الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جہاد کے مسائل
Jihad (Kitab Al-Jihad)
164. باب فِي الإِمَامِ يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ عَهْدٌ فَيَسِيرُ إِلَيْهِ
164. باب: جب امام اور دشمن میں معاہدہ ہو تو امام دشمن کے ملک میں جا سکتا ہے۔
Chapter: Regarding There Being A Covenant Between The Imam And The Enemy, And He Advances Towards Them (To Attack).
حدیث نمبر: 2759
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر النمري، قال: حدثنا شعبة، عن ابي الفيض، عن سليم بن عامر رجل من حمير، قال: كان بين معاوية وبين الروم عهد، وكان يسير نحو بلادهم حتى إذا انقضى العهد غزاهم فجاء رجل على فرس او برذون، وهو يقول: الله اكبر الله اكبر وفاء لا غدر، فنظروا فإذا عمرو بن عبسة فارسل إليه معاوية فساله فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من كان بينه وبين قوم عهد فلا يشد عقدة ولا يحلها حتى ينقضي امدها او ينبذ إليهم على سواء"، فرجع معاوية.
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلَادِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ غَزَاهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غَدَرَ، فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَشُدُّ عُقْدَةً وَلَا يَحُلُّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ"، فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ.
سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے، تو یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ واپس آ گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 27 (1580)، (تحفة الأشراف: 10753)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/111، 113، 385) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو اس لئے ناپسند کیا کیونکہ معاہدہ کی مدت پوری ہونے کے فوراً بعد دشمن کو آگاہ کئے بغیر جنگ نامناسب تھی اور بہتر یہ تھا کہ مدت پوری ہونے کے بعد دشمن کو آگاہ کر دیا جاتا پھر جنگ شروع کی جاتی۔

Narrated Amr ibn Abasah: Sulaym ibn Amir, a man of Himyar, said: There was a covenant between Muawiyah and the Byzantines, and he was going towards their country, and when the covenant came to an end, he attacked them. A man came on a horse, or a packhorse saying, Allah is Most Great, Allah is Most Great; let there be faithfulness and not treachery. And when they looked they found that he was Amr ibn Abasah. Muawiyah sent for him and questioned him (about that). He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: When one has covenant with people he must not strengthen or loosen it till its term comes to an end or he brings it to an end in agreement with them (to make both the parties equal). So Muawiyah returned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2753


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3980)
أخرجه الترمذي (1580 وسنده صحيح)

   جامع الترمذي1580عمرو بن عبسةمن كان بينه وبين قوم عهد فلا يحلن عهدا ولا يشدنه حتى يمضي أمده أو ينبذ إليهم على سواء
   سنن أبي داود2759عمرو بن عبسةمن كان بينه وبين قوم عهد فلا يشد عقدة ولا يحلها حتى ينقضي أمدها أو ينبذ إليهم على سواء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2759  
´جب امام اور دشمن میں معاہدہ ہو تو امام دشمن کے ملک میں جا سکتا ہے۔`
سلیم بن عامر سے روایت ہے، وہ قبیلہ حمیر کے ایک فرد تھے، وہ کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے، (اس مدت میں) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو ۱؎ لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2759]
فوائد ومسائل:
اختتام معاہدے کے فورا بعد اچانک چڑھائی کرنا دھوکے میں شمار کیا گیا ہے۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسلام اور مسلمانوں کے لئے اندھی عصبیت میں مبتلا نہ تھے۔
بلکہ اس کے تمام اصول وضوابط کو ہر حال میں پیش نظر رکھتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2759   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.