الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
30. بَابُ غَزْوَةُ الْخَنْدَقِ وَهْيَ الأَحْزَابُ:
30. باب: غزوہ خندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔
(30) Chapter. The Ghazwa of Al-Khandaq which is called Al-Ahzab Battle.
حدیث نمبر: 4101
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا خلاد بن يحيى , حدثنا عبد الواحد بن ايمن , عن ابيه , قال: اتيت جابرا رضي الله عنه , فقال:" إنا يوم الخندق نحفر فعرضت كدية شديدة , فجاءوا النبي صلى الله عليه وسلم , فقالوا: هذه كدية عرضت في الخندق , فقال:" انا نازل" , ثم قام وبطنه معصوب بحجر , ولبثنا ثلاثة ايام لا نذوق ذواقا , فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم المعول فضرب , فعاد كثيبا اهيل او اهيم , فقلت: يا رسول الله ائذن لي إلى البيت , فقلت لامراتي: رايت بالنبي صلى الله عليه وسلم شيئا ما كان في ذلك صبر , فعندك شيء , قالت: عندي شعير وعناق , فذبحت العناق وطحنت الشعير حتى جعلنا اللحم في البرمة , ثم جئت النبي صلى الله عليه وسلم والعجين قد انكسر والبرمة بين الاثافي قد كادت ان تنضج , فقلت: طعيم لي فقم انت يا رسول الله ورجل او رجلان , قال:" كم هو" , فذكرت له , قال:" كثير طيب" , قال:" قل لها لا تنزع البرمة ولا الخبز من التنور حتى آتي" , فقال: قوموا فقام المهاجرون والانصار , فلما دخل على امراته قال: ويحك جاء النبي صلى الله عليه وسلم بالمهاجرين والانصار ومن معهم , قالت: هل سالك , قلت: نعم , فقال:" ادخلوا ولا تضاغطوا فجعل يكسر الخبز ويجعل عليه اللحم ويخمر البرمة والتنور إذا اخذ منه ويقرب إلى اصحابه , ثم ينزع فلم يزل يكسر الخبز ويغرف حتى شبعوا وبقي بقية , قال:" كلي هذا واهدي فإن الناس اصابتهم مجاعة".(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ:" إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ , فَجَاءُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ , فَقَالَ:" أَنَا نَازِلٌ" , ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبٌ بِحَجَرٍ , وَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَذُوقُ ذَوَاقًا , فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ , فَعَادَ كَثِيبًا أَهْيَلَ أَوْ أَهْيَمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي إِلَى الْبَيْتِ , فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا كَانَ فِي ذَلِكَ صَبْرٌ , فَعِنْدَكِ شَيْءٌ , قَالَتْ: عِنْدِي شَعِيرٌ وَعَنَاقٌ , فَذَبَحَتِ الْعَنَاقَ وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَةِ , ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَجِينُ قَدِ انْكَسَرَ وَالْبُرْمَةُ بَيْنَ الْأَثَافِيِّ قَدْ كَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ , فَقُلْتُ: طُعَيِّمٌ لِي فَقُمْ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ , قَالَ:" كَمْ هُوَ" , فَذَكَرْتُ لَهُ , قَالَ:" كَثِيرٌ طَيِّبٌ" , قَالَ:" قُلْ لَهَا لَا تَنْزِعِ الْبُرْمَةَ وَلَا الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ" , فَقَالَ: قُومُوا فَقَامَ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ , فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ: وَيْحَكِ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَهُمْ , قَالَتْ: هَلْ سَأَلَكَ , قُلْتُ: نَعَمْ , فَقَالَ:" ادْخُلُوا وَلَا تَضَاغَطُوا فَجَعَلَ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَيَجْعَلُ عَلَيْهِ اللَّحْمَ وَيُخَمِّرُ الْبُرْمَةَ وَالتَّنُّورَ إِذَا أَخَذَ مِنْهُ وَيُقَرِّبُ إِلَى أَصْحَابِهِ , ثُمَّ يَنْزِعُ فَلَمْ يَزَلْ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَيَغْرِفُ حَتَّى شَبِعُوا وَبَقِيَ بَقِيَّةٌ , قَالَ:" كُلِي هَذَا وَأَهْدِي فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ مَجَاعَةٌ".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ایمن حبشی نے بیان کیا کہ میں جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی (جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اس لیے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی) صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اندر اترتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان (ایک ہی ضرب میں) بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئیے۔ (گھر آ کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (فاقوں کی وجہ سے) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہو سکا۔ کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر گوشت کو ہم نے چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا گھر کھانے کے لیے مختصر کھانا تیار ہے۔ یا رسول اللہ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ و طیب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہو گئے۔ جب جابر رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے انہوں نے کہا اب کیا ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہو جاؤ لیکن اژدہام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روٹی کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈی اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لیا اور صحابہ کے قریب کر دیا۔ پھر آپ نے گوشت اور روٹی نکالی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر روٹی چورا کرتے جاتے اور گوشت اس میں ڈالتے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی سے) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔

Narrated Jabir: We were digging (the trench) on the day of (Al-Khandaq ( i.e. Trench )) and we came across a big solid rock. We went to the Prophet and said, "Here is a rock appearing across the trench." He said, "I am coming down." Then he got up, and a stone was tied to his belly for we had not eaten anything for three days. So the Prophet took the spade and struck the big solid rock and it became like sand. I said, "O Allah's Apostle! Allow me to go home." (When the Prophet allowed me) I said to my wife, "I saw the Prophet in a state that I cannot treat lightly. Have you got something (for him to eat?" She replied, "I have barley and a she goat." So I slaughtered the she-kid and she ground the barley; then we put the meat in the earthenware cooking pot. Then I came to the Prophet when the dough had become soft and fermented and (the meat in) the pot over the stone trivet had nearly been well-cooked, and said, "I have got a little food prepared, so get up O Allah's Apostle, you and one or two men along with you (for the food)." The Prophet asked, "How much is that food?" I told him about it. He said, "It is abundant and good. Tell your wife not to remove the earthenware pot from the fire and not to take out any bread from the oven till I reach there." Then he said (to all his companions), "Get up." So the Muhajirn (i.e. Emigrants) and the Ansar got up. When I came to my wife, I said, "Allah's Mercy be upon you! The Prophet came along with the Muhajirin and the Ansar and those who were present with them." She said, "Did the Prophet ask you (how much food you had)?" I replied, "Yes." Then the Prophet said, "Enter and do not throng." The Prophet started cutting the bread (into pieces) and put the cooked meat over it. He covered the earthenware pot and the oven whenever he took something out of them. He would give the food to his companions and take the meat out of the pot. He went on cutting the bread and scooping the meat (for his companions) till they all ate their fill, and even then, some food remained. Then the Prophet said (to my wife), "Eat and present to others as the people are struck with hunger."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 427


   صحيح البخاري4101جابر بن عبد اللهلبثنا ثلاثة أيام لا نذوق ذواقا أخذ النبي المعول فضرب فعاد كثيبا أهيم طعيم لي فقم أنت يا رسول الله ورجل أو رجلان قال كم هو فذكرت له قال كثير طيب قال قل لها لا تنزع البرمة ولا الخبز من التنور حتى آتي فقال قوموا فقام المهاجرون والأنصار فلما دخل على امرأته قا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4101  
4101. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چٹان نمودار ہوئی۔ صحابہ كرام ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: خندق میں ایک سخت چٹان نکل آئی ہے۔ آپ نے فرمایا: میں خود اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ نبی ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور جب اس چٹان پر ماری تو مارتے ہی وہ ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ پھر میں نے گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا: آج میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جلدی سے بکری کا بچہ ذبح کیا اور میری بیوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4101]
حدیث حاشیہ:
روایت میں غزوہ خندق کھودنے کا ذکر ہےمگر اوربھی بہت سے امور بیان میں آگئے ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے شدت بھو ک سے پیٹ پرپتھر باندھنے کابھی صاف لفظوں میں ذکرہے۔
بعض لوگوں نے پتھر باندھنے کی تاویل کی ہے۔
کھانےمیں برکت کا ہونا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا جن کا توآپ سےبارہا ظہور ہواہے۔
یہی حضرت جابر ہیں جواپنے والد کی شہادت کےبعد قرض خواہوں کا قر ض چکانےکےلیے رسو ل کریمﷺ سےدعاؤں کےطالب ہوئےتھے۔
اس سلسلہ میں جب آپ گھر تشریف لائے اورواپس جانےلگے توجابر کےمنع کرنےکے باجود ان کی بیوی نے درخواست کی تھی کہ یارسول اللہ(ﷺ) میرے خاوند کےلیے دعائے خیر کر جائیے۔
آ پ نےدونوں کےلیے دعا کی تھی اوراس عورت نےکہا تھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف لائیں اور یہ کیونکہ ممکن ہےکہ ہم آپ سےدعا کےطالب بھی نہ ہوں۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4101   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4101  
4101. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چٹان نمودار ہوئی۔ صحابہ كرام ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: خندق میں ایک سخت چٹان نکل آئی ہے۔ آپ نے فرمایا: میں خود اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ نبی ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور جب اس چٹان پر ماری تو مارتے ہی وہ ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ پھر میں نے گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا: آج میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں دیکھا ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکی۔ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جلدی سے بکری کا بچہ ذبح کیا اور میری بیوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4101]
حدیث حاشیہ:

حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا جب ہم خندق کھودرہے تھے تو اچانک ایک چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی تو آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی، اور بسم اللہ پڑھ کر اسے چٹان پر مارا تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔
آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:
مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئی ہیں۔
اللہ کی قسم! میں اس وقت اس کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔
پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔
آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:
مجھے ایران کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں اللہ کی قسم! میں اب اس ملک کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔
پھر اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔
آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:
مجھے ملک یمن کی چابیاں دی گئی ہیں۔
اللہ قسم! میں اس مقام پر کھڑا صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔
(مسند احمد: 303/4)

حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس، دس صحابہ کرام پر مشتمل گروپ تشکیل دیے اور ایک گروپ کو دس ہاتھ خندق کھودنے کی ذمہ داری سونپی گئی خندق کھودتے کھودتے ایک سخت چٹان آئی جس نے کدال توڑدیے۔
صحابہ کرام ؓ نے حضرت سلمان ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اس صورت حال سے نمٹا جا سکے، چنانچہ آپ نے کدال لے کر ضرب لگائی تو چٹان میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس سے چمک پیدا ہوئی۔
رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیربلند کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا:
میں نے اس چمک میں شام کے محلات کو دیکھا۔
میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا:
ایک دن آپ کی امت ان محلات پر قابض ہو جائے گی۔
چنانچہ مسلمان اس بشارت سے بہت خوش ہوئے۔
(فتح الباري: 496/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4101   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.