الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
30. بَابُ هَلْ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَهَبَ نَفْسَهَا لأَحَدٍ:
30. باب: کیا کوئی عورت کسی سے نکاح کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟
(30) Chapter. Is it permissible for a woman to present herself for marriage to somebody?
حدیث نمبر: 5113
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، حدثنا ابن فضيل، حدثنا هشام، عن ابيه، قال:" كانت خولة بنت حكيم من اللائي وهبن انفسهن للنبي صلى الله عليه وسلم، فقالت عائشة: اما تستحي المراة ان تهب نفسها للرجل؟، فلما نزلت: ترجي من تشاء منهن سورة الاحزاب آية 51، قلت: يا رسول الله، ما ارى ربك إلا يسارع في هواك". رواه ابو سعيد المؤدب، ومحمد بن بشر، وعبدة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة يزيد بعضهم على بعض.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ مِنَ اللَّائِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَمَا تَسْتَحِي الْمَرْأَةُ أَنْ تَهَبَ نَفْسَهَا لِلرَّجُلِ؟، فَلَمَّا نَزَلَتْ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ سورة الأحزاب آية 51، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ فِي هَوَاكَ". رَوَاهُ أَبُو سَعِيدٍ الْمُؤَدِّبُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، وَعَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ يَزِيدُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک عورت اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتے شرماتی نہیں۔ پھر جب آیت «ترجئ من تشاء منهن‏» اے پیغمبر! تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے نازل ہوئی تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! اب میں سمجھی اللہ تعالیٰ جلد جلد آپ کی خوشی کو پورا کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابوسعید (محمد بن مسلم)، مؤدب اور محمد بن بشر اور عبدہ بن سلیمان نے بھی ہشام سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ ایک نے دوسرے سے کچھ زیادہ مضمون نقل کیا ہے۔

Narrated Hisham's father: Khaula bint Hakim was one of those ladies who presented themselves to the Prophet for marriage. `Aisha said, "Doesn't a lady feel ashamed for presenting herself to a man?" But when the Verse: "(O Muhammad) You may postpone (the turn of) any of them (your wives) that you please,' (33.51) was revealed, " `Aisha said, 'O Allah's Apostle! I do not see, but, that your Lord hurries in pleasing you.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 48


   صحيح البخاري5113عائشة بنت عبد اللهتستحي المرأة أن تهب نفسها للرجل فلما نزلت ترجي من تشاء منهن
   صحيح البخاري4788عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله وأقول أتهب المرأة نفسها فلما أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك
   صحيح مسلم3631عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله وأقول وتهب المرأة نفسها فلما أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت
   صحيح مسلم3632عائشة بنت عبد اللهأما تستحيي امرأة تهب نفسها لرجل حتى أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء
   جامع الترمذي3216عائشة بنت عبد اللهما مات رسول الله حتى أحل له النساء
   سنن النسائى الصغرى3207عائشة بنت عبد اللهما توفي رسول الله حتى أحل الله له أن يتزوج من النساء ما شاء
   سنن النسائى الصغرى3201عائشة بنت عبد اللهأغار على اللاتي وهبن أنفسهن للنبي فأقول أوتهب الحرة نفسها فأنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء
   سنن النسائى الصغرى3206عائشة بنت عبد اللهما مات رسول الله حتى أحل له النساء
   سنن ابن ماجه2000عائشة بنت عبد اللهأما تستحي المرأة أن تهب نفسها للنبي حتى أنزل الله ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2000  
´جس عورت نے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے؟! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے (سورة الأحزاب: 51) تب میں نے کہا: آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلامی معاشرے میں یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ عورت اپنے نکاح کے لیے خود کسی مرد سے درخواست کرے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ درخواست عورت کے سرپرست کے ذریعے سے کی جائے۔
رسول اللہﷺ کی امتیازی شان اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عجیب محسوس ہوئی کہ عورتیں خود ہی آکر کہہ دیتی ہیں کہ اللہ کے رسول ہم سے نکاح کرلیں۔

(2)
نبئ اکرمﷺ امت کے تمام افراد کے سرپرست تھے بلکہ نبی ﷺ کا حق سرپرستوں سے بھی زیادہ تھا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ أَنْفُسِهِمْ﴾  (الأحزاب: 6)
نبی مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے والے ہیں۔

(3)
  رسول اللہﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے یہ خصوصی رعایت تھی کہ آپ پرازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان باری کی پابندی کرنا فرض نہیں تھا۔
اس کے باوجود نبیﷺ نے بیویوں میں انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں، جب مرض کی شدت اس قدر تھی کہ ایک ام المومنین کے گھرسے دوسری کے گھر میں چل کر جانا مشکل تھا، تب بھی آپ باری باری ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے حتی کہ امہات المومنین نے خود ہی عرض کیا کہ آپ جس گھر میں پسند فرمائیں آرام کریں۔
تب نبیﷺ دومردوں کے سہارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔
اور انہی کے حجرۂ مبارک میں دفن ہوئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب مرض النبیﷺ ووفاته، حدیث: 4442)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2000   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3216  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3216]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرمﷺکے لیے حلال کر دی گئیں تھیں،
یہ استنباط عائشہ رضی اللہ عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے،
﴿تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء﴾ (الأحزاب: 51) (اے ہمارے حبیب وخلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اُس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو،
(گو اس کو باری نہ بھی ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3216   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5113  
5113. سیدنا ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیدہ خولہ بنت حکیم‬ ؓ ا‬ن عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کی نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا کہ عورت کو شرم نہیں آتی وہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتی ہے؟ پھر جب آیت نازل ہوئی: (اے پیغمبر) تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اب پتہ چلا ہے کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں کس قدر جلدی کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابو سعید مؤدب محمد بن بشر اور عبدہ نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے بیان کیا وہ ایک دوسرے سے حدیث میں کچھ اضافہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5113]
حدیث حاشیہ:
مؤدب کی روایت کو ابن مردویہ نے اور محمد بن بشر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور عبدہ کی روایت کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے مرسل کہا ہے۔
علم الٰہی میں کچھ ایسے مخصوص ملی مفادات تھے کہ جن کی بنا پر اللہ پاک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اجازت عطا فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5113   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5113  
5113. سیدنا ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیدہ خولہ بنت حکیم‬ ؓ ا‬ن عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کی نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا کہ عورت کو شرم نہیں آتی وہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتی ہے؟ پھر جب آیت نازل ہوئی: (اے پیغمبر) تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اب پتہ چلا ہے کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں کس قدر جلدی کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابو سعید مؤدب محمد بن بشر اور عبدہ نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے بیان کیا وہ ایک دوسرے سے حدیث میں کچھ اضافہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5113]
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین قسم کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی تھی۔
ان میں سے تیسری قسم ان عورتوں کی تھی جو بذاتِ خود آپ کو نکاح کی پیش کش کریں۔
اگر اپنا نفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ کو پسند آ جائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا اور نہ ولی کی اجازت اور گواہوں کی ضرورت ہی ہوگی۔
عورت کا اپنا نفس ہبہ کر دینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔
ایسی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث میں تبصرہ کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں۔
میں کہتی:
بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنا آپ کسی کو ہبہ کر دے، لیکن قرآن کریم نے تبصرہ فرمایا:
یہ رعایت صرف آپ کے لیے ہے دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4788) (2)
ہبہ عورت کے حکم میں اختلاف ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے یا یہ حکم عام ہے؟ اس اختلاف کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں لفظ "هل" سے اشارہ کیا ہے۔
بہر حال دوسرے مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ نکاح کی دیگر شرائط پوری کریں، یعنی ولی کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور حق مہر کی تعیین وغیرہ اس کے بعد نکاح صحیح ہوگا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5113   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.