الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
10. باب في الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثاً أَلَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ أَمْ لاَ:
مطلقہ ثلاثہ کے لئے سکن اور خرچہ ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 2311
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس: "ان زوجها طلقها ثلاثا فلم يجعل لها النبي صلى الله عليه وسلم نفقة ولا سكنى". قال سلمة: فذكرت ذلك لإبراهيم، فقال: قال عمر بن الخطاب: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبيه بقول امراة، فجعل لها السكنى والنفقة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: "أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَقَةً وَلَا سُكْنَى". قَالَ سَلَمَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: لَا نَدَعُ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ بِقَوْلِ امْرَأَةٍ، فَجَعَلَ لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے ان کو تین طلاق دیدی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے سکنی دلایا اور نہ نفقہ۔ مسلمہ نے کہا: میں نے اس کا تذکرہ ابراہیم سے کیا تو انہوں نے کہا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے چھوڑ دیں گے؟ نہیں، چنانچہ انہوں نے مطلقہ عورت کے لئے سکنی اور نفقہ مقرر فرمایا۔

تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2320]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1480]، [أبوداؤد 2291]، [ترمذي 1180]، [نسائي 3403]، [ابن ماجه 2035]، [ابن حبان 4049]، [موارد الظمآن 1242]، [الحميدي 367]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2310)
سکنی: رہنے کی جگہ اور نفقہ: کھانے پینے کے خرچ کو کہتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مطلقہ ثلاثہ کے لئے کہا کہ اس کا شوہر اسے گھر بھی دے اور خرچہ بھی، عدت گزارنے کے بعد وہ آزاد ہو جائے گی اور شوہر سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دلیل یہ تھی: « ﴿وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ﴾ [البقرة: 241] » اور « ﴿أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ﴾ [الطلاق: 6] » لیکن یہ طلاقِ رجعی والی عورت کے لئے ہے، جس کو تین طلاق ہوگئی ہو اس عورت کے لئے نان و نفقہ اور سکنی کچھ بھی نہیں یہی صحیح ہے۔
تفصیل آگے آتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح
حدیث نمبر: 2312
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا زكريا، عن عامر، حدثتني فاطمة بنت قيس:"ان زوجها طلقها ثلاثا، فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تعتد عند ابن عمها ابن ام مكتوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ:"أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَعْتَدَّ عِنْدَ ابْنِ عَمِّهَا ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ".
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ ان کے شوہر نے ان کو تیسری طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی (عبداللہ) بن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذاریں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو طرف للحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2321]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور مذکورہ بالا حدیث کا یہ ایک ٹکڑا ہے۔ نیز حدیث نمبر (2214) میں اسکی تفصیل گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو طرف للحديث السابق
حدیث نمبر: 2313
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا حفص بن غياث، عن الاشعث، عن الحكم، وحماد، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عمر، قال: "لا ندع كتاب ربنا وسنة نبيه بقول امراة: المطلقة ثلاثا لها السكنى والنفقة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَشْعَثِ، عَنْ الْحَكَمِ، وَحَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: "لَا نَدَعُ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ بِقَوْلِ امْرَأَةٍ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے چھوڑ دیں گے؟ نہیں، جس عورت کی تین طلاق ہو جائے اس کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2322]»
یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث نمبر (2311) کا ہی ایک جملہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 2314
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا طلق بن غنام، عن حفص بن غياث، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عمر، نحوه.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مثلِ سابق روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2323]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2315
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا حفص، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، قال: قال عمر: "لا نجيز قول امراة في دين الله: المطلقة ثلاثا لها السكنى والنفقة". قال ابو محمد: لا ارى السكنى والنفقة للمطلقة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "لَا نُجِيزُ قَوْلَ امْرَأَةٍ فِي دِينِ اللَّهِ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لَا أَرَى السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ.
اسود سے مروی ہے امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اللہ کے دین میں کسی عورت کی بات نہیں مانیں گے۔ تین طلاق والی عورت کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ایسی مطلقہ کے لئے میرے نزدیک نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ۔

تخریج الحدیث: «قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «لَا أَرَى السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ» ، [مكتبه الشامله نمبر: 2324]»
اس حدیث کی تخریج اور کچھ تفصیل اوپر حدیث نمبر (2312) میں گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2311 سے 2315)
ان احادیثِ صحیحہ میں کئی مسائل ہیں۔
کچھ یہاں بیان کئے جاتے ہیں۔
ان احادیث میں مذکور ہے: «فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا» اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تین طلاق ایک ساتھ دی گئی تھی، کیونکہ دیگر روایات میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ اس سے پہلے ان کو دو طلاق دی جا چکی تھی اور یہ تیسری طلاق تھی۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا مسئلہ بعض علماء نے بڑا پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک بار میں تین طلاق دینا ہی غلط اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
قرآن پاک میں ہے «‏‏‏‏ ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ [البقره: 229] » باری باری طلاق دی جائے، اور سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ کسی صحابی نے اپنی بیوی کو یکبارگی تین طلاق دے دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں اٹھے اور فرمایا: اللہ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے اور ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک بار میں تین طلاق دینا حرام ہے۔
اگر کسی نے تین طلاق دے دی تو وہ واقع ہوگی یا نہیں، اس بارے میں چار اقوال ہیں:
(1) ایک بھی واقع نہ ہوگی کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے۔
(2) عورت مدخولہ بہا ہے تو تین واقع ہوگی اور صحبت نہ کی گئی ہو تو ایک واقع ہوگی۔
دلیل کے اعتبار سے یہ دونوں مذہب بہت کمزور ہیں۔
(3) ائمۂ اربعہ اور جمہور کے نزدیک ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں تینوں واقع ہو جائیں گی اور میاں بیوی میں جدائی ہو جائے گی۔
دلیل کی رو سے یہ قول قرآن و سنّت کے خلاف ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جس کی بہت سے صحابہ کرام نے مخالفت کی ہے۔
(4) چوتھا قول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ایک وقت اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی طلاقِ رجعی شمار ہوگی۔
عہدِ نبوی میں خلافتِ صدیقی اور خلافت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی سالوں میں یہ حکم رائج و نافذ رہا، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے طور پر اجتہاد کر کے لوگوں کو سزا دینے کے لئے تین کو تین ہی نافذ کر دیا، لیکن بہت سے صحابہ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن الزبیر، سیدنا ابن عوف، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ کا وہی فتویٰ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، اور امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ نے بھی اسی مسلک کو ترجیح دی ہے، اور مفتی اعظم سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے اور سعودیہ کی عدالتوں میں بھی یہی فیصلہ ہوتا ہے، اور صحیح ترین قول یہی ہے۔
رہی بات طلاق شدہ عورت کا نان نفقہ اور سکنی کی تو طلاقِ رجعی میں کسی کا اختلاف نہیں کہ مطلقہ کا سکنی و نفقہ شوہر کے ذمے ہوگا اور اس کی حکمت « ﴿لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا﴾ » میں پوشیدہ ہے، لیکن طلاقِ ثلاثہ کے بعد سکنی و نفقہ کا شوہر ذمہ دار ہوگا یا نہیں تو اس بارے میں بعض صحابہ و تابعین، جمہور علماء اور حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کے لئے بھی نان نفقہ شوہر پر واجب ہوگا، لیکن امام احمد، ابوثور، اہل الحدیث اور بہت سے علماء وفقہاء کا قول یہ ہے کہ مطلقہ بائنہ ثلاثہ کے لئے نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے اور یہی صحیح مسلک ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے جو بالکل صحیح ہے، اور سیدنا عمر و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے جو کتاب کا حوالہ دیا وہ فرمانِ الٰہی: «‏‏‏‏ ﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ .....﴾ [الطلاق: 1] » اور «‏‏‏‏ ﴿أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ .....﴾ [الطلاق: 6] » اور «‏‏‏‏ ﴿وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ .....﴾ [البقره: 241] » سے استدلال کیا اور کہا کہ ہم ان آیات کے ہوتے ہوئے ایک عورت کا قول نہیں مانیں گے، پتہ نہیں اسے صحیح طور پر یاد ہے یا بھول گئی ہے۔
تو اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں طلاقِ رجعی والی عورت کے لئے نان نفقہ کا حکم ہے، جو گرچہ عام ہے لیکن حدیث صحیح سے قواعد کے تحت اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
نیز یہ کہ مطلقہ عورت اگر حاملہ ہے تو وضعِ حمل تک نان و نفقہ شوہر کے ذمہ ہوگا چاہے تین طلاق ہی کیوں نہ دے دی ہوں جیسا کہ آیتِ شریفہ: « ﴿وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ .....﴾ [الطلاق: 6] » میں ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «لَا أَرَى السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.