الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
83. بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي الْمَسَاجِدِ:
83. باب: مساجد میں آواز بلند کرنا کیسا ہے؟
(83) Chapter. Raising the voice in the mosque.
حدیث نمبر: 470
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا الجعيد بن عبد الرحمن، قال: حدثني يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد، قال: كنت قائما في المسجد فحصبني رجل فنظرت، فإذا عمر بن الخطاب، فقال: اذهب فاتني بهذين، فجئته بهما، قال: من انتما او من اين انتما؟ قالا: من اهل الطائف، قال:" لو كنتما من اهل البلد لاوجعتكما ترفعان اصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ قَالَا: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ:" لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟

Narrated Al-Sa'ib bin Yazid: I was standing in the mosque and somebody threw a gravel at me. I looked and found that he was `Umar bin Al-Khattab. He said to me, "Fetch those two men to me." When I did, he said to them, "Who are you? (Or) where do you come from?" They replied, "We are from Ta'if." `Umar said, "Were you from this city (Medina) I would have punished you for raising your voices in the mosque of Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 459



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:470  
470. حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو بلا کر لاؤ، چنانچہ میں انہیں بلا کر لایا تو حضرت عمر ؓ نے ان سے دریافت کیا: تم کس قبیلے سے ہو یا کس جگہ کے رہنے والے ہو؟انہوں نے بتایا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے باشندے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔ تم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں اپنی آوازوں کو اتنا بلند کر رہے ہو! [صحيح بخاري، حديث نمبر:470]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔
اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)
لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔
آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔

پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔
اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔
(فتح الباری: 1/726۔
)


دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
)

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)
"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)
صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
"(البقرۃ: 2/280۔
)

مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. عقوبات تقديرية (التعزير) (الجنايات)
2. رفع الصوت في المسجد (العبادات)
موضوعات 1. تعزیرات (غیر مقررہ سزائیں) (جرائم و عقوبات)
2. مسجد میں آواز بلند کرنا (عبادات)
Topics 1. Reprimands (Crime and Persecution)
2. Raising voice in mosque (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/470 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکری ماری۔
میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے۔
انہوں نے مجھ سے فرمایا:
جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو بلا کر لاؤ، چنانچہ میں انہیں بلا کر لایا تو حضرت عمر ؓ نے ان سے دریافت کیا:
تم کس قبیلے سے ہو یا کس جگہ کے رہنے والے ہو؟انہوں نے بتایا:
ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا:
اگر تم مدینہ منورہ کے باشندے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔
تم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں اپنی آوازوں کو اتنا بلند کر رہے ہو! حدیث حاشیہ:

مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔
اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)
لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔
آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔

پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔
اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔
(فتح الباری: 1/726۔
)


دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
)

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)
"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)
صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
"(البقرۃ: 2/280۔
)

مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انھوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔
میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سامنے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انھیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔
میں بلا لایا۔
آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا۔
رسول کریم ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟ حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-
Sa'ib bin Yazid (RA)
:
I was standing in the mosque and somebody threw a gravel at me. I looked and found that he was 'Umar bin Al-
Khattab (RA)
. He said to me, "Fetch those two men to me." When I did, he said to them, "Who are you? (Or)
where do you come from?" They replied, "We are from Ta'if." 'Umar said, "Were you from this city (Medina)
I would have punished you for raising your voices in the mosque of Allah's Apostle حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم476٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
470٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
450٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
470٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
458٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
466٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
470٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
470١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
470 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × (صلاۃ)
کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔
)

"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔
"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔
)

"وہی ہے(اللہ)
جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔
"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے۔
چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔
دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔
صلاۃ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو)
اور طہارت ترابیہ(مسح)
سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔
طہارت،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:
ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔
نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔
چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔
قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت،منبر،چٹائی،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔
نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔
اس کی اہمیت وفضیلت،عین قبلہ،جہت قبلہ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔
چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد،حفاظت مسجد،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔
پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔
آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔
ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔
دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔
اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔
اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔
ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 470   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.