الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
29. بَابُ الشِّغَارِ:
29. باب: نکاح شغار کا بیان۔
(29) Chapter. Ash-Shighar.
حدیث نمبر: 5112
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشغار"، والشغار: ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الآخر ابنته ليس بينهما صداق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ الشِّغَارِ"، وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی (بیٹی یا بہن) اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہرے۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle forbade Ash-Shighar, which means that somebody marries his daughter to somebody else, and the latter marries his daughter to the former without paying Mahr.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 47


   صحيح البخاري5112عبد الله بن عمرالشغار الشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته ليس بينهما صداق
   صحيح البخاري6960عبد الله بن عمرالشغار
   صحيح مسلم3468عبد الله بن عمرلا شغار في الإسلام
   صحيح مسلم3465عبد الله بن عمرنهى عن الشغار والشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه ابنته وليس بينهما صداق
   صحيح مسلم3467عبد الله بن عمرالشغار
   جامع الترمذي1124عبد الله بن عمرالشغار
   سنن أبي داود2074عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3336عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3339عبد الله بن عمرالشغار
   سنن ابن ماجه1883عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار والشغار أن يقول الرجل للرجل زوجني ابنتك أو أختك على أن أزوجك ابنتي أو أختي وليس بينهما صداق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم355عبد الله بن عمرنهى عن الشغار. والشغار ان يزوج الرجل ابنته الرجل على ان يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق
   بلوغ المرام840عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار،‏‏‏‏ والشغار ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الآخر ابنته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 355  
´وٹے سٹے (شغار) کی شادی منع ہے`
«. . . 230- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار. والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار (وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے۔ (نافع نے کہا:) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا (اور) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 355]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5112، ومسلم 1415/57، من حديث مالك به]
تفقه
➊ شغار (ادلا بدلا کی شادی، بٹے کی شادی) جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: «وأجمع العلماء علٰي أن نكاح الشغار مكروه لا يجوز واختلفوا فيه إذا وقع هل يصح بمهر المثل أم لا؟» علماء کا اجماع ہے کہ شغار مکروہ ہے جائز نہیں ہے اور انہوں نے اس میں اختلاف کیا کہ اگر یہ نکاح کردیا جائے تو کیا مہرِ مثل سے صحیح ہے یا نہیں؟ [التمهيد 14/72]
➋ عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ الله سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبد الرحمن بن حکم سے کیا اور عبد الرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا۔ [و قد كانا جعلاه صداقاً] اور دونوں نے اس (نکاح) کو (ہی) حق مہر قرار دیا تو خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان (بن الحکم الاموی) کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دو۔ انہوں نے اس خط میں بھی لکھا تھا کہ یہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4141 يا 4153 وسنده حسن، مسند ابي يعلي: 7370 و سنده حسن]
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ ابن نمیر (راوی) نے یہ اضافہ روایت کیا ہے: اور شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں یا اپنی بہن کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بہن کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم: 1416، دارالسلام: 3469]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کہ مطلقا نکاح شغار ممنوع ہے چاہے اس میں حق مہر ہو یا نہ ہو۔ یہ قول مرجوح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 230   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1883  
´نکاح شغار کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہے: آپ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے اس شرط پر کر دیں کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تجھ سے کر دوں گا، اور ان دونوں کے درمیان کوئی مہر نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1883]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح شغار یا متبادل شادیوں سے مراد وہی صورت ہے جو پنجاب میں وٹہ سٹہ کے نام سے معروف ہے۔
اس کی تفسیر روایت میں ذکر ہو چکی ہے۔

(2)
نکاح شغار میں یہ خرابی ہے کہ اگر ایک طرف میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ دونوں میں سے اگر ایک مرد کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی بے قصور بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔

(3)
جاہلیت میں نکاح شغار میں حق مہر کا تعین نہیں کیا جاتا تھا۔
نہ مہر مثل ہی ادا کیا جاتا تھا۔
گویا عورت کا عورت سے تبادلہ ہوتا تھا۔
آج کل اگرچہ حق مہر مقرر کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خرابی بددستور رہتی ہے کہ ایک مرد کی زیادتی کا بدلہ اس کی بیٹی پر زیادتی کر کے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1883   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2074  
´نکاح شغار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2074]
فوائد ومسائل:
دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔
گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔
درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2074   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5112  
5112. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح (کسی کے ساتھ) اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور ان دونوں کا کوئی حق مہر مقرر نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5112]
حدیث حاشیہ:
لفظ شغار کی یہ تفسیر بقول بعض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما یا نافع یا امام مالک کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5112   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5112  
5112. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح (کسی کے ساتھ) اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور ان دونوں کا کوئی حق مہر مقرر نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5112]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نکاح شغار، اسلام میں نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465 (1415)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ شغار کی تعریف حضرت نافع نے کی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6960)
اس میں حق مہر کی قید اتفاقی ہے، اصل مشروط تبادلۂ نکاح ہی شغار ہے، خواہ اس میں حق مہر کی تعیین ہو یا نہ ہو جیسا کہ حضرت عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمٰن نے اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کی طرف سے ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2075) (2)
اگرچہ فقہائے کوفہ نے مہر مثل کی ادائیگی سے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف واضح احادیث کے خلاف ہے۔
ہاں، اگر اتفاقی طور پر تبادلۂ نکاح ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(3)
اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہےکہ اگر ایک لڑکی کو اس کی غلطی کی وجہ سے طلاق ملتی ہے تو دوسری لڑکی کا گھر بلا وجہ اجڑ جاتا ہے، اس لیے شریعت نے مشروط تبادلۂ نکاح سے منع فرما دیا۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5112   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.