الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب صلة الرحم
25. بَابُ وُجُوبِ وصِلَةِ الرَّحِمِ
25. صلہ رحمی کے وجوب کا بیان
حدیث نمبر: 48
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال‏:‏ حدثنا ابو عوانة، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن ابي هريرة قال‏:‏ لما نزلت هذه الآية: ﴿‏‏وانذر عشيرتك الاقربين﴾ [الشعراء: 214] قام النبي صلى الله عليه وسلم فنادى‏:‏ ”يا بني كعب بن لؤي، انقذوا انفسكم من النار‏.‏ يا بني عبد مناف، انقذوا انفسكم من النار‏.‏ يا بني هاشم، انقذوا انفسكم من النار‏.‏ يا بني عبد المطلب، انقذوا انفسكم من النار‏.‏ يا فاطمة بنت محمد، انقذي نفسك من النار، فإني لا املك لك من الله شيئا، غير ان لكم رحما سابلهما ببلالها‏.‏“حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: ﴿‏‏وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَى‏:‏ ”يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ‏.‏ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ‏.‏ يَا بَنِي هَاشِمٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ‏.‏ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ‏.‏ يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكِ مِنَ اللهِ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهُمَا بِبِلاَلِهَا‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: اور آپ اپنے بہت قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم (نے قریش کو اکٹھا کیا اور) کھڑے ہوئے اور آواز دی: اے بنوکعب بن لؤی! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنو عبد مناف! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنوہاشم! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنو عبدالمطلب! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو آگ سے بچا لو۔ میں اللہ کی طرف سے تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں سوائے اس کے کہ میرا تمہارے ساتھ رشتہ داری کا تعلق ہے، میں اس رحم کو تر کرتا رہوں گا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، تفسير القرآن، باب و من سورة الشعراء: 3185 و مسلم: 204 و النسائي: 3644، الصحيحة: 3177»

قال الشيخ الألباني: صحیح

   صحيح البخاري3527عبد الرحمن بن صخريا بني عبد مناف اشتروا أنفسكم من الله يا بني عبد المطلب اشتروا أنفسكم من الله يا أم الزبير بن العوام عمة رسول الله يا فاطمة بنت محمد اشتريا أنفسكما من الله لا أملك لكما من الله شيئا سلاني من مالي ما شئتما
   صحيح البخاري4771عبد الرحمن بن صخراشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا ياعباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا
   صحيح البخاري2753عبد الرحمن بن صخراشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا
   صحيح مسلم501عبد الرحمن بن صخرأنقذوا أنفسكم من النار يا بني مرة بن كعب أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد شمس أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد مناف أنقذوا أنفسكم من النار يا بني هاشم أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد المطلب أنقذوا أنفسكم من النار يا فاطمة أنقذي نفسك من النار لا أملك ل
   صحيح مسلم504عبد الرحمن بن صخراشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد المطلب لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت رسول الله سليني بما شئت لا أغني عنك من الله شيئا
   جامع الترمذي3185عبد الرحمن بن صخرلما نزلت وأنذر عشيرتك الأقربين
   سنن النسائى الصغرى3674عبد الرحمن بن صخرأنقذوا أنفسكم من النار يا فاطمة أنقذي نفسك من النار إني لا أملك لكم من الله شيئا لكم رحما سأبلها ببلالها
   سنن النسائى الصغرى3676عبد الرحمن بن صخراشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد المطلب لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا
   سنن النسائى الصغرى3677عبد الرحمن بن صخراشتروا أنفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا يا بني عبد مناف لا أغني عنكم من الله شيئا يا عباس بن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا يا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا يا فاطمة سليني ما شئت لا أغني عنك من الله شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 48  
1
فوائد ومسائل:
(۱)انسان کی دعوت و تبلیغ اور خیر خواہی کے سب سے زیادہ حقدار انسان کے عزیز و اقارب ہیں۔ سب سے پہلے انہیں ہی توحید کا درس دینا چاہیے۔ اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا آغاز اپنی ذات سے کیا جائے اور پھر اپنے عزیز و اقارب کی اصلاح کی جائے۔ یہ طریقۂ دعوت سب سے زیادہ مؤثر اور دیر پا ہے۔
(۲) برسر اقتدار طبقے کے عزیز واقارب عموماً اپنے آپ کو قانون سے ماوراء خیال کرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اس ذہنیت کی تردید کا حکم ہوا کہ دین اسلام میں محض رشتہ داری کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہاں! اگر کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری کے ساتھ دین اسلام پر کاربند ہے تو اس کو بہرحال ایک درجہ عزت و مقام ضرور حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں رشتہ داریوں کی بجائے ایمان اور تقویٰ کو اہمیت حاصل ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
((إِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاکُمْ))
بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں تم سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم سے زیادہ متقی ہے۔
ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رشتہ داری کی بنیاد تقویٰ قرار دیا ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپ الوداع کرنے کے لیے شہر سے باہر تشریف لائے اور وصیت فرمائی، پھر آپ متوجہ ہوئے اور فرمایا:
((إِنَّ أَهْلَ بَیْتِی هٰؤُلاءِ یَرَوْنَ أَنَّهُمْ أَوْلَي النَّاسِ بِیْ وَلَیْسَ کَذٰلِكَ اِنَّ أَوْلِیَائِي مِنْکُمْ الْمُتَّقُوْنَ مَنْ کَانُوْا حَیْثُ کَانُوْا....))(مسند أحمد: ۵؍۲۳۵ اسناده صحیح)
میرے یہ اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ میرے زیادہ قریبی اور تعلق دار ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، میرے عزیز اور دوست تم میں سے متقی لوگ ہیں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں ہوں....۔
(۳) دعوت کے لیے موزوں اور دستور کے مطابق طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اس میں رواج شدہ غیر شرعی چیزوں کو ترک کر دینا چاہیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کو جمع تو کیا جو دستور کے مطابق اپنی بات پہنچانے کا طریقہ تھا اورجاہلیت میں لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بلند جگہ پر ننگے ہوکر صدا لگانے یا اونچی جگہ آگ جلانے کی جو غیر شرعی رسم تھی اس کو ترک کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم جائز حدود میں رہ کر دعوت دینے کے مکلف ہیں۔ حرام کا ارتکاب کرکے ہمیں دعوت دین پھیلانے کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔
(۴) تعارف اور پہچان کے لیے قبائل اور اپنے کسی بڑے بزرگ کی طرف نسبت جائز ہے اور یہ عصبیت کے دائرے میں نہیں آتا۔
(۵) انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے اور اس کے لیے ایمان اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے۔ رشتہ داری کا اس مقصد کے حصول میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
(۶) جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر بزرگان دین جس کو چاہیں گے چھڑا لیں گے یہ حدیث ان کے باطل عقیدے کی تردید کرتی ہے۔ انبیاء و رسل اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش بھی نہیں کرسکیں گے جیسا کہ آیت الکرسی میں اس کی صراحت ہے۔
جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری کا تعلق ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں اسے نبھاتا رہوں گا اور صلہ رحمی کرتا رہوں گا، البتہ آخرت میں رشتہ داری تبھی کام آئے گی جب ایمان ہوگا۔
(۷) باقی بیٹیوں کو چھوڑ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر اس لیے کیا کہ وہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے زیادہ عزیز اور لاڈلی تھیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں تھیں جن کے اسمائے گرامی سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن ہیں۔
اہل النسۃ کی کتب کے علاوہ شیعہ کی کتب میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 48   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.