انہوں نے دوبارہ اس سے کہا لیکن اس نے اس مرتبہ بھی توجہ نہ دی یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم سے پیچھے ہی رہو تم لوگ اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے متعلق ہم سے بیان فرما دی تھیں میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے ان کے متعلق کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے یہ فرمان ذکر کیا کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے یونہی چھوڑو گے تو اس ٹیڑھے پن اور بیوقوفی کے ساتھ ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر وہ واپس چلی گئی اور تھوڑی دیر میں " قطاہ " کی طرح بنا ہوا ثرید لے آئی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کھاؤ اور میری فکر نہ کرنا کیونکہ میں روزے سے ہوں پھر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے وہ اچھے لیکن ہلکے رکوع کرنے لگے میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سیراب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ آئے اور میرے ساتھ کھانے میں اپنا ہاتھ بھی شامل کرلیا میں نے یہ دیکھ کر " اناللہ " پڑھا انہوں نے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ عام آدمی کے متعلق تو مجھے یہ اندیشہ ہوسکتا تھا کہ وہ مجھ سے غلط بیانی کرسکتا ہے لیکن آپ کے متعلق یہ اندیشہ نہیں تھا انہوں نے فرمایا بخدا! جب سے تمہاری مجھ سے ملاقات ہوئی ہے میں نے تم سے کوئی جھوٹ نہیں بولا میں نے کہا کہ کیا آپ ہی نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ آپ روزے سے ہیں پھر میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کھا بھی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے اس مہینے میں تین روزے رکھ لئے تھے جن کا اجر میرے لئے ثابت ہوچکا اور اب تمہارے ساتھ کھانا میرے لئے حلال ہے۔

حكم دارالسلام: رجاله ثقات
حدیث نمبر: 21340
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن ابن الاحمسي ، قال: لقيت ابا ذر ، فقلت له: بلغني عنك انك تحدث حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اما إنه لا تخالني اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما سمعته منه، فما الذي بلغك عني؟ قلت: بلغني انك تقول: " ثلاثة يحبهم الله، وثلاثة يشنؤهم الله" قال: قلت: وسمعته، قلت: فمن هؤلاء الذين يحب الله؟ قال:" الرجل يلقى العدو في الفئة فينصب لهم نحره حتى يقتل، او يفتح لاصحابه، والقوم يسافرون فيطول سراهم حتى يحبوا ان يمسوا الارض، فينزلون فيتنحى احدهم، فيصلي حتى يوقظهم لرحيلهم، والرجل يكون له الجار يؤذيه جواره، فيصبر على اذاه حتى يفرق بينهما موت او ظعن"، قلت: ومن هؤلاء الذين يشنؤهم الله؟ قال:" التاجر الحلاف او قال البائع: الحلاف، والبخيل المنان، والفقير المختال" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنِ ابْنِ الْأَحْمَسِي ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ ، فَقُلْتُ لَهُ: بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ تُحَدِّثُ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَا تَخَالُنِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا سَمِعْتُهُ مِنْهُ، فَمَا الَّذِي بَلَغَكَ عَنِّي؟ قُلْتُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ: " ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ، وَثَلَاثَةٌ يَشْنَؤُهُمْ اللَّهُ" قَالَ: قُلْتُ: وَسَمِعْتَهُ، قُلْتُ: فَمَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُحِبُّ اللَّهُ؟ قَالَ:" الرَّجُلُ يَلْقَى الْعَدُوَّ فِي الْفِئَةِ فَيَنْصِبُ لَهُمْ نَحْرَهُ حَتَّى يُقْتَلَ، أَوْ يُفْتَحَ لِأَصْحَابِهِ، وَالْقَوْمُ يُسَافِرُونَ فَيَطُولُ سُرَاهُمْ حَتَّى يُحِبُّوا أَنْ يَمَسُّوا الْأَرْضَ، فَيَنْزِلُونَ فَيَتَنَحَّى أَحَدُهُمْ، فَيُصَلِّي حَتَّى يُوقِظَهُمْ لِرَحِيلِهِمْ، وَالرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الْجَارُ يُؤْذِيهِ جِوَارُهُ، فَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا مَوْتٌ أَوْ ظَعْنٌ"، قُلْتُ: وَمَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَشْنَؤُهُمْ اللَّهُ؟ قَالَ:" التَّاجِرُ الْحَلَّافُ أَوْ قَالَ الْبَائِعُ: الْحَلَّافُ، وَالْبَخِيلُ الْمَنَّانُ، وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ" .
ابن احمس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا تمہارے ذہن میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت کروں گا جبکہ میں نے وہ بات سنی بھی ہو وہ کون سی حدیث ہے جو تمہیں میرے حوالے سے معلوم ہوئی ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے آپ کہتے ہیں کہ تین قسم کے آدمی اللہ کو محبوب ہیں اور تین قسم کے آدمیوں سے اللہ کو نفرت ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! یہ بات میں نے کہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بھی ہے میں نے عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا ایک تو وہ آدمی جو ایک جماعت کے ساتھ دشمن سے ملے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائے یہاں تک کہ شہید ہوجائے یا اس کے ساتھیوں کو فتح مل جائے دوسرے وہ لوگ جو سفر پر روانہ ہوں ان کا سفر طویل ہوجائے اور ان کی خواہش ہو کہ شام کے وقت کسی علاقے میں پڑاؤ کریں، چنانچہ وہ پڑاؤ کریں تو ان میں سے ایک آدمی ایک طرف کو ہو کر نماز پڑھنے لگے یہاں تک کہ کوچ کا وقت آنے پر انہیں جگا دے اور تیسرا وہ آدمی جس کا کوئی ایسا ہمسایہ ہو جس کے پڑوس سے اسے تکلیف ہوتی ہو لیکن وہ اس کی ایذاء رسانی پر صبر کرے تاآنکہ موت آکر انہیں جدا کر دے میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ نفرت کرتا ہے؟ فرمایا وہ تاجر جو قسمیں کھاتا ہے وہ بخیل جو احسان جتاتا ہے اور وہ فقیر جو تکبر کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، أبن الأحمس مجهول، وقد اختلف على أبى العلاء فى إسناده
حدیث نمبر: 21341
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، عن صعصعة بن معاوية ، قال: اتيت ابا ذر ، قلت: ما بالك؟ قال: لي عملي، قلت: حدثني، قال: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلمين يموت بينهما ثلاثة من اولادهما لم يبلغوا الحنث، إلا غفر الله لهما"، قلت: حدثني، قال: نعم . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلم ينفق من كل مال له زوجين في سبيل الله، إلا استقبلته حجبة الجنة كلهم يدعوه إلى ما عنده"، قلت: وكيف ذاك؟ قال:" إن كانت رجالا فرجلين، وإن كانت إبلا فبعيرين، وإن كانت بقرا فبقرتين" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قُلْتُ: مَا بَالُكَ؟ قَالَ: لِي عَمَلِي، قُلْتُ: حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ بَيْنَهُمَا ثَلَاثَةٌ مِنْ أَوْلَادِهِمَا لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمَا"، قُلْتُ: حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُنْفِقُ مِنْ كُلِّ مَالٍ لَهُ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا اسْتَقْبَلَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ كُلُّهُمْ يَدْعُوهُ إِلَى مَا عِنْدَهُ"، قُلْتُ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ قَالَ:" إِنْ كَانَتْ رِجَالًا فَرَجُلَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ إِبِلًا فَبَعِيرَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرًا فَبَقَرَتَيْنِ" .
صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس کون سا مال ہے؟ انہوں نے فرمایا میرا مال میرے اعمال ہیں میں نے ان سے کوئی حدیث بیان کرنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کی بخشش فرما دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی اور حدیث سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو مسلمان اپنے ہر مال میں سے دو جوڑے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے دربان اس کے سامنے آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسے اپنی طرف بلاتا ہے میں نے پوچھا کہ یہ مقام کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا اگر بہت سارے غلام ہوں تو دو غلاموں کو آزاد کر دے اونٹ ہوں تو دو اونٹ دے دے اور اگر گائیں ہوں تو دو گائے دے دے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21342
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن صامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قام احدكم يصلي، فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل، فإذا لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل، فإنه يقطع صلاته الحمار والمراة والكلب الاسود"، قلت: يا ابا ذر، ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر من الكلب الاصفر؟ قال: يا ابن اخي سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَصْفَرِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21343
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش عمن حدثه، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني اوتيتها من كنز، من بيت تحت العرش، ولم يؤتهما نبي قبلي" يعني الآيتين من آخر سورة البقرة .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُوتِيتُهَا مِنْ كَنْزٍ، مِنْ بَيْتٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، وَلَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلِي" يَعْنِي الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، رجاله ثقات غير الراوي المبهم الذى روي عنه ربعي، وقد اختلف عليه فى تسميته
حدیث نمبر: 21344
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا زهير ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، قال منصور: عن زيد بن ظبيان ، او عن رجل، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خواتيم سورة البقرة من بيت كنز من تحت العرش، لم يعطهن نبي قبلي" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ مَنْصُورٌ: عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ ، أَوْ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ بَيْتِ كَنْزٍ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 21345
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسين ، حدثنا شيبان ، عن منصور ، عن ربعي ، عن خرشة بن الحر ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خواتيم سورة البقرة من بيت كنز من تحت العرش، ولم يعطهن نبي قبلي" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ بَيْتِ كَنْزٍ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، وَلَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 21346
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثنا سليمان ، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟ لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21347
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرة المدينة عشاء ونحن ننظر إلى احد، فقال:" يا ابا ذر"، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " ما احب ان احدا ذاك عندي ذهبا، امسي ثالثة وعندي منه دينار إلا دينارا ارصده لدين، إلا ان اقول به في عباد الله هكذا" وحثا عن يمينه، وبين يديه، وعن يساره، قال: ثم مشينا، فقال:" يا ابا ذر، إن الاكثرين هم الاقلون يوم القيامة إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا" وحثا عن يمينه، وبين يديه، وعن يساره، قال: ثم مشينا، فقال:" يا ابا ذر، كما انت حتى آتيك"، قال: فانطلق حتى توارى عني، قال: فسمعت لغطا وصوتا، قال: فقلت: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض له، قال: فهممت ان اتبعه، ثم ذكرت قوله:" لا تبرح حتى آتيك" فانتظرته حتى جاء، فذكرت له الذي سمعت، فقال:" ذاك جبريل اتاني، فقال: من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا، دخل الجنة"، قال: قلت: وإن زنى، وإن سرق؟ قال:" وإن زنى وإن سرق" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبًا، أُمْسِي ثَالِثَةً وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا" وَحَثَا عَنْ يَمِينِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمْ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا" وَحَثَا عَنْ يَمِينِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: فَسَمِعْتُ لَغَطًا وَصَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتْبَعَهُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ:" لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ" فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّى جَاءَ، فَذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں بلکہ میری خواہش ہوگی کہ اللہ کے بندوں میں اس طرح تقسیم کر دوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بھر کر دائیں بائیں اور سامنے کی طرف اشارہ کیا پھر ہم دوبارہ چل پڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن بکثرت مال رکھنے والے ہی قلت کا شکار ہوں گے سوائے اس کے جو اس اس طرح خرچ کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ہاتھوں سے دائیں بائیں اور سامنے کی طرف اشارہ فرمایا۔ ہم پھر چل پڑے اور ایک جگہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوذر! تم اس وقت تک یہیں رکے رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کو چل پڑے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے تھوڑی دیر بعد میں نے شور کی کچھ آوازیں سنیں میں نے دل میں سوچا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آگیا ہو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جانے کا سوچا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آگئی کہ میرے آنے تک یہاں سے نہ ہلنا چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ واپس تشریف لے آئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آوازوں کا ذکر کیا جو میں نے سنی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو میرے پاس آئے تھے اور یہ کہا کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اگرچہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2388، م: 94
حدیث نمبر: 21348
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن ابي حرب بن ابي الاسود ، عن ابي الاسود ، عن ابي ذر ، قال: كان يسقي على حوض له، فجاء قوم فقال: ايكم يورد على ابي ذر ويحتسب شعرات من راسه؟ فقال رجل: انا، فجاء الرجل فاورد عليه الحوض فدقه، وكان ابو ذر قائما فجلس، ثم اضطجع، فقيل له: يا ابا ذر، لم جلست، ثم اضطجعت؟ قال: فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لنا: " إذا غضب احدكم وهو قائم فليجلس، فإن ذهب عنه الغضب وإلا فليضطجع" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كَانَ يَسْقِي عَلَى حَوْضٍ لَهُ، فَجَاءَ قَوْمٌ فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُورِدُ عَلَى أَبِي ذَرٍّ وَيَحْتَسِبُ شَعَرَاتٍ مِنْ رَأْسِهِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، فَجَاءَ الرَّجُلُ فَأَوْرَدَ عَلَيْهِ الْحَوْضَ فَدَقَّهُ، وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ قَائِمًا فَجَلَسَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، لِمَ جَلَسْتَ، ثُمَّ اضْطَجَعْتَ؟ قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا: " إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے ایک حوض پر پانی پی رہے تھے کہ کچھ لوگ آئے اور ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ تم میں سے کون ابوذر کے پاس جا کر ان کے سر کے بال نوچے گا؟ ایک آدمی نے اپنے آپ کو پیش کیا اور حوض کے قریب پہنچ کر انہیں مارا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے پہلے بیٹھے پھر لیٹ گئے کسی نے ان سے پوچھا اے ابوذر! آپ پہلے بیٹھے، پھر لیٹے کیوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے غصہ دور ہوجائے تو بہت اچھا ورنہ لیٹ جائے۔

حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لكن قد اختلف على داود بن ابي هند فى اسناده
حدیث نمبر: 21349
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي بشر ، عن طلق بن حبيب ، عن بشير بن كعب العدوي ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل لك في كنز من كنز الجنة؟"، قلت: نعم، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ فِي كَنْزٍ مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21350
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن يحيى بن سام ، عن موسى بن طلحة ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان منكم صائما من الشهر ثلاثة ايام، فليصم الثلاث البيض" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَامٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مِنْكُمْ صَائِمًا مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلْيَصُمْ الثَّلَاثَ الْبِيضَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص مہینے میں تین دن روزے رکھنا چاہتا ہو، اسے ایام بیض کے روزے رکھنے چاہئیں۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21351
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد ، وابن نمير ، المعنى، قالا: حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في ظل الكعبة، فقال: " هم الاخسرون ورب الكعبة، هم الاخسرون ورب الكعبة" فاخذني غم وجعلت اتنفس، قال: قلت: هذا شر حدث في، قال: قلت: من هم فداك ابي وامي؟ قال:" الاكثرون، إلا من قال في عباد الله هكذا وهكذا وهكذا وقليل ما هم، ما من رجل يموت فيترك غنما او إبلا او بقرا لم يؤد زكاته، إلا جاءت يوم القيامة اعظم ما تكون واسمن، حتى تطاه باظلافها، وتنطحه بقرونها حتى يقضى بين الناس، ثم تعود اولاها على اخراها"، وقال ابن نمير:" كلما نفدت اخراها عادت عليه اولاها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: " هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ" فَأَخَذَنِي غَمٌّ وَجَعَلْتُ أَتَنَفَّسُ، قَالَ: قُلْتُ: هَذَا شَرٌّ حَدَثَ فِيَّ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي؟ قَالَ:" الْأَكْثَرُونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُوتُ فَيَتْرُكُ غَنَمًا أَوْ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا تَكُونُ وَأَسْمَنَ، حَتَّى تَطَأَهُ بِأَظْلَافِهَا، وَتَنْطَحَهُ بِقُرُونِهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ، ثُمَّ تَعُودُ أُولَاهَا عَلَى أُخْرَاهَا"، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ:" كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ خانہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ خسارے میں ہیں مجھے ایک شدید غم نے آگھیرا اور میں اپنا سانس درست کرتے ہوئے سوچنے لگا شاید میرے متعلق کوئی نئی بات ہوگئی ہے چنانچہ میں نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیادہ مالدار، سوائے اس آدمی کے جو اللہ کے بندوں میں اس اس طرح تقسیم کرے لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو آدمی بھی مرتے وقت بکریاں اونٹ یا گائے چھوڑ کرجاتا ہے جس کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو وہ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ صحت مند ہو کر آئیں گے اور اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے پھر ایک کے بعد دوسرا جانور آتا جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 990
حدیث نمبر: 21352
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد حين وجبت الشمس، فقال:" يا ابا ذر، تدري اين تذهب الشمس؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها تذهب حتى تسجد بين يدي ربها، فتستاذن في الرجوع، فيؤذن لها وكانها قد قيل لها ارجعي من حيث جئت، فترجع إلى مطلعها، فذلك مستقرها" ثم قرا والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38 .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حِينَ وَجَبَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، تَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ الشَّمْسُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّهَا، فَتَسْتَأْذِنَ فِي الرُّجُوعِ، فَيُؤْذَنَ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَرْجِعَ إِلَى مَطْلَعِهَا، فَذَلِكَ مُسْتَقَرُّهَا" ثُمَّ قَرَأَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غروب آفتاب کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جا کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر وہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے جو اسے مل جاتی ہے جب اس سے کہا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا اور وہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے تو یہی اس کا مستقر ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے۔ "

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3199، م: 159
حدیث نمبر: 21353
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو سعيد ، حدثنا زائدة ، حدثنا يزيد ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم يخطب إذ قام إليه اعرابي فيه جفاء، فقال: يا رسول الله، اكلنا الضبع! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " غير ذلك اخوف لي عليكم، حين تصب عليكم الدنيا صبا، فيا ليت امتي لا يتحلون الذهب" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِذْ قَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فِيهِ جَفَاءٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَنَا الضَّبُعُ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَيْرُ ذَلِكَ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ، حِينَ تُصَبُّ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا صَبًّا، فَيَا لَيْتَ أُمَّتِي لَا يَتَحَلَّوْنَ الذَّهَبَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک سخت طبیعت دیہاتی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں تو قحط سالی کھاجائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے متعلق ایک دوسری چیز کا اندیشہ ہے جب تم پر دنیا کو انڈیل دیا جائے گا کاش! اس وقت میری امت سونے کا زیور نہ پہنے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الضعف يزيد
حدیث نمبر: 21354
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن حبيب ، عن ميمون بن ابي شبيب ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " اتق الله حيثما كنت، واتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن" ، قال وكيع، وقال سفيان مرة عن معاذ، فوجدت في كتابي عن ابي ذر، وهو السماع الاول.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعْ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقْ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ" ، قَالَ وَكِيعٌ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً عَنْ مُعَاذٍ، فَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَهُوَ السَّمَاعُ الْأَوَّلُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اللہ سے ڈرو خواہ کہیں بھی ہو برائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آیا کرو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، ميمون بن أبى شبيب لم يسمع من أبى ذر، وقد اختلف على سفيان الثوري فى إسناده
حدیث نمبر: 21355
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، قال: سمعت ربعي بن حراش يحدث، عن زيد بن ظبيان ، رفعه إلى ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة يحبهم الله، وثلاثة يبغضهم الله، اما الثلاثة الذين يحبهم الله فرجل اتى قوما فسالهم بالله ولم يسالهم بقرابة بينهم فمنعوه فتخلف رجل باعقابهم فاعطاه سرا لا يعلم بعطيته إلا الله والذي اعطاه، وقوم ساروا ليلتهم حتى إذا كان النوم احب إليهم مما يعدل به نزلوا فوضعوا رؤوسهم فقام يتملقني ويتلو آياتي، ورجل كان في سرية فلقوا العدو فهزموا فاقبل بصدره حتى يقتل او يفتح الله له، والثلاثة الذين يبغضهم الله الشيخ الزاني، والفقير المختال، والغني الظلوم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ ، رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ، وَثَلَاثَةٌ يُبْغِضُهُمْ اللَّهُ، أَمَّا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ فَرَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ فَتَخَلَّفَ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُؤُوسَهُمْ فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقَوْا الْعَدُوَّ فَهُزِمُوا فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يَفْتَحَ اللَّهُ لَهُ، وَالثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُبْغِضُهُمْ اللَّهُ الشَّيْخُ الزَّانِي، وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ، وَالْغَنِيُّ الظَّلُومُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے آدمی اللہ کو محبوب ہیں اور تین قسم کے آدمیوں سے اللہ کو نفرت ہے وہ لوگ جن سے اللہ محبت کرتا ہے ان میں سے ایک تو وہ آدمی جو ایک جماعت کے ساتھ دشمن سے ملے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائے یہاں تک کہ شہید ہوجائے یا اس کے ساتھیوں کو فتح مل جائے دوسرے وہ لوگ جو سفر پر روانہ ہوں ان کا سفر طویل ہوجائے اور ان کی خواہش ہو کہ شام کے وقت کسی علاقے میں پڑاؤ کریں، چنانچہ وہ پڑاؤ کریں تو ان میں سے ایک آدمی ایک طرف کو ہو کر نماز پڑھنے لگے یہاں تکہ کوچ کا وقت آنے پر انہیں جگا دے اور تیسرا وہ آدمی جس کا کوئی ایسا ہمسایہ ہو جس کے پڑوس سے اسے تکلیف ہوتی ہو لیکن وہ اس کی ایذاء رسانی پر صبر کرے تاآنکہ موت آکر انہیں جدا کر دے میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ نفرت کرتا ہے؟ فرمایا وہ تاجر جو قسمیں کھاتا ہے وہ بخیل جو احسان جتاتا ہے اور وہ فقیر جو تکبر کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة زيد بن ظبيان، وقد توبع
حدیث نمبر: 21356
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله يحب ثلاثة ويبغض ثلاثة يبغض الشيخ الزاني، والفقير المختال، والمكثر البخيل، ويحب ثلاثة رجل كان في كتيبة، فكر يحميهم حتى قتل، او يفتح الله عليه، ورجل كان في قوم فادلجوا فنزلوا من آخر الليل، وكان النوم احب إليهم مما يعدل به، فناموا وقام يتلو آياتي ويتملقني، ورجل كان في قوم فاتاهم رجل يسالهم بقرابة بينهم وبينه فبخلوا عنه، وخلف باعقابهم فاعطاه حيث لا يراه إلا الله ومن اعطاه" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ ثَلَاثَةً وَيُبْغِضُ ثَلَاثَةً يُبْغِضُ الشَّيْخَ الزَّانِيَ، وَالْفَقِيرَ الْمُخْتَالَ، وَالْمُكْثِرَ الْبَخِيلَ، وَيُحِبُّ ثَلَاثَةً رَجُلٌ كَانَ فِي كَتِيبَةٍ، فَكَرَّ يَحْمِيهِمْ حَتَّى قُتِلَ، أَوْ يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ كَانَ فِي قَوْمٍ فَأَدْلَجُوا فَنَزَلُوا مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ، فَنَامُوا وَقَامَ يَتْلُو آيَاتِي وَيَتَمَلَّقُنِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي قَوْمٍ فَأَتَاهُمْ رَجُلٌ يَسْأَلُهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ فَبَخِلُوا عَنْهُ، وَخَلَفَ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ حَيْثُ لَا يَرَاهُ إِلَّا اللَّهُ وَمَنْ أَعْطَاهُ" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے آدمی اللہ کو محبوب ہیں اور تین قسم کے آدمیوں سے اللہ کو نفرت ہے وہ لوگ جن سے اللہ محبت کرتا ہے ان میں سے ایک تو وہ آدمی جو ایک جماعت کے ساتھ دشمن سے ملے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائے یہاں تک کہ شہید ہوجائے یا اس کے ساتھیوں کو فتح مل جائے دوسرے وہ لوگ جو سفر پر روانہ ہوں ان کا سفر طویل ہوجائے اور ان کی خواہش ہو کہ شام کے وقت کسی علاقے میں پڑاؤ کریں، چنانچہ وہ پڑاؤ کریں تو ان میں سے ایک آدمی ایک طرف کو ہو کر نماز پڑھنے لگے یہاں تکہ کوچ کا وقت آنے پر انہیں جگا دے اور تیسرا وہ آدمی جس کا کوئی ایسا ہمسایہ ہو جس کے پڑوس سے اسے تکلیف ہوتی ہو لیکن وہ اس کی ایذاء رسانی پر صبر کرے تاآنکہ موت آکر انہیں جدا کر دے میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ نفرت کرتا ہے؟ فرمایا وہ تاجر جو قسمیں کھاتا ہے وہ بخیل جو احسان جتاتا ہے اور وہ فقیر جو تکبر کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، ربعي بن حراش لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21357
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن ربعي ، عن رجل ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله يبغض" فذكر الحديث.حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، مؤمل سيئ الحفظ
حدیث نمبر: 21358
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا قرة ، عن الحسن ، عن صعصعة بن معاوية ، قال: لقيت ابا ذر بالربذة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من انفق زوجين من ماله في سبيل الله عز وجل ابتدرته حجبة الجنة" وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث، إلا ادخلهم الله الجنة بفضل رحمته إياهم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ابْتَدَرَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ" وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ لَهُمَا ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا أَدْخَلَهُمْ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان اپنے ہر مال میں سے دو جوڑے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے دربان تیزی سے اس کے سامنے آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسے اپنی طرف بلاتا ہے۔ اور میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کی بخشش فرما دے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21359
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، عن عبيد الله بن ابي جعفر ، ان ابا عبد الرحمن اخبره، عن ابي ذر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن مر رجل على باب لا ستر له غير مغلق، فنظر، فلا خطيئة عليه، إنما الخطيئة على اهل البيت" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنْ مَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَابٍ لَا سِتْرَ لَهُ غَيْرِ مُغْلَقٍ، فَنَظَرَ، فَلَا خَطِيئَةَ عَلَيْهِ، إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی آدمی کسی ایسے دروازے پر گذرتا ہے جہاں پردہ پڑا ہو اور نہ ہی دروازہ بند ہو اس کی نگاہ اندر چلی جائے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا بلکہ گناہ تو اس گھر والوں پر ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد تفرد بهذا الحديث
حدیث نمبر: 21360
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقول الله عز وجل: من عمل حسنة فله عشر امثالها او ازيد، ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها او اغفر، ومن عمل قراب الارض خطيئة، ثم لقيني لا يشرك بي شيئا، جعلت له مثلها مغفرة، ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا، ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا، ومن اتاني يمشي اتيته هرولة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَنْ عَمِلَ حَسَنَةً فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا أَوْ أَزِيدُ، وَمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَجَزَاؤُهَا مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ، وَمَنْ عَمِلَ قُرَابَ الْأَرْضِ خَطِيئَةً، ثُمَّ لَقِيَنِي لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً، وَمَنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ فرماتا ہے جو شخص نیکی کا ایک عمل کرتا ہے اسے دس گنا بدلہ ملے گا یا میں اس میں مزید اضافہ کردوں گا اور جو شخص گناہ کا ایک عمل کرتا ہے تو اس کا بدلہ اسی کے برابر ہوگا یا میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں جو شخص زمین بھر کر گناہ کرے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، میں اس کے لئے اتنی ہی مغفرت کا فیصلہ کرلیتا ہوں اور جو شخص ایک بالشت کے برابر میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور جو ایک ہاتھ کے برابر قریب آتا ہے میں ایک گز اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2687
حدیث نمبر: 21361
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاعمش ، عن منذر ، حدثنا اشياخ من التيم، قالوا: قال ابو ذر : لقد تركنا محمد صلى الله عليه وسلم وما يحرك طائر جناحيه في السماء إلا اذكرنا منه علما .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، حَدَّثَنَا أَشْيَاخٌ مِنَ التَّيْمِ، قَالُوا: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : لَقَدْ تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِي السَّمَاءِ إِلَّا أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْمًا .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں چھوڑ کر گئے تو آسمان میں اپنے پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہ تھا جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بتایا نہ ہو۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أشياخ منذر
حدیث نمبر: 21362
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاجلح ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احسن ما غير به الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات لأجل الأجلح، وقد توبع
حدیث نمبر: 21363
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، ذهب الاغنياء بالاجر، يصلون ويصومون ويحجون! قال: " وانتم تصلون وتصومون وتحجون"، قلت: يتصدقون ولا نتصدق! قال:" وانت فيك صدقة رفعك العظم عن الطريق صدقة، وهدايتك الطريق صدقة، وعونك الضعيف بفضل قوتك صدقة، وبيانك عن الارتم صدقة، ومباضعتك امراتك صدقة"، قال: قلت: يا رسول الله، ناتي شهوتنا ونؤجر؟! قال"" ارايت لو جعلته في حرام، اكان تاثم؟"، قال: قلت: نعم، قال:" فتحتسبون بالشر ولا تحتسبون بالخير؟! .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالْأَجْرِ، يُصَلُّونَ وَيَصُومُونَ وَيَحُجُّونَ! قَالَ: " وَأَنْتُمْ تُصَلُّونَ وَتَصُومُونَ وَتَحُجُّونَ"، قُلْتُ: يَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ! قَالَ:" وَأَنْتَ فِيكَ صَدَقَةٌ رَفْعُكَ الْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ، وَهِدَايَتُكَ الطَّرِيقَ صَدَقَةٌ، وَعَوْنُكَ الضَّعِيفَ بِفَضْلِ قُوَّتِكَ صَدَقَةٌ، وَبَيَانُكَ عَنِ الْأَرْتَمِ صَدَقَةٌ، وَمُبَاضَعَتُكَ امْرَأَتَكَ صَدَقَةٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَأْتِي شَهْوَتَنَا وَنُؤْجَرُ؟! قَالَ"" أَرَأَيْتَ لَوْ جَعَلْتَهُ فِي حَرَامٍ، أَكَانَ تَأْثَمُ؟"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَتَحْتَسِبُونَ بِالشَّرِّ وَلَا تَحْتَسِبُونَ بِالْخَيْرِ؟! .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سارا اجروثواب تو مالدار لوگ لے گئے کہ نماز پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کام تو تم بھی کرتے ہو میں نے عرض کیا کہ وہ صدقہ خیرات کرتے ہیں لیکن ہم صدقہ خیرات نہیں کرسکتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو تم بھی کرسکتے ہو، راستے سے کسی ہڈی کو اٹھا دینا صدقہ ہے کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے اپنی طاقت سے کسی کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے زبان میں لکنت والے آدمی کے کلام کی وضاحت کر دینا صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں اپنی " خواہش " پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر یہ کام تم حرام طریقے سے کرتے تو تمہیں گناہ ہوتا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گناہ کو شمار کرتے ہو نیکی کو شمار نہیں کرتے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وهذا إسناد ضعيف، أبو البختري لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21364
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، عن رجل من بني تميم، قال: كنا عند باب معاوية بن ابي سفيان، وفينا ابو ذر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " صوم شهر الصبر وثلاثة ايام من كل شهر صوم الدهر، ويذهب مغلة الصدر" قال: قلت: وما مغلة الصدر؟ قال:" رجس الشيطان" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ بَابِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " صَوْمُ شَهْرِ الصَّبْرِ وَثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صَوْمُ الدَّهْرِ، وَيُذْهِبُ مَغَلَةَ الصَّدْرِ" قَالَ: قُلْتُ: وَمَا مَغَلَةُ الصَّدْرِ؟ قَالَ:" رِجْسُ الشَّيْطَانِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ماہ صبر (رمضان) اور ہر مہینے کے تین روزے رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہمیشہ روزے رکھنا اور اس سے سینے کا کینہ دور ہوجاتا ہے میں نے پوچھا کہ سینے کے کینے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا شیطانی گندگی۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل
حدیث نمبر: 21365
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن معبد بن هلال ، حدثني رجل في مسجد دمشق، عن عوف بن مالك ، عن ابي ذر ، انه قال: يا رسول الله، ما الصوم؟ قال: " فرض مجزئ" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ هِلَالٍ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الصَّوْمُ؟ قَالَ: " فَرْضٌ مُجْزِئٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! روزہ کیا چیز ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرض جسے ادا کیا جائے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن عوف بن مالك
حدیث نمبر: 21366
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، حدثنا شيبان ، حدثنا منصور ، عن ربعي ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اخذ مضجعه من الليل، قال: " اللهم باسمك نموت ونحيا" وإذا استيقظ قال:" الحمد لله الذي احيانا بعد ما اماتنا وإليه النشور" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ نَمُوتُ وَنَحْيَا" وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت جب اپنے بستر پر آتے تو یوں کہتے اے اللہ! ہم تیرے ہی نام سے جیتے مرتے ہیں اور جب بیدار ہوتے تو یوں فرماتے " اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا اور اسی کے یہاں جمع ہونا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6325
حدیث نمبر: 21367
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عمار بن محمد ابن اخت سفيان الثوري، عن ليث بن ابي سليم ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقول الله عز وجل: يا عبادي كلكم مذنب إلا من عافيت، فاستغفروني اغفر لكم، ومن علم اني اقدر على المغفرة فاستغفرني بقدرتي غفرت له ولا ابالي، وكلكم ضال إلا من هديت، فاستهدوني اهدكم، وكلكم فقير إلا من اغنيت، فاسالوني اغنكم، ولو ان اولكم وآخركم وحيكم وميتكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا على اشقى قلب من قلوب عبادي ما نقص في ملكي جناح بعوضة، ولو اجتمعوا على اتقى قلب عبد من عبادي ما زاد في ملكي جناح بعوضة، ولو ان اولكم وآخركم وحيكم وميتكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا فسالني كل سائل منهم ما بلغت امنيته، فاعطيت كل سائل منهم ما سال، ما نقصني، كما لو ان احدكم مر بشفة البحر فغمس فيه إبرة ثم انتزعها، كذلك لا ينقص من ملكي، ذلك باني جواد ماجد صمد، عطائي كلام، وعذابي كلام، إذا اردت شيئا فإنما اقول له كن، فيكون" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدِ ابْنِ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ أَنِّي أَقْدِرُ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي بِقُدْرَتِي غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أُبَالِي، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ، فَاسْأَلُونِي أُغْنِكُمْ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبٍ مِنْ قُلُوبِ عِبَادِي مَا نَقَصَ فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا زَادَ فِي مُلْكِي جَنَاحِ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا فَسَأَلَنِي كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ، فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا سَأَلَ، مَا نَقَصَنِي، كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِشَفَةِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيهِ إِبْرَةً ثُمَّ انْتَزَعَهَا، كَذَلِكَ لَا يَنْقُصُ مِنْ مُلْكِي، ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ صَمَدٌ، عَطَائِي كَلَامٌ، وَعَذَابِي كَلَامٌ، إِذَا أَرَدْتُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ كُنْ، فَيَكُونُ" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! تم سب کے سب گنہگار ہو سوائے اس کے جسے میں عافیت عطاء کر دوں، اس لئے مجھ سے معافی مانگا کرو میں تمہیں معاف کر دوں گا اور جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معاف کرنے پر قدرت ہے اور وہ میری قدرت کے وسیلے سے مجھ سے معافی مانگتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں تم کو ہدایت عطاء کروں گا تم میں سے ہر ایک فقیر ہے سوائے اس کے جسے میں غنی کردوں، لہٰذا مجھ سے غناء مانگا کرو میں تم کو غناء عطاء کروں گا۔ اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب کے سب میرے سب سے زیادہ شقی بندے کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری حکومت میں سے ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کرسکتے اور اگر وہ سب کے سب میرے سب سے زیادہ متقی بندے کے دل پر جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب جمع ہوجائیں اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی تمنا پہنچتی ہو اور میں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق مطلوبہ چیزیں دیتا جاؤں تو میرے خزانے میں اتنی بھی کمی واقع نہ ہوگی کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ساحل سمندر سے گذرے اور اس میں ایک سوئی ڈبوئے اور پھر نکالے میری حکومت میں اتنی بھی کمی نہ آئیگی کیونکہ میں بےانتہا سخی، بزرگ اور بےنیاز ہوں میری عطاء بھی ایک کلام سے ہوتی ہے اور میرا عذاب بھی ایک کلام سے آجاتا ہے میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو " کن " کہتا ہوں اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے! تو جتنی عبادت اور مجھ سے جتنی امید وابستہ کرے گا میں تیرے سارے گناہوں کو معاف کردوں گا میرے بندے اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا میرے بندو! تم سب کے سب گناہگار ہو سوائے اس کے جسے میں عافیت دے دوں۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث بن أبى سليم، وشهر بن حوشب
حدیث نمبر: 21368
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عبد الحميد ، حدثنا شهر ، حدثني ابن غنم ، ان ابا ذر حدثه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله عز وجل يقول: يا عبدي، ما عبدتني ورجوتني، فإني غافر لك على ما كان فيك، ويا عبدي إن لقيتني بقراب الارض خطيئة، ما لم تشرك بي، لقيتك بقرابها مغفرة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، حَدَّثَنَا شَهْرٌ ، حَدَّثَنِي ابْنُ غَنْمٍ ، أَنَّ أَبَا ذَرّ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: يَا عَبْدِي، مَا عَبَدْتَنِي وَرَجَوْتَنِي، فَإِنِّي غَافِرٌ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ، وَيَا عَبْدِي إِنْ لَقِيتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً، مَا لَمْ تُشْرِكْ بِي، لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً" .

حكم دارالسلام: حديث حسن، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدیث نمبر: 21369
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
. 20790 وقال ابو ذر " إن الله عز وجل يقول: يا عبادي، كلكم مذنب إلا من انا عافيته" فذكر نحوه إلا انه قال:" ذلك باني جواد واجد ماجد، إنما عطائي كلام".. 20790 وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ أَنَا عَافَيْتُهُ" فَذَكَرَ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ وَاجِدٌ مَاجِدٌ، إِنَّمَا عَطَائِي كَلَامٌ".

حكم دارالسلام: صحيح مرفوعا، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، وهو هنا موقوف
حدیث نمبر: 21370
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: قام اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اكلتنا الضبع يعني السنة، قال: " غير ذلك اخوف لي عليكم الدنيا إذا صبت عليكم صبا، فيا ليت امتي لا يلبسون الذهب" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَامَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَتْنَا الضَّبُعُ يَعْنِي السَّنَةَ، قَالَ: " غَيْرُ ذَلِكَ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا إِذَا صُبَّتْ عَلَيْكُمْ صَبًّا، فَيَا لَيْتَ أُمَّتِي لَا يَلْبَسُونَ الذَّهَبَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک سخت طبیعت دیہاتی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں تو قحط سالی کھاجائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے متعلق ایک دوسری چیز کا اندیشہ ہے جب تم پر دنیا کو انڈیل دیا جائے گا کاش! اس وقت میری امت سونے کا زیور نہ پہنے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حدیث نمبر: 21371
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ايوب السختياني ، وخالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، كلاهما ذكره خالد، عن عمرو بن بجدان ، وايوب ، عن رجل ، عن ابي ذر ، ان ابا ذر اتى النبي صلى الله عليه وسلم وقد اجنب فدعا له النبي صلى الله عليه وسلم بماء، فاستتر واغتسل، ثم قال له: " إن الصعيد الطيب وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين، وإذا وجد الماء فليمسه بشرته، فإن ذلك هو خير" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أيوَب السَّخْتِياني ، وَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، كِلَاهُمَا ذَكَرَهُ خَالِدٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ ، وَأَيُّوبُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَجْنَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَاسْتَتَرَ وَاغْتَسَلَ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، وَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان پر غسل واجب ہوگیا وہ اسی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے پانی منگوایا انہوں نے پردے کے پیچھے غسل کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو ہے اگرچہ اس دس سال تک پانی نہ ملے جب پانی مل جائے تو اسے جسم پر بہا لے کہ یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21372
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد ، حدثنا حجاج الاسود ، قال مؤمل ، وكان رجلا صالحا، قال: سمعت ابا الصديق يحدث ثابتا البناني، عن رجل ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إنكم في زمان علماؤه كثير خطباؤه قليل، من ترك فيه عشير ما يعلم هوى، او قال هلك، وسياتي على الناس زمان يقل علماؤه ويكثر خطباؤه، من تمسك فيه بعشير ما يعلم نجا" .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ ، قَالَ مُؤَمَّلٌ ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الصِّدِّيقِ يُحَدِّثُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ عُلَمَاؤُهُ كَثِيرٌ خُطَبَاؤُهُ قَلِيلٌ، مَنْ تَرَكَ فِيهِ عُشَيْرَ مَا يَعْلَمُ هَوَى، أَوْ قَالَ هَلَكَ، وَسَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقِلُّ عُلَمَاؤُهُ وَيَكْثُرُ خُطَبَاؤُهُ، مَنْ تَمَسَّكَ فِيهِ بِعُشَيْرِ مَا يَعْلَمُ نَجَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگ ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں علماء کثیر تعداد میں ہیں اور خطباء بہت کم ہیں جو شخص اس زمانے میں اپنے علم کے دسویں حصے پر بھی عمل چھوڑے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں علماء کم اور خطباء زیادہ ہوجائیں گے اس زمانے میں جو شخص اپنے علم کے دسویں حصے پر بھی عمل کرلے گا وہ نجات پاجائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مؤمل سيئ الحفظ، والراوي عن أبى ذر مبهم
حدیث نمبر: 21373
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن عيسى ، حدثني يحيى بن سليم ، عن عبد الله بن عثمان ، عن مجاهد ، عن إبراهيم بن الاشتر ، عن ابيه ، عن ام ذر، قالت: لما حضرت ابا ذر الوفاة، قالت: بكيت، فقال: ما يبكيك؟ قالت: وما لي لا ابكي وانت تموت بفلاة من الارض ولا يد لي بدفنك، وليس عندي ثوب يسعك فاكفنك فيه، قال: فلا تبكي وابشري، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يموت بين امراين مسلمين ولدان، او ثلاثة فيصبران ويحتسبان فيردان النار ابدا"، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليموتن رجل منكم بفلاة من الارض يشهده عصابة من المؤمنين" وليس من اولئك النفر احد إلا وقد مات في قرية او جماعة، وإني انا الذي اموت بفلاة، والله ما كذبت ولا كذبت .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِّ ذَرٍّ، قَالَتْ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا ذَرٍّ الْوَفَاةُ، قَالَتْ: بَكَيْتُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَأَنْتَ تَمُوتُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا يَدَ لِي بِدَفْنِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ فَأُكَفِّنَكَ فِيهِ، قَالَ: فَلَا تَبْكِي وَأَبْشِرِي، فإني سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَمُوتُ بَيْنَ امْرَأَيْنِ مُسْلِمَيْنِ وَلَدَانِ، أَوْ ثَلَاثَةٌ فَيَصْبِرَانِ وَيَحْتَسِبَانِ فَيَرِدَانِ النَّارَ أَبَدًا"، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ يَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ" وَلَيْسَ مِنْ أُولَئِكَ النَّفَرِ أَحَدٌ إِلَّا وَقَدْ مَاتَ فِي قَرْيَةٍ أَوْ جَمَاعَةٍ، وَإِنِّي أَنَا الَّذِي أَمُوتُ بِفَلَاةٍ، وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ .
حضرت ام ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں رونے لگی انہوں نے پوچھا کہ کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا روؤں کیوں نہ؟ جبکہ آپ ایک جنگل میں اس طرح جان دے رہے ہیں کہ میرے پاس آپ کو دفن کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے اور نہ ہی اتنا کپڑا ہے جس میں آپ کو کفن دے سکوں، انہوں نے فرمایا تم مت رو اور خوشخبری سنو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی دو یا تین مسلمان بچوں کے درمیان فوت ہوتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ کبھی نہیں دیکھے گا۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی ضرور کسی جنگل میں فوت ہوگا جس کے پاس مؤمنین کی ایک جماعت حاضر ہوگی اب ان لوگوں میں سے تو ہر ایک کا انتقال کسی نہ کسی شہر یا جماعت میں ہوا ہے اور میں ہی وہ آدمی ہوں جو جنگل میں فوت ہو رہا ہے واللہ نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21374
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن عمرو ، عن يزيد بن نعيم ، قال: سمعت ابا ذر الغفاري وهو على المنبر بالفسطاط، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تقرب إلى الله شبرا، تقرب إليه ذراعا، ومن تقرب إلى الله ذراعا، تقرب إليه باعا، ومن اقبل على الله ماشيا، اقبل الله إليه مهرولا، والله اعلى واجل، والله اعلى واجل، والله اعلى واجل" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ نُعَيْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِالْفُسْطَاطِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ تَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ شِبْرًا، تَقَرَّبَ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَى اللَّهِ ذِرَاعًا، تَقَرَّبَ إِلَيْهِ بَاعًا، وَمَنْ أَقْبَلَ عَلَى اللَّهِ مَاشِيًا، أَقْبَلَ اللَّهُ إِلَيْهِ مُهَرْوِلًا، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، وَاللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص ایک بالشت کے برابر میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور جو ایک ہاتھ کے برابر قریب آتا ہے میں ایک گز اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21375
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث بن سعد ، عن عبيد الله بن ابي جعفر ، عن الحمصي ، عن ابي طالب ، عن ابي ذر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من زنى امة لم يرها تزني، جلده الله يوم القيامة بسوط من نار" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ الْحِمْصِيِّ ، عَنْ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ زَنَّى أَمَةً لَمْ يَرَهَا تَزْنِي، جَلَدَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَوْطٍ مِنْ نَارٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی باندی پر بدکاری کا الزام لگائے جسے اس نے خود بدکاری کرتے ہوئے نہ دیکھا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے آگ کے کوڑے مارے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحمصي وأبو طالب مجهولان
حدیث نمبر: 21376
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن مهاجر ابي الحسن ، قال: سمعت زيد بن وهب ، قال: جئنا من جنازة، فمررنا بابي ذر ، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فاراد المؤذن ان يؤذن للظهر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابرد" ثم اراد ان يؤذن، فقال له:" ابرد" والثالثة، اكبر علمي شعبة، قال له حتى راينا فيء التلول، قال:" قال: إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ ، قَالَ: جِئْنَا مِنْ جَنَازَةٍ، فَمَرَرْنَا بِأَبِي ذَرٍّ ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْرِدْ" ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ:" أَبْرِدْ" وَالثَّالِثَةَ، أَكْبَرُ عِلْمِي شُعْبَةُ، قَالَ لَهُ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، قَالَ:" قَالَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ" .
زید بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جنازے سے واپس آرہے تھے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذر ہوا وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے مؤذن نے جب ظہر کی اذان دینا چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ٹھنڈا کر کے اذان دینا دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا حتٰی کہ ہمیں ٹیلوں کا سایہ نظر آنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 539، م: 616
حدیث نمبر: 21377
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم الصادق المصدوق، يقول:" قال الله عز وجل: الحسنة عشر او ازيد، والسيئة واحدة او اغفرها، فمن لقيني، لا يشرك بي شيئا، بقراب الارض خطيئة جعلت له مثلها مغفرة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ، يَقُولُ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْحَسَنَةُ عَشْرٌ أَوْ أَزِيدُ، وَالسَّيِّئَةُ وَاحِدَةٌ أَوْ أَغْفِرُهَا، فَمَنْ لَقِيَنِي، لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے جس میں میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں اور ایک گناہ کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے اور میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں اور اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 2687
حدیث نمبر: 21378
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: يقطع صلاة الرجل إذا لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود، قال: قلت لابي ذر ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر؟ قال: يا ابن اخي، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال: " الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21379
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن حميد ، عن عبد الله بن الصامت ، قال: قال ابو ذر ، قلت: يا رسول الله، الرجل يحب القوم لا يستطيع ان يعمل باعمالهم؟ قال: " انت يا ابا ذر مع من احببت"، قال: قلت: فإني احب الله ورسوله، يعيدها مرة او مرتين .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَعْمَلَ بِأَعْمَالِهِمْ؟ قَالَ: " أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يُعِيدُهَا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال نہیں کرسکتا اس کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہوگے میں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں یہ جملہ انہوں نے ایک دو مرتبہ دہرایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21380
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، انه قال: يا رسول الله، الرجل يعمل العمل فيحمده الناس عليه، ويثنون عليه به؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تلك عاجل بشرى المؤمن" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ فَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَيُثْنُونَ عَلَيْهِ بِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے لوگ اس کی تعریف وثناء بیان کرنے لگے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا یہ تو مسلمان کے لئے فوری خوشخبری ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2642
حدیث نمبر: 21381
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ابو عمران ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: " اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا طبخت قدرا ان اكثر مرقتها، فإنه اوسع للجيران" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عِمْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: " أَوْصَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَبَخْتُ قِدْرًا أَنْ أُكْثِرَ مَرَقَتَهَا، فَإِنَّهُ أَوْسَعُ لِلْجِيرَانِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا اے ابوذر! جب کھانا پکایا کرو تو شوربہ بڑھا لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2625
حدیث نمبر: 21382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن عبد الله ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال: سمعت داود بن ابي هند ، عن ابي حرب بن ابي الاسود الديلي ، عن عمه ، عن ابي ذر ، قال: اتاني نبي الله صلى الله عليه وسلم وانا نائم في مسجد المدينة، فضربني برجله، فقال: " الا اراك نائما فيه؟" قال: قلت: يا نبي الله، غلبتني عيني، قال:" كيف تصنع إذا اخرجت منه؟" قال: آتي الشام الارض المقدسة المباركة، قال:" كيف تصنع إذا اخرجت من الشام؟" قال: اعود إليه، قال:" كيف تصنع إذا اخرجت منه"، قال: ما اصنع يا نبي الله، اضرب بسيفي؟! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الا ادلك على ما هو خير من ذلك واقرب رشدا؟ تسمع وتطيع، وتنساق لهم حيث ساقوك" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ دَاوُدَ بْنَ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَانِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا نَائِمٌ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَنِي بِرِجْلِهِ، فَقَالَ: " أَلَا أَرَاكَ نَائِمًا فِيهِ؟" قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، غَلَبَتْنِي عَيْنِي، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْهُ؟" قَالَ: آتِي الشَّامَ الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الْمُبَارَكَةَ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنَ الشَّامَ؟" قَالَ: أَعُودُ إِلَيْهِ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا أُخرِجْتَ مِنْهُ"، قَالَ: مَا أَصْنَعُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَضْرِبُ بِسَيْفِي؟! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ وَأَقْرَبُ رُشْدًا؟ تَسْمَعُ وَتُطِيعُ، وَتَنْسَاقُ لَهُمْ حَيْثُ سَاقُوكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سو رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھے پاؤں سے ہلایا اور فرمایا کیا میں تمہیں یہاں سوتا ہوا نہیں دیکھ رہا؟ میں نے عرض کیا یا نبی اللہ! میری آنکھ لگ گئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا؟ میں نے عرض کیا کہ میں ارض مقدس و مبارک شام چلا جاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اگر تمہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی کرنا کیا ہے میں اپنی تلوار کے ذریعے لڑوں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہترین طریقہ نہ بتاؤں؟ تم ان کی بات سننا اور ماننا اور جہاں وہ تمہیں لے جائیں وہاں چلے جانا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عم أبى حرب بن أبى الأسود لايعرف
حدیث نمبر: 21383
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سليمان الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: كنت اعرض عليه ويعرض علي في السكة، فيمر بالسجدة فيسجد، قال: قلت: اتسجد في السكة؟ قال: نعم، سمعت ابا ذر ، يقول: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قلت: يا رسول الله، اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال:" المسجد الحرام" قال: قلت: ثم اي؟ قال:" ثم المسجد الاقصى"، قال: قلت: كم بينهما؟ قال:" اربعون سنة" قال:" ثم اينما ادركتك الصلاة فصل فهو مسجد"، وقد قال ابو عوانة كنت اقرا عليه ويقرا علي .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ أَعْرِضُ عَلَيْهِ وَيَعْرِضُ عَلَيَّ فِي السِّكَّةِ، فَيَمُرُّ بِالسَّجْدَةِ فَيَسْجُدُ، قَالَ: قُلْتُ: أَتَسْجُدُ فِي السِّكَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ" قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى"، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ سَنَةً" قَالَ:" ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ فَهُوَ مَسْجِدٌ"، وَقَدْ قَالَ أَبُو عَوَانَةَ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ عَلَيَّ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتناوفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21384
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن سعيد بن ابي الحسن ، عن عبد الله بن الصامت ، انه كان مع ابي ذر فخرج عطاؤه ومعه جارية له، فجعلت تقضي حوائجه، قال: ففضل معها سبع، قال: فامرها ان تشتري به فلوسا، قال: قلت له: لو ادخرته لحاجة تنوبك، او للضيف ينزل بك، قال: إن خليلي عهد إلي، " ان ايما ذهب او فضة اوكي عليه، فهو جمر على صاحبه حتى يفرغه في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ أَبِي ذَرٍّ فَخَرَجَ عَطَاؤُهُ وَمَعَهُ جَارِيَةٌ لَهُ، فَجَعَلَتْ تَقْضِي حَوَائِجَهُ، قَالَ: فَفَضَلَ مَعَهَا سَبْعٌ، قَالَ: فَأَمَرَهَا أَنْ تَشْتَرِيَ بِهِ فُلُوسًا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: لَوْ ادَّخَرْتَهُ لِحَاجَةٍ تَنُوبُكَ، أَوْ لِلضَّيْفِ يَنْزِلُ بِكَ، قَالَ: إِنَّ خَلِيلِي عَهِدَ إِلَيَّ، " أَنْ أَيُّمَا ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ أُوكِيَ عَلَيْهِ، فَهُوَ جَمْرٌ عَلَى صَاحِبِهِ حَتَّى يُفْرِغَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ان کا وظیفہ آگیا ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو ان پیسوں سے ان کی ضروریات کا انتظام کرنے لگی اس کے پاس سات سکے بچ گئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ ان کے پیسے خرید لے (ریزگاری حاصل کرلے) میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ ان پیسوں کو بچا کر رکھ لیتے تو کسی ضرورت میں کام آجاتے یا کسی مہمان کے آنے پر کام آجاتے انہوں نے فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جو سونا چاندی مہر بند کر کے رکھا جائے وہ اس کے مالک کے حق میں آگ کی چنگاری ہے تاوقتیکہ اسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کر دے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21385
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن يحيى ، حدثني ابو صالح ، عن رجل من بني اسد، ويعلى ، حدثنا يحيى ، عن ذكوان ابي صالح ، عن رجل من بني اسد، ان ابا ذر اخبره، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشد امتي لي حبا قوم يكونون او يخرجون بعدي، يود احدهم انه اعطى اهله وماله وانه رآني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، وَيَعْلَى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَشَدُّ أُمَّتِي لِي حُبًّا قَوْمٌ يَكُونُونَ أَوْ يَخْرُجُونَ بَعْدِي، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ أَعْطَى أَهْلَهُ وَمَالَهُ وَأَنَّهُ رَآنِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ اپنے اہل خانہ اور سارے مال و دولت کو دے کر کسی طرح وہ مجھے دیکھ لیتے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الأسدي
حدیث نمبر: 21386
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، عن الاجلح ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابي الاسود ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن احسن ما غير به الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ الْأَجْلَحِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات، الأجلح ضعيف، وقد توبع
حدیث نمبر: 21387
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله كنز من كنوز الجنة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ جنت کا ایک خزانہ ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21388
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا قدامة العامري ، عن جسرة بنت دجاجة ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قرا هذه الآية فرددها حتى اصبح إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 118" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا قُدَامةُ الْعَامِرِيُّ ، عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ فَرَدَّدَهَا حَتَّى أَصْبَحَ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی اور ساری رات صبح تک ایک ہی آیت رکوع و سجود میں پڑھتے رہے کہ اے اللہ " اگر تو انہیں عذاب میں مبتلا کردے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کردے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21389
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن شعبة ، عن ابي عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صل الصلاة لوقتها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21390
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اي مسجد وضع اول؟ قال:" المسجد الحرام"، قال: قلت: ثم اي؟ قال:" ثم المسجد الاقصى"، قال: قلت: كم بينهما؟ قال:" اربعون سنة، ثم اينما ادركتك الصلاة فصل، فهو مسجد" ، حدثنا عبيدة ، حدثنا الاعمش ، فذكره إلا انه قال: اي مسجد وضع في الارض اول؟.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلُ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى"، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ سَنَةً، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ، فَهُوَ مَسْجِدٌ" ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، فَذَكَرَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21391
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21392
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، وبهز ، قالا: حدثنا يزيد بن إبراهيم ، عن قتادة ، قال بهز ، حدثنا قتادة ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت لابي ذر لو ادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم سالته، قال: عن اي شيء؟ قلت: هل رايت ربك؟ فقال: قد سالته، فقال: " نور انى اراه" يعني على طريق الإيجاب .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهُ، قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ" يَعْنِي عَلَى طَرِيقِ الْإِيجَابِ .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوتا تو ان سے ایک سوال ہی پوچھ لیتا، انہوں نے فرمایا تم ان سے کیا سوال پوچھتے؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ سوال پوچھتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کی زیارت کی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ سوال تو میں ان سے پوچھ چکا ہوں جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 178
حدیث نمبر: 21393
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يؤتى بالرجل يوم القيامة، فيقال: اعرضوا عليه صغار ذنوبه، قال: فتعرض عليه ويخبا عنه كبارها، فيقال: عملت يوم كذا وكذا كذا وكذا، وهو مقر لا ينكر وهو مشفق من الكبار، فيقال: اعطوه مكان كل سيئة عملها حسنة" قال:" فيقول: إن لي ذنوبا ما اراها"، قال: قال ابو ذر: فلقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك حتى بدت نواجذه .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ، قَالَ: فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ وَيُخَبَّأُ عَنْهُ كِبَارُهَا، فَيُقَالُ: عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، وَهُوَ مُقِرٌّ لَا يُنْكِرُ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنَ الْكِبَارِ، فَيُقَالُ: أَعْطُوهُ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ عَمِلَهَا حَسَنَةً" قَالَ:" فَيَقُولُ: إِنَّ لِي ذُنُوبًا مَا أَرَاهَا"، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ چھپا لئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا؟ وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے خوف سے ڈر رہا ہوگا اس وقت حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اسے ایک نیکی دے دو وہ کہے گا کہ میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 190
حدیث نمبر: 21394
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي ذر ، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وحدثنا يعلى ، حدثنا الاعمش ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا ادلك على كنز من كنوز الجنة لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَحَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! کیا میں جنت کے ایک خزانے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہا کرو۔

حكم دارالسلام: هذا الحديث له اسنادان، اما الاول فصحيح، واما الثاني: فضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدیث نمبر: 21395
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن سليمان بن مسهر ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، انظر ارفع رجل في المسجد"، قال: فنظرت، فإذا رجل عليه حلة، قال: قلت: هذا، قال: قال لي:" انظر اوضع رجل في المسجد" قال: فنظرت، فإذا رجل عليه اخلاق، قال: قلت هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لهذا عند الله اخير يوم القيامة من ملء الارض من مثل هذا" ..حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، انْظُرْ أَرْفَعَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ"، قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ حُلَّةٌ، قَالَ: قُلْتُ: هَذَا، قَالَ: قَالَ لِي:" انْظُرْ أَوْضَعَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ" قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ أَخْلَاقٌ، قَالَ: قُلْتُ هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَهَذَا عِنْدَ اللَّهِ أَخْيَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِنْ مِثْلِ هَذَا" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابوذر! مسجد میں نظر دوڑا کر دیکھو کہ سب سے بلند مرتبہ آدمی کون معلوم ہوتا ہے؟ میں نے نظر دوڑائی تو ایک آدمی کے جسم پر حلہ دکھائی دیا میں نے اس کی طرف اشارہ کردیا پھر فرمایا کہ اب یہ دیکھو سب سے پست مرتبہ آدمی کون معلوم ہوتا ہے؟ میں نے نظر دوڑائی تو ایک آدمی کے جسم پر پرانے کپڑے دکھائی دیئے میں نے اس کی طرف اشارہ کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آدمی قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس پہلے والے آدمی سے اگر زمین بھی بھر جائے تب بھی بہتر ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21396
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن نمير ، ويعلى ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، فقال:" يا ابا ذر، ارفع راسك، فانظر إلى ارفع رجل في المسجد" فذكر الحديث..حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَيَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، فَانْظُرْ إِلَى أَرْفَعِ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ..
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21397
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، فذكر الحديث، وقال:" خير عند الله من قراب الارض مثل هذا"، وكذا قال معاوية، عن زيد..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ:" خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ قُرَابِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا"، وَكَذَا قَالَ مُعَاوِيَةُ، عَنْ زَيْدٍ..

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21398
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، عن الاعمش ، حدثنا سليمان بن مسهر ، عن خرشة ، فذكره.وحَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ ، فَذَكَرَهُ.

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21399
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاكثرون هم الاسفلون يوم القيامة، إلا من قال: بالمال هكذا وهكذا، وهكذا وهكذا، وقليل ما هم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَكْثَرُونَ هُمْ الْأَسْفَلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ: بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَهَكَذَا وَهَكَذَا، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال و دولت کی کثرت والے ہی قیامت کے دن ذلیل ہوں گے سوائے اس آدمی کے جو دائیں بائیں خرچ کرے لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1237، م: 94
حدیث نمبر: 21400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي عمران الجوني ، قال ابن جعفر : سمعت ابا عمران ، عن عبد الله بن الصامت ابن اخي ابي ذر، وكان ابو ذر عمه، عن ابي ذر ، انه قال: يا رسول الله، ارايت الرجل يعمل العمل يحبه الناس عليه؟ قال: " تلك عاجل بشرى المؤمن" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ : سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ، وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ عَمَّهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ يُحِبُّهُ النَّاسُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: " تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے لوگ اس کی تعریف وثناء بیان کرنے لگتے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو مسلمان کے لئے فوری خوشخبری ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2642
حدیث نمبر: 21401
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي زكاتها، إلا جاءت يوم القيامة اعظم ما كانت واسمنه، تنطحه بقرونها، وتطؤه باخفافها، كلما نفدت اخراها عادت عليه اولاها، حتى يقضى بين الناس" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، وَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو آدمی بھی مرتے وقت بکریاں اونٹ یا گائے چھوڑ کرجاتا ہے جس کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو وہ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ صحت مند ہو کر آئیں گے اور اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے پھر ایک کے بعد دوسرا جانور آتا جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 990
حدیث نمبر: 21402
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن سليمان بن المغيرة ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن الكلب الاسود البهيم، فقال:" شيطان" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ، فَقَالَ:" شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت کالے کتے کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21403
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن حبيب ، عن ميمون ، عن ابي ذر ، قال عبد الرحمن، قال: قلت: يا رسول الله، اوصني، قال: " اتق الله حيثما كنت، واتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن" ، وكان حدثنا به عن ميمون بن ابي شبيب عن معاذ، ثم رجع.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مَيْمُونٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْصِنِي، قَالَ: " اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعْ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ" ، وَكَانَ حَدَّثَنَا بِهِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ مُعَاذٍ، ثُمَّ رَجَعَ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اللہ سے ڈرو خواہ کہیں بھی ہو، برائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آیا کرو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، ميمون بن أبى شبيب لم يسمع من أبى ذر، وقد اختلف على سفيان الثوري
حدیث نمبر: 21404
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن رجل ، عن خرشة ، عن ابي ذر . ح والمسعودي ، عن علي بن مدرك ، عن خرشة ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم"، قلت: يا رسول الله، من هم فقد خابوا وخسروا قال:" المنان، والمسبل، والمنفق سلعته بالحلف الفاجر" ..حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ خَرَشَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ . ح وَالْمَسْعُودِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ ، عَنْ خَرَشَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا قَالَ:" الْمَنَّانُ، وَالْمُسْبِلُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْفَاجِرِ" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور خسارے میں پڑگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا کر فرمایا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، و إسناداه صحيحان
حدیث نمبر: 21405
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت سليمان بن مسهر ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، قال ابن جعفر:" المنان بما اعطى، والمسبل إزاره".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ:" الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ".

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 106
حدیث نمبر: 21406
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن قوله تعالى: والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38، قال:" مستقرها تحت العرش" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ:" مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے " کا مطلب پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔ حدیث نمبر (٢١٦٤٤) اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4803، م: 159
حدیث نمبر: 21407
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن ابي هلال ، عن بكر ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " انظر، فإنك ليس بخير من احمر ولا اسود إلا ان تفضله بتقوى" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ بَكْرٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " انْظُرْ، فَإِنَّكَ لَيْسَ بِخَيْرٍ مِنْ أَحْمَرَ وَلَا أَسْوَدَ إِلَّا أَنْ تَفْضُلَهُ بِتَقْوَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا دیکھو تم کسی سرخ و سیاہ سے بہتر نہیں ہو الاّ یہ کہ تقویٰ میں کسی سے آگے بڑھ جاؤ۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الضعف أبى هلال، وبكر لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21408
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان . ح وعبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن سليمان بن مسهر ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة لا يكلمهم الله المنان الذي لا يعطي شيئا إلا منه، والمسبل إزاره، والمنفق سلعته بالحلف الفاجر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ الْمَنَّانُ الَّذِي لَا يُعْطِي شَيْئًا إِلَّا مَنَّهُ، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْفَاجِرِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 106
حدیث نمبر: 21409
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن واصل ، عن المعرور ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إخوانكم جعلهم الله فتنة تحت ايديكم، فمن كان اخوه تحت يديه، فليطعمه من طعامه، وليكسه من لباسه، ولا يكلفه ما يغلبه، فإن كلفه ما يغلبه فليعنه عليه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ الْمَعْرُورِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ فِتْنَةً تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ، وَلْيَكْسُهُ مِنْ لِبَاسِهِ، وَلَا يُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے آزمائشی طور پر تمہارے ماتحت کردیا ہے لہٰذا جس کا بھائی اس کی ماتحتی میں ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے کھانے میں سے اسے کھلائے اپنے لباس میں سے اسے پہنائے اور اس سے ایساکام نہ لے جس سے وہ مغلوب ہوجائے اگر ایسا کام لینا ہو تو خود بھی اس کے ساتھ تعاون کرے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6050، م: 1661
حدیث نمبر: 21410
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن عمر بن ذر ، قال: قال مجاهد : عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لم يبعث الله نبيا إلا بلغة قومه" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ مُجَاهِدٌ : عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمْ يَبْعَثْ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا بِلُغَةِ قَوْمِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو مبعوث فرمایا اسے اس قوم کی زبان میں ہی مبعوث فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مجاهد لم يسمع من أبى ذر، لكن متنه صحيح، فقد نص القرآن الكريم على ذلك
حدیث نمبر: 21411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن الحارث ، عن عمر بن سعيد ، عن بشر بن عاصم ، عن عاصم ، قال: قال عبد الله بن الحارث ابوه، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، سبقنا اصحاب الاموال والدثور سبقا بينا، يصلون ويصومون كما نصلي ونصوم، وعندهم اموال يتصدقون بها، وليست عندنا اموال؟!، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبرك بعمل إن اخذت به ادركت من كان قبلك، وفت من يكون بعدك؟ إلا احدا اخذ بمثل عملك تسبح خلاف كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وتحمد ثلاثا وثلاثين، وتكبر اربعا وثلاثين" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: قَال عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ أَبُوهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَبَقَنَا أَصْحَابُ الْأَمْوَالِ وَالدُّثُورِ سَبْقًا بَيِّنًا، يُصَلُّونَ وَيَصُومُونَ كَمَا نُصَلِّي وَنَصُومُ، وَعِنْدَهُمْ أَمْوَالٌ يَتَصَدَّقُونَ بِهَا، وَلَيْسَتْ عِنْدَنَا أَمْوَالٌ؟!، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكَ بِعَمَلٍ إِنْ أَخَذْتَ بِهِ أَدْرَكْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَفُتَّ مَنْ يَكُونُ بَعْدَكَ؟ إِلَّا أَحَدًا أَخَذَ بِمِثْلِ عَمَلِكَ تُسَبِّحُ خِلَافَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! مال و دولت والے واضح طور پر ہم سے سبقت لے گئے ہیں وہ ہماری طرح نماز روزہ بھی کرتے اور ان کے پاس مال بھی ہے جس سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے جسے ہم صدقہ کرسکیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتادوں جس پر اگر تم عمل کرلو تو اپنے سے پہلے والوں کو پالو اور بعد والوں کو پیچھے چھوڑ دو؟ الاّ یہ کہ کوئی تم جیسا ہی عمل کرلے ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٤ مرتبہ الحمد اللہ کہہ لیا کرو۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 1006، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21412
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم جالسا في ظل الكعبة، قال: فاقبلت فلما رآني، قال: " هم الاخسرون ورب الكعبة" فجلست فلم اتقار ان قمت إليه، فقلت من هم فداك ابي وامي؟ قال:" هم الاكثرون مالا إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وهكذا، وقليل ما هم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: " هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ" فَجَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي؟ قَالَ:" هُمْ الْأَكْثَرُونَ مَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ خانہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ خسارے میں ہیں مجھے ایک شدید غم نے آگھیرا اور میں اپنا سانس درست کرتے ہوئے سوچنے لگا شاید میرے متعلق کوئی نئی بات ہوگئی ہے چنانچہ میں نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیادہ مالدار، سوائے اس آدمی کے جو اللہ کے بندوں میں اس اس طرح تقسیم کرے لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1237، م: 94
حدیث نمبر: 21413
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن قرة ، حدثنا الحسن ، حدثني صعصعة بن معاوية ، قال: انتهيت إلى الربذة، فإذا انا بابي ذر قد تلقاني برواحل قد اوردها، ثم اصدرها، وقد اعلق قربة في عنق بعير منها ليشرب ويسقي اصحابه، وكان خلقا من اخلاق العرب، قلت: ايه يا ابا ذر، ما لك؟ قال لي: عملي، قلت: إيه يا ابا ذر، ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من انفق زوجين من ماله ابتدرته حجبة الجنة"، قلنا: ما هذان الزوجان؟ قال:" إن كانت رجالا فرجلان، وإن كانت خيلا ففرسان، وإن كانت إبلا فبعيران حتى عد اصناف المال كله" . قلت: يا ابا ذر إيه، ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من مسلمين يتوفى لهم ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث، إلا ادخله الله الجنة بفضل رحمته للصبية" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ قُرَّةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنِي صَعْصَعَةُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ، فَإِذَا أَنَا بِأَبِي ذَرٍّ قَدْ تَلَقَّانِي بِرَوَاحِلَ قَدْ أَوْرَدَهَا، ثُمَّ أَصْدَرَهَا، وَقَدْ أَعْلَقَ قِرْبَةً فِي عُنُقِ بَعِيرٍ مِنْهَا لِيَشْرَبَ وَيَسْقِيَ أَصْحَابَهُ، وَكَانَ خُلُقًا مِنْ أَخْلَاقِ الْعَرَبِ، قُلْتُ: أيه يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا لَكَ؟ قَالَ لِي: عَمَلِي، قُلْتُ: إِيهٍ يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ مَالِهِ ابْتَدَرَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ"، قُلْنَا: مَا هَذَانِ الزَّوْجَانِ؟ قَالَ:" إِنْ كَانَتْ رِجَالًا فَرَجْلَانِ، وَإِنْ كَانَتْ خَيْلًا فَفَرَسَانِ، وَإِنْ كَانَتْ إِبِلًا فَبَعِيرَانِ حَتَّى عَدَّ أَصْنَافَ الْمَالِ كُلِّهِ" . قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ إِيهِ، مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يُتَوَفَّى لَهُمْ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ لِلصِّبيَةِ" .
صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں " ربذہ " میں پہنچا وہاں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی وہ کچھ سواریاں پانی کے گھاٹ پر لے گئے پھر وہاں سے انہیں لا رہے تھے اور ایک اونٹ کی گردن میں ایک مشکیزہ لٹکا رکھا تھا تاکہ خود بھی پی سکیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی پلا سکیں جو کہ اہل عرب کی عادت تھی میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس مال ہے؟ انہوں نے فرمایا میرے پاس میرے اعمال ہیں میں نے عرض کیا کہ اے ابوذر رضی اللہ عنہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فرماتے ہوئے سنا ہے اس میں سے کچھ سنائیے انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے مال میں سے دو جوڑے " خرچ کرتا ہے جنت کے دربان اس کی مسابقت کرتے ہیں میں نے ان سے جوڑے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا اگر غلام ہوں تو دو غلام، گھوڑے ہوں تو دو گھوڑے اور اونٹ ہوں تو دو اونٹ اور انہوں نے مال کی تمام اصناف شمار کروا دیں۔ صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے ان سے کوئی حدیث بیان کرنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کو اپنے فضل سے جنت میں داخل کر دے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21414
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل الاحدب ، عن معرور بن سويد ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعته، يقول: " اتاني آت من ربي فاخبرني او قال: فبشرني، شك مهدي، انه من مات من امتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى، وإن سرق؟ قال:" وإن زنى، وإن سرق" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ ، عَنْ مَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي أَوْ قَالَ: فَبَشَّرَنِي، شَكَّ مَهْدِيٌّ، أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:" وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے عرض کیا وہ بدکاری اور چوری کرتا رہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ وہ بدکاری اور چوری کرتا پھرے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1237، م: 94
حدیث نمبر: 21415
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا سلام ابو المنذر ، عن محمد بن واسع ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: امرني خليلي صلى الله عليه وسلم بسبع " امرني بحب المساكين، والدنو منهم، وامرني ان انظر إلى من هو دوني، ولا انظر إلى من هو فوقي، وامرني ان اصل الرحم وإن ادبرت، وامرني ان لا اسال احدا شيئا، وامرني ان اقول بالحق وإن كان مرا، وامرني ان لا اخاف في الله لومة لائم، وامرني ان اكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنهن من كنز تحت العرش" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَمَرَنِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ " أَمَرَنِي بِحُبِّ الْمَسَاكِينِ، وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ دُونِي، وَلَا أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقِي، وَأَمَرَنِي أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أَسْأَلَ أَحَدًا شَيْئًا، وَأَمَرَنِي أَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أَخَافَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَمَرَنِي أَنْ أُكْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم دیا ہے انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ مساکین سے محبت کرنے اور ان سے قریب رہنے کا اپنے نیچے والے کو دیکھنے اور اوپر والے کو نہ دیکھنے کا صلہ رحمی کرنے کا گو کہ کوئی اسے توڑ ہی دے کسی سے کچھ نہ مانگنے کا حق بات کہنے کا خواہ وہ تلخ ہی ہو اللہ کے بارے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کا اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کی کثرت کا کیونکہ یہ کلمات عرش کے نیچے ایک خزانے سے آئے ہیں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21416
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي قلابة ، عن ابي اسماء ، انه دخل على ابي ذر وهو بالربذة وعنده امراة له سوداء مشبعة ليس عليها اثر المجاسد ولا الخلوق، قال: فقال: الا تنظرون إلى ما تامرني به هذه السويداء؟! تامرني ان آتي العراق، فإذا اتيت العراق مالوا علي بدنياهم، وإن خليلي صلى الله عليه وسلم عهد إلي" ان دون جسر جهنم طريقا ذا دحض ومزلة، وإنا ناتي عليه وفي احمالنا اقتدار"، وحدث مطر ايضا بالحديث اجمع في قول احدهما: ان ناتي عليه وفي احمالنا اقتدار، وقال الآخران: ناتي عليه وفي احمالنا اضطمار احرى ان ننجو، من ان ناتي عليه ونحن مواقير .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ بِالرَّبَذَةِ وَعِنْدَهُ امْرَأَةٌ لَهُ سَوْدَاءُ مشْبَعة لَيْسَ عَلَيْهَا أَثَرُ الْمَجَاسِدِ وَلَا الْخَلُوقِ، قَالَ: فَقَالَ: أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى مَا تَأْمُرُنِي بِهِ هَذِهِ السُّوَيْدَاءُ؟! تَأْمُرُنِي أَنْ آتِيَ الْعِرَاقَ، فَإِذَا أَتَيْتُ الْعِرَاقَ مَالُوا عَلَيَّ بِدُنْيَاهُمْ، وَإِنَّ خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ" أَنَّ دُونَ جِسْرِ جَهَنَّمَ طَرِيقًا ذَا دَحْضٍ وَمَزِلَّةٍ، وَإِنَّا نَأْتِي عَلَيْهِ وَفِي أَحْمَالِنَا اقْتِدَارٌ"، وَحَدَّثَ مَطَرٌ أَيْضًا بِالْحَدِيثِ أَجْمَعَ فِي قَوْلِ أَحَدِهِمَا: أَنْ نَأْتِيَ عَلَيْهِ وَفِي أَحْمَالِنَا اقْتِدَارٌ، وَقَالَ الْآخَرُانْ: نَأْتِيَ عَلَيْهِ وَفِي أَحْمَالِنَا اضْطِمَارٌ أَحْرَى أَنْ نَنْجُوَ، مِنْ أَنْ نَأْتِيَ عَلَيْهِ وَنَحْنُ مَوَاقِيرُ .
ابو اسماء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوئے جب کہ وہ مقام ربذہ میں تھے ان کے پاس ان کی سیاہ فام صحت مند بیوی بھی تھی لیکن اس پر بناؤ سنگھار یا خوشبو کے کوئی اثرات نہ تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا اس حبشن کو دیکھو یہ مجھے کیا کہتی ہے؟ یہ کہتی ہے کہ میں عراق چلا جاؤں جب میں عراق جاؤں گا تو وہاں کے لوگ اپنی دنیا کے ساتھ میرے پاس آئیں گے اور میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جہنم کے پل پر ایک راستہ ہوگا جو لڑکھڑانے اور پھسلن والا ہوگا اس لئے جب ہم اس پل پر پہنچیں تو ہمارے سامان میں کوئی وزنی چیز نہ ہونا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ ہم وہاں سامان کے بوجھ تلے دبے ہوئے پہنچیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هاشم ، حدثنا المبارك بن فضالة ، عن ابي نعامة ، حدثني عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال" يا ابا ذر، إنها ستكون عليكم ائمة يميتون الصلاة، فإن ادركتموهم فصلوا الصلاة لوقتها، واجعلوا صلواتكم معهم نافلة" ، حدثنا حسين ، حدثنا المبارك ، حدثني ابو نعامة ، حدثني عبد الله بن الصامت ، ان ابا ذر ، قال له: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، إنها ستكون ائمة" فذكر الحديث.حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّهَا سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ، فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلَوَاتِكُمْ مَعَهُمْ نَافِلَةً" ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ ، أَنَّ أَبَا ذَرّ ، قَالَ لَهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّهَا سَتَكُونُ أَئِمَّةٌ" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! عنقریب کچھ حکمران آئیں گے جو نماز کو وقت مقررہ پر ادا نہ کریں گے تم نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرنا اگر تم اس وقت آؤ جب لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو تم اپنی نماز محفوظ کرچکے ہوگے اور اگر انہوں نے نماز نہ پڑھی ہو تو تم ان کے ساتھ شریک ہوجانا اور یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 648، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 648، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21419
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن عاصم ، عن داود ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن جبير بن نفير ، عن ابي ذر ، قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان فلم يقم بنا شيئا من الشهر، حتى إذا كان ليلة اربع وعشرين، قام بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كاد ان يذهب ثلث الليل، فلما كانت الليلة التي تليها، لم يقم بنا، فلما كانت ليلة ست وعشرين، قام بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كاد ان يذهب شطر الليل، قال: قلت: يا رسول الله، لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه! قال:" لا، إن الرجل إذا قام مع الإمام حتى ينصرف، حسب له قيام ليلة" فلما كانت الليلة التي تليها لم يقم بنا، فلما ان كانت ليلة ثمان وعشرين جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم اهله واجتمع له الناس، فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كاد يفوتنا الفلاح، قلت: وما الفلاح؟ قال السحور: ثم لم يقم بنا يا ابن اخي شيئا من الشهر .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ، حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةُ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ، قَامَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَذْهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي تَلِيهَا، لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ سِتٍّ وَعِشْرِينَ، قَامَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَذْهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ! قَالَ:" لَا، إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ، حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ" فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي تَلِيهَا لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا أَنْ كَانَتْ لَيْلَةُ ثَمَانٍ وَعِشْرِينَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَهُ وَاجْتَمَعَ لَهُ النَّاسُ، فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَادَ يَفُوتُنَا الْفَلَاحُ، قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ السُّحُورُ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا يَا ابْنَ أَخِي شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا جب ٢٤ ویں شب ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتی کہ تہائی رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی جب اگلی رات آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں فرمایا اور ٢٦ ویں شب کو ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام فرمایا کہ نصف رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر رات کے باقی حصے میں بھی آپ ہمیں نوافل پڑھاتے رہتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب کوئی شخص امام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور فراغت تک شامل رہتا ہے تو اسے ساری رات قیام میں ہی شمار کیا جائے گا۔ اگلی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا ٢٨ ویں شب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کو جمع کیا لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اتنی دیر تک نماز پڑھائی کہ ہمیں " فلاح " کے فوت ہونے کا اندیشہ ہونے لگا میں نے " فلاح " کا معنی پوچھا تو انہوں نے اس کا معنی سحری بتایا پھر فرمایا اے بھتیجے! اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی کسی رات میں ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الضعف على بن عاصم، وقد خولف
حدیث نمبر: 21420
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الرحمن ، وعبد الصمد ، المعنى، قالا: حدثنا همام ، عن قتادة ، قال عبد الصمد : حدثنا قتادة ، عن ابي قلابة ، عن ابي اسماء ، وقال عبد الصمد الرحبي ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه عز وجل: " إني حرمت على نفسي الظلم، وعلى عبادي، الا فلا تظالموا، كل بني آدم يخطئ بالليل والنهار ثم يستغفرني فاغفر له ولا ابالي، وقال: يا بني آدم كلكم كان ضالا إلا من هديت، وكلكم كان عاريا إلا من كسوت، وكلكم كان جائعا إلا من اطعمت، وكلكم كان ظمآن إلا من سقيت، فاستهدوني اهدكم، واستكسوني اكسكم، واستطعموني اطعمكم، واستسقوني اسقكم، يا عبادي لو ان اولكم وآخركم وجنكم وإنسكم وصغيركم وكبيركم وذكركم وانثاكم، قال عبد الصمد: وعييكم وبنيكم، على قلب اتقاكم رجلا واحدا لم، تزيدوا في ملكي شيئا، ولو ان اولكم وآخركم وجنكم وإنسكم وصغيركم وكبيركم وذكركم وانثاكم على قلب اكفركم رجلا، لم تنقصوا من ملكي شيئا إلا كما ينقص راس المخيط من البحر" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ : حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ الرَّحَبِيُّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ: " إِنِّي حَرَّمْتُ عَلَى نَفْسِي الظُّلْمَ، وَعَلَى عِبَادِي، أَلَا فَلَا تَظَالَمُوا، كُلُّ بَنِي آدَمَ يُخْطِئُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرُ لَهُ وَلَا أُبَالِي، وَقَالَ: يَا بَنِي آدَمَ كُلُّكُمْ كَانَ ضَالًّا إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ، وَكُلُّكُمْ كَانَ عَارِيًا إِلَّا مَنْ كَسَوْتُ، وَكُلُّكُمْ كَانَ جَائِعًا إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُ، وَكُلُّكُمْ كَانَ ظَمْآن إِلَّا مَنْ سَقَيْتُ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ، وَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ، وَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ، وَاسْتَسْقُونِي أَسْقِكُمْ، يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَجِنَّكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَصَغِيرَكُمْ وَكَبِيرَكُمْ وَذَكَرَكُمْ وَأُنْثَاكُمْ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: وَعُيِيَّكُمْ وَبَنِيكُمْ، عَلَى قَلْبِ أَتْقَاكُمْ رَجُلًا وَاحِدًا لَمْ، تَزِيدُوا فِي مُلْكِي شَيْئًا، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَجِنَّكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَصَغِيرَكُمْ وَكَبِيرَكُمْ وَذَكَرَكُمْ وَأُنْثَاكُمْ عَلَى قَلْبِ أَكْفَرِكُمْ رَجُلًا، لَمْ تُنْقِصُوا مِنْ مُلْكِي شَيْئًا إِلَّا كَمَا يُنْقِصُ رَأْسُ الْمِخْيَطِ مِنَ الْبَحْرِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دے رکھا ہے اس لئے ایک دوسرے پر ظلم مت کیا کرو تمام بنی آدم دن رات گناہ کرتے رہتے ہیں پھر مجھ سے معافی مانگتے ہیں تو میں انہیں معاف کردیتا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں نیز ارشاد ربانی ہے اے بنی آدم تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں اور تم میں سے ہر ایک برہنہ ہے سوائے اس کے جسے میں لباس دے دوں تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھلا دوں اور تم میں سے ہر ایک پیاسا ہے سوائے اس کے جسے میں سیراب کر دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا مجھ سے طلب کرو میں تمہیں لباس دوں گا مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا دوں گا اور مجھ سے پانی مانگو میں تمہیں پلاؤں گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس چھوٹے بڑے اور مرد و عورت تم میں سب سے متقی آدمی کے دل پر ایک انسان کی طرح جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں کچھ اضافہ نہ کرسکیں گے اور اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس چھوٹے بڑے اور مرد و عورت سب ایک کافر آدمی کے دل پر جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں اتنی کمی بھی نہیں کرسکیں گے جتنی کمی سوئی کا سرا سمندر میں ڈال کر نکالنے سے ہوتی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2577
حدیث نمبر: 21421
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال:" المسجد الحرام"، قال: قلت: ثم اي؟ قال:" ثم المسجد الاقصى"، قال ابو معاوية يعني بيت المقدس، قال: قلت: كم بينهما؟ قال: " اربعون سنة، واينما ادركتك الصلاة فصل فإنه مسجد" ، وابن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت إبراهيم التيمي ، فذكر معناه.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى"، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: " أَرْبَعُونَ سَنَةً، وَأَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ فَإِنَّهُ مَسْجِدٌ" ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21422
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21423
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي العالية البراء ، قال: اخر ابن زياد الصلاة، فاتاني عبد الله بن الصامت ، فالقيت له كرسيا فجلس عليه، فذكرت له صنيع ابن زياد، فعض على شفته، وضرب فخذي، وقال: إني سالت ابا ذر كما سالتني فضرب فخذي كما ضربت فخذك، وقال: إني سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فضرب فخذي كما ضربت فخذك، فقال: " صل الصلاة لوقتها، فإن ادركتك معهم فصل، ولا تقل إني قد صليت فلا اصلي" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَأَتَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّامِتِ ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنِ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذِكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، فَقَالَ: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي" .
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبیداللہ بن زیاد نے کسی نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کردیا میں نے عبداللہ بن صامت رحمہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہی سوال میں نے اپنے دوست حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا تو انہوں نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہی سوال میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21424
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا احدكم قام يصلي فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل، فإن لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل، فإنه يقطع صلاته الحمار والمراة والكلب الاسود"، قال: فقلت: يا ابا ذر، ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر من الكلب الاصفر؟ فقال: يا ابن اخي سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَحَدُكُمْ قَامَ يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَصْفَرِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21425
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، عن الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن الاحنف بن قيس ، قال: قدمت المدينة فبينا انا في حلقة فيها ملا من قريش إذ جاء رجل، فذكر الحديث، فاتبعته حتى جلس إلى سارية، فقلت: ما رايت هؤلاء إلا كرهوا ما قلت لهم، فقال: إن خليلي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم دعاني، فقال: " يا ابا ذر" فاجبته، فقال:" هل ترى احدا؟" فنظرت ما علا من الشمس وانا اظنه يبعثني في حاجة، فقلت: اراه، قال:" ما يسرني ان لي مثله ذهبا انفقه كله إلا ثلاثة الدنانير" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلَقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا مَا قُلْتَ لَهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ" فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ:" هَلْ تَرَى أُحُدًا؟" فَنَظَرْتُ مَا عَلاَ مِنَ الشَّمْسِ وَأَنَا أَظُنُّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ، فَقُلْتُ: أَرَاهُ، قَالَ:" مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ إِلَّا ثَلَاثَةَ الدَّنَانِيرِ" .
احنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا میں ایک حلقے میں " جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے " شریک تھا کہ ایک آدمی آیا (اس نے ان کے قریب آکر کہا کہ مال و دولت جمع کرنے والوں کو خوشخبری ہو اس داغ کی جو ان کی پشت کی طرف سے داغا جائے گا اور ان کے پیٹ سے نکل جائے گا اور گدی کی جانب سے ایک داغ کی جو ان کی پیشانی سے نکل جائے گا پھر وہ ایک طرف چلا گیا میں اس کے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے قریب جا کر بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کی بات سے خوش نہیں ہوئے؟ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میرے خلیل ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا اے ابوذر! میں نے لبیک کہا، انہوں نے فرمایا احد پہاڑ دیکھ رہے ہو؟ میں نے اوپر نگاہ اٹھا کر سورج کو دیکھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے کسی کام سے بھیجیں گے سو میں نے عرض کیا کہ دیکھ رہا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس پہاڑ کے برابر میرے پاس سونا ہو، میں اس سارے کو خرچ کردوں گا سوائے تین دنانیر کے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1408، م: 992
حدیث نمبر: 21426
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت سويد بن الحارث ، قال: سمعت ابا ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما احب ان لي مثل احد ذهبا، قال شعبة، او قال: ما احب ان لي احدا ذهبا، ادع منه يوم اموت دينارا او نصف دينار إلا لغريم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ الْحَارِثِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، قَالَ شُعْبَةُ، أَوْ قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا، أَدَعُ مِنْهُ يَوْمَ أَمُوتُ دِينَارًا أَوْ نِصْفَ دِينَارٍ إِلَّا لِغَرِيمٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سويد بن الحارث
حدیث نمبر: 21427
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه ذكر اشياء يؤجر فيها الرجل حتى ذكر لي غشيان اهله، فقالوا: يا رسول الله، ايؤجر في شهوته يصيبها؟! قال: " ارايت لو كان آثما، اليس كان يكون عليه الوزر؟!" فقالوا: نعم، قال:" فكذلك يؤجر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَشْيَاءَ يُؤْجَرُ فِيهَا الرَّجُلُ حَتَّى ذَكَرَ لِي غَشَيَانَ أَهْلِهِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُؤْجَرُ فِي شَهْوَتِهِ يُصِيبُهَا؟! قَالَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ آثِمًا، أَلَيْسَ كَانَ يَكُونُ عَلَيْهِ الْوِزْرُ؟!" فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَكَذَلِكَ يُؤْجَرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسی چیزوں کا تذکرہ فرمایا جن پر انسان کو ثواب ملتا ہے اور ان میں اپنی بیوی کے " پاس آنے " کو بھی ذکر فرمایا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا انسان کو اپنی خواہش کی تکمیل پر بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر وہ گناہگار ہوتا تو اسے اس پر عذاب نہ ہوتا؟ لوگوں نے کہا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس طرح عذاب ہوتا ہے اس طرح ثواب ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وسنده منقطع، أبوالبختري لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21428
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي عمران ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: اوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاثة " اسمع واطع ولو لعبد مجدع الاطراف، وإذا صنعت مرقة فاكثر ماءها، ثم انظر اهل بيت من جيرانك فاصبهم منه بمعروف، وصل الصلاة لوقتها، إذا وجدت الإمام قد صلى فقد احرزت صلاتك، وإلا فهي نافلة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثَةٍ " اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِعَبْدٍ مُجَدَّعِ الْأَطْرَافِ، وَإِذَا صَنَعْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ فَأَصِبْهُمْ مِنْهُ بِمَعْرُوفٍ، وَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، إِذَا وَجَدْتَ الْإِمَامَ قَدْ صَلَّى فَقَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ، وَإِلَّا فَهِيَ نَافِلَةٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے (١) بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ کٹے ہوئے اعضاء والے غلام حکمران کی ہو (٢) جب سالن بناؤ تو اس کا پانی بڑھالیا کرو پھر اپنے ہمسائے میں رہنے والوں کو دیکھو اور بھلے طریقے سے ان تک بھی اسے پہنچاؤ (٣) اور نماز کو وقت مقررہ پر ادا کیا کرو اور جب تم امام کو نماز پڑھ کر فارغ دیکھو تو تم اپنی نماز پڑھ ہی چکے ہوگے ورنہ وہ نفلی نماز ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21429
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، عن ابي مسعود ، عن ابي عبد الله الجسري ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن احب الكلام إلى الله ان يقول العبد: سبحان الله وبحمده" ، قال حجاج: إنه سال النبي صلى الله عليه وسلم عن احب العمل إلى الله، او قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن احب الكلام إلى الله سبحان الله وبحمده".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَنْ يَقُولَ الْعَبْدُ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" ، قَالَ حَجَّاجٌ: إِنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَحَبِّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ، أَوْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ".
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کلام سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے منتخب کیا ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2731
حدیث نمبر: 21430
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " يقطع الصلاة إذا لم يكن بين يدي الرجل مثل آخرة الرحل المراة والحمار والكلب الاسود" فقلت ما بال الاسود في الاحمر؟! فقال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" إن الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ" فَقُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ فِي الْأَحْمَرِ؟! فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" إِنَّ الْأَسْوَدَ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلاحصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 510
حدیث نمبر: 21431
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، قال: واصل الاحدب ، اخبرني، قال: سمعت المعرور بن سويد ، قال: لقيت ابا ذر بالربذة وعليه ثوب، وعلى غلامه ثوب، فذكر معناه، اي معنى الحديث الذي بعده..حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ ، أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ الْمَعْرُورَ بْنَ سُوَيْدٍ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ، وَعَلَى غُلَامِهِ ثَوْبٌ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، أَيْ مَعْنَى الْحَدِيثِ الَّذِي بَعْدَهُ..
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6050، م: 1661
حدیث نمبر: 21432
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن واصل الاحدب ، عن المعرور بن سويد ، قال حجاج ، سمعت المعرور ، قال: رايت ابا ذر وعليه حلة، قال حجاج بالربذة، وعلى غلامه مثله، قال حجاج مرة اخرى فسالته عن ذلك، فذكر انه ساب رجلا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعيره بامه، قال: فاتى الرجل النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " إنك امرؤ فيك جاهلية، إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت ايديكم، فمن كان اخوه تحت يده، فليطعمه مما ياكل، وليكسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فاعينوهم عليه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ حَجَّاجٌ ، سَمِعْتُ الْمَعْرُورَ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، قَالَ حَجَّاجٌ بِالرَّبَذَةِ، وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُهُ، قَالَ حَجَّاجٌ مَرَّةً أُخْرَى فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ سَابَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَيَّرَهُ بِأُمِّهِ، قَالَ: فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيَكْسُهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ عَلَيْهِ" .
معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے (ربذہ میں) حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا ویسا ہی ان کے غلام نے پہن رکھا تھا میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک دن انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو سخت سست کہتے ہوئے اسے اس کی ماں کی جانب سے عار دلائی وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بات کا ذکر کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ابھی زمانہ جاہلیت کا کچھ اثر باقی ہے تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے اس لئے جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے اور تم انہیں ایسے کام پر مجبور نہ کرو جو ان سے نہ ہوسکے اگر ایسا کرنا پڑجائے تو تم بھی ان کی مدد کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6050، م: 1661
حدیث نمبر: 21433
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن واصل الاحدب ، عن المعرور ، قال: سمعت ابا ذر يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتاني جبريل فبشرني" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ ، عَنِ الْمَعْرُورِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَتَانِي جِبْرِيلُ فَبَشَّرَنِي" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے عرض کیا وہ بدکاری اور چوری کرتا رہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ وہ بدکاری اور چوری کرتا پھرے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7487، م: 94
حدیث نمبر: 21434
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وقال حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" بشرني جبريل: انه من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة" قال: قلت: وإن زنى وإن سرق؟ قال:" وإن زنى وإن سرق".وَقَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" بَشَّرَنِي جِبْرِيلُ: أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ" قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ".

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1237، م: 94
حدیث نمبر: 21435
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، وبهز ، وحجاج ، قالوا: حدثنا شعبة ، عن واصل ، قال بهز: حدثنا واصل الاحدب ، عن مجاهد ، وقال حجاج: سمعت مجاهدا، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اعطيت خمسا لم يعطهن احد قبلي جعلت لي الارض طهورا ومسجدا، واحلت لي الغنائم، ولم تحل لنبي قبلي، ونصرت بالرعب مسيرة شهر على عدوي، وبعثت إلى كل احمر واسود، واعطيت الشفاعة، وهي نائلة من امتي من لا يشرك بالله شيئا"، قال حجاج:" من مات لا يشرك بالله شيئا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَبَهْزٌ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاصِلٍ ، قَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، وَقَالَ حَجَّاجٌ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِنَبِيٍّ قَبْلِي، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ عَلَى عَدُوِّي، وَبُعِثْتُ إِلَى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا"، قَالَ حَجَّاجٌ:" مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں چنانچہ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور ایک مہینے کی مسافت پر ہی دشمن مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دے دیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ مانگیے آپ کو دیا جائے گا تو میں نے اپنا یہ حق اپنی امت کی سفارش کے لئے محفوظ کرلیا ہے اور یہ شفاعت تم میں سے ہر اس شخص کو مل کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، مجاهد لم يسمعه من أبى ذر
حدیث نمبر: 21436
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن علي بن مدرك ، عن ابي زرعة ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم"، قال: فقراها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرار، قال: فقال ابو ذر: وخسروا، وخابوا وخسروا، وخابوا وخسروا، قال: من هم يا رسول الله؟ قال:" المسبل إزاره، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ"، قَالَ: فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرارٍ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: وَخَسِرُوا، وخَابُوا وَخَسِرُوا، وخَابُوا وَخَسِرُوا، قَالَ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھا گا اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور خسارے میں پڑگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا کر فرمایا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 106
حدیث نمبر: 21437
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن يحيى بن سام ، عن موسى بن طلحة ، عن ابي ذر ، انه قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صمت من شهر ثلاثا، فصم ثلاث عشرة، واربع عشرة، وخمس عشرة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَامٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صُمْتَ مِنْ شَهْرٍ ثَلَاثًا، فَصُمْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص مہینے میں تین دن روزے رکھنا چاہتا ہو اسے ایام بیض کے روزے رکھنے چاہئیں۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21438
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن منذر الثوري ، عن اشياخ لهم، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن منذر بن يعلى ابي يعلى ، عن اشياخ له، عن ابي ذر ، فذكر معناه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى شاتين تنتطحان، فقال:" يا ابا ذر، هل تدري فيم تنتطحان؟" قال: لا، قال:" لكن الله يدري، وسيقضي بينهما" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُنْذِرِ بْنِ يَعْلَى أَبِي يَعْلَى ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى شَاتَيْنِ تَنْتَطِحَانِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ تَدْرِي فِيمَ تَنْتَطِحَانِ؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" لَكِنَّ اللَّهَ يَدْرِي، وَسَيَقْضِي بَيْنَهُمَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دو بکریوں کو آپس میں ایک دوسرے سے سینگوں کے ساتھ ٹکراتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ابوذر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس وجہ سے ایک دوسرے کو سینگ مار رہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ جانتا ہے اور عنقریب ان کے درمیان بھی فیصلہ فرمائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف الجهالة أشياخ منذر الثوري
حدیث نمبر: 21439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن المنذر الثوري ، عن اشياخ لهم، عن ابي ذر ، قال: " لقد تركنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يتقلب في السماء طائر إلا ذكرنا منه علما" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ الْمُنْذِرِ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ أَشْيَاخٍ لَهُمْ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: " لَقَدْ تَرَكَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَتَقَلَّبُ فِي السَّمَاءِ طَائِرٌ إِلَّا ذَكَّرَنَا مِنْهُ عِلْمًا" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں چھوڑ کر گئے تو آسمان میں اپنے پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہ تھا جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بتایا نہ ہو۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أشياخ منذر الثوري
حدیث نمبر: 21440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، حدثنا فطر ، عن منذر ، عن ابي ذر المعنى.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنِ مُنْذِرِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْمَعْنَى.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، منذر لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21441
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، قال شعبة اخبرنا، عن مهاجر ابي الحسن من بني تيم الله مولى لهم، قال: رجعنا من جنازة فمررنا بزيد بن وهب فحدث، عن ابي ذر ، قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فاراد المؤذن ان يؤذن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابرد" ثم اراد ان يؤذن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابرد" قالها: ثلاث مرات، قال: حتى راينا فيء التلول فصلى، ثم قال: " إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر، فابردوا بالصلاة" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ مَوْلًى لَهُمْ، قَالَ: رَجَعْنَا مِنْ جَنَازَةٍ فَمَرَرْنَا بِزَيْدِ بْنِ وَهْبٍ فَحَدَّثَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْرِدْ" ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْرِدْ" قَالَهَا: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ فَصَلَّى، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ" .
زید بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جنازے سے واپس آرہے تھے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذر ہوا وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے مؤذن نے جب ظہر کی اذان دینا چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ٹھنڈا کر کے اذان دینا دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا حتٰی کہ ہمیں ٹیلوں کا سایہ نظر آنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 539، م: 616
حدیث نمبر: 21442
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، وهاشم ، قالا: حدثنا ليث ، حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن ابن شماسة ، ان معاوية بن حديج مر على ابي ذر وهو قائم عند فرس له فساله ما تعالج من فرسك هذا؟ فقال: إني اظن ان هذا الفرس قد استجيب له دعوته، قال: وما دعاء لبهيمة من البهائم؟ قال: والذي نفسي بيده، ما من فرس إلا وهو يدعو كل سحر، فيقول: " اللهم انت خولتني عبدا من عبادك، وجعلت رزقي بيده، فاجعلني احب إليه من اهله وماله وولده" ، قال عبد الله بن احمد: قال ابي: ووافقه عمرو بن الحارث، عن ابن شماسة.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، وَهَاشِمٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ حُدَيْجٍ مَرَّ عَلَى أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ قَائِمٌ عِنْدَ فَرَسٍ لَهُ فَسَأَلَهُ مَا تُعَالِجُ مِنْ فَرَسِكَ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنِّي أَظُنُّ أَنَّ هَذَا الْفَرَسَ قَدْ اسْتُجِيبَ لَهُ دَعْوَتُهُ، قَالَ: وَمَا دُعَاءُ لِبَهِيمَةِ مِنَ الْبَهَائِمِ؟ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْ فَرَسٍ إِلَّا وَهُوَ يَدْعُو كُلَّ سَحَرٍ، فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ أَنْتَ خَوَّلْتَنِي عَبْدًا مِنْ عِبَادِكَ، وَجَعَلْتَ رِزْقِي بِيَدِهِ، فَاجْعَلْنِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ" ، قَالَ عَبْدُ الله بْنِ أَحْمَدُ: قَالَ أَبِي: وَوَافَقَهُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ.
معاویہ بن حدیج ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو اپنے گھوڑے کے پاس کھڑے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا کہ آپ اپنے گھوڑے کی اتنی دیکھ بھال کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ اس گھوڑے کی دعاء قبول ہوگئی ہے انہوں نے ان سے پوچھا کہ جانور کی دعاء کا کیا مطلب؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کوئی گھوڑا ایسا نہیں ہے جو روزانہ سحری کے وقت یہ دعاء نہ کرتا ہو اے اللہ آپ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو میرا مالک بنایا ہے اور میرا رزق اس کے ہاتھ میں رکھا ہے لہٰذا مجھے اس کی نظروں میں اس کے اہل خانہ اور مال و اولاد سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔

حكم دارالسلام: إسناد هذا الأثر صحيح
حدیث نمبر: 21443
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بشر بن المفضل ، عن خالد بن ذكوان ، حدثني ايوب بن بشير ، عن فلان العنزي ، ولم يقل الغبري، انه اقبل مع ابي ذر ، فلما رجع تقطع الناس عنه، فقلت: يا ابا ذر، إني سائلك عن بعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إن كان سرا من سر رسول الله صلى الله عليه وسلم لم احدثك به، قلت: ليس بسر، ولكن" كان إذا لقي الرجل ياخذ بيده يصافحه؟" قال: على الخبير سقطت، لم يلقني قط إلا اخذ بيدي غير مرة واحدة، وكانت تلك آخرهن، ارسل إلي فاتيته في مرضه الذي توفي فيه، فوجدته مضطجعا فاكببت عليه، فرفع يده فالتزمني صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ ذَكْوَانَ ، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ بْنُ بُشَيْرٍ ، عَنْ فُلَانٍ الْعَنَزِيِّ ، وَلَمْ يَقُلْ الْغُبَرِيّ، أَنَّهُ أَقْبَلَ مَعَ أَبِي ذَرٍّ ، فَلَمَّا رَجَعَ تَقَطَّعَ النَّاسُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ بَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِنْ كَانَ سِرًّا مِنْ سِرِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أُحَدِّثْكَ بِهِ، قُلْتُ: لَيْسَ بِسِرٍّ، وَلَكِنْ" كَانَ إِذَا لَقِيَ الرَّجُلَ يَأْخُذُ بِيَدِهِ يُصَافِحُهُ؟" قَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، لَمْ يَلْقَنِي قَطُّ إِلَّا أَخَذَ بِيَدِي غَيْرَ مَرَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَكَانَتْ تِلْكَ آخِرَهُنَّ، أَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَوَجَدْتُهُ مُضْطَجِعًا فَأَكْبَبْتُ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ يَدَهُ فَالْتَزَمَنِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
فلان عنزی کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کہیں سے واپس آرہے تھے راستے میں ایک جگہ لوگ منتشر ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوذر! میں آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا اگر کوئی راز کی بات ہوئی تو وہ نہیں بتاؤں گا میں نے عرض کیا کہ راز کی بات نہیں ہے اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا تم نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی میری ملاقات ہوئی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے مصافحہ فرمایا سوائے ایک مرتبہ کے اور وہ سب سے آخر میں واقعہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر مجھے بلایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیٹا ہوا دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مجھے سینے سے لگالیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة العنزي وأيوب بن بشير
حدیث نمبر: 21444
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني ابو الحسين ، عن ايوب بن بشير بن كعب العدوي ، عن رجل من عنزة، انه قال لابي ذر : حين سير من الشام، فذكر الحديث، وقال فيه: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصافحكم إذا لقيتموه؟ فقال: ما لقيته قط إلا صافحني .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنَزَةَ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي ذَرٍّ : حِينَ سُيِّرَ مِنَ الشَّامِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُكُمْ إِذَا لَقِيتُمُوهُ؟ فَقَالَ: مَا لَقِيتُهُ قَطُّ إِلَّا صَافَحَنِي .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مدینہ منورہ کے کسی کنارے سے نکلے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بوذر! نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرنا اگر تم اس وقت آؤ جب لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو تم اپنی نماز محفوظ کرچکے ہوگے اور اگر انہوں نے نماز نہ پڑھی ہو تو تم ان کے ساتھ شریک ہوجانا اور یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة العنزي وأيوب بن بشير
حدیث نمبر: 21445
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد العمي ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: كنت خلف النبي صلى الله عليه وسلم حين خرجنا من حاشي المدينة، فقال:" يا ابا ذر، صل الصلاة لوقتها، وإن جئت وقد صلى الإمام كنت قد احرزت صلاتك قبل ذلك، وإن جئت ولم يصل صليت معه، وكانت صلاتك لك نافلة، وكنت قد احرزت صلاتك، يا ابا ذر، ارايت إن الناس جاعوا حتى لا تبلغ مسجدك من الجهد، او لا ترجع إلى فراشك من الجهد، فكيف انت صانع؟"، قال: قلت: الله ورسوله اعلم! قال:" تصبر"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن الناس ماتوا حتى يكون البيت بالعبد فكيف انت صانع؟" قال: قلت: الله ورسوله اعلم! قال:" تعفف"، قال:" يا ابا ذر، ارايت إن الناس قتلوا حتى تغرق حجارة الزيت من الدماء، كيف انت صانع؟" قلت: الله ورسوله اعلم! قال:" تدخل بيتك" قلت: يا رسول الله، فإن انا دخل علي؟ قال:" تاتي من انت منه"، قال: قلت: واحمل السلاح؟ قال:" إذا شاركت"، قال: قلت: كيف اصنع يا رسول الله؟ قال:" إن خفت ان يبهرك شعاع السيف، فالق طائفة من ردائك على وجهك، يبؤ بإثمك وإثمه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجْنَا مِنْ حَاشِي الْمَدِينَةِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَإِنْ جِئْتَ وَقَدْ صَلَّى الْإِمَامُ كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ قَبْلَ ذَلِكَ، وَإِنْ جِئْتَ وَلَمْ يُصَلِّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، وَكَانَتْ صَلَاتُكَ لَكَ نَافِلَةً، وَكُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ، يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ النَّاسُ جَاعُوا حَتَّى لَا تَبْلُغَ مَسْجِدَكَ مِنَ الْجَهْدِ، أَوْ لَا تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ مِنَ الْجَهْدِ، فَكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ؟"، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ! قَالَ:" تَصَبَّرْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ النَّاسُ مَاتُوا حَتَّى يَكُونَ الْبَيْتُ بِالْعَبْدِ فَكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ! قَالَ:" تَعَفَّفْ"، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرَأَيْتَ إِنْ النَّاسُ قُتِلُوا حَتَّى تَغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ مِنَ الدِّمَاءِ، كَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ! قَالَ:" تَدْخُلُ بَيْتَكَ" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ أَنَا دُخِلَ عَلَيَّ؟ قَالَ:" تَأْتِي مَنْ أَنْتَ مِنْهُ"، قَالَ: قُلْتُ: وَأَحْمِلُ السِّلَاحَ؟ قَالَ:" إِذًا شَارَكْتَ"، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِنْ خِفْتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ، فَأَلْقِ طَائِفَةً مِنْ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ، يَبُؤْ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے اور مجھے اپنا ردیف بنالیا اور فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدید قحط میں مبتلا ہوجائیں گے اور تم اپنے بستر سے اٹھ کر مسجد تک نہیں جاسکو گے تو اس وقت تم کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی اپنے آپ کو سوال کرنے سے بچانا پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ شدت کے ساتھ بکثرت مرنے لگیں گے اور آدمی کا گھر قبر ہی ہوگی تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت بھی صبر کرنا، پھر فرمایا ابوذر! یہ بتاؤ کہ جب لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے اور حجارۃ الزیت " خون میں ڈوب جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا اپنے گھر میں بیٹھ جانا اور اس کا دروازہ اندر سے بند کرلینا۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر مجھے گھر میں رہنے ہی نہ دیا جائے تو کیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ان لوگوں کے پاس چلے جانا جن میں سے تم ہو اور ان میں شامل ہوجانا انہوں نے عرض کیا میں تو اپنا اسلحہ پکڑ لوں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم بھی ان کے شریک سمجھے جاؤ گے اس لئے اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلوار کی دھار سے تمہیں خطرہ ہے تو تم اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لینا تاکہ وہ اپنا اور تمہارا گناہ لے کر لوٹ جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21446
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ابن ابي ليلى ، عن عيسى ، عن عبد الرحمن ، عن ابي ذر . ح ومؤمل ، قال: حدثنا سفيان ، عن ابن ابي ليلى ، عن اخيه ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن كل شيء حتى سالته عن مسح الحصى؟، فقال: " واحدة او دع"، قال مؤمل عن تسوية الحصى، او مسح .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ . ح وَمُؤَمَّلٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَخِيهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى سَأَلْتُهُ عَنْ مَسْحِ الْحَصَى؟، فَقَالَ: " وَاحِدَةً أَوْ دَعْ"، قَالَ مُؤَمَّلٌ عَنْ تَسْوِيَةِ الْحَصَى، أَوْ مَسْحِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر چیز کے متعلق سوال کیا ہے حتٰی کہ دوران نماز کنکریوں کو ہٹانے کے متعلق بھی پوچھا ہے جس کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا ہے کہ صرف ایک مرتبہ برابر کرلو یا چھوڑ دو (اسی طرح رہنے دو)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا الإسناد ضعيف، مؤمل وابن أبى ليلي ضعيفان، لكنهما متابعان
حدیث نمبر: 21447
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن داود بن ابي هند ، عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي ، عن جبير بن نفير الحضرمي ، عن ابي ذر ، قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان، فلم يقم بنا من الشهر شيئا حتى بقي سبع، فقام بنا حتى ذهب نحو من ثلث الليل، ثم لم يقم بنا الليلة الرابعة، وقام بنا الليلة التي تليها حتى ذهب نحو من شطر الليل، قال: فقلنا: يا رسول الله، لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه! قال: " إن الرجل إذا قام مع الإمام حتى ينصرف حسب له بقية ليلته ثم لم يقم بنا السادسة، وقام بنا السابعة، وقال: وبعث إلى اهله واجتمع الناس، فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح"، قال: قلت: وما الفلاح؟ قال: السحور .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا مِنَ الشَّهْرِ شَيْئًا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا اللَّيْلَةَ الرَّابِعَةَ، وَقَامَ بِنَا اللَّيْلَةَ الَّتِي تَلِيهَا حَتَّى ذَهَبَ نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ! قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ بَقِيَّةُ لَيْلَتِهِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا السَّادِسَةَ، وَقَامَ بِنَا السَّابِعَةَ، وَقَالَ: وَبَعَثَ إِلَى أَهْلِهِ وَاجْتَمَعَ النَّاسُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا جب ٢٤ ویں شب ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتی کہ تہائی رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی جب اگلی رات آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں فرمایا اور ٢٦ ویں شب کو ہمارے ساتھ اتنالمبا قیام فرمایا کہ نصف رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر رات کے باقی حصے میں بھی آپ ہمیں نوافل پڑھاتے رہتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا نہیں جب کوئی شخص امام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور فراغت تک شامل رہتا ہے تو اسے ساری رات قیام میں ہی شمار کیا جائے گا۔ اگلی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا ٢٨ ویں شب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کو جمع کیا لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اتنی دیر تک نماز پڑھائی کہ ہمیں " فلاح " کے فوت ہونے کا اندیشہ ہونے لگا میں نے " فلاح " کا معنی پوچھا تو انہوں نے اس کا معنی سحری بتایا پھر فرمایا اے بھتیجے! اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی کسی رات میں ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21448
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر . ح وعبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن ابي الاحوص ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قام احدكم إلى الصلاة فإن الرحمة تواجهه، فلا تحركوا الحصى" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ . ح وَعَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا تُحَرِّكُوا الْحَصَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21449
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن حبيب مولى عروة بن الزبير ، عن عروة ، عن ابي مراوح الغفاري ، عن ابي ذر ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فساله، فقال: يا رسول الله، اي الاعمال افضل؟ قال: " إيمان بالله وجهاد في سبيل الله"، فقال: اي العتاقة افضل؟ قال:" انفسها" قال: افرايت إن لم اجد؟ قال:" فتعين الصانع، او تصنع لاخرق"، قال: افرايت إن لم استطع؟ قال:" فدع الناس من شرك، فإنها صدقة تصدق بها عن نفسك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حَبِيبٍ مَوْلَى عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ الْغِفَارِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَقَالَ: أَيُّ الْعَتَاقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْفَسُهَا" قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ؟ قَالَ:" فَتُعِينُ الصَّانِعَ، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ؟ قَالَ:" فَدَعْ النَّاسَ مِنْ شَرِّكَ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَّدَّقُ بِهَا عَنْ نَفْسِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے نفیس اور گراں قیمت ہو عرض کیا کہ اگر مجھے ایسا غلام نہ ملے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ضرورت مند کی مدد کردو یا کسی محتاج کے لئے محنت مزدوری کرلو عرض کیا کہ اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟ فرمایا لوگوں کو اپنی تکلیف سے محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم اپنی طرف سے دیتے ہو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2518، م: 84، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21450
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا محمد بن راشد ، عن مكحول ، عن رجل ، عن ابي ذر ، قال: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل يقال له: عكاف بن بشر التميمي، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عكاف، هل لك من زوجة؟" قال: لا، قال:" ولا جارية؟" قال: ولا جارية، قال:" وانت موسر بخير؟" قال: وانا موسر بخير، قال:" انت إذا من إخوان الشياطين، لو كنت في النصارى كنت من رهبانهم، إن سنتنا النكاح، شراركم عزابكم، واراذل موتاكم عزابكم، ابالشيطان تمرسون! ما للشيطان من سلاح ابلغ في الصالحين من النساء إلا المتزوجون، اولئك المطهرون المبرءون من الخنا، ويحك يا عكاف، إنهن صواحب ايوب وداود ويوسف وكرسف"، فقال له بشر بن عطية ومن كرسف يا رسول الله؟ قال:" رجل كان يعبد الله بساحل من سواحل البحر ثلاث مئة عام، يصوم النهار، ويقوم الليل، ثم إنه كفر بالله العظيم في سبب امراة عشقها، وترك ما كان عليه من عبادة الله، ثم استدرك الله ببعض ما كان منه فتاب عليه، ويحك يا عكاف تزوج، وإلا فانت من المذبذبين" قال: زوجني يا رسول الله، قال:" قد زوجتك كريمة بنت كلثوم الحميري" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: عَكَّافُ بْنُ بِشْرٍ التَّمِيمِيُّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَكَّافُ، هَلْ لَكَ مِنْ زَوْجَةٍ؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" وَلَا جَارِيَةٍ؟" قَالَ: وَلَا جَارِيَةَ، قَالَ:" وَأَنْتَ مُوسِرٌ بِخَيْرٍ؟" قَالَ: وَأَنَا مُوسِرٌ بِخَيْرٍ، قَالَ:" أَنْتَ إِذًا مِنْ إِخْوَانِ الشَّيَاطِينِ، لَوْ كُنْتَ فِي النَّصَارَى كُنْتَ مِنْ رُهْبَانِهِمْ، إِنَّ سُنَّتَنَا النِّكَاحُ، شِرَارُكُمْ عُزَّابُكُمْ، وَأَرَاذِلُ مَوْتَاكُمْ عُزَّابُكُمْ، أَبِالشَّيْطَانِ تَمَرَّسُونَ! مَا لِلشَّيْطَانِ مِنْ سِلَاحٍ أَبْلَغُ فِي الصَّالِحِينَ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا الْمُتَزَوِّجُونَ، أُولَئِكَ الْمُطَهَّرُونَ الْمُبَرَّءُونَ مِنَ الْخَنَا، وَيْحَكَ يَا عَكَّافُ، إِنَّهُنَّ صَوَاحِبُ أَيُّوبَ وَدَاوُدَ وَيُوسُفَ وَكُرْسُفَ"، فَقَالَ لَهُ بِشْرُ بْنُ عَطِيَّةَ وَمَنْ كُرْسُفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" رَجُلٌ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ بِسَاحِلٍ مِنْ سَوَاحِلِ الْبَحْرِ ثَلَاثَ مِئَةِ عَامٍ، يَصُومُ النَّهَارَ، وَيَقُومُ اللَّيْلَ، ثُمَّ إِنَّهُ كَفَرَ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ فِي سَبَبِ امْرَأَةٍ عَشِقَهَا، وَتَرَكَ مَا كَانَ عَلَيْهِ مِنْ عِبَادَةِ اللَّهِ، ثُمَّ اسْتَدْرَكَ اللَّهُ بِبَعْضِ مَا كَانَ مِنْهُ فَتَابَ عَلَيْهِ، وَيْحَكَ يَا عَكَّافُ تَزَوَّجْ، وَإِلَّا فَأَنْتَ مِنَ الْمُذَبْذَبِينَ" قَالَ: زَوِّجْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" قَدْ زَوَّجْتُكَ كَرِيمَةَ بِنْتَ كُلْثُومٍ الْحِمْيَرِيِّ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ " عکاف بن بشر تمیمی " نام کا ایک آدمی آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا عکاف! تمہاری کوئی بیوی ہے؟ عکاف نے کہا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کوئی باندی؟ اس نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم مالدار بھی ہو؟ عرض کیا جی الحمدللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راہبوں میں شمار ہوتے لیکن ہماری سنت تو نکاح ہے تم میں سے بدترین لوگ کنوارے ہیں اور گھٹیا ترین موت مرنے والے کنوارے ہیں کیا تم شیطان سے لڑتے ہو؟ شیطان کے پاس نیک آدمیوں کے لئے عورتوں سے زیادہ کارگر ہتھیار کوئی نہیں سوائے اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یہی لوگ پاکیزہ اور گندگی سے مبرا ہوتے ہیں عکاف یہ عورتیں تو حضرت ایوب علیہ السلام داؤد علیہ السلام، یوسف علیہ السلام اور کرسف علیہ السلام کی ساتھی رہی ہیں بشر بن عطیہ نے پوچھا یا رسول اللہ! کرسف کون تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک آدمی تھا جو کسی ساحل پر تین سو سال تک اللہ کی عبادت میں مصروف رہا دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قیام کرتا تھا لیکن پھر ایک عورت کے عشق کے چکر میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کر بیٹھا اور اللہ کی عبادت بھی چھوڑ دی بعد میں اللہ نے اس کی دستگیری فرمائی اور اس کی توبہ قبول فرمالی ارے عکاف! نکاح کرلو ورنہ تم تذبذب کا شکار رہو گے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ خود ہی میرا نکاح کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے کریمہ بنت کلثوم حمیری سے تمہارا نکاح کردیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن أبى ذر، وللاضطراب الذى وقع فى أسانيده
حدیث نمبر: 21451
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن المغيرة بن النعمان ، حدثنا عبد الله بن يزيد بن الاقنع الباهلي ، حدثنا الاحنف بن قيس ، قال: كنت بالمدينة فإذا انا برجل يفر الناس منه حين يرونه، قال: قلت: من انت؟ قال: انا ابو ذر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: ما يفر الناس؟ قال: إني انهاهم عن الكنوز بالذي كان ينهاهم عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الْأَقْنَعِ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَحْنَفُ بْنُ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ يَفِرُّ النَّاسُ مِنْهُ حِينَ يَرَوْنَهُ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا يُفِرُّ النَّاسَ؟ قَالَ: إِنِّي أَنْهَاهُمْ عَنِ الْكُنُوزِ بِالَّذِي كَانَ يَنْهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
احنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں تھا کہ ایک آدمی پر نظرپڑی جسے دیکھتے ہی لوگ اس سے کنی کترانے لگتے تھے میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ابوذر رضی اللہ عنہ ہوں میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ لوگ کیوں آپ سے کنی کترا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں انہیں مال جمع کرنے سے اسی طرح روکتا ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روکتے تھے۔

حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21452
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، قال: سمعت الاوزاعي ، يقول: اخبرني هارون بن رئاب ، عن الاحنف بن قيس ، قال: دخلت بيت المقدس، فوجدت فيه رجلا يكثر السجود، فوجدت في نفسي من ذلك، فلما انصرف، قلت: اتدري على شفع انصرفت ام على وتر؟ قال: إن اك لا ادري فإن الله عز وجل يدري، ثم قال: اخبرني حبي ابو القاسم صلى الله عليه وسلم، ثم بكى، ثم قال: اخبرني حبي ابو القاسم صلى الله عليه وسلم، ثم بكى، ثم قال: اخبرني حبي ابو القاسم صلى الله عليه وسلم، انه قال: " ما من عبد يسجد لله سجدة، إلا رفعه الله بها درجة، وحط عنه بها خطيئة، وكتب له بها حسنة"، قال: قلت: اخبرني من انت يرحمك الله؟ قال: انا ابو ذر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتقاصرت إلي نفسي .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَوْزَاعِيَّ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ رِئَابٍ ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَوَجَدْتُ فِيهِ رَجُلًا يُكْثِرُ السُّجُودَ، فَوَجَدْتُ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: أَتَدْرِي عَلَى شَفْعٍ انْصَرَفْتَ أَمْ عَلَى وِتْرٍ؟ قَالَ: إِنْ أَكُ لَا أَدْرِي فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَدْرِي، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي حِبِّي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ بَكَى، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي حِبِّي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ بَكَى، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي حِبِّي أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً"، قَالَ: قُلْتُ: أَخْبِرْنِي مَنْ أَنْتَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقَاصَرَتْ إِلَيَّ نَفْسِي .
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں قریش کے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے لگا وہ رکوع سجدہ کرتا پھر کھڑا ہو کر رکوع سجدہ کرتا اور درمیان میں نہ بیٹھتا، میں نے کہا بخدا! یہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتا کہ جفت یا طاق رکعتوں پر سلام پھیر کر فارغ ہوجائے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اٹھ کر ان کے پاس جاتے اور انہیں سمجھاتے کیوں نہیں ہو؟ میں اٹھ کر اس کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا کہ اے بندہ خدا! لگتا ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ جفت یا طاق رکعتوں پر نماز سے فارغ ہوجائیں، اس نے کہا کہ اللہ تو جانتا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے کوئی سجدہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابوذر ہوں تو میں نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آکر کہا کہ اللہ تمہیں تمہارے ساتھیوں کی طرف سے برا بدلہ دے تم مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دین سکھانے کے لئے بھیج دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21453
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، ويزيد ، قالا: حدثنا هشام ، عن الحسن ، حدثني صعصعة ، قال يزيد ابن معاوية، إنه لقي ابا ذر وهو يقود جملا له، وفي عنقه قربة، فقلت له: الا تحدثني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: بلى، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من مسلمين يموت لهما ثلاثة من الولد لم يبلغوا الحنث، إلا ادخلهما الله الجنة بفضل رحمته إياهم، وما من مسلم ينفق من زوجين من ماله في سبيل الله، إلا ابتدرته حجبة الجنة"، وقال يزيد:" إلا ادخلهما الله الجنة بفضل رحمته إياهم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَيَزِيدُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنِي صَعْصَعَةُ ، قَالَ يَزِيدُ ابْنُ مُعَاوِيَةَ، إِنَّهُ لَقِيَ أَبَا ذَرٍّ وَهُوَ يَقُودُ جَمَلًا لَهُ، وَفِي عُنُقِهِ قِرْبَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بَلَى، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ لَهُمَا ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ، وَمَا مِنْ مُسْلِمٍ يُنْفِقُ مِنْ زَوْجَيْنِ مِنْ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا ابْتَدَرَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ"، وَقَالَ يَزِيدُ:" إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ" .
صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس کون سا مال ہے؟ انہوں نے فرمایا میرا مال میرے اعمال ہیں میں نے ان سے کوئی حدیث بیان کرنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو مسلمان یہاں بیوی کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کی بخشش فرما دے گا۔ اور جو مسلمان اپنے ہر مال میں سے دو جوڑے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے دربان تیزی سے اس کے سامنے آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسے اپنی طرف بلاتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21454
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن سعيد الجريري ، عن ابي العلاء بن عبد الله بن الشخير ، عن نعيم بن قعنب ، قال: خرجت إلى الربذة، فإذا ابو ذر قد جاء فكلم امراته في شيء، فكانها ردت عليه، وعاد فعادت، فقال: ما تزدن على ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المراة كالضلع، فإن ثنيتها انكسرت وفيها بلغة واود" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ إِلَى الرَّبَذَةِ، فَإِذَا أَبُو ذَرٍّ قَدْ جَاءَ فَكَلَّمَ امْرَأَتَهُ فِي شَيْءٍ، فَكَأَنَّهَا رَدَّتْ عَلَيْهِ، وَعَادَ فَعَادَتْ، فَقَالَ: مَا تَزِدْنَ عَلَى مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْأَةُ كَالضِّلْعِ، فَإِنْ ثَنَيْتَهَا انْكَسَرَتْ وَفِيهَا بَلْغَةٌ وَأَوَدٌ" .
نعیم بن قعنب کہتے ہیں کہ میں " ربذہ " کی طرف روانہ ہوا تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بھی آگئے انہوں نے اپنی بیوی سے کوئی بات کی اس نے انہیں آگے سے جواب دے دیا دو مرتبہ اسی طرح ہوا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آگے نہیں بڑھ سکتے کہ عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے موڑو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ورنہ اسی ٹیڑھے پن اور بیوقوفی کے ساتھ ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔

حكم دارالسلام: رجاله ثقات
حدیث نمبر: 21455
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن علي بن زيد بن جدعان ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: يقطع الصلاة الكلب الاسود، احسبه قال: والمراة الحائض؟ قال: قلت لابي ذر ما بال الكلب الاسود؟ قال: اما إني قد سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذاك، فقال:" إنه شيطان" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، أَحْسَبُهُ قَالَ: وَالْمَرْأَةُ الْحَائِضُ؟ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ؟ قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَاكَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 510، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد لكنه متابع
حدیث نمبر: 21456
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا الوليد بن جميع القرشي ، حدثنا ابو الطفيل عامر بن واثلة ، عن حذيفة بن اسيد ، قال: قام ابو ذر ، فقال: يا بني غفار، قولوا: ولا تختلفوا، فإن الصادق المصدوق حدثني " ان الناس يحشرون على ثلاثة افواج فوج راكبين طاعمين كاسين، وفوج يمشون ويسعون، وفوج تسحبهم الملائكة على وجوههم وتحشرهم إلى النار"، فقال قائل منهم هذان قد عرفناهما، فما بال الذين يمشون ويسعون؟ قال:" يلقي الله الآفة على الظهر حتى لا يبقى ظهر، حتى إن الرجل ليكون له الحديقة المعجبة، فيعطيها بالشارف ذات القتب، فلا يقدر عليها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ ، قَالَ: قَامَ أَبُو ذَرٍّ ، فَقَالَ: يَا بَنِي غِفَارٍ، قُولُوا: وَلَا تَخْتَلِفُوا، فَإِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ حَدَّثَنِي " أَنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَفْوَاجٍ فَوْجٌ رَاكِبِينَ طَاعِمِينَ كَاسِينَ، وَفَوْجٌ يَمْشُونَ وَيَسْعَوْنَ، وَفَوْجٌ تَسْحَبُهُمْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى وُجُوهِهِمْ وَتَحْشُرُهُمْ إِلَى النَّارِ"، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ هَذَانِ قَدْ عَرَفْنَاهُمَا، فَمَا بَالُ الَّذِينَ يَمْشُونَ وَيَسْعَوْنَ؟ قَالَ:" يُلْقِي اللَّه الْآفَةَ عَلَى الظَّهْرِ حَتَّى لَا يَبْقَى ظَهْرٌ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ لَهُ الْحَدِيقَةُ الْمُعْجِبَةُ، فَيُعْطِيهَا بِالشَّارِفِ ذَاتِ الْقَتَبِ، فَلَا يَقْدِرُ عَلَيْهَا" .
ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اے بنوغفار! جو بات کہا کرو اس میں اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا ہے کہ لوگوں کو تین گروہوں کی شکل میں قیامت کے دن جمع کیا جائے گا ایک تو سواروں کا ہوگا جو کھاتے پیتے اور لباس پہنے ہوں گے دوسرا گروہ پیدل چلنے اور دوڑنے والوں کا ہوگا جن کے چہروں پر فرشتے آگ مسلط کردیں گے اور انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا کسی نے پوچھا کہ ان دو گروہوں کی بات تو ہمیں سمجھ میں آگئی یہ پیدل چلنے اور دوڑنے والوں کا کیا معاملہ ہوگا؟ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ سواری پر کوئی آفت نازل کردے گا حتٰی کہ کوئی سواری نہ رہے گی یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ایک آدمی کے پاس ایک نہایت عمدہ باغ ہو اور اسے کوئی غضبناک اونٹنی دے دی جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اس پر سواری نہیں کرسکے گا۔

حكم دارالسلام: هذا حديث منكر لاجل الوليد بن جميع
حدیث نمبر: 21457
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن مكحول ، عن غضيف بن الحارث رجل من ايلة، قال: مررت بعمر بن الخطاب، فقال: نعم الغلام، فاتبعني رجل ممن كان عنده، فقال: يا ابن اخي، ادع الله لي بخير، قال: قلت: ومن انت رحمك الله؟ قال: انا ابو ذر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: غفر الله لك، انت احق ان تدعو لي مني لك! قال: يا ابن اخي، إني سمعت عمر بن الخطاب حين مررت به آنفا يقول: نعم الغلام، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله وضع الحق على لسان عمر يقول به" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ رَجُلٍ مِنْ أَيْلَةَ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: نِعْمَ الْغُلَامُ، فَاتَّبَعَنِي رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، ادْعُ اللَّهَ لِي بِخَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ أَنْتَ رَحِمُكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ، أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَدْعُوَ لِي مِنِّي لَكَ! قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ مَرَرْتُ بِهِ آنِفًا يَقُولُ: نِعْمَ الْغُلَامُ، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ" .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21458
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، حدثنا محمد بن عمرو ، عن عراك بن مالك ، قال: قال ابو ذر : إني لاقربكم يوم القيامة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اقربكم مني يوم القيامة من خرج من الدنيا كهيئته يوم تركته عليه، وإنه والله ما منكم من احد إلا وقد تشبث منها بشيء غيري" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ خَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ تَرَكْتُهُ عَلَيْهِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ تَشَبَّثَ مِنْهَا بِشَيْءٍ غَيْرِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں تم سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوں گا، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ میرا قرب اسے ملے گا جو دنیا سے اسی حال پر واپس چلاجائے جس پر میں اسے چھوڑ کر جاؤں واللہ میرے علاوہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے دنیا سے کچھ نہ کچھ تعلق وابستہ نہ کرلیا ہو۔

حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، عراك بن مالك لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21459
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، حدثنا سفيان يعني ابن حسين ، عن الحكم ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم على حمار وعليه برذعة او قطيفة، قال: وذلك عند غروب الشمس، فقال لي:" يا ابا ذر، هل تدري اين تغيب هذه؟" قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها تغرب في عين حامية، تنطلق حتى تخر لربها ساجدة تحت العرش، فإذا حان خروجها اذن الله لها فتخرج فتطلع، فإذا اراد ان يطلعها من حيث تغرب حبسها، فتقول: يا رب إن مسيري بعيد فيقول لها اطلعي من حيث غبت، فذلك حين لا ينفع نفسا إيمانها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ وَعَلَيْهِ بَرْذَعَةٌ أَوْ قَطِيفَةٌ، قَالَ: وَذَلِكَ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ تَدْرِي أَيْنَ تَغِيبُ هَذِهِ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَامِيَةٍ، تَنْطَلِقُ حَتَّى تَخِرَّ لِرَبِّهَا سَاجِدَةً تَحْتَ الْعَرْشِ، فَإِذَا حَانَ خُرُوجُهَا أَذِنَ اللَّهُ لَهَا فَتَخْرُجُ فَتَطْلُعُ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُطْلِعَهَا مِنْ حَيْثُ تَغْرُبُ حَبَسَهَا، فَتَقُولُ: يَا رَبِّ إِنَّ مَسِيرِي بَعِيدٌ فَيَقُولُ لَهَا اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ غِبْتِ، فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غروب آفتاب کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جا کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر وہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے جو اسے مل جاتی ہے جب اس سے کہا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلاجا اور وہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے تو یہی اس کا مستقر ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے۔ "

حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عراك بن مالك لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21460
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، ومحمد بن يزيد ، قالا: حدثنا العوام ، قال محمد : عن القاسم ، وقال يزيد في حديثه: حدثني القاسم بن عوف الشيباني ، عن رجل ، قال: كنا قد حملنا لابي ذر شيئا نريد ان نعطيه إياه، فاتينا الربذة، فسالنا عنه فلم نجده، قيل: استاذن في الحج، فاذن له، فاتيناه بالبلدة، وهي منى، فبينا نحن عنده إذ قيل له: إن عثمان صلى اربعا، فاشتد ذلك على ابي ذر، وقال: قولا شديدا، وقال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين، وصليت مع ابي بكر وعمر، ثم قام ابو ذر فصلى اربعا، فقيل له: عبت على امير المؤمنين شيئا، ثم صنعت! قال: الخلاف اشد، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فقال: " إنه كائن بعدي سلطان فلا تذلوه، فمن اراد ان يذله فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه، وليس بمقبول منه توبة حتى يسد ثلمته التي ثلم، وليس بفاعل، ثم يعود فيكون فيمن يعزه"، امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان لا يغلبونا على ثلاث ان نامر بالمعروف، وننهى عن المنكر، ونعلم الناس السنن" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : عَنِ الْقَاسِمِ ، وَقَالَ يَزِيدُ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ: كُنَّا قَدْ حَمَلْنَا لِأَبِي ذَرٍّ شَيْئًا نُرِيدُ أَنْ نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ، فَأَتَيْنَا الرَّبَذَةَ، فَسَأَلْنَا عَنْهُ فَلَمْ نَجِدْهُ، قِيلَ: اسْتَأْذَنَ فِي الْحَجِّ، فَأُذِنَ لَهُ، فَأَتَيْنَاهُ بِالْبَلْدَةِ، وَهِيَ مِنًى، فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ قِيلَ لَهُ: إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى أَرْبَعًا، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى أَبِي ذَرٍّ، وَقَالَ: قَوْلًا شَدِيدًا، وَقَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، ثُمَّ قَامَ أَبُو ذَرٍّ فَصَلَّى أَرْبَعًا، فَقِيلَ لَهُ: عِبْتَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا، ثُمَّ صَنَعْتَ! قَالَ: الْخِلَافُ أَشَدُّ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَقَالَ: " إِنَّهُ كَائِنٌ بَعْدِي سُلْطَانٌ فَلَا تُذِلُّوهُ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُذِلَّهُ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ، وَلَيْسَ بِمَقْبُولٍ مِنْهُ تَوْبَةٌ حَتَّى يَسُدَّ ثُلْمَتَهُ الَّتِي ثَلَمَ، وَلَيْسَ بِفَاعِلٍ، ثُمَّ يَعُودُ فَيَكُونُ فِيمَنْ يُعِزُّهُ"، أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ لَا يَغْلِبُونَا عَلَى ثَلَاثٍ أَنْ نَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَنُعَلِّمَ النَّاسَ السُّنَنَ" .
ایک آدمی کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے کچھ چیزیں اکٹھی کیں تاکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جا کر دے آئیں چنانچہ ہم " ربذہ " میں پہنچے اور انہیں تلاش کرنے لگے لیکن وہ وہاں نہیں ملے کسی نے بتایا کہ انہوں نے حج پر جانے کی اجازت مانگی تھی جو انہیں مل گئی چنانچہ ہم منٰی میں پہنچے ابھی ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے ہی تھے کہ کسی نے آکر انہیں بتایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے منٰی میں چار رکعتیں پڑھائی ہیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اس کا بہت بوجھ ہوا اور انہوں نے کچھ تلخ باتیں کہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے انہوں نے دو رکعتیں پڑھی تھیں اور میں نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی اسی طرح نماز پڑھی ہے۔ پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو چار رکعتیں پڑھیں کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے پہلے تو امیرالمؤمنین کے فعل کو معیوب قرار دیا پھر خود وہی کام کرنے لگے انہوں نے فرمایا اختلاف کرنا زیادہ شدید ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک بادشاہ آئے گا تم اسے ذلیل نہ کرنا جو شخص اسے ذلیل کرنا چاہئے گا تو گویا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال دی اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی تاآنکہ وہ اس سوراخ کو بند کر دے جسے اس نے کھولا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا پھر اگر وہ واپس آجاتا ہے تو وہ عزت کرنے والوں میں ہوگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ہم تین چیزوں سے مغلوب نہ رہیں امربالمعروف کرتے رہیں نہی عن المنکر کرتے رہیں اور لوگوں کو سنتوں کی تعلیم کرتے رہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن أبى ذر، وفي القاسم بن عوف كلام
حدیث نمبر: 21461
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا همام بن يحيى ، عن قتادة ، عن سعيد بن ابي الحسن ، عن عبد الله بن الصامت ، سمع ابا ذر ، قال: إن خليلي صلى الله عليه وسلم عهد إلي: " ايما ذهب او فضة اوكي عليه، فهو كي على صاحبه حتى يفرغه في سبيل الله إفراغا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: إِنَّ خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ: " أَيُّمَا ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ أُوكِيَ عَلَيْهِ، فَهُوَ كَيٌّ عَلَى صَاحِبِهِ حَتَّى يُفْرِغَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِفْرَاغًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جو سونا چاندی مہر بند کر کے رکھا جائے وہ اس کے مالک کے حق میں آگ کی چنگاری ہے تاوقتیکہ اسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کردے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21462
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، عن عبد الله بن المؤمل ، عن قيس بن سعد ، عن مجاهد ، عن ابي ذر ، انه اخذ بحلقة باب الكعبة، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس إلا بمكة إلا بمكة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ أَخَذَ بِحَلْقَةِ بَابِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ إِلَّا بِمَكَّةَ إِلَّا بِمَكَّةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ باب کعبہ کا حلقہ پکڑ کر کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے سوائے مکہ مکرمہ کے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إلا بمكة، و يمكن أن يشهد لهذ الحرف حديث جبير بن مطعم، وحديث أبى ذر هذا إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن مؤمل، ومجاهد لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21463
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا روح ، وهاشم ، قالا: حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، قال هاشم، عن حميد، عن عبد الله بن الصامت ، قال: قال ابو ذر : قلت: يا رسول الله، الرجل يحب القوم ولا يستطيع ان يعمل كعملهم؟ قال: " انت يا ابا ذر مع من احببت"، قلت: فإني احب الله ورسوله، قال:" فانت يا ابا ذر مع من احببت"، قال هاشم، قالها له: ثلاث مرات" انت مع من احببت" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، وَهَاشِمٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ هَاشِمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَعْمَلَ كَعَمَلِهِمْ؟ قَالَ: " أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قُلْتُ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ:" فَأَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قَالَ هَاشِمٌ، قَالَهَا لَهُ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال نہیں کرسکتا اس کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہوگے میں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں یہ جملہ انہوں نے ایک نہیں تین مرتبہ دہرایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21464
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو داود ، حدثنا شعبة ، اخبرني حبيب بن ابي ثابت ، وعبد العزيز بن رفيع ، والاعمش ، كلهم سمع زيد بن وهب يحدث، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ ، وَالْأَعْمَشُ ، كُلُّهُمْ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3222، م: 94
حدیث نمبر: 21465
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين يعني المعلم ، عن ابن بريدة ، حدثني يحيى بن يعمر ، ان ابا الاسود حدثه، عن ابي ذر ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ليس من رجل ادعى لغير ابيه وهو يعلمه إلا كفر، ومن ادعى ما ليس له، فليس منا، وليتبوا مقعده من النار، ومن دعا رجلا بالكفر، او قال: عدو الله، وليس كذاك إلا حار عليه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنْ ادَّعَى مَا لَيْسَ لَهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أَوْ قَالَ: عَدُوُّ اللَّهِ، وَلَيْسَ كَذَاكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کی نسبت کرتا ہے وہ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر یا دشمن اللہ کہہ کر پکارتا ہے حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ پلٹ کر کہنے والے پر جا پڑتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3508، م: 61
حدیث نمبر: 21466
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين ، عن ابن بريدة ، ان يحيى بن يعمر حدثه، ان ابا الاسود الديلي حدثه، ان ابا ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض، فإذا هو نائم، ثم اتيته احدثه فإذا هو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ فجلست إليه، فقال: " ما من عبد قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق؟! قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق؟! قال:" وإن زنى وإن سرق" ثلاثا، ثم قال في الرابعة:" على رغم انف ابي ذر"، قال: فخرج ابو ذر يجر إزاره وهو يقول وإن رغم انف ابي ذر، قال: فكان ابو ذر يحدث بهذا بعد، ويقول: وإن رغم انف ابي ذر .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ يَعْمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ أُحَدِّثُهُ فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدْ اسْتَيْقَظَ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ" ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ:" عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ"، قَالَ: فَخَرَجَ أَبُو ذَرٍّ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: فَكَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ بِهَذَا بَعْدُ، وَيَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے وہاں پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سور رہے تھے دوبارہ حاضر ہوا تب بھی سو رہے تھے تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگ چکے تھے چنانچہ میں ان کے پاس بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اور اسی اقرار پر دنیا سے رخصت ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے پوچھا اگرچہ وہ بدکاری اور چوری کرتا پھرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ وہ بدکاری اور چوری ہی کرے یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے چوتھی مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ یہ سن کر چادر گھیسٹتے ہوئے یہی جملہ دہراتے ہوئے نکل گئے اور جب بھی ہی حدیث بیان کرتے تو یہ جملہ ضرور دہراتے " اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔ "

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5827، م: 94
حدیث نمبر: 21467
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن مجاهد ، عن إبراهيم يعني ابن الاشتر ، ان ابا ذر حضره الموت وهو بالربذة فبكت امراته، فقال: ما يبكيك؟ قالت: ابكي، انه لا يد لي بنفسك، وليس عندي ثوب يسعك كفنا، فقال: لا تبكي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وانا عنده في نفر، يقول: " ليموتن رجل منكم بفلاة من الارض، يشهده عصابة من المؤمنين"، قال: فكل من كان معي في ذلك المجلس مات في جماعة وفرقة، فلم يبق منهم غيري، وقد اصبحت بالفلاة اموت، فراقبي الطريق فإنك سوف ترين ما اقول، فإني والله ما كذبت ولا كذبت، قالت: وانى ذلك وقد انقطع الحاج؟ قال: راقبي الطريق، قال: فبينا هي كذلك إذا هي بالقوم تخد بهم رواحلهم كانهم الرخم، فاقبل القوم حتى وقفوا عليها فقالوا: ما لك؟ قالت: امرؤ من المسلمين تكفنونه وتؤجرون فيه! قالوا: ومن هو؟ قالت: ابو ذر، ففدوه بآبائهم وامهاتهم، ووضعوا سياطهم في نحورها يبتدرونه، فقال: ابشروا، انتم النفر الذين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم ما قال، ابشروا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من امراين مسلمين هلك بينهما ولدان او ثلاثة فاحتسبا وصبرا فيريان النار ابدا" ثم قد اصبحت اليوم حيث ترون ولو ان ثوبا من ثيابي يسعني، لم اكفن إلا فيه، فانشدكم الله ان لا يكفنني رجل منكم كان اميرا او عريفا او بريدا، فكل القوم كان قد نال من ذلك شيئا إلا فتى من الانصار كان مع القوم، قال: انا صاحبك، ثوبان في عيبتي من غزل امي، واحد ثوبي هذين اللذين علي، قال: انت صاحبي فكفني" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ الْأَشْتَرِ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَضَرَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ بِالرَّبَذَةِ فَبَكَتْ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: أَبْكِي، أَنَّهُ لَا يَدَ لِي بِنَفْسِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ كَفَنًا، فَقَالَ: لَا تَبْكِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ، يَقُولُ: " لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، يَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ"، قَالَ: فَكُلُّ مَنْ كَانَ مَعِي فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِي جَمَاعَةٍ وَفُرْقَةٍ، فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ غَيْرِي، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلَاةِ أَمُوتُ، فَرَاقِبِي الطَّرِيقَ فَإِنَّكِ سَوْفَ تَرَيْنَ مَا أَقُولُ، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، قَالَتْ: وَأَنَّى ذَلِكَ وَقَدْ انْقَطَعَ الْحَاجُّ؟ قَالَ: رَاقِبِي الطَّرِيقَ، قَالَ: فَبَيْنَا هِيَ كَذَلِكَ إِذَا هِيَ بِالْقَوْمِ تَخُدُّ بِهِمْ رَوَاحِلُهُمْ كَأَنَّهُمْ الرَّخَمُ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتَّى وَقَفُوا عَلَيْهَا فَقَالُوا: مَا لَكِ؟ قَالَتْ: امْرُؤٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ تُكَفِّنُونَهُ وَتُؤْجَرُونَ فِيهِ! قَالُوا: وَمَنْ هُوَ؟ قَالَتْ: أَبُو ذَرٍّ، فَفَدَوْهُ بِآبَائِهِمْ وَأُمَّهَاتِهِمْ، وَوَضَعُوا سِيَاطَهُمْ فِي نُحُورِهَا يَبْتَدِرُونَهُ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا، أَنْتُمْ النَّفَرُ الَّذِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ مَا قَالَ، أَبْشِرُوا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنَ امْرَأَيْنِ مُسْلِمَيْنِ هَلَكَ بَيْنَهُمَا وَلَدَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَاحْتَسَبَا وَصَبَرَا فَيَرَيَانِ النَّارَ أَبَدًا" ثُمَّ قَدْ أَصْبَحْتُ الْيَوْمَ حَيْثُ تَرَوْنَ وَلَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِيَابِي يَسَعُنِي، لَمْ أُكَفَّنْ إِلَّا فِيهِ، فَأَنْشُدُكُمْ اللَّهَ أَنْ لَا يُكَفِّنَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ كَانَ أَمِيرًا أَوْ عَرِيفًا أَوْ بَرِيدًا، فَكُلُّ الْقَوْمِ كَانَ قَدْ نَالَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: أَنَا صَاحِبُكَ، ثَوْبَانِ فِي عَيْبَتِي مِنْ غَزْلِ أُمِّي، وَأَحِدُ ثَوْبَيَّ هَذَيْنِ اللَّذَيْنِ عَلَيَّ، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبِي فَكَفِّنِّي" .
حضرت ام ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں رونے لگی انہوں نے پوچھا کہ کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا روؤں کیوں نہ؟ جبکہ آپ ایک جنگل میں اس طرح جان دے رہے ہیں کہ میرے پاس آپ کو دفن کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے اور نہ ہی اتنا کپڑا ہے جس میں آپ کو کفن دے سکوں، انہوں نے فرمایا تم مت رو اور خوشخبری سنو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی دو یا تین مسلمان بچوں کے درمیان فوت ہوتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ کبھی نہیں دیکھے گا۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی ضرور کسی جنگل میں فوت ہوگا جس کے پاس مؤمنین کی ایک جماعت حاضر ہوگی اب ان لوگوں میں سے تو ہر ایک کا انتقال کسی نہ کسی شہر یا جماعت میں ہوا ہے اور میں ہی وہ آدمی ہوں جو جنگل میں فوت ہو رہا ہے واللہ نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ ان کی بیوی نے کہا کہ اب تو حجاج کرام بھی واپس چلے گئے اب کون آئے گا؟ انہوں نے فرمایا تم راستے کا خیال رکھو ابھی وہ یہ گفتگو کر رہی تھیں کہ انہیں کچھ لوگ نظر آئے جو اپنی سواریوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے چلے آرہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گدھ تیزی سے آتے ہیں وہ لوگ اس کے قریب پہنچ کر رک گئے اور اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ (جو یوں راستے میں کھڑی ہو) اس نے بتایا کہ یہاں ایک مسلمان آدمی ہے اس کے کفن دفن کا انتطام کردو تمہیں اس کا بڑا ثواب ملے گا انہوں نے پوچھا وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے اپنے ماں باپ کو ان پر قربان کیا اپنے کوڑے جانوروں کے سینوں پر رکھے اور تیزی سے چلے۔ وہاں پہنچے تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ہی وہ لوگ ہو جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا خوشخبری ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جن دو مسلمان مرد و عورت کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ دونوں اس پر ثواب کی نیت سے صبر کریں تو وہ جہنم کو کبھی نہیں دیکھیں گے اب آج جو میری حالت ہے وہ تمہارے سامنے ہے اگر میرے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا ایسا مل جائے جو مجھے پورا آجائے تو مجھے اسی میں کفن دیا جائے اور میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے تم سے کوئی ایسا آدمی کفن نہ دے جو امیر ہو، یا چوہدری ہو، یا ڈا کیا ہو، اب ان لوگوں میں سے ہر ایک میں ان میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور پائی جاتی تھی صرف ایک انصاری نوجوان تھا جو لوگوں کے ساتھ آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ میں آپ کو کفن دوں گا میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ نے بنے تھے ان میں سے ایک میرے جسم پر بھی ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم ہی میرے ساتھی ہو لہٰذا تم ہی مجھے کفن دینا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منطقع، إبراهيم بن الأشتر لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21468
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت إبراهيم التيمي يحدث، عن ابيه ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه ساله عن اول مسجد وضع للناس، قال: " المسجد الحرام ثم بيت المقدس" فسئل كم بينهما؟ قال:" اربعون عاما، وحيثما ادركتك الصلاة فصل فثم مسجد" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ، قَالَ: " الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ثُمَّ بَيْتُ الْمَقْدِسِ" فَسُئِلَ كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ عَامًا، وَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ فَثَمَّ مَسْجِدٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3366، م: 520
حدیث نمبر: 21469
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي ذر ، قال: قيل للنبي صلى الله عليه وسلم ذهب اهل الاموال بالاجر! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن فيك صدقة كثيرة" فذكر فضل سمعك، وفضل بصرك، قال:" وفي مباضعتك اهلك صدقة"، فقال ابو ذر: ايؤجر احدنا في شهوته؟ قال:" ارايت لو وضعته في غير حل اكان عليك وزر؟" قال: نعم، قال:" افتحتسبون بالشر ولا تحتسبون بالخير" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِالْأَجْرِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِيكَ صَدَقَةً كَثِيرَةً" فَذَكَرَ فَضْلَ سَمْعِكَ، وَفَضْلَ بَصَرِكَ، قَالَ:" وَفِي مُبَاضَعَتِكَ أَهْلَكَ صَدَقَةٌ"، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَيُؤْجَرُ أَحَدُنَا فِي شَهْوَتِهِ؟ قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعْتَهُ فِي غَيْرِ حِلٍّ أَكَانَ عَلَيْكَ وِزْرٌ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" أَفَتَحْتَسِبُونَ بِالشَّرِّ وَلَا تَحْتَسِبُونَ بِالْخَيْرِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سارا اجروثواب تو مالدار لوگ لے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو تم بھی کرسکتے ہو، راستے سے کسی ہڈی کو اٹھا دینا صدقہ ہے کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے اپنی طاقت سے کسی کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے زبان میں لکنت والے آدمی کے کلام کی وضاحت کر دینا صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں اپنی " خواہش " پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر یہ کام تم حرام طریقے سے کرتے تو تمہیں گناہ ہوتا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گناہ کو شمار کرتے ہو نیکی کو شمار نہیں کرتے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وسنده منقطع، أبو البختري لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21470
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا خليد العصري ، قال ابو جري: اين لقيت خليدا؟ قال: لا ادري عن الاحنف بن قيس ، قال: كنت قاعدا مع اناس من قريش إذ جاء ابو ذر حتى كان قريبا منهم، قال: " ليبشر الكنازون بكي من قبل ظهورهم يخرج من قبل بطونهم، وبكي من قبل اقفائهم يخرج من جباههم، قال: ثم تنحى فقعد، قال: فقلت: من هذا؟ قالوا: ابو ذر، قال: فقمت إليه، فقلت: ما شيء سمعتك تنادي به؟ قال: ما قلت لهم: شيئا إلا شيئا قد سمعوه من نبيهم صلى الله عليه وسلم، قال: قلت له: ما تقول في هذا العطاء؟ قال: خذه، فإن فيه اليوم معونة، فإذا كان ثمنا لدينك فدعه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، قَالَ أَبُو جُرَيٍّ: أَيْنَ لَقِيتَ خُلَيْدًا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا مَعَ أُنَاسٍ مِنْ قُرَيْشٍ إِذْ جَاءَ أَبُو ذَرٍّ حَتَّى كَانَ قَرِيبًا مِنْهُمْ، قَالَ: " لِيُبَشَّرْ الْكَنَّازُونَ بِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ ظُهُورِهِمْ يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ بُطُونِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى فَقَعَدَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تُنَادِي بِهِ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ: شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعُوهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟ قَالَ: خُذْهُ، فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ" .
حنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا میں ایک حلقے میں " جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے " شریک تھا کہ ایک آدمی آیا (اس نے ان کے قریب آکر کہا کہ مال و دولت جمع کرنے والوں کو خوشخبری ہو اس داغ کی جو ان کی پشت کی طرف سے داغا جائے گا اور ان کے پیٹ سے نکل جائے گا اور گدی کی جانب سے ایک داغ کی جو ان کی پیشانی سے نکل جائے گا پھر وہ ایک طرف چلا گیا میں اس کے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے قریب جا کر بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کی بات سے خوش نہیں ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ میں تو ان سے وہی کہتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس وظیفے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا لے لیا کرو کیونکہ آج کل اس سے بہت سے کاموں میں مدد مل جاتی ہے اگر وہ تمہارے قرض کی قیمت ہو تو اسے چھوڑ دو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1407، م: 992، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21471
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، وعارم ابو النعمان ، قالا: حدثنا ديلم بن غزوان العطار العبدي ، حدثنا وهب بن ابي دبي ، قال عفان : حدثني، عن ابي حرب بن ابي الاسود ، عن محجن ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن العين لتولع الرجل بإذن الله، يتصعد حالقا ثم يتردى منه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَعَارِمٌ أَبُو النُّعْمَانِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَيْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ الْعَطَّارُ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ أَبِي دُبَيٍّ ، قَالَ عَفَّانُ : حَدَّثَنِي، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ مِحْجَنٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْعَيْنَ لَتُولِعُ الرَّجُلَ بِإِذْنِ اللَّهِ، يَتَصَعَّدُ حَالِقًا ثُمَّ يَتَرَدَّى مِنْهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی مرضی سے انسان کو اس کی آنکھ کسی چیز کا اتنا گرویدہ بنالیتی ہے کہ وہ مونڈنے والی چیز پر چڑھتا چلا جاتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس سے نیچے گرپڑتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة
حدیث نمبر: 21472
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عارم ، حدثنا مهدي بن ميمون ، حدثنا غيلان ، عن شهر بن حوشب ، عن معدي كرب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربه، قال: " ابن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان فيك، ابن آدم، إن تلقني بقراب الارض خطايا لقيتك بقرابها مغفرة بعد ان لا تشرك بي شيئا، ابن آدم إنك إن تذنب حتى يبلغ ذنبك عنان السماء ثم تستغفرني اغفر لك ولا ابالي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ، قَالَ: " ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ، ابْنَ آدَمَ، إِنْ تَلْقَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً بَعْدَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا، ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ إِنْ تُذْنِبْ حَتَّى يَبْلُغَ ذَنْبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ تَسْتَغْفِرُنِي أَغْفِرْ لَكَ وَلَا أُبَالِي" .
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے! تو میری جتنی عبادت اور مجھ سے جتنی امید وابستہ کرے گا میں تیرے سارے گناہوں کو معاف کردوں گا میرے بندے! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا مجھے کوئی پرواہ نہ ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف، شهر بن حوشب ضعيف، وقد اختلف عليه فى الحديث، ومعدي كرب مجهول
حدیث نمبر: 21473
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عارم ، وعفان ، قالا: حدثنا مهدي بن ميمون ، حدثنا واصل مولى ابي عيينة ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قالوا: يا رسول الله، ذهب اهل الدثور بالاجور، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول اموالهم، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون، إن بكل تسبيحة صدقة، وبكل تحميدة صدقة، وفي بضع احدكم صدقة"، قال: قالوا: يا رسول الله، اياتي احدنا شهوته يكون له فيها اجر؟! قال:" ارايتم لو وضعها في الحرام، اكان عليه فيها وزر؟! وكذلك إذا وضعها في الحلال، كان له فيها اجر"، قال عفان تصدقون، وقال:" وتهليلة وتكبيرة صدقة، وامر بمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع..." ، حدثنا ابو النضر ، حدثنا مهدي ، ولم يذكر ابا الاسود.حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَلَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ، إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً، وَبِكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةً"، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَأْتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ يَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟! قَالَ:" أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي الْحَرَامِ، أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ؟! وَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ، كَانَ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ"، قَالَ عَفَّانُ تَصَّدَّقُونَ، وَقَالَ:" وَتَهْلِيلَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ صَدَقَةً، وَنَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةً، وَفِي بُضْعٍ..." ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا الْأَسْوَدِ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار تو سارا اجروثواب لے گئے ہیں وہ ہماری طرح نماز پڑھتے اور روزہ بھی رکھتے ہیں اور اپنے مال سے اضافی طور پر صدقہ بھی کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے صدقہ کرنے کی کوئی چیز مقرر نہیں کی؟ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمدللہ کہنا صدقہ ہے حتٰی کہ جائز طریقے سے اپنی " خواہش " پوری کرنا بھی صدقہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کسی کا اپنی خواہش نفسانی کو پورا کرنا بھی باعث صدقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ اگر وہ حرام طریقے سے اپنی خواہش پوری کرتا تو اسے گناہ ہوتا یا نہیں؟ لہٰذا جب وہ حلال طریقہ اختیار کرے گا تو اسے ثواب کیوں نہ ہوگا بعض راویوں نے تہلیل تو کبیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی صدقہ قرار دیا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عارم ، وعفان ، قالا: حدثنا مهدي بن ميمون ، عن واصل مولى ابي عيينة ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يصبح على كل سلامى من احدكم صدقة، وكل تسبيحة صدقة، وتهليلة صدقة، وتكبيرة صدقة، وتحميدة صدقة، وامر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، ويجزئ احدكم من ذلك كله ركعتان يركعهما من الضحى" .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَتَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَتَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَتَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ أَحَدَكُمْ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ہر عضو پر صبح کے وقت صدقہ لازم ہوتا ہے اور ہر تسبیح کا کلمہ بھی صدقہ ہے تہلیل بھی صدقہ ہے تکبیر بھی صدقہ ہے تحمید بھی صدقہ ہے امر بالمعروف بھی صدقہ ہے اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے اور ان سب کی کفایت وہ دو رکعتیں کردیتی ہیں جو تم میں سے کوئی شخص چاشت کے وقت پڑھتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 720، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني ابن ابي حسين ، عن ايوب بن بشير بن كعب العدوي ، عن رجل من عنز، انه قال لابي ذر : حين سير من الشام، قال: إني اريد ان اسالك عن حديث من حديث النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إذن اخبرك به إلا ان يكون سرا، فقلت: إنه ليس بسر، هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصافحكم إذا لقيتموه؟ فقال: " ما لقيته قط إلا صافحني، وبعث إلي يوما ولست في البيت، فلما جئت اخبرت برسوله فاتيته وهو على سرير له، فالتزمني، فكانت اجود واجود" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنْزٍ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي ذَرٍّ : حِينَ سُيِّرَ مِنَ الشَّامِ، قَالَ: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَنْ أُخْبِرَكَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ سِرًّا، فَقُلْتُ: إِنَّهُ لَيْسَ بِسِرٍّ، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُكُمْ إِذَا لَقِيتُمُوهُ؟ فَقَالَ: " مَا لَقِيتُهُ قَطُّ إِلَّا صَافَحَنِي، وَبَعَثَ إِلَيَّ يَوْمًا وَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَلَمَّا جِئْتُ أُخْبِرْتُ بِرَسُولِهِ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ لَهُ، فَالْتَزَمَنِي، فَكَانَتْ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ" .
فلان عنزی کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کہیں سے واپس آرہے تھے راستے میں ایک جگہ لوگ منتشر ہوئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوذر! میں آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا اگر کوئی راز کی بات ہوئی تو وہ نہیں بتاؤں گا میں نے عرض کیا کہ راز کی بات نہیں ہے بات نہ کہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا تم نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی میری ملاقات ہوئی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے مصافحہ فرمایا سوائے ایک مرتبہ کے اور وہ سب سے آخر میں واقعہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر مجھے بلایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیٹا ہوا دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة العنزي، وأيوب بن بشير
حدیث نمبر: 21477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا عمران الجوني يحدث، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يعمل لنفسه فيحبه الناس؟ قال: " تلك عاجل بشرى المؤمن" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَعْمَلُ لِنَفْسِهِ فَيُحِبُّهُ النَّاسُ؟ قَالَ: " تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! ایک آدمی کوئی کام کرتا ہے۔ لوگ اس کی تعریف وثناء بیان کرنے لگتے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو مسلمان کے لئے فوری خوشخبری ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2642
حدیث نمبر: 21478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ايوب ، عن ابي العالية البراء ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" يا ابا ذر، كيف انت إذا بقيت في قوم يؤخرون الصلاة عن وقتها؟" قال: فقال لي: " صل الصلاة لوقتها، فإن ادركتهم لم يصلوا فصل معهم، ولا تقل إني قد صليت ولا اصلي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا؟" قَالَ: فَقَالَ لِي: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَهُمْ لَمْ يُصَلُّوا فَصَلِّ مَعَهُمْ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ وَلَا أُصَلِّي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے نماز کو اس وقت مقررہ سے مؤخر کردیں گے پھر فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو، یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21479
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو عامر ، حدثنا شعبة ، عن بديل بن ميسرة ، قال: سمعت ابا العالية البراء ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم ضرب فخذه، وقال له: " كيف انت إذا بقيت في قوم يؤخرون الصلاة"، ثم قال:" صل الصلاة لوقتها ثم انهض، فإن كنت في المسجد حتى تقام الصلاة، فصل معهم" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ فَخِذَهُ، وَقَالَ لَهُ: " كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ"، ثُمَّ قَالَ:" صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ثُمَّ انْهَضْ، فَإِنْ كُنْتَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تُقَامَ الصَّلَاةُ، فَصَلِّ مَعَهُمْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے نماز کو اس وقت مقررہ سے مؤخر کردیں گے پھر فرمایا کہ نماز تو اپنے وقت پر پڑھ لیا کرو اگر ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونا پڑے تو دوبارہ ان کے ساتھ (نفل کی نیت سے) نماز پڑھ لیا کرو، یہ نہ کہا کرو کہ میں تو نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا اب نہیں پڑھتا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21480
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن رجل من ثقيف، يقال له: فلان بن عبد الواحد ، قال: سمعت ابا مجيب ، قال: لقي ابو ذر ابا هريرة وجعل اراه، قال: قبيعة سيفه فضة فنهاه، وقال ابو ذر ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من إنسان او قال: احد ترك صفراء او بيضاء إلا كوي بها" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، يُقَالُ لَهُ: فُلَانُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُجِيبٍ ، قَالَ: لَقِيَ أَبُو ذَرٍّ أَبَا هُرَيْرَةَ وَجَعَلَ أُرَاهُ، قَالَ: قَبِيعَةَ سَيْفِهِ فِضَّةً فَنَهَاهُ، وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ إِنْسَانٍ أَوْ قَالَ: أَحَدٍ تَرَكَ صَفْرَاءَ أَوْ بَيْضَاءَ إِلَّا كُوِيَ بِهَا" .
ابو مجیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کا دستہ چاندی کا بنوا رکھا تھا، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کرتے ہوئے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص سونا چاندی اپنے اوپر چھوڑتا ہے اسے اسی کے ساتھ داغا جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة فلان بن عبدالواحد وأبي مجيب
حدیث نمبر: 21481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت سليمان بن مسهر ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم المنان بما اعطى، والمسبل إزاره، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور خسارے میں پڑگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا کر فرمایا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 106
حدیث نمبر: 21482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا مهدي بن ميمون ، عن واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قيل يا رسول الله، ذهب اهل الدثور بالاجور، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول اموالهم! فقال: " اوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون، إنه بكل تسبيحة صدقة، وبكل تكبيرة صدقة، وبكل تهليلة صدقة، وبكل تحميدة صدقة، وامر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، وفي بضع احدكم صدقة"، قالوا: يا رسول الله، ياتي احدنا شهوته ويكون له فيها اجر؟! فقال:" ارايتم لو وضعها في الحرام اليس كان يكون عليه وزر او الوزر؟" قالوا: بلى، قال:" فكذلك إذا وضعها في الحلال، يكون له الاجر" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ! فَقَالَ: " أَوَلَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ، إِنَّهُ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَبِكُلِّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَبِكُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَبِكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَأْتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟! فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي الْحَرَامِ أَلَيْسَ كَانَ يَكُونُ عَلَيْهِ وِزْرٌ أَوْ الْوِزْرُ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ، يَكُونُ لَهُ الْأَجْرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ مالدار تو سارا اجروثواب لے گئے ہیں وہ ہماری طرح نماز پڑھتے اور روزہ بھی رکھتے ہیں اور اپنے مال سے اضافی طور پر صدقہ بھی کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے صدقہ کرنے کی کوئی چیز مقرر نہیں کی؟ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمدللہ کہنا صدقہ ہے حتٰی کہ جائز طریقے سے اپنی " خواہش " پوری کرنا بھی صدقہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کسی کا اپنی خواہش نفسانی کو پورا کرنا بھی باعث صدقہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ اگر وہ حرام طریقے سے اپنی خواہش پوری کرتا تو اسے گناہ ہوتا یا نہیں؟ لہٰذا جب وہ حلال طریقہ اختیار کرے گا تو اسے ثواب کیوں نہ ہوگا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21483
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن مورق ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من لاءمكم من خدمكم فاطعموهم مما تاكلون، واكسوهم مما تلبسون، او قال: تكتسون ومن لا يلائمكم، فبيعوه، ولا تعذبوا خلق الله" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَاءَمَكُمْ مِنْ خَدَمِكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، أَوْ قَالَ: تَكْتَسُونَ وَمَنْ لَا يُلَائِمُكُمْ، فَبِيعُوهُ، وَلَا تُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس کا خادم اس کے موافق آجائے تو تم جو خود کھاتے ہو وہی اسے کھلاؤ اور جو خود کھاتے ہو وہی اسے کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو وہی اسے بھی پہناؤ اور جو تمہارے موافق نہ آئے اسے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب میں مبتلا نہ کرو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره بهذه السياقة، وهذا الإسناد منقطع، مورق العجلي لم يسمع أبا ذر
حدیث نمبر: 21484
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا علي يعني ابن مبارك ، عن يحيى ، عن زيد بن سلام ، عن ابي سلام ، قال ابو ذر : على كل نفس في كل يوم طلعت فيه الشمس صدقة منه على نفسه، قلت: يا رسول الله، من اين اتصدق وليس لنا اموال؟ قال: " لان من ابواب الصدقة التكبير، وسبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، واستغفر الله، وتامر بالمعروف، وتنهى عن المنكر، وتعزل الشوكة عن طريق الناس والعظم والحجر، وتهدي الاعمى، وتسمع الاصم والابكم حتى يفقه، وتدل المستدل على حاجة له قد علمت مكانها، وتسعى بشدة ساقيك إلى اللهفان المستغيث، وترفع بشدة ذراعيك مع الضعيف، كل ذلك من ابواب الصدقة منك على نفسك، ولك في جماعك زوجتك اجر"، قال ابو ذر: كيف يكون لي اجر في شهوتي؟! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان لك ولد فادرك ورجوت خيره فمات، اكنت تحتسب به؟" قلت: نعم، قال:" فانت خلقته؟" قال: بل الله خلقه، قال:" فانت هديته" قال: بل الله هداه، قال:" فانت ترزقه"، قال: بل الله كان يرزقه، قال:" كذلك فضعه في حلاله وجنبه حرامه، فإن شاء الله احياه، وإن شاء اماته، ولك اجر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ مُبَارَكٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ : عَلَى كُلِّ نَفْسٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ صَدَقَةٌ مِنْهُ عَلَى نَفْسِهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ أَتَصَدَّقُ وَلَيْسَ لَنَا أَمْوَالٌ؟ قَالَ: " لِأَنَّ مِنْ أَبْوَابِ الصَّدَقَةِ التَّكْبِيرَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، وَتَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، وَتَعْزِلُ الشَّوْكَةَ عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ وَالْعَظْمَ وَالْحَجَرَ، وَتَهْدِي الْأَعْمَى، وَتُسْمِعُ الْأَصَمَّ وَالْأَبْكَمَ حَتَّى يَفْقَهَ، وَتُدِلُّ الْمُسْتَدِلَّ عَلَى حَاجَةٍ لَهُ قَدْ عَلِمْتَ مَكَانَهَا، وَتَسْعَى بِشِدَّةِ سَاقَيْكَ إِلَى اللَّهْفَانِ الْمُسْتَغِيثِ، وَتَرْفَعُ بِشِدَّةِ ذِرَاعَيْكَ مَعَ الضَّعِيفِ، كُلُّ ذَلِكَ مِنْ أَبْوَابِ الصَّدَقَةِ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ، وَلَكَ فِي جِمَاعِكَ زَوْجَتَكَ أَجْرٌ"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كَيْفَ يَكُونُ لِي أَجْرٌ فِي شَهْوَتِي؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ وَلَدٌ فَأَدْرَكَ وَرَجَوْتَ خَيْرَهُ فَمَاتَ، أَكُنْتَ تَحْتَسِبُ بِهِ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَنْتَ خَلَقْتَهُ؟" قَالَ: بَلْ اللَّهُ خَلَقَهُ، قَالَ:" فَأَنْتَ هَدَيْتَهُ" قَالَ: بَلْ اللَّهُ هَدَاهُ، قَالَ:" فَأَنْتَ تَرْزُقُهُ"، قَالَ: بَلْ اللَّهُ كَانَ يَرْزُقُهُ، قَالَ:" كَذَلِكَ فَضَعْهُ فِي حَلَالِهِ وَجَنِّبْهُ حَرَامَهُ، فَإِنْ شَاءَ اللَّهُ أَحْيَاهُ، وَإِنْ شَاءَ أَمَاتَهُ، وَلَكَ أَجْرٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ہر عضو پر صبح کے وقت صدقہ لازم ہوتا ہے اور ہر تسبیح کا کلمہ بھی صدقہ ہے تہلیل بھی صدقہ ہے تکبیر بھی صدقہ ہے تحمید بھی صدقہ ہے امر بالمعروف بھی صدقہ ہے اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے اور ان سب کی کفایت وہ دو رکعتیں کردیتی ہیں جو تم میں سے کوئی شخص چاشت کے وقت پڑھتا ہے، لوگوں کے راستے سے کانٹا، ہڈی اور پتھر ہٹا دو، نابینا کو راستہ دکھا دو، گونگے بہرے کو بات سمجھا دو، کسی ضرورت مند کو اس جگہ کی رہنمائی کردو جہاں سے اس کی ضرورت پوری ہونے کا تمہیں علم ہو، اپنی پنڈلیوں سے دوڑ کر کسی مظلوم اور فریاد رس کی مدد کردو اپنے ہاتھوں کی طاقت سے کسی کمزور کو بلند کردو یہ سب تمہاری جانب سے اپنی ذات پر صدقہ کے دروازے ہیں بلکہ تمہیں اپنی بیوی سے مباشرت پر بھی ثواب ملتا ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اپنی شہوت پوری کرنے میں مجھے کیسے اجر مل سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تباؤ کہ اگر تمہارے یہاں کوئی لڑکا پیدا ہو اور تم اس سے خیر کی امید رکھتے ہو لیکن وہ مرجائے تو کیا تم اس پر ثواب کی امید رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے تم نے پیدا کیا تھا؟ عرض کیا نہیں بلکہ اللہ نے پیدا کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اسے ہدایت دی تھی؟ عرض کیا نہیں بلکہ اللہ نے اسے ہدایت دی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم اسے رزق دیتے تھے؟ عرض کیا نہیں، بلکہ اللہ اسے رزق دیتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح اسے بھی حلال طریقے پر استعمال کرو اور حرام طریقے سے اجتناب کرو اگر اللہ نے چاہا تو کسی کو زندگی دے دے گا اور اگر چاہا تو کسی کو موت دے دے گا لیکن تمہیں اس پر ثواب ملے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1006
حدیث نمبر: 21485
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ابو نعامة ، عن الاحنف بن قيس ، قال: وانا اريد العطاء من عثمان بن عفان، فجلست إلى حلقة من حلق قريش، فجاء رجل عليه اسمال له قد لف ثوبا على راسه، قدمت المدينة، قال: بشر الكنازين بكي في الجباه، وبكي في الظهور، وبكي في الجنوب، ثم تنحى إلى سارية، فصلى خلفها ركعتين، فقلت: من هذا؟ فقيل: هذا ابو ذر ، فقلت له: ما شيء سمعتك تنادي به، قال: ما قلت لهم: إلا شيئا سمعوه من نبيهم صلى الله عليه وسلم، فقلت له: " يرحمك الله، إني كنت آخذ العطاء من عمر، فما ترى؟ قال: خذه، فإن فيه اليوم معونة، ويوشك ان يكون دينا، فإذا كان دينا فارفضه" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو نَعَامَةَ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: وَأَنَا أُرِيدُ الْعَطَاءَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَجَلَسْتُ إِلَى حَلْقَةٍ مِنْ حِلَقِ قُرَيْشٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ أَسْمَالٌ لَهُ قَدْ لَفَّ ثَوْبًا عَلَى رَأْسِهِ، قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ: بَشِّرْ الْكَنَّازِينَ بِكَيٍّ فِي الْجِبَاهِ، وَبِكَيٍّ فِي الظُّهُورِ، وَبِكَيٍّ فِي الْجُنُوبِ، ثُمَّ تَنَحَّى إِلَى سَارِيَةٍ، فَصَلَّى خَلْفَهَا رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا أَبُو ذَرٍّ ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تُنَادِي بِهِ، قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ: إِلَّا شَيْئًا سَمِعُوهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: " يَرْحَمُكَ اللَّهُ، إِنِّي كُنْتُ آخُذُ الْعَطَاءَ مِنْ عُمَرَ، فَمَا تَرَى؟ قَالَ: خُذْهُ، فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، وَيُوشِكُ أَنْ يَكُونَ دَيْنًا، فَإِذَا كَانَ دَيْنًا فَارْفُضْهُ" ..
حنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا میں ایک حلقے میں " جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے " شریک تھا کہ ایک آدمی آیا (اس نے ان کے قریب آکر کہا کہ مال و دولت جمع کرنے والوں کو خوشخبری ہو اس داغ کی جو ان کی پشت کی طرف سے داغا جائے گا اور ان کے پیٹ سے نکل جائے گا اور گدی کی جانب سے ایک داغ کی جو ان کی پیشانی سے نکل جائے گا پھر وہ ایک طرف چلا گیا) میں اس کے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے قریب جا کر بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کی بات سے خوش نہیں ہوئے؟ میں تو ان سے وہی کہتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس وظیفے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا لے لیا کرو کیونکہ آج کل اس سے بہت کاموں میں مدد مل جاتی ہے اگر وہ تمہارے قرض کی قیمت ہو تو اسے چھوڑ دو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1407، م: 992
حدیث نمبر: 21486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد ، حدثنا ابو نعامة السعدي ، فذكره بإسناده ومعناه، ولم يذكر إلا شيئا سمعوه من نبيهم صلى الله عليه وسلم، ولا ارى عفان إلا وهم، وذهب إلى حديث ابي الاشهب، لان عفان زاده، ولم يكن عندنا.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ ، فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ إِلَّا شَيْئًا سَمِعُوهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَرَى عَفَّانَ إِلَّا وَهِمَ، وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ أَبِي الْأَشْهَبِ، لِأَنَّ عَفَّانَ زَادَهُ، وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَنَا.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1407، م: 992
حدیث نمبر: 21487
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شمر بن عطية ، عن اشياخه ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اوصني، قال: " إذا عملت سيئة فاتبعها حسنة تمحها"، قال: قلت: يا رسول الله، امن الحسنات لا إله إلا الله؟ قال:" هي افضل الحسنات" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنِ أَشْيَاخِهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْصِنِي، قَالَ: " إِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَةً تَمْحُهَا"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِنْ الْحَسَنَاتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ قَالَ:" هِيَ أَفْضَلُ الْحَسَنَاتِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت فرمائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کرلیا کرو جو اس گناہ کو مٹا دے میں نے عرض کیا کہ لا الہ الا اللہ کہنا نیکیوں میں شامل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو سب سے افضل نیکی ہے۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أشياخ شمر بن عطية
حدیث نمبر: 21488
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول الله عز وجل: " من عمل حسنة فله عشر امثالها او ازيد، ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها او اغفر، ومن عمل قراب الارض خطيئة ثم لقيني لا يشرك بي شيئا، جعلت له مثلها مغفرة، ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا، ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا، ومن اتاني يمشي اتيته هرولة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " مَنْ عَمِلَ حَسَنَةً فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا أَوْ أَزِيدُ، وَمَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَجَزَاؤُهَا مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ، وَمَنْ عَمِلَ قُرَابَ الْأَرْضِ خَطِيئَةً ثُمَّ لَقِيَنِي لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً، وَمَنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ فرماتا ہے جو شخص نیکی کا ایک عمل کرتا ہے اسے دس گنا بدلہ ملے گا یا میں اس میں مزید اضافہ کردوں گا اور جو شخص گناہ کا ایک عمل کرتا ہے تو اس کا بدلہ اسی کے برابر ہوگا یا میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں جو شخص زمین بھر کر گناہ کرے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، میں اس کے لئے اتنی ہی مغفرت کا فیصلہ کرلیتا ہوں اور جو شخص ایک بالشت کے برابر میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب آتا ہوں اور جو ایک ہاتھ کے برابر قریب آتا ہے میں ایک گز اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2687
حدیث نمبر: 21489
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاجلح ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احسن ما غير به الشيب الحناء والكتم" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالوں کی اس سفیدی کو بدلنے والی سب سے بہترین چیز مہندی اور وسمہ ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات لأجل الأجلح بن عبدالله
حدیث نمبر: 21490
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا صالح بن رستم ، عن ابي عمران الجوني ، عن عبد الله بن صامت ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، إنه سيكون عليكم امراء يؤخرون الصلاة عن مواقيتها، فإن انت ادركتهم فصل الصلاة لوقتها وربما قال: في رحلك ثم ائتهم، فإن وجدتهم قد صلوا كنت قد صليت، وإن وجدتهم لم يصلوا، صليت معهم، فتكون لك نافلة" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّهُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ مَوَاقِيتِهَا، فَإِنْ أَنْتَ أَدْرَكْتَهُمْ فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا وَرُبَّمَا قَالَ: فِي رَحْلِكَ ثُمَّ ائْتِهِمْ، فَإِنْ وَجَدْتَهُمْ قَدْ صَلَّوْا كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ، وَإِنْ وَجَدْتَهُمْ لَمْ يُصَلُّوا، صَلَّيْتَ مَعَهُمْ، فَتَكُونُ لَكَ نَافِلَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! عنقریب کچھ حکمران آئیں گے جو نماز کو وقت مقررہ پر ادا نہ کریں گے تم نماز کو اس کے وقت مقررہ پر ادا کرنا اگر تم اس وقت آؤ جب لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو تم اپنی نماز محفوظ کرچکے ہوگے اور اگر انہوں نے نماز نہ پڑھی ہو تو تم ان کے ساتھ شریک ہوجانا اور یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 648، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة، فلما رآني مقبلا، قال: " هم الاخسرون ورب الكعبة" فقلت: ما لي؟ لعلي انزل في شيء، من هم فداك ابي وامي؟ قال:" الاكثرون اموالا إلا من قال: هكذا" فحثى بين يديه، وعن يمينه، وعن شماله، قال: ثم قال:" والذي نفسي بيده، لا يموت احد منكم، فيدع إبلا وبقرا وغنما لم يؤد زكاتها، إلا جاءته يوم القيامة اعظم ما كانت واسمنه، تطؤه باخفافها، وتنطحه بقرونها، كلما نفدت اخراها، اعيدت عليه اولاها، حتى يقضى بين الناس" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي مُقْبِلًا، قَالَ: " هُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ" فَقُلْتُ: مَا لِي؟ لَعَلِّي أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ، مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي؟ قَالَ:" الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا" فَحَثَى بَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنْكُمْ، فَيَدَعُ إِبِلًا وَبَقَرًا وَغَنَمًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ خانہ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ خسارے میں ہیں مجھے ایک شدید غم نے آگھیرا اور میں اپنا سانس درست کرتے ہوئے سوچنے لگا شاید میرے متعلق کوئی نئی بات ہوگئی ہے چنانچہ میں نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زیادہ مالدار، سوائے اس آدمی کے جو اللہ کے بندوں میں اس اس طرح تقسیم کرے لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو آدمی بھی مرتے وقت بکریاں اونٹ یا گائے چھوڑ کرجاتا ہے جس کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو وہ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ صحت مند ہو کر آئیں گے اور اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے پھر ایک کے بعد دوسرا جانور آتا جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 990
حدیث نمبر: 21492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعرف آخر اهل النار خروجا من النار، وآخر اهل الجنة دخولا الجنة، يؤتى برجل فيقول نحوا كبار ذنوبه وسلوه عن صغارها، قال: فيقال له: عملت كذا يوم كذا وكذا، وعملت كذا يوم كذا وكذا، قال: فيقول: يا رب، لقد عملت اشياء لم ارها هنا، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، قال: فيقال له: فإن لك مكان كل سيئة حسنة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْرِفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، يُؤْتَى بِرَجُلٍ فَيَقُولُ نَحُّوا كِبَارَ ذُنُوبِهِ وَسَلُوهُ عَنْ صِغَارِهَا، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: عَمِلْتَ كَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَعَمِلْتَ كَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، لَقَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَمْ أَرَهَا هُنَا، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ چھپا لئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا؟ وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے خوف سے ڈر رہا ہوگا اس وقت حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اس ایک نیکی دے دو وہ کہے گا کہ میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 190
حدیث نمبر: 21493
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، ارفع بصرك فانظر ارفع رجل تراه في المسجد" قال: فنظرت، فإذا رجل جالس عليه حلة، قال: فقلت: هذا، قال: فقال: يا ابا ذر،" ارفع بصرك فانظر اوضع رجل تراه في المسجد"، قال: فنظرت، فإذا رجل ضعيف عليه اخلاق، قال: فقلت: هذا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده، لهذا افضل عند الله يوم القيامة من قراب الارض مثل هذا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ أَرْفَعَ رَجُلٍ تَرَاهُ فِي الْمَسْجِدِ" قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ عَلَيْهِ حُلَّةٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا، قَالَ: فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ،" ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ أَوْضَعَ رَجُلٍ تَرَاهُ فِي الْمَسْجِدِ"، قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا رَجُلٌ ضَعِيفٌ عَلَيْهِ أَخْلَاقٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهَذَا أَفْضَلُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ قُرَابِ الْأَرْضِ مِثْلِ هَذَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابوذر! مسجد میں نظر دوڑا کر دیکھو کہ سب سے بلند مرتبہ آدمی کون معلوم ہوتا ہے؟ میں نے نظر دوڑائی تو ایک آدمی کے جسم پر حلہ دکھائی دیا میں نے اس کی طرف اشارہ کردیا پھر فرمایا کہ اب یہ دیکھو سب سے پست مرتبہ آدمی کون معلوم ہوتا ہے؟ میں نے نظر دوڑائی تو ایک آدمی کے جسم پر پرانے کپڑے دکھائی دیئے میں نے اس کی طرف اشارہ کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آدمی قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس پہلے والے آدمی سے اگر زمین بھی بھر جائے تب بھی بہتر ہوگا۔

حكم دارالسلام: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 21494
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن يحيى بن سعيد ، حدثني ابو صالح ، عن رجل من بني اسد، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن اشد امتي لي حبا قوم يكونون او يجيئون بعدي، يود احدهم انه اعطى اهله وماله وإنه رآني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ أَشَدَّ أُمَّتِي لِي حُبًّا قَوْمٌ يَكُونُونَ أَوْ يَجِيئُونَ بَعْدِي، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ أَعْطَى أَهْلَهُ وَمَالَهُ وَإِنَّهُ رَآنِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ وہ ہوں کے جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوگی کہ اپنے اہل خانہ اور سارے مال و دولت کو دے کر کسی طرح وہ مجھے دیکھ لیتے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الأسدي
حدیث نمبر: 21495
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، حدثنا قدامة بن عبد الله ، حدثتني جسرة بنت دجاجة ، انها انطلقت معتمرة، فانتهت إلى الربذة، فسمعت ابا ذر ، يقول: " قام النبي صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي في صلاة العشاء فصلى بالقوم، ثم تخلف اصحاب له يصلون، فلما راى قيامهم وتخلفهم انصرف إلى رحله، فلما راى القوم قد اخلوا المكان رجع إلى مكانه فصلى، فجئت فقمت خلفه، فاوما إلي بيمينه، فقمت عن يمينه، ثم جاء ابن مسعود فقام خلفي وخلفه، فاوما إليه بشماله، فقام عن شماله، فقمنا ثلاثتنا يصلي كل رجل منا بنفسه، ويتلو من القرآن ما شاء الله ان يتلو، فقام بآية من القرآن يرددها حتى صلى الغداة، فبعد ان اصبحنا اومات إلى عبد الله بن مسعود ان سله ما اراد إلى ما صنع البارحة؟ فقال ابن مسعود: بيده لا اساله عن شيء حتى يحدث إلي، فقلت: بابي انت وامي، قمت بآية من القرآن ومعك القرآن؟! لو فعل هذا بعضنا وجدنا عليه! قال: دعوت لامتي، قال: فماذا اجبت، او ماذا رد عليك؟ قال: اجبت بالذي لو اطلع عليه كثير منهم طلعة تركوا الصلاة، قال: افلا ابشر الناس؟ قال: بلى، فانطلقت معنقا قريبا من قذفة بحجر، فقال: عمر يا رسول الله، إنك إن تبعث إلى الناس بهذا نكلوا عن العبادة، فنادى ان ارجع فرجع، وتلك الآية إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك انت العزيز الحكيم سورة المائدة آية 118" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا قُدَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَتْنِي جَسْرَةُ بِنْتُ دَجَاجَةَ ، أَنَّهَا انْطَلَقَتْ مُعْتَمِرَةً، فَانْتَهَتْ إِلَى الرَّبَذَةِ، فَسَمِعَتْ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: " قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَصَلَّى بِالْقَوْمِ، ثُمَّ تَخَلَّفَ أَصْحَابٌ لَهُ يُصَلُّونَ، فَلَمَّا رَأَى قِيَامَهُمْ وَتَخَلُّفَهُمْ انْصَرَفَ إِلَى رَحْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمَ قَدْ أَخْلَوْا الْمَكَانَ رَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ فَصَلَّى، فَجِئْتُ فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيَّ بِيَمِينِهِ، فَقُمْتُ عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ جَاءَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَامَ خَلْفِي وَخَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِشِمَالِهِ، فَقَامَ عَنْ شِمَالِهِ، فَقُمْنَا ثَلَاثَتُنَا يُصَلِّي كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا بِنَفْسِهِ، وَيَتْلُو مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَتْلُوَ، فَقَامَ بِآيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ يُرَدِّدُهَا حَتَّى صَلَّى الْغَدَاةَ، فَبَعْدَ أَنْ أَصْبَحْنَا أَوْمَأْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنْ سَلْهُ مَا أَرَادَ إِلَى مَا صَنَعَ الْبَارِحَةَ؟ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: بِيَدِهِ لَا أَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى يُحَدِّثَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قُمْتَ بِآيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَمَعَكَ الْقُرْآنُ؟! لَوْ فَعَلَ هَذَا بَعْضُنَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ! قَالَ: دَعَوْتُ لِأُمَّتِي، قَالَ: فَمَاذَا أُجِبْتَ، أَوْ مَاذَا رُدَّ عَلَيْكَ؟ قَالَ: أُجِبْتُ بِالَّذِي لَوْ اطَّلَعَ عَلَيْهِ كَثِيرٌ مِنْهُمْ طَلْعَةً تَرَكُوا الصَّلَاةَ، قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ: بَلَى، فَانْطَلَقْتُ مُعْنِقًا قَرِيبًا مِنْ قَذْفَةٍ بِحَجَرٍ، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ إِنْ تَبْعَثْ إِلَى النَّاسِ بِهَذَا نَكَلُوا عَنِ الْعِبَادَةِ، فَنَادَى أَنْ ارْجَعْ فَرَجَعَ، وَتِلْكَ الْآيَةُ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118" ..
جسرہ بنت دجاجہ کہتی ہیں کہ وہ ایک مرتبہ عمرہ کے لئے جا رہی تھیں مقام ربذہ میں پہنچیں تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کے وقت لوگوں کو نماز پڑھائی نماز کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیچھے ہٹ کر نوافل پڑھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اپنے خیمے میں واپس چلے گئے جب دیکھا کہ لوگ جا چکے ہیں تو اپنی جگہ پر واپس آکر نوافل پڑھنے شروع کردیئے میں پیچھے سے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے مجھے اشارہ کیا اور میں ان کی دائیں جانب جا کر کھڑا ہوگیا تھوڑی دیر بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی آگئے وہ ہمارے پیچھے کھڑے ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا اور وہ بائیں جانب جا کر کھڑے ہوگئے۔ اس طرح ہم تین آدمیوں نے قیام کیا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا اور اس میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا قرآن کریم کی تلاوت کرتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قیام میں ایک ہی آیت کو باربار دہراتے رہے یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت ہوگیا صبح ہوئی تو میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کے عمل کے متعلق سوال کریں لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا کہ میں تو اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں پوچھوں گا جب تک وہ از خود بیان نہ فرمائیں۔ چنانچہ ہمت کر کے میں نے خود ہی عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ ساری رات قرآن کریم کی ایک ہی آیت پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے پاس تو سارا قرآن ہے؟ اگر ہم میں سے کوئی شخص ایسا کرتا تو ہمیں اس پر غصہ آتا اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو وہ نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیں میں نے عرض کیا کہ کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں چنانچہ میں گردن موڑ کر جانے لگا ابھی اتنی دور ہی گیا تھا کہ جہاں تک پتھر پہنچ سکے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اگر آپ نے انہیں یہ پیغام دے کر لوگوں کے پاس بھیج دیا تو وہ عبادت سے بےپرواہ ہوجائیں گے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر واپس بلالیا اور وہ واپس آگئے اور وہ آیت یہ تھی (إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) اے اللہ! اگر تو انہیں عذاب میں مبتلا کر دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے۔

حكم دارالسلام: اسناده حسن
حدیث نمبر: 21496
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مروان ، حدثنا قدامة البكري ، فذكر نحوه، وقال: ينكلوا عن العبادة.حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، حَدَّثَنَا قُدَامَةُ الْبَكْرِيُّ ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَقَالَ: يَنْكُلُوا عَنِ الْعِبَادَةِ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: اسناده حسن
حدیث نمبر: 21497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبد الحميد بن جعفر ، حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن سويد بن قيس ، عن معاوية بن حديج ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه ليس من فرس عربي إلا يؤذن له مع كل فجر يدعو بدعوتين يقول: " اللهم إنك خولتني من خولتني من بني آدم، فاجعلني من احب اهله وماله إليه" او" احب اهله وماله إليه" ، قال ابو عبد الرحمن، قال: ابي: خالفه عمرو بن الحارث، فقال: عن يزيد، عن عبد الرحمن بن شماسة، وقال ليث، عن ابن شماسة ايضا.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ فَرَسٍ عَرَبِيٍّ إِلَّا يُؤْذَنُ لَهُ مَعَ كُلِّ فَجْرٍ يَدْعُو بِدَعْوَتَيْنِ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّكَ خَوَّلْتَنِي مَنْ خَوَّلْتَنِي مِنْ بَنِي آدَمَ، فَاجْعَلْنِي مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ وَمَالِهِ إِلَيْهِ" أَوْ" أَحَبَّ أَهْلِهِ وَمَالِهِ إِلَيْهِ" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ، قَالَ: أَبِي: خَالَفَهُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شمَاسَةَ، وقَالَ لَيْثٌ، عَنِ ابْنُ شمَاسَةَ أَيْضًا.
معاویہ بن حدیج ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے جو اپنے گھوڑے کے پاس کھڑے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا کہ آپ اپنے گھوڑے کی اتنی دیکھ بھال کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ اس گھوڑے کی دعاء قبول ہوگئی ہے انہوں نے ان سے پوچھا کہ جانور کی دعاء کا کیا مطلب؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کوئی گھوڑا ایسا نہیں ہے جو روزانہ سحری کے وقت یہ دعاء نہ کرتا ہو اے اللہ آپ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو میرا مالک بنایا ہے اور میرا رزق اس کے ہاتھ میں رکھا ہے لہٰذا مجھے اس کی نظروں میں اس کے اہل خانہ اور مال و اولاد سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔

حكم دارالسلام: صحيح موقوفا، ضعيف مرفوعا
حدیث نمبر: 21498
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن يزيد بن إبراهيم ، حدثنا قتادة ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت: لابي ذر لو كنت رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم لسالته، قال: عن اي شيء؟ قلت: اساله هل راى محمد ربه؟ قال: فقال: قد سالته، فقال: " نورا انى اراه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ: لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ كُنْتُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: عَنْ أَيِّ شَيْءٍ؟ قُلْتُ: أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟ قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " نُورًا أَنَّى أَرَاهُ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوتا تو ان سے ایک سوال ہی پوچھ لیتا، انہوں نے فرمایا تم ان سے کیا سوال پوچھتے؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ سوال پوچھتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کی زیارت کی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ سوال تو میں ان سے پوچھ چکا ہوں جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 178
حدیث نمبر: 21499
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عكرمة بن عمار ، حدثني ابو زميل سماك الحنفي ، حدثني مالك بن مرثد بن عبد الله الزماني ، حدثني ابي مرثد ، قال: سالت ابا ذر ، قلت: كنت سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ليلة القدر؟ قال: انا كنت اسال الناس عنها! قال: قلت: يا رسول الله، اخبرني عن ليلة القدر افي رمضان هي، او في غيره؟ قال: " بل هي في رمضان"، قال: قلت: تكون مع الانبياء ما كانوا فإذا قبضوا رفعت، ام هي إلى يوم القيامة؟ قال:" بل هي إلى يوم القيامة"، قال: قلت: في اي رمضان هي؟ قال:" التمسوها في العشر الاول او العشر الاواخر"، ثم حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم وحدث، ثم اهتبلت وغفلته قلت في اي العشرين هي؟ قال:" ابتغوها في العشر الاواخر، لا تسالني عن شيء بعدها"، ثم حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم وحدث، ثم اهتبلت وغفلته، فقلت: يا رسول الله، اقسمت عليك بحقي عليك لما اخبرتني في اي العشر هي؟ قال: فغضب علي غضبا لم يغضب مثله منذ صحبته او صاحبته، كلمة نحوها، قال:" التمسوها في السبع الاواخر، لا تسالني عن شيء بعدها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الزِّمَّانِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي مَرْثَدٌ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قُلْتُ: كُنْتَ سَأَلْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ قَالَ: أَنَا كُنْتُ أَسْأَلَ النَّاسِ عَنْهَا! قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَفِي رَمَضَانَ هِيَ، أَوْ فِي غَيْرِهِ؟ قَالَ: " بَلْ هِيَ فِي رَمَضَانَ"، قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ مَا كَانُوا فَإِذَا قُبِضُوا رُفِعَتْ، أَمْ هِيَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ:" بَلْ هِيَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: قُلْتُ: فِي أَيِّ رَمَضَانَ هِيَ؟ قَالَ:" الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأُوَلِ أَوْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ"، ثُمَّ حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَ، ثُمَّ اهْتَبَلْتُ وَغَفَلْتُهُ قُلْتُ فِي أَيِّ الْعِشْرِينَ هِيَ؟ قَالَ:" ابْتَغُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، لَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا"، ثُمَّ حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَ، ثُمَّ اهْتَبَلْتُ وَغَفَلْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ بِحَقِّي عَلَيْكَ لَمَا أَخْبَرْتَنِي فِي أَيِّ الْعَشْرِ هِيَ؟ قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ مِثْلَهُ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَوْ صَاحَبْتُهُ، كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ:" الْتَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، لَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا" .
ابومرثد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے شب قدر کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا؟ انہوں نے فرمایا اس کے متعلق سب سے زیادہ میں نے ہی تو پوچھا تھا، میں نے پوچھا تھا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ شب قدر رمضان کے مہینے میں ہوتی ہے یا کسی اور مہینے میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ماہ رمضان میں ہوتی ہے میں نے پوچھا کہ گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ وہ اس وقت تک رہتی تھی جب تک وہ نبی رہتے تھے جب ان کا وصال ہوجاتا تو اسے اٹھا لیا جاتا تھا یا یہ قیامت تک رہے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! قیامت تک رہے گی میں نے پوچھا رمضان کے کس حصے میں شب قدر ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے عشرہ اولی یا عشرہ اخیرہ میں تلاش کیا کرو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث بیان کرنے لگے اسی دوران مجھ پر اونگھ کا غلبہ ہوا جب میں ہوشیار ہوا تو پوچھا کہ وہ کون سے بیس دنوں میں ہوتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اب مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ حدیث بیان کرنے لگے اور مجھ پر پھر غفلت طاری ہوگئی جب میں ہوشیار ہوا تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو اپنے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا آپ پر ہے مجھے یہ بتا دیجئے کہ وہ کون سے عشرے میں ہوتی ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا غصہ آیا کہ جب سے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی ایسا غصہ کبھی نہیں آیا تھا اور فرمایا آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرو اور اب مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھنا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مرثد بن عبدالله
حدیث نمبر: 21500
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا هشام ، حدثني ابي ، ان ابا مراوح الغفاري اخبره، ان ابا ذر اخبره، انه قال: يا رسول الله، اي العمل افضل؟ قال:" إيمان بالله، وجهاد في سبيله" قال: فاي الرقاب افضل؟ قال:" اغلاها ثمنا، وانفسها عند اهلها"، قال: افرايت إن لم افعل؟ قال:" تعين صانعا، او تصنع لاخرق"، قال: ارايت إن ضعفت؟ قال:" تمسك عن الشر، فإنه صدقة تصدق بها على نفسك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّ أَبَا مُرَاوِحٍ الْغِفَارِيَّ أخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ أخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ" قَالَ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا"، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ:" تُعِينُ صَانِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ"، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ؟ قَالَ:" تُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ صَدَقَةٌ تَصَّدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے نفیس اور گراں قیمت ہو عرض کیا کہ اگر مجھے ایسا غلام نہ ملے تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی ضرورت مند کی مدد کردو یا کسی محتاج کے لئے محنت مزدوری کرلو عرض کیا کہ اگر میں یہ بھی نہ کرسکوں تو؟ فرمایا لوگوں کو اپنی تکلیف سے محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم اپنی طرف سے دیتے ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21501
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، قال: لما قدم ابو ذر على عثمان من الشام، فقال: امرني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاث " اسمع واطع ولو عبدا مجدع الاطراف، وإذا صنعت مرقة فاكثر ماءها، ثم انظر اهل بيت من جيرتك فاصبهم منها بمعروف، وصل الصلاة لوقتها، فإن وجدت الإمام قد صلى فقد احرزت صلاتك، وإلا فهي نافلة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَبُو ذَرٍّ عَلَى عُثْمَانَ مِنَ الشَّامِ، فَقَالَ: أَمَرَنِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ " اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ عَبْدًا مُجَدَّعَ الْأَطْرَافِ، وَإِذَا صَنَعْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا، ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَتِكَ فَأَصِبْهُمْ مِنْهَا بِمَعْرُوفٍ، وَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ وَجَدْتَ الْإِمَامَ قَدْ صَلَّى فَقَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ، وَإِلَّا فَهِيَ نَافِلَةٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے (١) بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ کٹے ہوئے اعضاء والے غلام حکمران کی ہو (٢) جب سالن بناؤ تو اس کا پانی بڑھا لیا کرو پھر اپنے ہمسائے میں رہنے والوں کو دیکھو اور بھلے طریقے سے ان تک بھی اسے پہنچاؤ (٣) اور نماز کو وقت مقررہ پر ادا کیا کرو اور جب تم امام کو نماز پڑھ کر فارغ دیکھو تو تم اپنی نماز پڑھ ہی چکے ہوگے ورنہ وہ نفلی نماز ہوجائے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 648
حدیث نمبر: 21502
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مكي بن إبراهيم ، حدثنا عبد الله بن ابي زياد ، عن شهر بن حوشب ، عن ابن عم لابي ذر، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من شرب الخمر لم يقبل الله له صلاة اربعين ليلة، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد كان مثل ذلك" فما ادري افي الثالثة ام في الرابعة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فإن عاد كان حتما على الله ان يسقيه من طينة الخبال"، قالوا: يا رسول الله، وما طينة الخبال؟ قال:" عصارة اهل النار" .حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ ابْنِ عَمٍّ لِأَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَإِنْ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِنْ عَادَ كَانَ مِثْلَ ذَلِكَ" فَمَا أَدْرِي أَفِي الثَّالِثَةِ أَمْ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنْ عَادَ كَانَ حَتْمًا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَسْقِيَهُ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا طِينَةُ الْخَبَالِ؟ قَالَ:" عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص شراب نوشی کرتا ہے اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے، دوبارہ پیتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے (تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا) کہ پھر اللہ تعالیٰ کے ذمے واجب ہے کہ اسے " طینۃ الخبال " کا پانی پلائے صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟ فرمایا اہل جہنم کی پیپ۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبيد الله بن أبى زياد وشهر فيهما ضعف، وابن عم أبى ذر مبهم
حدیث نمبر: 21503
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن غيلان ، حدثنا رشدين يعني ابن سعد ، حدثني عمرو بن الحارث ، قال: وحدثني رشدين ، عن سالم بن غيلان التجيبي حدثه، ان سليمان بن ابي عثمان حدثه، عن حاتم بن ابي عدي او عدي بن حاتم الحمصي ، عن ابي ذر ، قال: قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إني اريد ان ابيت عندك الليلة، فاصلي بصلاتك، قال: " لا تستطيع صلاتي" فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسل، فستر بثوب وانا محول عنه فاغتسل، ثم فعلت مثل ذلك، ثم قام يصلي وقمت معه حتى جعلت اضرب براسي الجدران من طول صلاته، ثم اذن بلال للصلاة، فقال:" افعلت؟" قال: نعم، قال:" يا بلال، إنك لتؤذن إذا كان الصبح ساطعا في السماء، وليس ذلك الصبح، إنما الصبح هكذا معترضا ثم دعا بسحور فتسحر" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي رِشْدِينُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ التُّجِيبِيِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي عُثْمَانَ حَدَّثَهُ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي عَدِيٍّ أَوْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبِيتَ عِنْدَكَ اللَّيْلَةَ، فَأُصَلِّيَ بِصَلَاتِكَ، قَالَ: " لَا تَسْتَطِيعُ صَلَاتِي" فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ، فَسُتِرَ بِثَوْبٍ وَأَنَا مُحَوَّلٌ عَنْهُ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ فَعَلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى جَعَلْتُ أَضْرِبُ بِرَأْسِي الْجُدْرَانَ مِنْ طُولِ صَلَاتِهِ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ لِلصَّلَاةِ، فَقَالَ:" أَفَعَلْتَ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" يَا بِلَالُ، إِنَّكَ لَتُؤَذِّنُ إِذَا كَانَ الصُّبْحُ سَاطِعًا فِي السَّمَاءِ، وَلَيْسَ ذَلِكَ الصُّبْحَ، إِنَّمَا الصُّبْحُ هَكَذَا مُعْتَرِضًا ثُمَّ دَعَا بِسَحُورٍ فَتَسَحَّرَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ آج رات میں آپ کے ساتھ گذارنا اور آپ کی نماز میں شریک ہونا چاہتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ایسا کرنے کی طاقت نہیں ہے بہرحال! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لئے چلے گئے ایک کپڑے سے پردہ کردیا گیا اور میں رخ پھیر کر بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کر کے آئے تو میں نے بھی اسی طرح کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور میں بھی ساتھ کھڑا ہوگیا حتی کہ طول نماز کی وجہ سے میں اپنا سر دیواروں سے ٹکرانے لگا پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کے لئے آگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم نے ایسا کرلیا؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! تم اس وقت اذان دیتے ہو جب آسمان پر طلوع فجر ہوجاتی ہے حالانکہ اصل صبح صادق وہ نہیں ہوتی صبح صادق تو چوڑائی کی حالت میں نمودار ہوتی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری منگوا کر اسے تناول فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعدة علل
حدیث نمبر: 21504
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي بشر ، عن طلق بن حبيب ، عن بشير بن كعب العدوي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل لك في كنز من كنوز الجنة؟" قال: فقلت: نعم، قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ فِي كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد قوي
حدیث نمبر: 21505
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا عامر الاحول ، عن شهر بن حوشب ، عن معدي كرب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يروي، عن ربه عز وجل، انه قال:" يا ابن آدم، إنك ما دعوتني ورجوتني فإني ساغفر لك على ما كان فيك، ولو لقيتني بقراب الارض خطايا للقيتك بقرابها مغفرة، ولو عملت من الخطايا حتى تبلغ عنان السماء ما لم تشرك بي شيئا ثم استغفرتني، لغفرت لك، ثم لا ابالي" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي، عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهُ قَالَ:" يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي فَإِنِّي سَأَغْفِرُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ، وَلَوْ لَقِيتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا لَلَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً، وَلَوْ عَمِلْتَ مِنَ الْخَطَايَا حَتَّى تَبْلُغَ عَنَانَ السَّمَاءِ مَا لَمْ تُشْرِكْ بِي شَيْئًا ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي، لَغَفَرْتُ لَكَ، ثُمَّ لَا أُبَالِي" ..
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے! تو میری جتنی عبادت اور مجھ سے جتنی امید وابستہ کرے گا میں تیرے سارے گناہوں کو معاف کردوں گا میرے بندے! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا مجھے کوئی پرواہ نہ ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف، شهر بن حوشب ضعيف، وقد اختلف عليه فى الحديث، ومعدي كرب مجهول
حدیث نمبر: 21506
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا مهدي بن ميمون ، عن غيلان بن جرير ، عن شهر بن حوشب ، عن معدي كرب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، م: 2687، وهذا إسناد ضعيف، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 21507
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن سالم بن غيلان ، عن سليمان بن ابي عثمان ، عن عدي بن حاتم الحمصي ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لبلال: " انت يا بلال تؤذن إذا كان الصبح ساطعا في السماء، فليس ذلك بالصبح، إنما الصبح هكذا معترضا" ثم دعا بسحوره فتسحر، وكان يقول:" لا تزال امتي بخير ما اخروا السحور، وعجلوا الفطر" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الْحِمْصِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِبِلَالٍ: " أَنْتَ يَا بِلَالُ تُؤَذِّنُ إِذَا كَانَ الصُّبْحُ سَاطِعًا فِي السَّمَاءِ، فَلَيْسَ ذَلِكَ بِالصُّبْحِ، إِنَّمَا الصُّبْحُ هَكَذَا مُعْتَرِضًا" ثُمَّ دَعَا بِسَحُورِهِ فَتَسَحَّرَ، وَكَانَ يَقُولُ:" لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا أَخَّرُوا السَّحُورَ، وَعَجَّلُوا الْفِطْرَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! تم اس وقت اذان دیتے ہو جب آسمان پر طلوع فجر ہوجاتی ہے حالانکہ اصل صبح صادق وہ نہیں ہوتی صبح صادق تو چوڑائی کی حالت میں نمودار ہوتی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری منگوا کر اسے تناول فرمایا: اور فرماتے تھے کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک وہ سحری میں تاخیر اور افطاری میں تعجیل کرتی رہے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، وسليمان وعدي مجهولان
حدیث نمبر: 21508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن إسحاق ، قال: قال عبد الله، حدثني يونس ، عن الزهري ، قال: سمعت ابا الاحوص مولى بني ليث يحدثنا في مجلس ابن المسيب، وابن المسيب جالس، انه سمع ابا ذر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الله عز وجل مقبلا على العبد في صلاته ما لم يلتفت، فإذا صرف وجهه، انصرف عنه" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ مَوْلَى بَنِي لَيْثٍ يُحَدِّثُنَا فِي مَجْلِسِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ جَالِسٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ، فَإِذَا صَرَفَ وَجْهَهُ، انْصَرَفَ عَنْهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس وقت مسلسل اپنے بندے پر دوران نماز متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دائیں بائیں نہ دیکھے لیکن جب وہ اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، عن ابي اليمان ، وابي المثنى ، ان ابا ذر ، قال: بايعني رسول الله صلى الله عليه وسلم خمسا، واوثقني سبعا، واشهد علي تسعا، ان لا اخاف في الله لومة لائم"، قال ابو المثنى: قال ابو ذر فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " هل لك إلى بيعة، ولك الجنة؟" قلت: نعم، وبسطت يدي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يشترط علي:" ان لا تسال الناس شيئا"، قلت: نعم، قال:" ولا سوطك إن يسقط منك، حتى تنزل إليه فتاخذه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ أَبِي الْيَمَانِ ، وَأَبِي الْمُثَنَّى ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: بَايَعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا، وأَوْثَقَنِي سَبْعًا، وَأَشْهَدَ عَلَيَّ تِسْعًا، أَنْ لَا أَخَافَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ"، قَالَ أَبُو الْمُثَنَّى: قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ إِلَى بَيْعَةٍ، وَلَكَ الْجَنَّةُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، وَبَسَطْتُ يَدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَشْتَرِطُ عَلَيَّ:" أَنْ لَا تَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" وَلَا سَوْطَكَ إِنْ يَسْقُطَ مِنْكَ، حَتَّى تَنْزِلَ إِلَيْهِ فَتَأْخُذَهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزوں کی مجھ سے بیعت لی سات چیزوں کا مجھ سے میثاق لیا ہے اور نو چیزوں پر اللہ کو گواہ بنایا ہے کہ میں اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کروں گا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کیا تم میری بیعت کرتے ہو؟ جس کے بدلے میں تمہیں جنت مل جائے میں نے اثبات میں جواب دے کر ہاتھ پھیلا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط لگاتے ہوئے فرمایا کہ تم کسی سے کچھ نہیں مانگو گے میں نے اثبات میں جواب دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارا کوڑا گرجائے تو وہ بھی کسی سے نہ مانگنا بلکہ خود سواری سے اتر کر اسے پکڑ لینا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى اليمان وأبي المثني
حدیث نمبر: 21510
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو اليمان ، حدثنا صفوان بن عمرو ، عن شريح بن عبيد الحضرمي ، يرده إلى ابي ذر ، انه قال: لما كان العشر الاواخر اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، فلما صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العصر من يوم اثنين وعشرين، قال: " إنا قائمون الليلة إن شاء الله، فمن شاء منكم ان يقوم فليقم وهي ليلة ثلاث وعشرين، فصلاها النبي صلى الله عليه وسلم جماعة بعد العتمة حتى ذهب ثلث الليل، ثم انصرف، فلما كان ليلة اربع وعشرين لم يصل شيئا ولم يقم، فلما كان ليلة خمس وعشرين قام بعد صلاة العصر يوم اربع وعشرين، فقال: إنا قائمون الليلة إن شاء الله يعني ليلة خمس وعشرين، فمن شاء فليقم" فصلى بالناس حتى ذهب ثلث الليل، ثم انصرف، فلما كان ليلة ست وعشرين لم يقل شيئا ولم يقم، فلما كان عند صلاة العصر من يوم ست وعشرين قام فقال:" إنا قائمون إن شاء الله يعني ليلة سبع وعشرين، فمن شاء ان يقوم فليقم"، قال ابو ذر: فتجلدنا للقيام فصلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم حتى ذهب ثلثا الليل، ثم انصرف إلى قبته في المسجد، فقلت له: إن كنا لقد طمعنا يا رسول الله ان تقوم بنا حتى تصبح، فقال:" يا ابا ذر، إنك إذا صليت مع إمامك وانصرفت إذا انصرف، كتب لك قنوت ليلتك" ..حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ ، يَرُدُّهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ اثْنَيْنِ وَعِشْرِينَ، قَالَ: " إِنَّا قَائِمُونَ اللَّيْلَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ فَلْيَقُمْ وَهِيَ لَيْلَةُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، فَصَلَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةً بَعْدَ الْعَتَمَةِ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ لَمْ يُصَلِّ شَيْئًا وَلَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ قَامَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ يَوْمَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالَ: إِنَّا قَائِمُونَ اللَّيْلَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَعْنِي لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَقُمْ" فَصَلَّى بِالنَّاسِ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ سِتٍّ وَعِشْرِينَ لَمْ يَقُلْ شَيْئًا وَلَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ سِتٍّ وَعِشْرِينَ قَامَ فَقَالَ:" إِنَّا قَائِمُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يَعْنِي لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَقُومَ فَلْيَقُمْ"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَتَجَلَّدْنَا لِلْقِيَامِ فَصَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى قُبَّتِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنْ كُنَّا لَقَدْ طَمِعْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَقُومَ بِنَا حَتَّى تُصْبِحَ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ إِذَا صَلَّيْتَ مَعَ إِمَامِكَ وَانْصَرَفْتَ إِذَا انْصَرَفَ، كُتِبَ لَكَ قُنُوتُ لَيْلَتِكَ" ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا جب ٢٤ ویں شب ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا حتی کہ تہائی رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی جب اگلی رات آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں فرمایا اور ٢٦ ویں شب کو ہمارے ساتھ اتنا لمباقیام فرمایا کہ نصف رات ختم ہونے کے قریب ہوگئی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر رات کے باقی حصے میں بھی آپ ہمیں نوافل پڑھاتے رہتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جب کوئی شخص امام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور فراغت تک شامل رہتا ہے تو اسے ساری رات قیام میں ہی شمار کیا جائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، شريح بن عبيد لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21511
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال ابو عبد الرحمن: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده حدثنا عبيد الله بن محمد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ليث ، عن عبد الرحمن بن ثروان ، عن الهزيل بن شرحبيل ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان جالسا، وشاتان تعتلفان، فنطحت إحداهما الاخرى، فاجهضتها، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: ما يضحكك يا رسول الله؟ قال: " عجبت لها، والذي نفسي بيده، ليقادن لها يوم القيامة" .قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدتُ هَذَا الحَدِيثُ فِي كِتَابُ أُبَي بخط يَده حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَنْ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا، وَشَاتَانِ تَعْتَلِفَان، فَنَطَحَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى، فَأَجْهَضَتْهَا، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " عَجِبْتُ لَهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُقَادَنَّ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دو بکریوں کو آپس میں ایک دوسرے سے سینگوں کے ساتھ ٹکراتے ہوئے دیکھا کہ ان میں سے ایک نے دوسری کو عاجز کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا مجھے اس بکری پر تعجب ہو رہا ہے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے قیامت کے دن اس سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
حدیث نمبر: 21512
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، ان ابا كثير مولى بني هاشم حدثه، انه سمع ابا ذر الغفاري صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كلمات من ذكرهن مئة مرة دبر كل صلاة الله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله وحده لا شريك له، ولا حول ولا قوة إلا بالله، ثم لو كانت خطاياه مثل زبد البحر لمحتهن" ، قال ابو عبد الرحمن، قال ابي لم يرفعه.حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا كَثِيرٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كَلِمَاتٌ مَنْ ذَكَرَهُنَّ مِئَةَ مَرَّةٍ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ اللَّهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ لَوْ كَانَتْ خَطَايَاهُ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ لَمَحَتْهُنَّ" ، قَالَ أَبُو عَبْدُ الرَّحْمَنُ، قَالَ أَبِي لَمْ يَرْفَعْهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کچھ کلمات ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی شخص ہر نماز کے بعد سو مرتبہ کہہ لے یعنی اللہ اکبر سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ اور لہ حول ولاقوۃ الاباللہ پھر اگر اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں تو یہ کلمات انہیں مٹا دیں گے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وجهالة أبى كثير، وحيي فيه كلام
حدیث نمبر: 21513
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، قال: سمعت ابن حجيرة الشيخ ، يقول: اخبرني من ، سمع ابا ذر ، يقول: ناجيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة إلى الصبح، فقلت: يا رسول الله، امرني، فقال: " إنها امانة، وخزي وندامة يوم القيامة، إلا من اخذها بحقها وادى الذي عليه فيها" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ حُجَيْرَةَ الشَّيْخَ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مَنْ ، سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: نَاجَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِّرْنِي، فَقَالَ: " إِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَخِزْيٌ وَنَدَامَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رات سے صبح تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سرگوشیوں میں گفتگو کی پھر عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کسی علاقے کا گورنر بنا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ایک امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا سبب ہوگی سوائے اس شخص کے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1825، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدیث نمبر: 21514
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، ان ابا سالم الجيشاني اتى ابا امية في منزله، فقال: إني سمعت ابا ذر، يقول: إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا احب احدكم صاحبه فلياته في منزله فليخبره انه يحبه لله عز وجل، وقد احببتك فجئتك في منزلك" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ أَبَا سَالِمٍ الْجَيْشَانِيَّ أَتَى أَبَا أُمَيَّةَ فِي مَنْزِلِهِ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ صَاحِبَهُ فَلْيَأْتِهِ فِي مَنْزِلِهِ فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ أَحْبَبْتُكَ فَجِئْتُكَ فِي مَنْزِلِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی ساتھی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہئے کہ اس کے گھر جائے اور اسے بتائے کہ وہ اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہے اور اے ابو ذر! میں اسی وجہ سے تمہارے گھر آیا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى حبيب إن كان ثقة، لكنه قد كان يرسل، ولم يبين هنا عمن رواه، وابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد تفرد فى هذا الحديث بقوله: فليأته إلى منزله
حدیث نمبر: 21515
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن الوليد ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن مورق العجلي ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من لاءمكم من خدمكم فاطعموهم مما تاكلون، واكسوهم مما تلبسون، ومن لا يلائمكم من خدمكم، فبيعوا ولا تعذبوا خلق الله" .حَدَّثَنَا عَبْد الله بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَاءَمَكُمْ مِنْ خَدَمِكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَمَنْ لَا يُلَائِمُكُمْ مِنْ خَدَمِكُمْ، فَبِيعُوا وَلَا تُعَذِّبُوا خَلْقَ اللَّهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس کا خادم اس کے موافق آجائے تو تم جو خود کھاتے ہو وہی اسے کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو وہی اسے بھی پہناؤ اور جو تمہارے موافق نہ آئے اسے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب میں مبتلا نہ کرو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره بهذه السياقة، وهذا الإسناد منقطع، مورق العجلي لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21516
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا اسود هو ابن عامر، حدثنا إسرائيل ، عن إبراهيم بن مهاجر ، عن مجاهد ، عن مورق ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني ارى ما لا ترون، واسمع ما لا تسمعون، اطت السماء وحق لها ان تئط، ما فيها موضع اربع اصابع إلا عليه ملك ساجد، لو علمتم ما اعلم، لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا، ولا تلذذتم بالنساء على الفرشات، ولخرجتم على او إلى الصعدات تجارون إلى الله"، قال: فقال ابو ذر: والله لوددت اني شجرة تعضد .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ هُوَ ابْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَّتْ السَّمَاءُ وَحَقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ، مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ سَاجِدٌ، لَوْ عَلِمْتُمْ مَا أَعْلَمُ، لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَلَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ، وَلَخَرَجْتُمْ عَلَى أَوْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ"، قَالَ: فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي شَجَرَةٌ تُعْضَدُ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچرانے لگے اور ان کا حق بھی ہے کہ وہ چرچرائیں کیونکہ آسمان میں چار انگل کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے جس پر کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو اگر تمہیں وہ باتیں معلوم ہوتیں جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوسکتے اور پہاڑوں کی طرف نکل جاتے تاکہ اللہ کی پناہ میں آجاؤ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، مورق لم يسمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21517
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا الحكم بن موسى ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال المدني ، اخبرنا عمر مولى غفرة ، عن ابن كعب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اوصاني حبي بخمس ارحم المساكين واجالسهم، وانظر إلى من هو تحتي، ولا انظر إلى من هو فوقي، وان اصل الرحم وإن ادبرت، وان اقول بالحق وإن كان مرا، وان اقول لا حول ولا قوة إلا بالله"، يقول مولى غفرة لا اعلم بقي فينا من الخمس إلا هذه قولنا لا حول ولا قوة إلا بالله، قال ابو عبد الرحمن: وسمعته انا من الحكم بن موسى، وقال: عن محمد بن كعب، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ الْمَدَنِيُّ ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ مَوْلَى غُفْرَةَ ، عَنِ ابْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَوْصَانِي حِبِّي بِخَمْسٍ أَرْحَمُ الْمَسَاكِينَ وَأُجَالِسُهُمْ، وَأَنْظُرُ إِلَى مَنْ هُوَ تَحْتِي، وَلَا أَنْظُرُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقِي، وَأَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، وَأَنْ أَقُولَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، يَقُولُ مَوْلَى غُفْرَةَ لَا أَعْلَمُ بَقِيَ فِينَا مِنَ الْخَمْسِ إِلَّا هَذِهِ قَوْلُنَا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنَ الْحَكَمِ بْنِ مُوسَى، وقَالَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزوں کا حکم دیا ہے انہوں نے مجھے حکم دیا ہے مساکین سے محبت کرنے اور ان سے قریب رہنے کا اپنے سے نیچے والے کو دیکھنے اور اوپر والے کو نہ دیکھنے کا، صلہ رحمی کرنے کا گو کہ کوئی اسے توڑ ہی دے کسی سے کچھ نہ مانگنے کا، حق بات کہنے کا خواہ وہ تلخ ہی ہو، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کا اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کی کثرت کا کیونکہ یہ کلمات عرش کے نیچے ایک خزانے سے آئے ہیں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، عمر مولي غفرة ضعيف كثير الارسال
حدیث نمبر: 21518
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، اخبرنا إسماعيل يعني ابن جعفر ، اخبرني محمد بن ابي حرملة ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي ذر ، قال: " اوصاني حبي بثلاث لا ادعهن إن شاء الله ابدا اوصاني بصلاة الضحى، وبالوتر قبل النوم، وبصيام ثلاثة ايام من كل شهر" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: " أَوْصَانِي حِبِّي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَبَدًا أَوْصَانِي بِصَلَاةِ الضُّحَى، وَبِالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ، وَبِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے جنہیں ان شاء اللہ میں کبھی نہیں چھوڑوں گا انہوں نے مجھے چاشت کی نماز، سونے سے پہلے وتر اور ہر مہینے تین روزے رکھنے کی وصیت فرمائی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان عطاء بن يسار سمع من أبى ذر
حدیث نمبر: 21519
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا روح ، حدثنا ابو عامر الخزاز ، عن ابي عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لا تحقرن من المعروف شيئا، فإن لم تجد، فالق اخاك بوجه طلق" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ، فَالْقَ أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگر کچھ اور نہ کرسکو تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ہی مل لیا کرو۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 2626، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21520
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت حرملة يحدث، عن عبد الرحمن بن شماسة ، عن ابي بصرة ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم ستفتحون مصر، وهي ارض يسمى فيها القيراط، فإذا فتحتموها، فاحسنوا إلى اهلها، فإن لهم ذمة ورحما او قال: ذمة وصهرا فإذا رايت رجلين يختصمان فيها في موضع لبنة، فاخرج منها" ، قال: فرايت عبد الرحمن بن شرحبيل بن حسنة واخاه ربيعة يختصمان في موضع لبنة، فخرجت منها..حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ حَرْمَلَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ، وَهِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ، فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا، فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا، فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا أَوْ قَالَ: ذِمَّةً وَصِهْرًا فَإِذَا رَأَيْتَ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِيهَا فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَاخْرُجْ مِنْهَا" ، قَالَ: فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَحْبِيلَ بْنِ حَسَنَةَ وَأَخَاهُ رَبِيعَةَ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَخَرَجْتُ مِنْهَا..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب تم سر زمین مصر کو فتح کرلو گے، اس علاقے میں " قیراط " کا لفظ بولا جاتا ہے، جب تم اسے فتح کرلو وہاں کے باشندوں سے حسن سلوک کرنا کیونکہ ان کے ساتھ عہد اور رشتہ داری کا تعلق ہے، چنانچہ وہاں جب تم دو آدمیوں کو ایک اینٹ کی جگہ پر لڑتے ہوئے دیکھو تو وہاں سے نکل جانا پھر میں نے عبدالرحمن بن شرجیل اور ان کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ میں ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے دیکھا تو میں وہاں سے نکل آیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2543
حدیث نمبر: 21521
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه هارون ، حدثنا ابن وهب ، حدثنا حرملة ، عن عبد الرحمن بن شماسة ، قال: سمعت ابا ذر ، فذكر معناه.وحَدَّثَنَاه هَارُونُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2543
حدیث نمبر: 21522
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سليمان بن داود ابو داود ، حدثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان ، حدثني ابي ، عن مكحول ، ان ابن نعيم حدثه، ان ابا ذر حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله يقبل توبة عبده، او يغفر لعبده ما لم يقع الحجاب"، قالوا: يا رسول الله وما الحجاب؟ قال:" ان تموت النفس وهي مشركة" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَكْحُولٍ ، أَنَّ ابْنَ نُعَيْمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِهِ، أَوْ يَغْفِرُ لِعَبْدِهِ مَا لَمْ يَقَعْ الْحِجَابُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْحِجَابُ؟ قَالَ:" أَنْ تَمُوتَ النَّفْسُ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت قبول کرتا رہتا ہے جب تک حجاب واقع نہ ہوجائے میں نے پوچھا کہ حجاب واقع ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی روح اس حال میں نکلے کہ وہ مشرک ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن نعيم، وقوله: أن أباذر حدثهم خطأ، والصواب: أن بينهما أسامة بن سلمان، وهو مجهول أيضا
حدیث نمبر: 21523
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا عبد الرحمن بن ثوبان ، عن ابيه ، عن مكحول ، عن عمر بن نعيم ، عن اسامة بن سلمان ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله ليغفر لعبده ما لم يقع الحجاب"، قالوا: يا رسول الله، وما وقوع الحجاب؟ قال:" ان تموت النفس وهي مشركة"..حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ سَلْمَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيَغْفِرُ لِعَبْدِهِ مَا لَمْ يَقَعْ الْحِجَابُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا وُقُوعُ الْحِجَابِ؟ قَالَ:" أَنْ تَمُوتَ النَّفْسُ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ"..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا رہتا ہے جب تک حجاب واقع نہ ہوجائے، میں نے پوچھا کہ حجاب واقع ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی روح اس حال میں نکلے کہ وہ مشرک ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمر بن نعيم وشيخه أسامة ابن سلمان
حدیث نمبر: 21524
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن عياش ، وعصام بن خالد ، قالا: حدثنا عبد الرحمن بن ثوبان ، عن ابيه ، عن مكحول ، عن عمر بن نعيم ، عن اسامة بن سلمان ، وقال: عصام ، عمر بن نعيم العنسي ، ان ابا ذر حدثهم، وقالا: يا رسول الله، وما وقوع الحجاب؟ ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله ليغفر لعبده" ، فذكرا مثله.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، وَعِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ سَلْمَانَ ، وَقَالَ: عِصَامٌ ، عُمَرَ بْنِ نُعَيْمٍ الْعَنْسِيِّ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُمْ، وَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا وُقُوعُ الْحِجَابِ؟ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيَغْفِرُ لِعَبْدِهِ" ، فَذَكَرَا مِثْلَهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا رہتا ہے جب تک حجاب واقع نہ ہو جائے، میں نے پوچھا کہ حجاب واقع ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کی روح اس حال میں نکلے کہ وہ مشرک ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمر بن نعيم وشيخه أسامة بن سلمان
حدیث نمبر: 21525
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، عن عبد الله بن صامت ، قال: قال ابو ذر خرجنا من قومنا غفار، وكانوا يحلون الشهر الحرام، انا واخي انيس، وامنا، فانطلقنا حتى نزلنا على خال لنا ذي مال وذي هيئة، فاكرمنا خالنا واحسن إلينا، فحسدنا قومه، فقالوا له: إنك إذا خرجت عن اهلك، خلفك إليهم انيس، فجاء خالنا فنثا عليه ما قيل له، فقلت: اما ما مضى من معروفك، فقد كدرته، ولا جماع لنا فيما بعد، قال: فقربنا صرمتنا، فاحتملنا عليها، وتغطى خالنا ثوبه وجعل يبكي، قال: فانطلقنا حتى نزلنا بحضرة مكة، قال: فنافر انيس رجلا عن صرمتنا، وعن مثلها، فاتيا الكاهن، فخير انيسا، فاتانا بصرمتنا ومثلها، وقد صليت يا ابن اخي قبل ان القى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث سنين، قال: فقلت: لمن؟ قال لله، قال: قلت: فاين توجه؟ قال: حيث وجهني الله، قال: واصلي عشاء حتى إذا كان من آخر الليل القيت كاني خفاء، قال: ابي، قال ابو النضر ، قال سليمان كاني خفاء، قال: يعني خباء، تعلوني الشمس، قال: فقال انيس: إن لي حاجة بمكة، فاكفني حتى آتيك، قال: فانطلق فراث علي، ثم اتاني، فقلت: ما حبسك؟ قال: لقيت رجلا يزعم ان الله ارسله على دينك، قال: فقلت: ما يقول الناس له؟ قال: يقولون: إنه شاعر وساحر وكاهن، وكان انيس شاعرا، قال: فقال: قد سمعت قول الكهان، فما يقول بقولهم، وقد وضعت قوله على اقراء الشعر، فوالله ما يلتئم لسان احد انه شعر، والله إنه لصادق، وإنهم لكاذبون، قال: فقلت له: هل انت كافي حتى انطلق فانظر؟ قال: نعم، فكن من اهل مكة على حذر، فإنهم قد شنفوا له وتجهموا له، وقال عفان : شئفوا له، وقال بهز : سبقوا له، وقال ابو النضر: شفوا له، قال: فانطلقت حتى قدمت مكة، فتضعفت رجلا منهم، فقلت: اين هذا الرجل الذي تدعونه الصابئ؟ قال: فاشار إلي، قال: الصابئ، قال: فمال اهل الوادي علي بكل مدرة وعظم حتى خررت مغشيا علي، فارتفعت حين ارتفعت كاني نصب احمر، فاتيت زمزم فشربت من مائها، وغسلت عني الدم، فدخلت بين الكعبة واستارها، فلبثت به يا ابن اخي ثلاثين، من بين يوم وليلة، مالي طعام إلا ماء زمزم، فسمنت حتى تكسرت عكن بطني، وما وجدت على كبدي سخفة جوع، قال: فبينا اهل مكة في ليلة قمراء اضحيان، وقال عفان إصخيان، وقال بهز إضحيان، وكذلك قال ابو النضر، فضرب الله على اصمخة اهل مكة، فما يطوف بالبيت غير امراتين، فاتتا علي وهما تدعوان إساف ونائل، قال: فقلت: انكحوا احدهما الآخر، فما ثناهما ذلك، قال: فاتتا علي، فقلت: وهن مثل الخشبة، غير اني لم اكن، قال: فانطلقتا تولولان، وتقولان: لو كان هاهنا احد من انفارنا! قال: فاستقبلهما رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وهما هابطان من الجبل، فقال:" ما لكما"، فقالتا: الصابئ بين الكعبة واستارها، قالا:" ما قال لكما؟" قالتا: قال: لنا كلمة تملا الفم، قال: فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم هو وصاحبه حتى استلم الحجر، فطاف بالبيت، ثم صلى، قال: فاتيته، فكنت اول من حياه بتحية اهل الإسلام، فقال:" عليك ورحمة الله، ممن انت؟" قال: قلت من غفار، قال: فاهوى بيده، فوضعها على جبهته، قال: فقلت: في نفسي كره اني انتميت إلى غفار، قال: فاردت ان آخذ بيده، فقذفني صاحبه، وكان اعلم به مني، قال:" ومتى كنت ها هنا"، قال: كنت هاهنا منذ ثلاثين من بين ليلة ويوم، قال:" فمن كان يطعمك؟" قلت: ما كان لي طعام إلا ماء زمزم، قال: فسمنت حتى تكسر عكن بطني، وما وجدت على كبدي سخفة جوع، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها مباركة، وإنها طعام طعم"، قال ابو بكر: ائذن لي يا رسول الله في طعامه الليلة، قال: ففعل، قال: فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم، وانطلق ابو بكر، وانطلقت معهما، حتى فتح ابو بكر بابا، فجعل يقبض لنا من زبيب الطائف، قال: فكان ذلك اول طعام اكلته بها، فلبثت ما لبثت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني قد وجهت إلي ارض ذات نخل، ولا احسبها إلا يثرب، فهل انت مبلغ عني قومك لعل الله ان ينفعهم بك وياجرك فيهم؟"، قال: فانطلقت حتى اتيت انيسا، قال: فقال لي: ما صنعت؟ قال: قلت: إني صنعت اني اسلمت وصدقت، قال: قال: فما بي رغبة عن دينك، فإني قد اسلمت وصدقت، ثم اتينا امنا، فقالت: فما بي رغبة عن دينكما، فإني قد اسلمت وصدقت فتحملنا حتى اتينا قومنا غفارا، فاسلم بعضهم قبل ان يقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وقال، يعني يزيد ببغداد، وقال: بعضهم إذا قدم، وقال بهز إخواننا نسلم، وكذا قال ابو النضر: وكان يؤمهم خفاف بن إيماء بن رحضة الغفاري، وكان سيدهم يومئذ، وقال: بقيتهم إذا قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، اسلمنا فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فاسلم بقيتهم، قال: وجاءت اسلم، فقالوا: يا رسول الله إخواننا نسلم على الذي اسلموا عليه، فاسلموا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" غفار غفر الله لها، واسلم سالمها الله"، وقال بهز وكان يؤمهم إيماء بن رحضة، فقال ابو النضر إيماء ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ، وَأُمُّنَا، فانطلقنا حتى نزلنا على خال لنا ذي مال وذي هيئة، فأكرمنا خالنا وأحسن إلينا، فحسدنا قومه، فقالوا له: إنك إذا خرجت عَنْ أَهْلِكَ، خَلَفَكَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ، فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَنَا فِيمَا بَعْدُ، قَالَ: فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا، فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا، وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ وَجَعَلَ يَبْكِي، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، قَالَ: فَنَافَرَ أُنَيْسٌ رَجُلًا عَنْ صِرْمَتِنَا، وَعَنْ مِثْلِهَا، فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا، فَأَتَانَا بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا، وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِينَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: حَيْثُ وَجَّهَنِي اللَّهُ، قَالَ: وَأُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، قَالَ: أَبِي، قَالَ أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ سُلَيْمَانُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، قَالَ: يَعْنِي خَبِاءً، تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ، قَالَ: فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ، فَاكْفِنِي حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ أَتَانِي، فَقُلْتُ: مَا حَبَسَكَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ عَلَى دِينِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا يَقُولُ النَّاسُ لَهُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: إِنَّهُ شَاعِرٌ وَسَاحِرٌ وَكَاهِنٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ شَاعِرًا، قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكُهَّانِ، فَمَا يَقُولُ بِقَوْلِهِمْ، وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ، فَوَاللَّهِ مَا يَلْتَئمُ لِسَانُ أَحَدٍ أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ، وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ أَنْتَ كَافِيَّ حَتَّى أَنْطَلِقَ فَأَنْظُرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَكُنْ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ عَلَى حَذَرٍ، فَإِنَّهُمْ قَدْ شَنِفُوا لَهُ وَتَجَهَّمُوا لَهُ، وَقَالَ عَفَّانُ : شِئفُوا لَهُ، وَقَالَ بَهْزٌ : سَبَقُوا لَهُ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ: شَفَوْا لَهُ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى قَدِمْتُ مَكَّةَ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ إِلَيَّ، قَالَ: الصَّابِئُ، قَالَ: فَمَالَ أَهْلُ الْوَادِي عَلَيَّ بِكُلِّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَغَسَلْتُ عَنِّي الدَّمَ، فَدَخَلْتُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، فَلَبِثْتُ بِهِ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ، مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، مَالِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سَخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَيْنَا أَهْلُ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ أَضْحِيَانٍ، وَقَالَ عَفَّانُ إِصْخِيَانٍ، وَقَالَ بَهْزٌ إِضْحِيَانٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو النَّضْرِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى أَصْمِخَةِ أَهْلِ مَكَّةَ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ غَيْرُ امْرَأَتَيْنِ، فَأَتَتَا عَلَيَّ وَهُمَا تَدْعُوَانِ إِسَافَ وَنَائِلَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْكِحُوا أَحَدَهُمَا الْآخَرَ، فَمَا ثَنَاهُمَا ذَلِكَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ، فَقُلْتُ: وَهَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ، غَيْرَ أَنِّي لَمْ أُكَنِّ، قَالَ: فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا! قَالَ: فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ:" مَا لَكُمَا"، فَقَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَا:" مَا قَالَ لَكُمَا؟" قَالَتَا: قَالَ: لَنَا كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، قَالَ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَصَاحِبُهُ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ صَلَّى، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ:" عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، مِمَّنْ أَنْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ، فَوَضَعَهَا عَلَى جَبْهَتِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِّي انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آخُذَ بِيَدِهِ، فَقَذَفَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، قَالَ:" وَمَتَى كُنْتَ هَا هُنَا"، قَالَ: كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ مِنْ بَيْنِ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ:" فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟" قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، قَالَ: فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، وَإِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، حَتَّى فَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ وُجِّهَتْ إِلَيَّ أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ؟"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ أُنَيْسًا، قَالَ: فَقَالَ لِي: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي صَنَعْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: قَالَ: فَمَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، ثُمَّ أَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: فَمَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَتَحَمَّلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ بَعْضُهُمْ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَقَالَ، يَعْنِي يَزِيدَ بِبَغْدَادَ، وَقَالَ: بَعْضُهُمْ إِذَا قَدِمَ، وَقَالَ بَهْزٌ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ، وَكَذَا قَالَ أَبُو النَّضْرِ: وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ خُفَافُ بْنُ إِيمَاءِ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ، وَكَانَ سَيِّدَهُمْ يَوْمَئِذٍ، وَقَالَ: بَقِيَّتُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَسْلَمَ بَقِيَّتُهُمْ، قَالَ: وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ، فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ"، وَقَالَ بَهْزٌ وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ إِيمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ، فَقَالَ أَبُو النَّضْرِ إِيمَاءٌ ..
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے۔ پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے ہم ماموں کے ہاں اترے جو بڑے مالدار اور اچھی حالت میں تھے ہمارے ماموں نے ہمارا اعزازو اکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا اور انہوں نے کہا (ماموں سے) کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کرجاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے ہمارے ماموں آئے اور ان سے جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگایا، میں نے کہا کہ آپ نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے اس الزام کی وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہوسکتا چنانچہ ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا اور ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پھر پس انیس ہمارے اونٹوں میں مزید اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات سے تین سال پہلے سے ہی اے بھتیجے نماز پڑھا کرتا تھا حضرت عبداللہ بن صامت کہتے ہیں میں نے کہا کس کی رضا کے لئے؟ انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے، میں نے کہا آپ اپنا رخ کس طرف کرتے تھے؟ انہوں نے کہ جہاں میرا رب میرا رخ کردیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجاتا۔ انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا چنانچہ انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بنا کر) بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اسے شاعر کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا، میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں لیکن اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موازنہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی نہیں ہیں، اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جا کر دیکھ آؤں چنانچہ میں مکہ آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی سے مل کر پوچھا وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟ پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ دین بدلنے والا ہے، وادی والوں میں سے ہر ایک یہ سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرپڑا، پس جب میں بیہوشی سے ہوش میں آکر اٹھا تو میں گویا سرخ بت (خون میں لت پت) تھا۔ میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے! تیس رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے پاس زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوارک نہ تھی، پس میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں بھی ختم ہوگئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی۔ اسی دوران ایک چاندنی رات میں جب اہل مکہ سوگئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ (بتوں) کو پکار رہی تھیں جب وہ اپنے طواف کے دوران میرے قریب آئیں تو میں نے کہا اس میں سے ایک (بت) کا دوسرے کے ساتھ نکاح کردو (اساف مرد اور نائلہ عورت تھی اور باعتقاد مشرکین مکہ یہ دونوں زنا کرتے وقت مسخ ہو کر بت ہوگئے تھے) لیکن وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے یہ کہہ دیا کہ فلاں کے (فرج میں) لکڑی، پس وہ چلاتی ہوئی تیزی سے بھاگ گئیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا، راستہ میں انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی کے ہمراہ آئے، حجر اسود کا استلام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھی نے طواف کیا پھر نماز ادا کی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں وہ پہلا آدمی تھا جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غف

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2473
حدیث نمبر: 21526
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هدبة ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، فذكر نحوه بإسناده.حَدَّثَنَا هُدْبَةُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِإِسْنَادِهِ.

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2473
حدیث نمبر: 21527
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد يعني ابن هارون ، حدثنا يزيد بن إبراهيم ، حدثنا قتادة ، حدثنا عبد الله بن شقيق ، قال: قلت: لابي ذر لو ادركت النبي صلى الله عليه وسلم لسالته، قال: وعما كنت تساله؟ قال: سالته هل راى ربه عز وجل، قال ابو ذر: قد سالته، فقال: " نور انى اراه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ: لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ أَدْرَكْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: وَعَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: سَأَلْتُهُ هَلْ رَأَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوتا تو ان سے ایک سوال ہی پوچھ لیتا، انہوں نے فرمایا تم ان سے کیا سوال پوچھتے؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ سوال پوچھتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کی زیارت کی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ سوال تو میں ان سے پوچھ چکا ہوں جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 178
حدیث نمبر: 21528
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن سعيد بن ابي الحسن ، عن عبد الله بن صامت ، قال: كنت مع ابي ذر وقد خرج عطاؤه ومعه جارية له، فجعلت تقضي حوائجه، وقال: مرة نقضي، قال: ففضل معه فضل، قال: احسبه، قال: سبع، قال: فامرها ان تشتري بها فلوسا، قلت: يا ابا ذر، لو ادخرته للحاجة تنوبك، وللضيف ياتيك! فقال: إن خليلي عهد إلي ان " ايما ذهب او فضة اوكي عليه، فهو جمر على صاحبه يوم القيامة حتى يفرغه إفراغا في سبيل الله" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي ذَرٍّ وَقَدْ خَرَجَ عَطَاؤُهُ وَمَعَهُ جَارِيَةٌ لَهُ، فَجَعَلَتْ تَقْضِي حَوَائِجَهُ، وَقَالَ: مَرَّةً نَقْضِي، قَالَ: فَفَضَلَ مَعَهُ فَضْلٌ، قَالَ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: سَبْعٌ، قَالَ: فَأَمَرَهَا أَنْ تَشْتَرِيَ بِهَا فُلُوسًا، قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، لَوْ ادَّخَرْتَهُ لِلْحَاجَةِ تَنُوبُكَ، وَلِلضَّيْفِ يَأْتِيكَ! فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي عَهِدَ إِلَيَّ أَنْ " أَيُّمَا ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ أُوكِيَ عَلَيْهِ، فَهُوَ جَمْرٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُفْرِغَهُ إِفْرَاغًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ" .
عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ان کا وظیفہ آگیا ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو ان پیسوں سے ان کی ضروریات کا انتظام کرنے لگی اس کے پاس سات سکے بچ گئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ ان کے پیسے خرید لے (ریزگاری حاصل کرلے) میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ ان پیسوں کو بچا کر رکھ لیتے تو کسی ضرورت میں کام آجاتے یا کسی مہمان کے آنے پر کام آجاتے انہوں نے فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جو سونا چاندی مہر بند کر کے رکھا جائے وہ اس کے مالک کے حق میں آگ کی چنگاری ہے تاوقتیکہ اسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کر دے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21529
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا الجريري ابو مسعود ، عن ابي عبد الله العنزي ، عن ابن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قلت: يا رسول الله، اي الكلام احب إلى الله عز وجل؟ قال: " ما اصطفاه لملائكته سبحان الله وبحمده، سبحان الله وبحمده، ثلاثا تقولها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ أَبُو مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ العَنَزي ، عَنِ ابْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْكَلَامِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: " مَا اصْطَفَاهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، ثَلَاثًا تَقُولُهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کلام سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے منتخب کیا ہے یعنی تین مرتبہ یوں کہنا سبحان اللہ وبحمدہ۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2731
حدیث نمبر: 21530
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا الاسود بن شيبان ، عن يزيد ابي العلاء ، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير ، قال: بلغني عن ابي ذر حديث، فكنت احب ان القاه فلقيته، فقلت له: يا ابا ذر ، بلغني عنك حديث فكنت احب ان القاك فاسالك عنه، فقال: قد لقيت فاسال، قال: قلت: بلغني انك، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ثلاثة يحبهم الله، وثلاثة يبغضهم الله"، قال: نعم، فما إخالني اكذب على خليلي محمد صلى الله عليه وسلم ثلاثا يقولها، قال: قلت: من الثلاثة الذين يحبهم الله عز وجل؟ قال:" رجل غزا في سبيل الله، فلقي العدو مجاهدا محتسبا فقاتل حتى قتل، وانتم تجدون في كتاب الله عز وجل إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا سورة الصف آية 4، ورجل له جار يؤذيه، فيصبر على اذاه ويحتسبه حتى يكفيه الله إياه بموت او حياة، ورجل يكون مع قوم فيسيرون حتى يشق عليهم الكرى والنعاس، فينزلون في آخر الليل فيقوم إلى وضوئه وصلاته"، قال: قلت: من الثلاثة الذين يبغضهم الله؟ قال:" الفخور المختال وانتم تجدون في كتاب الله عز وجل إن الله لا يحب كل مختال فخور سورة لقمان آية 18، والبخيل المنان، والتاجر او البياع الحلاف"، قال: قلت: يا ابا ذر، ما المال؟ قال: فرق لنا وذود يعني بالفرق غنما يسيرة، قال: قلت: لست عن هذا اسال، إنما اسالك عن صامت المال؟ قال: ما اصبح لا امسى، وما امسى لا اصبح، قال: يا ابا ذر، ما لك ولإخوتك قريش؟ قال:" والله لا اسالهم دنيا ولا استفتيهم عن دين الله حتى القى الله ورسوله ثلاثا يقولها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ، فَكُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَلْقَاهُ فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا ذَرٍّ ، بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ فَكُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَلْقَاكَ فَأَسْأَلَكَ عَنْهُ، فَقَالَ: قَدْ لَقِيتَ فَاسْأَلْ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ، وَثَلَاثَةٌ يُبْغِضُهُمْ اللَّهُ"، قَالَ: نَعَمْ، فَمَا إِخَالُنِي أَكْذِبُ عَلَى خَلِيلِي مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا يَقُولُهَا، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ:" رَجُلٌ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَلَقِيَ الْعَدُوَّ مُجَاهِدًا مُحْتَسِبًا فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، وَأَنْتُمْ تَجِدُونَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا سورة الصف آية 4، وَرَجُلٌ لَهُ جَارٌ يُؤْذِيهِ، فَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُ وَيَحْتَسِبُهُ حَتَّى يَكْفِيَهُ اللَّهُ إِيَّاهُ بِمَوْتٍ أَوْ حَيَاةٍ، وَرَجُلٌ يَكُونُ مَعَ قَوْمٍ فَيَسِيرُونَ حَتَّى يَشُقَّ عَلَيْهِمْ الْكَرَى وَالنُّعَاسُ، فَيَنْزِلُونَ فِي آخِرِ اللَّيْلِ فَيَقُومُ إِلَى وُضُوئِهِ وَصَلَاتِهِ"، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُبْغِضُهُمْ اللَّهُ؟ قَالَ:" الْفَخُورُ الْمُخْتَالُ وَأَنْتُمْ تَجِدُونَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ سورة لقمان آية 18، وَالْبَخِيلُ الْمَنَّانُ، وَالتَّاجِرُ أَوْ الْبَيَّاعُ الْحَلَّافُ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا الْمَالُ؟ قَالَ: فِرْقٌ لَنَا وَذَوْدٌ يَعْنِي بِالْفِرْقِ غَنَمًا يَسِيرَةً، قَالَ: قُلْتُ: لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُ، إِنَّمَا أَسْأَلُكَ عَنْ صَامِتِ الْمَالِ؟ قَالَ: مَا أَصْبَحَ لَا أَمْسَى، وَمَا أَمْسَى لَا أَصْبَحَ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا لَكَ وَلِإِخْوَتِكَ قُرَيْشٍ؟ قَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَسْأَلُهُمْ دُنْيَا وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينِ اللَّهِ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ثَلَاثًا يَقُولُهَا" .
ابن احمس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا اور عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا تمہارے ذہن میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت کروں گا جبکہ میں نے وہ بات سنی بھی ہو وہ کون سی حدیث ہے جو تمہیں میرے حوالے سے معلوم ہوئی ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے آپ کہتے ہیں کہ تین قسم کے آدمی اللہ کو محبوب ہیں اور تین قسم کے آدمیوں سے اللہ کو نفرت ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! یہ بات میں نے کہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بھی ہے میں نے عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا ایک تو وہ آدمی جو ایک جماعت کے ساتھ دشمن سے ملے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہوجائے یہاں تک کہ شہید ہوجائے یا اس کے ساتھیوں کو فتح مل جائے دوسرے وہ لوگ جو سفر پر روانہ ہوں ان کا سفر طویل ہوجائے اور ان کی خواہش ہو کہ شام کے وقت کسی علاقے میں پڑاؤ کریں، چنانچہ وہ پڑاؤ کریں تو ان میں سے ایک آدمی ایک طرف کو ہو کر نماز پڑھنے لگے یہاں تک کہ کوچ کا وقت آنے پر انہیں جگا دے اور تیسرا وہ آدمی جس کا کوئی ایسا ہمسایہ ہو جس کے پڑوس سے اسے تکلیف ہوتی ہو لیکن وہ اس کی ایذاء رسانی پر صبر کرے تاآنکہ موت آکر انہیں جدا کردے میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے اللہ نفرت کرتا ہے؟ فرمایا وہ تاجر جو قسمیں کھاتا ہے وہ بخیل جوا حسان جتاتا ہے اور وہ فقیر جو تکبر کرتا ہے۔ میں نے پوچھا اے ابوذر! آپ کے پاس کون سا مال ہے؟ انہوں نے فرمایا تھوڑی سی بکریاں اور چند اونٹ ہیں میں نے عرض کیا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھ رہا، سونا چاندی کے متعلق پوچھ رہا ہوں، انہوں نے فرمایا جو صبح ہوتا ہے وہ شام کو نہیں ہوتا اور جو شام کو ہوتا ہے وہ صبح نہیں ہوتا میں نے عرض کیا کہ آپ کا اپنے قریشی بھائیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے فرمایا واللہ میں ان سے دنیا مانگتا ہوں اور نہ ہی دین کے متعلق پوچھتا ہوں اور میں ایسا ہی کروں گا یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول سے جاملوں، یہ جملہ انہوں نے تین مرتبہ دہرایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21531
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " إن اناسا من امتي سيماهم التحليق، يقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، هم شر الخلق والخليقة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ" .
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ " جن کی علامت سر منڈوانا ہوگی قرآن کریم تو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بدترین مخلوق ہوں گے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21532
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت سويد بن الحارث ، قال: سمعت ابا ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما احب ان لي مثل احد ذهبا، قال شعبة او قال: ما احب ان لي احدا ذهبا، ادع منه يوم اموت دينارا او نصف دينار إلا لغريم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ الْحَارِثِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، قَالَ شُعْبَةُ أَوْ قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا، أَدَعُ مِنْهُ يَوْمَ أَمُوتُ دِينَارًا أَوْ نِصْفَ دِينَارٍ إِلَّا لِغَرِيمٍ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے کے لئے رکھ لوں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سويد بن الحارث
حدیث نمبر: 21533
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت مهاجرا ابا الحسن يحدث، انه سمع زيد بن وهب يحدث، عن ابي ذر ، قال: اذن مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابرد ابرد" او قال:" انتظر انتظر"، وقال:" إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر، فابردوا عن الصلاة"، قال ابو ذر: حتى راينا فيء التلول .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُهَاجِرًا أَبَا الْحَسَنِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْرِدْ أَبْرِدْ" أَوْ قَالَ:" انْتَظِرْ انْتَظِرْ"، وَقَالَ:" إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ"، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ .
زید بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جنازے سے واپس آرہے تھے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذر ہوا وہ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے مؤذن نے جب ظہر کی اذان دینا چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ٹھنڈا کر کے اذان دینا دو تین مرتبہ اسی طرح ہوا حتٰی کہ ہمیں ٹیلوں کا سایہ نظر آنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 535، م: 616
حدیث نمبر: 21534
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن المغيرة بن النعمان ، عن عبد الله بن يزيد بن الاقنع ، عن الاحنف بن قيس ، قال: بينما انا في حلقة إذ جاء ابو ذر ، فجعلوا يفرون منه، فقلت: لم يفر منك الناس؟ قال: " إني انهاهم عن الكنز الذي كان ينهاهم عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ الْأَقْنَعِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا فِي حَلْقَةٍ إِذْ جَاءَ أَبُو ذَرٍّ ، فَجَعَلُوا يَفِرُّونَ مِنْهُ، فَقُلْتُ: لِمَ يَفِرَّ مِنْكَ النَّاسُ؟ قَالَ: " إِنِّي أَنْهَاهُمْ عَنِ الْكَنْزِ الَّذِي كَانَ يَنْهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
احنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں تھا کہ ایک آدمی پر نظر پڑی جسے دیکھتے ہی لوگ اس سے کنی کترانے لگتے تھے میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ابوذر رضی اللہ عنہ ہوں میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ لوگ کیوں آپ سے کنی کترا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں انہیں مال جمع کرنے سے اسی طرح روکتا ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روکتے تھے۔

حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21535
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا شعبة ، عن ابي عمران الجوني ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اسلم سالمها الله، وغفار غفر الله لها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَغِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے اور قبیلہ غفار کی اللہ بخشش فرمائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2473
حدیث نمبر: 21536
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني حبيب ، عن ميمون بن ابي شبيب ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتق الله حيثما كنت، وخالق الناس بخلق حسن، وإذا عملت سيئة، فاعمل حسنة تمحها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي حَبِيبٌ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَخَالِقْ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ، وَإِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً، فَاعْمَلْ حَسَنَةً تَمْحُهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اللہ سے ڈرو خواہ کہیں بھی ہو، برائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آیا کرو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، ميمون بن أبى شبيب لم يسمع من أبى ذر، وقد اختلف على سفيان الثوري فى إسناده
حدیث نمبر: 21537
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، عن فطر ، حدثني يحيى بن سام ، عن موسى بن طلحة ، عن ابي ذر ، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نصوم ثلاث عشرة واربع عشرة وخمس عشرة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ فِطْرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَامٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَصُومَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص مہینے میں تین روزے رکھنا چاہتا ہو اسے ایام بیض کے روزے رکھنے چاہئیں۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21538
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، عن قدامة بن عبد الله ، عن جسرة ، انها سمعت ابا ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قام بآية ليلة يرددها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ جَسْرَةَ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ أَبَا ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَامَ بِآيَةٍ لَيْلَةً يُرَدِّدُهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی اور ساری رات صبح تک ایک ہی آیت رکوع و سجود میں پڑھتے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 21539
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى ، عن ابن عجلان ، حدثني سعيد ، عن ابيه ، عن عبد الله بن وديعة ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اغتسل او تطهر، فاحسن الطهور، ولبس من احسن ثيابه، ومس ما كتب الله له من طيب او دهن اهله، ثم اتى الجمعة، فلم يلغ ولم يفرق بين اثنين، غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، حَدَّثَنِي سَعْيدٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ اغْتَسَلَ أَوْ تَطَهَّرَ، فَأَحْسَنَ الطُّهُورَ، وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ، وَمَسَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِنْ طِيبِ أَوْ دُهْنِ أَهْلِهِ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَلَمْ يَلْغُ وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غسل کرے یا طہارت حاصل کرے اور خوب اچھی طرح کرے عمدہ کپڑے پہنے، خوشبو یا تیل لگائے، پھر جمعہ کے لئے آئے کوئی لغوحرکت نہ کرے کسی دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے اس کے اگلے جمعہ تک سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن عجلان قد خولف فى هذا الحديث
حدیث نمبر: 21540
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابن نمير ، حدثنا موسى يعني ابن المسيب الثقفي ، عن شهر ، عن عبد الرحمن بن غنم الاشعري ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله يقول: يا عبادي، كلكم مذنب إلا من عافيت، فاستغفروني اغفر لكم، ومن علم منكم اني ذو قدرة على المغفرة فاستغفرني بقدرتي، غفرت له ولا ابالي، وكلكم ضال إلا من هديت فسلوني الهدى اهدكم، وكلكم فقير إلا من اغنيت فسلوني ارزقكم، ولو ان حيكم وميتكم واولاكم واخراكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا على قلب اتقى عبد من عبادي لم يزيدوا في ملكي جناح بعوضة، ولو ان حيكم وميتكم واولاكم واخراكم ورطبكم ويابسكم اجتمعوا فسال كل سائل منهم ما بلغت امنيته واعطيت كل سائل ما سال لم ينقصني إلا كما لو مر احدكم على شفة البحر فغمس إبرة ثم انتزعها ذلك لاني جواد ماجد واجد، افعل ما اشاء، عطائي كلامي، وعذابي كلامي، إذا اردت شيئا فإنما اقول له كن فيكون" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي ابْنَ الْمُسَيَّبِ الثَّقَفِيَّ ، عَنْ شَهْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي بِقُدْرَتِي، غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أُبَالِي، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ فَسَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَأُولَاكُمْ وَأُخْرَاكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا عَلَى قَلْبِ أَتْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي لَمْ يَزِيدُوا فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَأُولَاكُمْ وَأُخْرَاكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا فَسَأَلَ كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ وَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مَا سَأَلَ لَمْ يَنْقُصْنِي إِلَّا كَمَا لَوْ مَرَّ أَحَدُكُمْ عَلَى شَفَةِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ إِبْرَةً ثُمَّ انْتَزَعَهَا ذَلِكَ لِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ وَاجِدٌ، أَفْعَلُ مَا أَشَاءُ، عَطَائِي كَلَامِي، وَعَذَابِي كَلَامِي، إِذَا أَرَدْتُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! تم سب کے سب گنہگار ہو سوائے اس کے جسے میں عافیت عطاء کردوں، اس لئے مجھ سے معافی مانگا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مجھے معاف کرنے پر قدرت ہے اور وہ میری قدرت کے وسیلے سے مجھ سے معافی مانگتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگا کرو میں تم کو ہدایت عطاء کروں گا تم میں سے ہر ایک فقیر ہے سوائے اس کے جسے میں غنی کردوں، لہٰذا مجھ سے غناء مانگا کرو میں تم کو غناء عطاء کروں گا۔ اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب کے سب میرے سب سے زیادہ شقی بندے کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری حکومت میں سے ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کرسکتے اور اگر وہ سب کے سب میرے سب سے زیادہ متقی بندے کے دل پر جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اگر تمہارے پہلے اور پچھلے زندہ اور مردہ تر اور خشک سب جمع ہوجائیں اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی تمنا پہنچتی ہو اور میں ہر ایک کو اس کے سوال کے مطابق مطلوبہ چیزیں دیتا جاؤں تو میرے خزانے میں اتنی بھی کمی واقع نہ ہوگی کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ساحل سمندر سے گذرے اور اس میں ایک سوئی ڈبوئے اور پھر نکالے میری حکومت میں اتنی بھی کمی نہ آئیگی کیونکہ میں بےانتہا سخی، بزرگ اور بےنیاز ہوں میری عطاء بھی ایک کلام سے ہوتی ہے اور میرا عذاب بھی ایک کلام سے آجاتا ہے میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو " کن " کہتا ہوں اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر
حدیث نمبر: 21541
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا ابن نمير ، ومحمد بن عبيد ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: قال ابو ذر بينما انا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد حين وجبت الشمس، قال:" يا ابا ذر، اين تذهب الشمس؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" فإنها تذهب حتى تسجد بين يدي ربها عز وجل ثم تستاذن فيؤذن لها وكانها قد قيل لها: ارجعي من حيث جئت، فتطلع من مكانها، وذلك مستقر لها"، قال محمد، ثم قرا والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38 .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ بَيْنَمَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حِينَ وَجَبَتْ الشَّمْسُ، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَيْنَ تَذْهَبُ الشَّمْسُ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَكَانِهَا، وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا"، قَالَ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ قَرَأَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غروب آفتاب کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جا کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر وہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے جو اسے مل جاتی ہے جب اس سے کہا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا اور وہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے تو یہی اس کا مستقر ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے۔ "

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3199، م: 159
حدیث نمبر: 21542
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا محمد يعني ابن إسحاق ، عن مكحول ، عن غضيف بن الحارث ، قال: مررت بعمر ومعه نفر من اصحابه، فادركني رجل منهم، فقال: يا فتى، ادع الله لي بخير بارك الله فيك، قال: قلت: ومن انت رحمك الله؟ قال: انا ابو ذر ، قال: قلت: يغفر الله لك، انت احق، قال: إني سمعت عمر، يقول: نعم الغلام، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله وضع الحق على لسان عمر يقول به" .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعُمَرَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَدْرَكَنِي رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا فَتَى، ادْعُ اللَّهَ لِي بِخَيْرٍ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ، أَنْتَ أَحَقُّ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: نِعْمَ الْغُلَامُ، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ" .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21543
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قول الله عز وجل والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38، قال: " مستقرها تحت العرش" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ: " مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے " کا مطلب پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3199، م: 159
حدیث نمبر: 21544
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن علي بن مدرك ، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: وحدثنا الاعمش ، عن رجل ، عن خرشة ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الفاجر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا الأعْمَشُ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ خَرَشةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْفَاجِرِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناداه صحيحان
حدیث نمبر: 21545
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن جابر ، عن ثابت بن سعد او سعيد ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" رجم امراة، فامرني ان احفر لها، فحفرت لها إلى سرتي" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ سَعْدٍ أَوْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَجَمَ امْرَأَةً، فَأَمَرَنِي أَنْ أَحْفِرَ لَهَا، فَحَفَرْتُ لَهَا إِلَى سُرَّتِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت پر رجم کی سزا جاری فرمائی تو مجھے اس کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس کے لئے ناف تک گڑھا کھودا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف جابر الجعفي، و ثابت بن سعد لم يتبين لنا
حدیث نمبر: 21546
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، انباني ابو عمر الدمشقي ، عن عبيد بن الخشخاش ، عن ابي ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد فجلست، فقال:" يا ابا ذر، هل صليت؟" قلت: لا، قال:" قم فصل"، قال: فقمت فصليت ثم جلست، فقال:" يا ابا ذر، تعوذ بالله من شر شياطين الإنس والجن"، قال: قلت: يا رسول الله، وللإنس شياطين؟! قال:" نعم"، قلت: يا رسول الله، الصلاة؟ قال:" خير موضوع، من شاء اقل، ومن شاء اكثر" قال: قلت: يا رسول الله، فما الصوم؟ قال:" فرض مجزئ، وعند الله مزيد"، قلت: يا رسول الله، فالصدقة؟ قال:" اضعاف مضاعفة"، قلت: يا رسول الله، فايها افضل؟ قال:" جهد من مقل، او سر إلى فقير"، قلت: يا رسول الله، اي الانبياء كان اول؟ قال:" آدم"، قلت: يا رسول الله، ونبي كان؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قال: قلت: يا رسول الله، كم المرسلون؟ قال:" ثلاث مئة وبضعة عشر، جما غفيرا"، وقال: مرة" خمسة عشر"، قال: قلت: يا رسول الله، آدم انبي كان؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قال: قلت: يا رسول الله، ايما انزل عليك اعظم؟ قال:" آية الكرسي الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، أَنْبَأَنِي أَبُو عُمَرَ الدِّمَشْقِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْخَشْخَاشِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ"، قَالَ: فَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟! قَالَ:" نَعَمْ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" خَيْرٌ مَوْضُوعٌ، مَنْ شَاءَ أَقَلَّ، وَمَنْ شَاءَ أَكْثَرَ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّوْمُ؟ قَالَ:" فَرْضٌ مُجْزِئٌ، وَعِنْدَ اللَّهِ مَزِيدٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالصَّدَقَةُ؟ قَالَ:" أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّهَا أَفْضَلُ؟ قَالَ:" جَهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ، أَوْ سِرٌّ إِلَى فَقِيرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلُ؟ قَالَ:" آدَمُ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ الْمُرْسَلُونَ؟ قَالَ:" ثَلَاثُ مِئَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، جَمًّا غَفِيرًا"، وَقَالَ: مَرَّةً" خَمْسَةَ عَشَرَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آدَمُ أَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّمَا أُنْزِلَ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" آيَةُ الْكُرْسِيِّ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر رضی اللہ عنہ کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھو، چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آکر مجلس میں دوبارہ شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! انسانوں اور جنات میں سے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا یارسول اللہ! نماز کا کیا حکم ہے؟ فرمایا بہترین موضوع ہے جو چا ہے کم حاصل کرے اور جو چاہے زیادہ حاصل کرلے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایک فرض ہے جسے ادا کیا جائے گا تو کافی ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں اس کا اضافی ثواب ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صدقہ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کا بدلہ دوگنا چوگنا ملتا ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کی محنت کا صدقہ یا کسی ضرورت مند کا راز، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ نبی تھے؟ فرمایا ہاں، بلکہ ایسے نبی جن سے باری تعالیٰ نے کلام فرمایا: میں نے پوچھا یا رسول اللہ! رسول کتنے آئے؟ فرمایا تین سو دس سے کچھ اوپر ایک عظیم گروہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر سب سے عظیم آیت کون سی نازل ہوئی؟ فرمایا آیت الکرسی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا الجهالة عبيد بن الخشخاش ولضعف أبى عمر
حدیث نمبر: 21547
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، حدثنا يزيد يعني ابن ابي زياد ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اكلتنا الضبع! قال: " غير ذلك اخوف عندي عليكم من ذلك، ان تصب عليكم الدنيا صبا، فليت امتي لا يلبسون الذهب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَتْنَا الضَّبُعُ! قَالَ: " غَيْرُ ذَلِكَ أَخْوَفُ عِنْدِي عَلَيْكُمْ مِنْ ذَلِكَ، أَنْ تُصَبَّ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا صَبًّا، فَلَيْتَ أُمَّتِي لَا يَلْبَسُونَ الذَّهَبَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک سخت طبیعت دیہاتی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں تو قحط سالی کھاجائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے متعلق ایک دوسری چیز کا اندیشہ ہے جب تم پر دنیا کو انڈیل دیا جائے گا کاش! اس وقت میری امت سونے کا زیور نہ پہنے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حدیث نمبر: 21548
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يصبح كل يوم على كل سلامى من ابن آدم صدقة"، ثم قال:" إماطتك الاذى عن الطريق صدقة، وتسليمك على الناس صدقة، وامرك بالمعروف صدقة، ونهيك عن المنكر صدقة، ومباضعتك اهلك صدقة"، قال: قلنا: يا رسول الله، ايقضي الرجل شهوته، وتكون له صدقة؟! قال:" نعم، ارايت لو جعل تلك الشهوة فيما حرم الله عليه، الم يكن عليه وزر؟" قلنا: بلى، قال:" فإنه إذا جعلها فيما احل الله فهي صدقة"، قال: وذكر اشياء صدقة صدقة، قال: ثم قال:" ويجزئ من هذا كله ركعتا الضحى" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُصْبِحُ كُلَّ يَوْمٍ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنَ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ"، ثُمَّ قَالَ:" إِمَاطَتُكَ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ، وَتَسْلِيمُكَ عَلَى النَّاسِ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَمُبَاضَعَتُكَ أَهْلَكَ صَدَقَةٌ"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَقْضِي الرَّجُلُ شَهْوَتَهُ، وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ؟! قَالَ:" نَعَمْ، أَرَأَيْتَ لَوْ جَعَلَ تِلْكَ الشَّهْوَةَ فِيمَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ، أَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ وِزْرٌ؟" قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّهُ إِذَا جَعَلَهَا فِيمَا أَحَلَّ اللَّهُ فَهِيَ صَدَقَةٌ"، قَالَ: وَذَكَرَ أَشْيَاءَ صَدَقَةً صَدَقَةً، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" وَيُجْزِئُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ رَكْعَتَا الضُّحَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ہر عضو پر صبح کے وقت صدقہ لازم ہوتا ہے اور ہر تسبیح کا کلمہ بھی صدقہ ہے تہلیل بھی صدقہ ہے تکبیر بھی صدقہ ہے تحمید بھی صدقہ ہے امر بالمعروف بھی صدقہ ہے اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں " خواہش " پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر یہ کام تم حرام طریقے سے کرتے تو تمہیں گناہ ہوتا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گناہ کو شمار کرتے ہو نیکی کو شمار نہیں کرتے اور ان سب کی کفایت وہ دو رکعتیں کردیتی ہیں جو تم میں سے کوئی شخص چاشت کے وقت پڑھتا ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 720، إسناده قوي
حدیث نمبر: 21549
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، وكان واصل ربما ذكر ابا الاسود الديلي، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي اعمال امتي حسنها وسيئها، فوجدت في محاسن اعمالها الاذى يماط عن الطريق، ووجدت في مساوئ اعمالها النخاعة تكون في المسجد لا تدفن" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، وَكَانَ وَاصِلٌ رُبَّمَا ذَكَرَ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيَّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے تو اچھے اعمال کی فہرست میں مجھے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نظر آیا اور برے اعمال کی فہرست میں مسجد کے اندر تھوک پھینکنا نظر آیا جسے مٹی میں نہ ملایا جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي متصل بذكر أبى الأسود فيه، م: 553
حدیث نمبر: 21550
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي امتي باعمالها حسنة وسيئة، فرايت في محاسن اعمالها إماطة الاذى عن الطريق، ورايت في سيئ اعمالها النخاعة في المسجد لا تدفن" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا حَسَنَةٍ وَسَيِّئَةٍ، فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا إِمَاطَةَ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے تو اچھے اعمال کی فہرست میں مجھے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نظر آیا اور برے اعمال کی فہرست میں مسجد کے اندر تھوک پھینکنا نظر آیا جسے مٹی میں نہ ملایا جائے۔

حكم دارالسلام: حديث قوي، م: 553، وهذا إسناد منقطع، يحيى بن يعمر لم يسمعه من ابي ذر
حدیث نمبر: 21551
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، حدثنا كهمس بن الحسن ، حدثنا ابو السليل ، عن ابي ذر ، قال: جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلو علي هذه الآية ومن يتق الله يجعل له مخرجا سورة الطلاق آية 2، حتى فرغ من الآية، ثم قال:" يا ابا ذر، لو ان الناس كلهم اخذوا بها لكفتهم"، قال: فجعل يتلوها، ويرددها علي حتى نعست، ثم قال:" يا ابا ذر، كيف تصنع إن اخرجت من المدينة؟" قال: قلت: إلى السعة والدعة، انطلق حتى اكون حمامة من حمام مكة، قال:" كيف تصنع إن اخرجت من مكة؟" قال: قلت: إلى السعة والدعة، إلى الشام والارض المقدسة، قال:" كيف تصنع إن اخرجت من الشام؟" قال: قلت: إذا والذي بعثك بالحق اضع سيفي على عاتقي، قال:" او خير من ذلك؟" قال: قلت: او خير من ذلك؟! قال:" تسمع وتطيع وإن كان عبدا حبشيا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو السَّلِيلِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْلُو عَلَيَّ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سورة الطلاق آية 2، حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، لَوْ أَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ أَخَذُوا بِهَا لَكَفَتْهُمْ"، قَالَ: فَجَعَلَ يَتْلُوِهَا، وَيُرَدِّدُهَا عَلَيَّ حَتَّى نَعَسْتُ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الْمَدِينَةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِلَى السَّعَةِ وَالدَّعَةِ، أَنْطَلِقُ حَتَّى أَكُونَ حَمَامَةً مِنْ حَمَامِ مَكَّةَ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنْ مَكَّةَ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِلَى السَّعَةِ وَالدَّعَةِ، إِلَى الشَّامِ وَالْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ، قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ أُخْرِجْتَ مِنَ الشَّامِ؟" قَالَ: قُلْتُ: إِذًا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعَ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، قَالَ:" أَوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟" قَالَ: قُلْتُ: أَوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟! قَالَ:" تَسْمَعُ وَتُطِيعُ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے یہ آیت تلاوت فرمانے لگے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوگئے پھر فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ اگر ساری انسانیت بھی اس پر عمل کرنے لگے تو یہ آیت انہیں بھی کافی ہوجائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی مرتبہ اسے میرے سامنے دہرایا کہ اس کے سحر سے مجھ پر اونگھ طاری ہونے لگی، پھر فرمایا اے ابوذر! جب تمہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا جائے گا تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ گنجائش کا پہلو اختیار کر کے میں اسے چھوڑ دوں گا اور جا کر حرم مکہ کا کبوتر بن جاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر بھی وسعت کا پہلو اختیار کر کے اسے چھوڑ کر شام اور ارض مقدس چلا جاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہیں شام سے بھی نکال دیا گیا تو کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کہ کیا اس سے بہتر طریقہ بھی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بات سننا اور مانتے رہنا اگرچہ تمہارا حکمران کوئی حبشی غلام ہی ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو السليل لم يدرك أبا ذر
حدیث نمبر: 21552
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن ابي عمرو الشامي ، عن عبيد بن الخشخاش ، عن ابي ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد فجلست إليه، فقال لي:" يا ابا ذر، هل صليت؟" قلت: لا، قال:" قم فصل"، قال: فقمت فصليت، ثم اتيته فجلست إليه، فقال:" يا ابا ذر، استعذ بالله من شر شياطين الإنس والجن"، قال: قلت: يا رسول الله، وهل للإنس من شياطين؟ قال:" نعم، يا ابا ذر، الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: قلت: بلى بابي انت وامي، قال:" قل لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة"، قال: قلت: يا رسول الله، فما الصلاة؟ قال:" خير موضوع، فمن شاء اكثر ومن شاء اقل"، قال: قلت: فما الصيام، يا رسول الله؟ قال:" فرض مجزئ"، قال: قلت: يا رسول الله، فما الصدقة؟ قال:" اضعاف مضاعفة، وعند الله مزيد"، قال: قلت: ايها افضل يا رسول الله؟ قال:" جهد من مقل، او سر إلى فقير"، قلت: فاي ما انزل الله عز وجل عليك اعظم؟ قال:" الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255" حتى ختم الآية، قلت: فاي الانبياء كان اول؟ قال:" آدم"، قلت: اونبي كان يا رسول الله؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قلت: فكم المرسلون يا رسول الله؟ قال:" ثلاث مئة وخمسة عشر، جما غفيرا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّامِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْخَشْخَاشِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ"، قَالَ: فَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، اسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ لِلْإِنْسِ مِنْ شَيَاطِينَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، قَالَ:" قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" خَيْرٌ مَوْضُوعٌ، فَمَنْ شَاءَ أَكْثَرَ وَمَنْ شَاءَ أَقَلَّ"، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا الصِّيَامُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" فَرْضٌ مُجْزِئٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّدَقَةُ؟ قَالَ:" أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ، وَعِنْدَ اللَّهِ مَزِيدٌ"، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّهَا أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" جُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ، أَوْ سِرٌّ إِلَى فَقِيرٍ"، قُلْتُ: فَأَيُّ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255" حَتَّى خَتَمَ الْآيَةَ، قُلْتُ: فَأَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ:" آدَمُ"، قُلْتُ: أَوَنَبِيٌّ كَانَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قُلْتُ: فَكَمْ الْمُرْسَلُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" ثَلَاثُ مِئَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، جَمًّا غَفِيرًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر رضی اللہ عنہ کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھو، چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آکر مجلس میں دوبارہ شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! انسانوں اور جنات میں سے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا یا رسول اللہ! نماز کا کیا حکم ہے؟ فرمایا بہترین موضوع ہے جو چاہے کم حاصل کرے اور جو چاہے زیادہ حاصل کرلے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایک فرض ہے جسے ادا کیا جائے گا تو کافی ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں اس کا اضافی ثواب ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صدقہ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کا بدلہ دوگنا چوگنا ملتا ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کی محنت کا صدقہ یا کسی ضرورت مند کا راز، میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ نبی تھے؟ فرمایا ہاں، بلکہ ایسے نبی جن سے باری تعالیٰ نے کلام فرمایا: میں نے پوچھا یا رسول اللہ! رسول کتنے آئے؟ فرمایا تین سو دس سے کچھ اوپر ایک عظیم گروہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر سب سے عظیم آیت کون سی نازل ہوئی؟ فرمایا آیت الکرسی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لجهالة عبيد بن الخشخاش، ولضعف أبى عمر
حدیث نمبر: 21553
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن الزهري ، عن ابي الاحوص ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قام احدكم إلى الصلاة، استقبلته الرحمة، فلا يمس الحصى ولا يحركها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، اسْتَقْبَلَتْهُ الرَّحْمَةُ، فَلَا يَمَسَّ الْحَصَى وَلَا يُحَرِّكْهَا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہٰیہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے لہٰذا اسے کنکریوں سے نہیں کھیلنا چاہئے۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 21554
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا حجاج بن ارطاة ، عن عبد الملك بن المغيرة الطائفي ، عن عبد الله بن المقدام ، عن ابن شداد ، عن ابي ذر ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فاتاه رجل فقال: إن الآخر قد زنى، فاعرض عنه ثم ثلث ثم ربع، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم، وقال مرة: فاقر عنده بالزنا فردده اربعا، ثم نزل فامرنا فحفرنا له حفيرة ليست بالطويلة، فرجم فارتحل رسول الله صلى الله عليه وسلم كئيبا حزينا، فسرنا حتى نزل منزلا، فسري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي:" يا ابا ذر، الم تر إلى صاحبكم، غفر له وادخل الجنة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ الطَّائِفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمِقْدَامِ ، عَنْ ابْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ الْآخِرَ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ ثَلَّثَ ثُمَّ رَبَّعَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً: فَأَقَرَّ عِنْدَهُ بِالزِّنَا فَرَدَّدَهُ أَرْبَعًا، ثُمَّ نَزَلَ فَأَمَرَنَا فَحَفَرْنَا لَهُ حَفِيرَةً لَيْسَتْ بِالطَّوِيلَةِ، فَرُجِمَ فَارْتَحَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَئِيبًا حَزِينًا، فَسِرْنَا حَتَّى نَزَلَ مَنْزِلًا، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَمْ تَرَ إِلَى صَاحِبِكُمْ، غُفِرَ لَهُ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ نیکیوں سے پیچھے رہنے والے (میں نے) بدکاری کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا جب چار مرتبہ اسی طرح ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر پڑے اور ہمیں حکم دیا چنانچہ ہم نے اس کے لئے ایک گڑھا کھودا جو بہت زیادہ لمبا نہ تھا پھر اسے رجم کردیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غم اور پریشانی کی حالت میں وہاں سے کوچ فرما دیا اور ہم روانہ ہوگئے جب اگلی منزل پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی اور مجھ سے فرمایا ابوذر! دیکھو تو سہی تمہارے ساتھی کی بخشش ہوگئی اور اسے جنت میں داخل کردیا گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن، و عبدالله بن المقدام مجهول
حدیث نمبر: 21555
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن مهاجر ابي خالد ، حدثني ابو العالية ، حدثني ابو مسلم ، قال: قلت لابي ذر: اي قيام الليل افضل؟ قال: ابو ذر سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، شك عوف، فقال: " جوف الليل الغابر او نصف الليل، وقليل فاعله" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْعَالِيَةِ ، حَدَّثَنِي أَبُو مُسْلِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: أَيُّ قِيَامِ اللَّيْلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَبُو ذَرٍّ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، شُكُّ عَوْفٌ، فَقَالَ: " جَوْفُ اللَّيْلِ الْغَابِرِ أَوْ نِصْفُ اللَّيْلِ، وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ" .
ابو مسلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رات کے کس حصے میں قیام کرنا سب سے افضل ہے؟ انہوں نے فرمایا یہ سوال جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا رات کے پچھلے نصف پہر میں لیکن ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، المهاجر أبو خالد فيه لين، وأبو مسلم مجهول
حدیث نمبر: 21556
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الجليل يعني ابن عطية ، حدثنا مزاحم بن معاوية الضبي ، عن ابي ذر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج زمن الشتاء والورق يتهافت، فاخذ بغصنين من شجرة، قال: فجعل ذلك الورق يتهافت، قال: فقال:" يا ابا ذر"، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " إن العبد المسلم ليصلي الصلاة يريد بها وجه الله، فتهافت عنه ذنوبه كما يتهافت هذا الورق عن هذه الشجرة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَلِيلِ يَعْنِي ابْنَ عَطِيَّةَ ، حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الضَّبِّيُّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، فَأَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ: فَجَعَلَ ذَلِكَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ يُرِيدُ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوبُهُ كَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی کے موسم میں باہر نکلے، اس وقت پت جھڑ لگا ہوا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں تو اس سے پتے جھڑنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! میں نے " لبیک یا رسول اللہ " کہا فرمایا بندہ مسلم جب اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جیسے اس درخت کے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة مزاحم بن معاوية
حدیث نمبر: 21557
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، عن عمران بن ابي انس ، بلغه عن مالك بن اوس بن الحدثان النضري ، عن ابي ذر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " في الإبل صدقتها، وفي الغنم صدقتها، وفي البقر صدقتها، وفي البر صدقته" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، بَلَغَهُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّضْرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فِي الْإِبِلِ صَدَقَتُهَا، وَفِي الْغَنَمِ صَدَقَتُهَا، وَفِي الْبَقَرِ صَدَقَتُهَا، وَفِي الْبُرِّ صَدَقَتُهُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اونٹوں میں گائے بکری میں اور گندم میں صدقہ (زکوٰۃ) ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الانقطاعه، ابن جريج لم يسمعه من عمران بن أبى أنس
حدیث نمبر: 21558
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن آدم ، ويحيى بن ابي بكير ، قالا: حدثنا زهير ، عن مطرف ، قال ابن ابي بكير ، حدثنا مطرف يعني الحارثي ، عن ابي الجهم ، قال ابن ابي بكير مولى البراء، واثنى عليه خيرا، عن خالد بن وهبان ، قال ابن ابي بكير ، او وهبان، عن ابي ذر ، قال: قال صلى الله عليه وسلم: " كيف انت وائمة من بعدي يستاثرون بهذا الفيء؟!" قال: قلت: إذن، والذي بعثك بالحق اضع سيفي على عاتقي، ثم اضرب به حتى القاك او الحق بك، قال:" اولا ادلك على ما هو خير من ذلك؟ تصبر حتى تلقاني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ ابْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ يَعْنِي الْحَارِثِيَّ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، قَالَ ابْنُ أَبِي بُكَيْرٍ مَوْلَى الْبَرَاءِ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، أَوْ وُهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَأَئِمَّةً مِنْ بَعْدِي يَسْتَأْثِرُونَ بِهَذَا الْفَيْءِ؟!" قَالَ: قُلْتُ: إِذَنْ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعَ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، ثُمَّ أَضْرِبَ بِهِ حَتَّى أَلْقَاكَ أَوْ أَلْحَقَ بِكَ، قَالَ:" أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ تَصْبِرُ حَتَّى تَلْقَانِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب میرے بعد آنے والے حکمران اس مال غنیمت میں تم پر دوسروں کو ترجیح دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور ان سے اتنا لڑوں گا کہ آپ سے آملوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ دکھاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة خالد بن وهبان
حدیث نمبر: 21559
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو جعفر احمد بن محمد بن ايوب ، حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش ، عن مطرف ، عن ابي الجهم ، عن خالد بن وهبان ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يا ابا ذر، كيف انت عند ولاة يستاثرون عليك بهذا الفيء؟! قال: قلت: إذا والذي بعثك بالحق، اضع سيفي على عاتقي، فاضرب به حتى الحقك، قال:" افلا ادلك على ما هو خير لك من ذلك؟ تصبر حتى تلقاني" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وُهْبَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ أَنْتَ عِنْدَ وُلَاةٍ يَسْتَأْثِرُونَ عَلَيْكَ بِهَذَا الْفَيْءِ؟! قَالَ: قلت: إذا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، أَضَعُ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي، فَأَضْرِبُ بِهِ حَتَّى أَلْحَقَكَ، قَالَ:" أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٍ لَكَ مِنْ ذَلِكَ؟ تَصْبِرُ حَتَّى تَلْقَانِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب میرے بعد آنے والے حکمران اس مال غنیمت میں تم پر دوسروں کو ترجیح دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ پھر اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ لوں گا اور ان سے اتنا لڑوں گا کہ آپ سے آملوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ دکھاؤں؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة خالد بن وهبان
حدیث نمبر: 21560
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا احمد بن محمد ، حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش ، عن مطرف ، عن ابي الجهم ، عن خالد بن وهبان ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خالف الجماعة شبرا، خلع ربقة الإسلام من عنقه" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وُهْبَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَالَفَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا، خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت کے خلاف چلتا ہے وہ اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال دیتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة خالد ابن وهبان
حدیث نمبر: 21561
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن مطرف بن طريف ، عن ابي الجهم ، عن خالد بن وهبان ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من فارق الجماعة شبرا، خلع ربقة الإسلام من عنقه" ، حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ابو بكر ، عن مطرف ، عن ابي الجهم ، عن خالد بن وهبان ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر مثله.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وُهْبَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا، خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ" ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وُهْبَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت کے خلاف چلتا ہے وہ اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال دیتا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة خالد بن وهبان
حدیث نمبر: 21562
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة
حدیث نمبر: 21563
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو عبد الرحمن ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب ، حدثني عبيد الله بن ابي جعفر ، عن سالم بن ابي سالم الجيشاني ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر، لا تولين مال يتيم، ولا تامرن على اثنين" .حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، لَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ، وَلَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! کسی یتیم کے مال کے سرپرست نہ بننا اور کسی دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1826
حدیث نمبر: 21564
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حجاج ، حدثنا شيبان ، حدثنا منصور ، عن ربعي ، عن خرشة بن الحر ، عن المعرور ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خواتيم سورة البقرة من كنز تحت العرش ولم يعطهن نبي قبلي" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ الْمَعْرُورِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ وَلَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیجے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف على خرشة بن الحر فى تسميته
حدیث نمبر: 21565
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هاشم ، حدثنا شيبان ، عن عاصم ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: حدثني الصادق المصدوق، رفع الحديث، قال: " الحسنة عشر او ازيد، والسيئة واحدة او اغفرها، ومن لقيني لا يشرك بي شيئا بقراب الارض خطيئة جعلت له مثلها مغفرة" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، رَفَعَ الْحَدِيثَ، قَالَ: " الْحَسَنَةُ عَشْرٌ أَوْ أَزِيدُ، وَالسَّيِّئَةُ وَاحِدَةٌ أَوْ أَغْفِرُهَا، وَمَنْ لَقِيَنِي لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً جَعَلْتُ لَهُ مِثْلَهَا مَغْفِرَةً" .
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صادق و مصدوق نے ہم سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے جس میں میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں اور ایک گناہ کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے اور میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں اور اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن، م: 2687
حدیث نمبر: 21566
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا معاوية بن صالح ، حدثني ابو الزاهرية ، عن جبير بن نفير ، عن ابي ذر ، قال: قمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة ثلاث وعشرين في شهر رمضان، إلى ثلث الليل الاول، ثم قال: " لا احسب ما تطلبون إلا وراءكم"، ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل، ثم قال:" لا احسب ما تطلبون إلا وراءكم" فقمنا معه ليلة سبع وعشرين حتى اصبح وسكت .حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزَّاهِرِيَّةِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: " لَا أَحْسَبُ مَا تَطْلُبُونَ إِلَّا وَرَاءَكُمْ"، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ:" لَا أُحْسَبُ مَا تَطْلُبُونَ إِلَّا وَرَاءَكُمْ" فَقُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى أَصْبَحَ وَسَكَتَ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان کی ٢٣ ویں شب میں ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہائی رات تک قیام کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا خیال ہے کہ جس چیز کو تم تلاش کر رہے ہو، وہ آگے ہے (شب قدر) اسی طرح ٢٥ ویں شب کو نصف رات تک قیام کیا پھر یہی فرمایا میرا خیال ہے کہ جس چیز کو تم تلاش کر رہے ہو وہ آگے ہے (شب قدر) اسی طرح ٢٧ ویں شب کو صبح تک قیام کیا لیکن اس مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21567
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وهب بن جرير ، وعارم ، ويونس ، قالوا: حدثنا مهدي بن ميمون ، عن واصل مولى ابي عيينة ، قال عارم : حدثنا واصل، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عرضت علي اعمال امتي حسنها وسيئها، فوجدت في محاسن اعمالها إماطة الاذى عن الطريق، ووجدت في مساوئ اعمالها النخاعة"، قال عارم:" تكون في المسجد لا تدفن"، وقال يونس" النخاعة تكون في المسجد لا تدفن" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، وَعَارِمٌ ، وَيُونُسُ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَارِمٌ : حَدَّثَنَا وَاصِلٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا إِمَاطَةَ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ"، قَالَ عَارِمٌ:" تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ"، وَقَالَ يُونُسُ" النُّخَاعَةُ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے تو اچھے اعمال کی فہرست میں مجھے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نظر آیا اور برے اعمال کی فہرست میں مسجد کے اندر تھوک پھینکنا نظر آیا جسے مٹی میں نہ ملایا جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي، م: 553
حدیث نمبر: 21568
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو احمد ، حدثنا سفيان ، عن خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن عمرو بن بجدان ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الصعيد الطيب وضوء المسلم، وإن لم يجد الماء عشر سنين، فإذا وجده فليمسه بشره فإن ذلك هو خير" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَمْرُو بْنِ بُجْدَانَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدَهُ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَهُ فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ ان پر غسل واجب ہوگیا وہ اسی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے پانی منگوایا انہوں نے پردے کے پیچھے غسل کیا پھر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو ہے اگرچہ اسے دس سال تک پانی نہ ملے جب پانی مل جائے تو اسے جسم پر بہا لے کہ یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 21569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن محمد يعني ابن عجلان ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابيه ، عن عبد الله بن وديعة الخدري ، عن ابي ذر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اغتسل يوم الجمعة فاحسن الغسل، ثم لبس من صالح ثيابه، ثم مس من دهن بيته ما كتب، او من طيبه ثم لم يفرق بين اثنين، كفر الله عنه ما بينه وبين الجمعة"، قال محمد: فذكرت لعبادة بن عامر بن عمرو بن حزم، فقال: صدق، وزيادة ثلاثة ايام .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ الخُدْرِي ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَحْسَنَ الْغُسْلَ، ثُمَّ لَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِيَابِهِ، ثُمَّ مَسَّ مِنْ دُهْنِ بَيْتِهِ مَا كُتِبَ، أَوْ مِنْ طِيبِهِ ثُمَّ لَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ، كَفَّرَ اللَّهُ عَنْه مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ"، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَذَكَرْتُ لِعُبَادَةَ بْنِ عَامِرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: صَدَقَ، وَزِيَادَةَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص غسل کرے یا طہارت حاصل کرے اور خوب اچھی طرح کرے عمدہ کپڑے پہنے، خوشبو یا تیل لگائے، پھر جمعہ کے لئے آئے کوئی لغو حرکت نہ کرے کسی دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے اس کے اگلے جمعہ تک سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح ابن عجلان قد خولف فى هذا الحديث
حدیث نمبر: 21570
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هارون بن معروف ، قال عبد الله بن احمد، وسمعته انا من هارون ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو ، عن الحارث بن يعقوب ، عن ابي الاسود الغفاري ، عن النعمان الغفاري ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" يا ابا ذر، اعقل ما اقول لك لعناق ياتي رجلا من المسلمين خير له من احد ذهبا يتركه وراءه، يا ابا ذر اعقل ما اقول لك إن المكثرين هم الاقلون يوم القيامة، إلا من قال: كذا وكذا، اعقل يا ابا ذر ما اقول لك إن الخيل في نواصيها الخير إلى يوم القيامة" او" إن الخيل في نواصيها الخير" .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، قَالَ عَبْدُ الله بْن أحْمَدُ، وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ يَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الْغِفَارِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ الْغِفَارِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، اعْقِلْ مَا أَقُولُ لَكَ لَعَنَاقٌ يَأْتِي رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أُحُدٍ ذَهَبًا يَتْرُكُهُ وَرَاءَهُ، يَا أَبَا ذَرٍّ اعْقِلْ مَا أَقُولُ لَكَ إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمْ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، اعْقِلْ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا أَقُولُ لَكَ إِنَّ الْخَيْلَ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" أَوْ" إِنَّ الْخَيْلَ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے ابوذر! جو بات میں کہہ رہا ہوں اسے اچھی طرح سمجھ لو، ایک بکری کا بچہ جو کسی مسلمان کو ملے، وہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ احد پہاڑ اس کے لئے سونے کا بن جائے جسے وہ اپنے پیچھے چھوڑ جائے اے ابوذر! میری بات اچھی طرح سمجھ لو کہ مالدار لوگ ہی قیامت کے دن مالی قلت کا شکار ہوں گے سوائے اس کے جو اس اس طرح تقسیم کر دے، اے ابوذر! میری بات اچھی طرح سمجھ لو کہ قیامت تک کے لئے گھوڑوں کی پیشانی میں خیر رکھ دی گئی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1237، م: 94، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى الأسود والنعمان
حدیث نمبر: 21571
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثني حسين ، قال: قال ابن بريدة : حدثني يحيى بن يعمر ، ان ابا الاسود حدثه، عن ابي ذر ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يرم رجل رجلا بالفسق، ولا يرميه بالكفر إلا ارتدت عليه إن لم يكن صاحبه كذلك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ بُرَيْدَةَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَرْمِ رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفِسْقِ، وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کی نسبت کرتا ہے وہ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر یا دشمن اللہ کہہ کر پکارتا ہے حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ پلٹ کر کہنے والے پر جا پڑتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6045، م: 61
حدیث نمبر: 21572
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، وموسى ، حدثنا ابن لهيعة ، عن عبيد بن ابي جعفر ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما رجل كشف سترا فادخل بصره من قبل ان يؤذن له، فقد اتى حدا لا يحل له ان ياتيه، ولو ان رجلا فقا عينه، لهدرت، ولو ان رجلا مر على باب لا ستر له فراى عورة اهله، فلا خطيئة عليه، إنما الخطيئة على اهل البيت" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، وَمُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ كَشَفَ سِتْرًا فَأَدْخَلَ بَصَرَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَدْ أَتَى حَدًّا لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا فَقَأَ عَيْنَهُ، لَهُدِرَتْ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مَرَّ عَلَى بَابٍ لَا سِتْرَ لَهُ فَرَأَى عَوْرَةَ أَهْلِهِ، فَلَا خَطِيئَةَ عَلَيْهِ، إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی کسی کے گھر کا پردہ اٹھا کر اجازت لینے سے پہلے اندر جھانکنے لگے تو اس نے ایک ایسی حرکت کی جو اس کے لئے حلال نہ تھی یہی وجہ ہے کہ اگر گھر والا کوئی آدمی اس کی آنکھ پھوڑ دے تو وہ کسی تاوان کے بغیر ضائع ہوجائے گی اور اگر کوئی آدمی کسی ایسے دروازے پر گذرتا ہے جہاں پردہ پڑا ہو اور نہ ہی دروازہ بند ہو اور اس کی نگاہ اندر چلی جائے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا بلکہ گناہ تو اس گھر والوں پر ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف
حدیث نمبر: 21573
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا دراج ، عن ابي الهيثم ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ستة ايام، ثم اعقل يا ابا ذر، ما اقول لك بعد" فلما كان اليوم السابع، قال:" اوصيك بتقوى الله في سر امرك وعلانيته، وإذا اسات فاحسن، ولا تسالن احدا شيئا وإن سقط سوطك، ولا تقبض امانة، ولا تقض بين اثنين" ، حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن عمرو ، عن دراج ، عن ابي المثنى ، عن ابي ذر ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ستة ايام، اعقل يا ابا ذر ما يقال لك" إلا انه قال:" ولا تؤوين امانة ولا تقضين بين اثنين".حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سِتَّةَ أَيَّامٍ، ثُمَّ اعْقِلْ يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا أَقُولُ لَكَ بَعْدُ" فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ السَّابِعُ، قَالَ:" أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي سِرِّ أَمْرِكَ وَعَلَانِيَتِهِ، وَإِذَا أَسَأْتَ فَأَحْسِنْ، وَلَا تَسْأَلَنَّ أَحَدًا شَيْئًا وَإِنْ سَقَطَ سَوْطُكَ، وَلَا تَقْبِضْ أَمَانَةً، وَلَا تَقْضِ بَيْنَ اثْنَيْنِ" ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ دَرَّاجٍ ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سِتَّةَ أَيَّامٍ، اعْقِلْ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا يُقَالُ لَكَ" إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" وَلَا تُؤْوِيَنَّ أَمَانَةً وَلَا تَقْضِيَنَّ بَيْنَ اثْنَيْنِ".
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا چھ دن ہیں اس کے بعد اے ابوذر! میں تم سے جو کہوں اسے اچھی طرح سمجھ لینا، جب ساتواں دن آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں خفیہ اور ظاہر بہر طور اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، جب تم سے کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیکی بھی کرلیا کرو کسی سے کوئی چیز نہ مانگنا اگرچہ تمہارا کوڑا ہی گرا ہو (وہ بھی کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہنا) امانت پر قبضہ نہ کرنا اور کبھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، ودراج ضعيف
حدیث نمبر: 21574
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف دراج، وجهالة أبى المثني
حدیث نمبر: 21575
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن مهدي الايلي ، حدثنا ابو داود ، حدثنا مهدي بن ميمون ، عن واصل مولى ابي عيينة، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، قال:" قد رايت اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فما رايت بابي ذر شبيها.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْأيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، قَالَ:" قَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُ بَأَبِي ذَرٍّ شَبِيهًا.
ابوالاسود دیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے لیکن مجھے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی نظر نہیں آیا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر:
پی ڈی ایف بنائیں اعراب

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.