الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
24. باب فِي وَضْعِ الْجَائِحَةِ
24. باب: کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔
Chapter: Cancelling The Deal In The Event Of Blight.
حدیث نمبر: 3470
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، واحمد بن سعيد الهمداني، قالا: اخبرنا ابن وهب، قال: اخبرني ابن جريج. ح وحدثنا محمد بن معمر، حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج المعنى، ان ابا الزبير المكي اخبره، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إن بعت من اخيك تمرا، فاصابتها جائحة فلا يحل لك ان تاخذ منه شيئا بم تاخذ مال اخيك بغير حق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَعْنَى، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ الْمَكِّيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنْ بِعْتَ مِنْ أَخِيكَ تَمْرًا، فَأَصَابَتْهَا جَائِحَةٌ فَلَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِيكَ بِغَيْرِ حَقٍّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آ جائے (اور وہ تباہ و برباد ہو جائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساقاة 3 (1554)، سنن النسائی/البیوع 28 (4531)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2219)، (تحفة الأشراف: 2798)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 22 (2598) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اور اگر کچھ پھل بچ گیا اور کچھ نقصان ہو گیا تو نقصان کا خیال کر کے قیمت میں کچھ تخفیف کر دینی چاہئے۔

Narrated Jabir bin Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: If you were to sell dried dates to your brother and they were smitten by blight, it will not be allowable for you to take your brother's property unjustly.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3463


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1554)

   صحيح مسلم3975جابر بن عبد اللهلو بعت من أخيك ثمرا فأصابته جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن أبي داود3470جابر بن عبد اللهإن بعت من أخيك تمرا فأصابتها جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن ابن ماجه2219جابر بن عبد اللهمن باع ثمرا فأصابته جائحة فلا يأخذ من مال أخيه شيئا علام يأخذ أحدكم مال أخيه المسلم
   سنن النسائى الصغرى4531جابر بن عبد اللهإن بعت من أخيك ثمرا فأصابته جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن النسائى الصغرى4532جابر بن عبد اللهمن باع ثمرا فأصابته جائحة فلا يأخذ من أخيه وذكر شيئا على ما يأكل أحدكم مال أخيه المسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2219  
´کئی سال کے لیے پھلوں کے بیچنے اور پھلوں کو لاحق ہونے والی آفات کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پھل بیچا، پھر اس کو کوئی آفت لاحق ہوئی، تو وہ اپنے بھائی (خریدار) کے مال سے کچھ نہ لے، آخر کس چیز کے بدلہ تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کا مال لے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2219]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقم مال کے بدلے لی جاتی ہے۔
جب باغ کا پھل بیچا گیا، اس وقت قابل استعمال نہیں تھا۔
گویا خریدار نے وصول نہیں کیا بلکہ یہ صرف وعدہ ہے کہ پھل تمہیں ملے گا، پھر جب پھل ضائع ہوگیا تو خریدار کو کچھ نہیں ملا، جب کہ رقم وہ پیشگی ادا کرچکا ہے یا ادا کرنے کا وعدہ کر چکا ہے۔
اس طرح وہ صرف رقم ادا کرے گا اور وصول کچھ نہیں کرے گا۔
، یہ ناجائز ہے۔

(2)
وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟ اس میں یہی اشارہ ہے کہ مال لے کر اس کے عوض کیا دیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مال کے بدلے خریدار کو کچھ نہیں ملا تو پھر قیمت کس چیز کی لے رہا ہے؟ یعنی اس صورت میں قیمت نہ لی جائے، اگر لے لی ہو تو واپس کر دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3470  
´کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آ جائے (اور وہ تباہ و برباد ہو جائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے؟ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3470]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
نبی کریم ﷺ نے درختوں کے پھل کی بیع اس وقت کرنے کا حکم دیا۔
جب وہ پھل آفتوں سے محفوظ ہوچکا ہو۔
اگر بیع میں مسنون شرطوں کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو تو اس قسم کے نقصان کی تلافی واجب ہے۔
اگر بنیادی طور پر بیع صحیح ہو اور آفتوں سے محفوظ ہوجانے کے وقت کے بعد کی جائے۔
تو تلافی کرنا مستحب ہے۔
واجب نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3470   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.