الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
5. بَابُ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} ، الْعُرْفُ الْمَعْرُوفُ:
5. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف» ، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
(5) Chapter. "Show forgiveness, enjoin what is good, and turn away from the foolish (i.e., don’t punish them)." (V.7:199)
حدیث نمبر: 4644
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال عبد الله بن براد: حدثنا ابو اسامة، حدثنا هشام، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، قال: امر الله نبيه صلى الله عليه وسلم ان ياخذ العفو من اخلاق الناس او كما قال.(مرفوع) وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ أَوْ كَمَا قَالَ.
اور عبداللہ بن براد نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے اخلاق ٹھیک کرنے کے لیے درگزر اختیار کریں یا کچھ ایسا ہی کہا۔

Narrated Sa`id bin Jubair: I asked Ibn `Abbas regarding Surat-al-Anfal. He said, "It was revealed in connection with the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 168


   صحيح البخاري4644عبد الله بن الزبيريأخذ العفو من أخلاق الناس
   سنن أبي داود4787عبد الله بن الزبيريأخذ العفو من أخلاق الناس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4787  
´عفو و درگزر کرنے اور انتقام نہ لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اللہ کے فرمان «خذ العفو» عفو کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4787]
فوائد ومسائل:
معافی اور درگزرانتہائی عزیمت کا عمل ہے کہ انسان دل سے دوسرے کو معاف کر دے اور معاملے کو بھول جائے۔
کمزور ایمان و عمل کے آدمی سے ایسا ہونا بہت نادر ہوتا ہے، اس لیے اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اس کا خاص حکم ارشاد فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4787   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4644  
4644. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کے لیے درگزر سے کام لیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4644]
حدیث حاشیہ:
غرض امام بخاری ؒ کی یہ ہے کہ عفو سے آیت میں قصور کی معافی کرنا، خطا سے در گزر کرنا مراد ہے اور یہ آیت حسن اخلاق سے متعلق ہے۔
امام جعفر صادق ؒ سے منقول ہے کہ قرآن پاک میں کوئی آیت اس آیت کی طرح جامع اخلاق نہیں ہے لیکن بعضوں نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ ﴿خُذِ العفوَ﴾ سے یہ مراد ہے کہ جو کچھ مال ان کے ضروری اخراجات سے بچ رہے وہ لے لے اور یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے کا ہے۔
طبری اور ابن مردویہ نے حضرت جابر ؓ سے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اسی سے نکالا۔
جب یہ آیت اتری تو آنحضرت ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کا مطلب پوچھا، انہوں نے کہا میں جا کر پرورد گار سے پوچھتا ہوں، پھر لوٹ کر آئے کہنے لگے تمہارا پرورد گار تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جو کوئی تم سے ناطہ کاٹے تم اس سے جوڑو اور جو کوئی تم کو محروم کرے تم اس کو دو اور جو کوئی تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4644   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4644  
4644. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کے لیے درگزر سے کام لیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4644]
حدیث حاشیہ:

اس آیت میں (عَفو)
کے متعلق دوآراء ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ابن عباس ؓ کا مؤقف ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے وہ مال ہیں جو ان کی ضروریات سے زائد ہوں، انھیں لینے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے اور یہ حکم زکاۃ کے احکام اترنے سے پہلے کا ہے۔
۔
حضرت ابن زبیر ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد معاف کردینا ہے کہ لوگوں کے اخلاق واعمال کی جستجو کرنے کی بجائے انھیں معاف کردیا کریں جیسا کہ درج بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
علامہ ابن جریرطبری ؒ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ اخلاق، خلق کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ملکہ ہے جس کے باعث افعال آسانی سے صادر ہوں۔
جعفر صادق ؒ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں لوگوں کے مکارم اخلاق بیان کرنے کے بارے میں اس سے جامع کوئی آیت نہیں ہے۔

اصول اخلاق تین ہیں:
عقلی، شہوی اور غضبی۔
اور ہرخلق کا کمال امرمتوسط ہے، خلق عقلی کا متوسط حکمت ہے۔
اس سے امر بالمعروف پیدا ہوتا ہے۔
شہوی کا متوسط عفت ہے۔
اس سے اخذ عفو پیدا ہوتا ہے اور قوت غضبی کا متوسط شجاعت ہے۔
اس سے جاہلوں سے اعراض پیدا ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 625/12)

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ مجھے علم نہیں، البتہ میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے اس کا مطلب بتا سکتا ہوں، پھر انھوں نے بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے، آپ اسے معاف کردیں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے قطعہ تعلقی کرے آپ اس سے بھی صلح رحمی کریں۔
(فتح الباري: 388/8)
الغرض یہ آیت اخلاق فاضلہ پر مشتمل ایک جامع ہدایت نامہ ہےجس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء ؑ کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین وآخریں میں خلق عظیم کے خطاب سے نوازا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک آپ عمدہ اخلاق پر فائز ہیں۔
(القلم: 4/68)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4644   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.