الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
حج کے مسائل
हज के नियम
2. باب لمواقيت
2. (احرام کے) میقات کا بیان
२. “ मीक़ात ” ( एहराम बांधने के अस्थान )
حدیث نمبر: 591
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن عائشة رضي الله عنها ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وقت لاهل العراق ذات عرق. رواه ابو داود والنسائي واصله عند مسلم من حديث جابر،‏‏‏‏ إلا ان راويه شك في رفعه. وفي صحيح البخاري: ان عمر هو الذي وقت ذات عرق. وعند احمد وابي داود والترمذي عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وقت لاهل المشرق العقيق.وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم وقت لأهل العراق ذات عرق. رواه أبو داود والنسائي وأصله عند مسلم من حديث جابر،‏‏‏‏ إلا أن راويه شك في رفعه. وفي صحيح البخاري: أن عمر هو الذي وقت ذات عرق. وعند أحمد وأبي داود والترمذي عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم وقت لأهل المشرق العقيق.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے، مگر اس کے راوی نے اس کے مرفوع ہونے میں شک کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات کیا تھا۔ احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (مروی) ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق والوں کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا تھا۔
हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने ईराक़ के लोगों लिए ज़ात-इर्क़ को मीक़ात नियुक्त किया । इसे अबू दाऊद और निसाई ने रिवायत किया है और इस की असल मुस्लिम में हज़रत जाबिर रज़िअल्लाहुअन्ह की रिवायत से है, मगर इस के रावी ने इस के मरफ़ूअ होने में शक किया है ।
और सहीह बुख़ारी में है कि हज़रत उमर रज़िअल्लाहुअन्ह ने ज़ात-इर्क़ को मीक़ात किया था ।
अहमद, अबू दाऊद और त्रिमीज़ी में हज़रत इब्न अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से (रिवायत) है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने पूरब वालों के लिए अक़ीक़ को मीक़ात नियुक्त किया था ।

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، المناسك، باب في المواقيت، حديث:1739، والنسائي، مناسك الحج، حديث:2657، وأصله من حديث جابر عند مسلم، الحج، حديث:1183، وأثر عمر أخرجه البخاري، الحج، حديث:1531، وحديث ابن عباس أخرجه أبوداود، المناسك، حديث:1740، والترمذي، الحج، حديث:832، وأحمد:1 /344، تفردبه يزيد بن أبي زياد وهو ضعيف ملدس مختلط.»

A’ishah (RAA) narrated’ ‘The Messenger of Allah (ﷺ)specified for those coming from Iraq, Dhat ‘Irq (a place 94 km to the north-east of Makkah) as their Miqat.’ Related by Abu Dawud and An-Nasa’i`. Muslim related a similar narration on the authority of Jabir, but it is most probably Mawquf. Al-Bukhari reported that it was Umar, who specified Dhat 'Irq as the miqat (of those coming from Iraq). Ibn ’Abbas narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) specified al-Aqiq (a part of `Dhat Irq) for those coming from the east.’ Related by Ahmad, Abu Dawud and An-Nasa’i.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   سنن النسائى الصغرى2654عائشة بنت عبد اللهوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام ومصر الجحفة لأهل العراق ذات عرق لأهل اليمن يلملم
   سنن النسائى الصغرى2657عائشة بنت عبد اللهوقت رسول الله لأهل المدينة ذا الحليفة
   سنن أبي داود1739عائشة بنت عبد اللهوقت لأهل العراق ذات عرق
   بلوغ المرام591عائشة بنت عبد اللهوقت لاهل العراق ذات عرق
   سنن النسائى الصغرى2655عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام الجحفة لأهل نجد قرنا لأهل اليمن يلملم هن لهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهن فمن كان أهله دون الميقات حيث ينشئ حتى يأتي ذلك على أهل مكة
   سنن النسائى الصغرى2658عبد الله بن عباسوقت رسول الله لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام الجحفة لأهل نجد قرنا لأهل اليمن يلملم هن لهم ولمن أتى عليهن ممن سواهن لمن أراد الحج والعمرة ومن كان دون ذلك من حيث بدا حتى يبلغ ذلك أهل مكة
   سنن النسائى الصغرى2659عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام الجحفة لأهل اليمن يلملم لأهل نجد قرنا هن لهم ولمن أتى عليهن من غير أهلهن ممن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمن أهله حتى أن أهل مكة يهلون منها
   صحيح البخاري1529عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشأم الجحفة لأهل اليمن يلملم لأهل نجد قرنا هن لهن ولمن أتى عليهن من غير أهلهن ممن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمن أهله حتى إن أهل مكة يهلون منها
   صحيح البخاري1526عبد الله بن عباسوقت رسول الله لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشأم الجحفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لهن ولمن أتى عليهن من غير أهلهن لمن كان يريد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمهله من أهله وكذاك حتى أهل مكة يهلون منها
   صحيح البخاري1530عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشأم الجحفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لأهلهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة فمن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ حتى أهل مكة من مكة
   صحيح البخاري1845عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لهن ولكل آت أتى عليهن من غيرهم ممن أراد الحج والعمرة فمن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ حتى أهل مكة من مكة
   صحيح البخاري1524عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشأم الجحفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لهن ولمن أتى عليهن من غيرهن ممن أراد الحج والعمرة ومن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ حتى أهل مكة من مكة
   صحيح مسلم2803عبد الله بن عباسوقت رسول الله لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام الجحفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لهن ولمن أتى عليهن من غير أهلهن ممن أراد الحج والعمرة فمن كان دونهن فمن أهله وكذا فكذلك حتى أهل مكة يهلون منها
   صحيح مسلم2804عبد الله بن عباسوقت لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشام الجحفة لأهل نجد قرن المنازل لأهل اليمن يلملم هن لهم ولكل آت أتى عليهن من غيرهن ممن أراد الحج والعمرة ومن كان دون ذلك فمن حيث أنشأ حتى أهل مكة من مكة
   جامع الترمذي832عبد الله بن عباسوقت لأهل المشرق العقيق
   سنن أبي داود1740عبد الله بن عباسوقت رسول الله لأهل المشرق العقيق
   بلوغ المرام590عبد الله بن عباسوقت لاهل المدينة ذا الحليفة ولاهل الشام الجحفة ولاهل نجد قرن المنازل
   بلوغ المرام591عبد الله بن عباس وقت لاهل المشرق العقيق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 590  
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لیے جحفہ، نجد والوں کے لیے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم کو احرام باندھ کر نیت کرنے کی جگہیں مقرر کیا ہے اور یہ میقاتیں ان کے لیے ہیں (جن کا ذکر ہوا) اور ان لوگوں کے لیے بھی، جو دوسرے شہروں سے ان کے پاس سے حج یا عمرہ کے ارادہ سے گزریں اور جو کوئی ان میقاتوں کے ورے (اندر) ہو وہ جہاں سے چلے وہیں سے (احرام باندھے) یہاں تک کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھیں۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 590]
590 لغوی تشریح:
«بَابُ الْمَوَاقِيت» «مواقيت»، «ميقات» کی جمع ہے۔ اس سے مراد عبادت کے لیے وقت یا جگہ متعین کرنا ہے۔ اور یہاں ان سے وہ مقامات مراد ہیں جنہیں شارع علیہ السلام نے احرام کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ حج یا عمرہ کرنے والے کے لے اس سے آگے احرام باندھے بغیر حرم کی طرف جانا جائز نہیں ہے۔
«وَقَّتَ» یعنی احرام کے لیے میقات مقرر کیا۔ اور «تَوْقِيت» سے ماخوذ ہے جس کے معنی تحدید و تعین کے ہیں۔
«ذُو الْحُلَيْفَةِ» حا پر ضمہ ہے۔ (تصغیر ہے) مدینہ منورہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مدینہ طیبہ کے وسط سے پانچ میل کی مسافت پر اور مکہ مکرمہ سے تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج کل بِئرِ عَلِی کے نام سے مشہور ہے۔
«‏‏‏‏اَلْجُحْفَة» جیم پر پیش اور حا ساکن ہے۔ شام، ترکی اور مصر کی جانب سے آنے والوں کا میقات ہے جو کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جو سمندر کے قریب مکہ مکرمہ سے ساڑھے چار مراحل اور مدینہ طیبہ سے پانچ اور دو تہائی، یعنی تقریباً پونے چھ مراحل پر واقع ہے، یعنی مکہ سے شمال مغرب میں 187 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام مھیعہ تھا۔ سیلاب آیا تو وہ سب بہا لے گیا جس کی بنا پر اسے جحفہ کہا جانے لگا کیونکہ «احتحاف» کہتے ہیں جڑ سے اکھیڑ دینے کو۔ اور اس سیلاب نے بھی یہی حشر کیا تھا۔ یہ بہت بڑی بستی تھی مگر اب ویران ہو چکی ہے، اسی لیے آج کل اس سے کچھ پہلے رابغ مقام سے احرام باندھتے ہیں کیونکہ وہاں پانی کا انتظام ہے۔
«قَرْنَ الْمَنَازِلِ» اسے «قَرْنَ الثَّعالِبِ» بھی کہا گیا ہے، یا یہ دو علیحدہ مقام ہیں۔ یہ بیضوی شکل کا چمک دار، گولائی والا اور چکنا پہاڑ ہے جو مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ اہل نجد اور عرفات کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«يَلَمْلَم» یا اور لام دونوں پر فتحہ اور درمیانی میم ساکن ہے۔ مکہ مکرمہ سے جنوب کی طرف دو مرحلوں کی مسافت پر واقع پہاڑ کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ اور اس کے درمیان تقریباً 92 کلومیٹر کی مسافت ہے۔ یہ یمن، چین، بنگلہ دیش، افغانستان، بھارت اور پاکستان کی طرف سے آنے والوں کا میقات ہے۔
«هُنَّ» یعنی یہ میقات اور مقامات۔
«لَهُنَّ» ان مذکورہ اہل بلدان (شہر والوں) کے لیے ہیں۔
«مِمَّنْ أرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمَرَةَ» جو حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے ہ جو شخص حج اور عمرے کی نیت سے نہ ہو وہ احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
«وَمَنْ كَانَ دُونَ ذٰلِك» اور جو اس (احرام والی جگہ) کے اندر ہو، یعنی جو میقات اور مکہ مکرمہ کے درمیان رہتا ہو تو وہ اسی جگہ سے احرام باندھے۔
«مَنْ حَيْثُ أَنْشَأَ» جہاں سے نکلا ہے یا جہاں سے سفر کا آغاز کیا ہے، یعنی اپنے گھر اور اپنی بستی ہی سے احرام باندھے۔
«حَتّٰي أهَلُ مَكَّةَ مِنْ مَّكَّةَ» یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مکہ حج اور عمرے کا احرام مکہ مکرمہ سے باندھیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 590   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 591  
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے، مگر اس کے راوی نے اس کے مرفوع ہونے میں شک کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات کیا تھا۔ احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (مروی) ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق والوں کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا تھا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 591]
591 لغوی تشریح:
«ذَاتَ عِرَقٍ» عرق کی عین کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے شمال مشرق میں 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ قرن منازل کے برابر اس کے شمال میں واقع ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے۔
«وَفِي البخاري: اَنْ عُمَرَ هُوَ الَّذِيِ وَقَّتْ ذَاتَ عِرْقٍ» اور بخاری میں ہے کہ ذات عرق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میقات مقرر کیا تھا۔ بظاہر تو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت کے خلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مقرر کیا جبکہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا۔ اور ان دونوں میں جمع و تطبیق کی صورت یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرفوع روایت نہ پہنچی ہو گی، چنانچہ انہوں نے اس بارے میں اجتہاد کیا تو ان کا اجتہاد درست سنت کے مطابق نکلا۔
«اَلْعَقيق» یہ ذات عرق سے کچھ پیچھے ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ذات عرق کی حدود میں داخل ہے۔ ہر وہ وادی جسے سیلاب نے وسیع کر دیا ہو اسے «عقيق» کہتے ہیں جو «عق» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں پھاڑنا۔ اہل مشرق سے اہل عراق اور ان کے راستے سے گزرنے والے مراد ہیں۔ ان دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ ذات عرق میقات واجب ہے اور عقیق میقات مستحب ہے کیونکہ وہ بھی ذات عرق ہی سے ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یاد رہے کہ وادی مرالظھران جو آج کل وادی فاطمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے، وہ طائف کے سامنے مکہ کی مشرقی جانب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں جدہ کے قریب اس کی جنوبی سمت بحر احمر پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے مشرق میں دو کنارے ہیں۔ ایک جنوبی کنارہ جو طائف کے راستے میں بڑی وادی کے پاس نخلہ یمانیہ سے پہلے ہے اور اسی کو قرن المنازل کہتے ہیں، اہل طائف اور اہل نجد جب مکہ کا قصد کرتے ہیں تو یہیں سے گزرتے ہیں۔ اور دوسرا شمالی کنارہ ضربیہ کے قریب ہے جسے ذات عرق کہتے ہیں، جہاں سے اہل عراق اور اہل نجد شمالی گزرتے ہیں اور یہ دونوں کنارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان بہت مسافت ہے اور دونوں کی یہ مسافت مکہ مکرمہ سے ایک جیسی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کرنے میں اجتہاد سے کام لیا جو علاقے والوں کی ضرورت اور شریعت میں آسانی کے عین مطابق تھا، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ میقات کے موافق ہوا تو گویا نور علی نور کا مصداق ہوا۔
➋ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شخص ایسے راستے پر چلے جہاں ان پانچوں میقات میں سے کوئی ایک بھی واقع نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جونسے میقات کے برابر سے گزرے وہاں سے احرام باندھ لے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی میقات کے محاذ اور برابری کی وجہ ہی سے ذات عرق کو اہل عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور تمام علماء اس اصول و ضابطے پر متفق ہیں۔ محاذات اور برابری کا مفہوم یہ ہے کہ میقات آدمی کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہو رہا ہو اس حالت میں کہ وہ مکہ کی طرف جانے والا ہو۔ اس کی وضاحت یوں سمجھیے کہ جب ہم ان پانچوں میقات کو ایک خط کے ذریعے سے ملائیں تو مکہ مکرمہ کو ہر جانب سے وہ خط گھیرے میں لے لے، لہٰذا جب بھی کوئی شخص مکہ مکرمہ کی طرف ان میقات کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آئے تو لازمی ہے کہ وہ اس خط پر سے گزرے گا جو دوسرے میقات سے ملارہا ہو گا۔ یہ خط ہی دراصل میقات کے محاذ اور برابر کا خط ہے، اس لیے حاجی جب اس خط سے باہر ہو گا وہ آفاق میں ہو گا، اس پر احرام واجب نہیں مگر جب اس خط کے پاس سے گزرے گا تو وہ میقات کے محاذ پر ہو گا، اس لیے اسے بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں ہو گا، پھر یہ تمام میقات خشکی پر ہیں اور انہیں ملانے والے خطوط بھی خشکی پر ہوں گے، لہٰذا جب تک کوئی شخص بحری جہاز کے ذریعے سے سمندر میں سفر کر رہا ہو گا وہ ان میقات کے برابر نہیں ہو گا۔ یہ صورت تو تبھی ہو گی جب وہ سمندری سفر سے فارغ ہو کر خشکی کے راستے پر پڑے گا۔ ہمارے تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت سے جو حجاج کرام بذریعہ بحری جہاز حج کرنے کے لیے جاتے ہیں، ان پر جدہ تک پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا واجب نہیں کیونکہ وہ سمندری سفر میں نہ تو میقات سے گزرے ہیں اور نہ کسی میقات کے برابر ہی سے گزرے ہیں۔ ان کا جہاز بھی یلملم اور اس کے محاذات سے دور آفاق میں حدود میقات سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر ہوتا ہے تو احرام باندھ لیتے ہیں، یہ لازمی نہیں ہے۔ ان کی مثال تو ابھی اس شخص کی سی ہے جو خرمہ سے طائف یا لیث سے طائف جا رہا ہے یا مدینہ طیبہ سے یا خیبر سے ینبع کی طرف ذوالحلیفہ کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے جا رہا ہو تو بلاشبہ میقات اس کے دائیں یا بائیں جانب آئے گا لیکن ابھی وہ میقات کے برابر نہیں آیا کیونکہ ابھی وہ حدود میقات سے پیچھے ہے۔ اسی طرح بحری جہاز پر سفر کرنے والا جب تک سمندر میں رہے گا وہ حدود میقات سے پیچھے ہو گا، اس کے برابر قطعاً نہیں ہو گا تاآنکہ جدہ پہنچ کر اترے کیونکہ جو خط یلملم اور جحفہ کو ملاتا ہے، وہ سمندر کے قریب جدہ سے کچھ آگے مکہ مکرمہ کی جانب پڑتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 591   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 832  
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 832]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ ایک معروف مقام ہے،
جو عراق کی میقات ذات العرق کے قریب ہے۔

نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے،
نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے،
اور حدیث میں وارد عقیق کا لفظ منکر ہے،
صحیح لفظ ذات عرق ہے،
الإرواء: 1002،
ضعیف سنن ابی داود: 306)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 832   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1740  
´میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1740]
1740. اردو حاشیہ: اہل مشرق سےمراد مکہ سے مشرقی جانب کے علاقے ہیں یعنی عراق اور اس کے اطراف۔ اور عقیق نامی وادی ایک تو مدینہ کے قریب ہے دوسری یہی ہے جو ذات عرق کے قریب اور اس کے مقابل میں ہے اور یہاں یہی دورسری مراد ہے۔(مرعاۃ المفاتیح حدیث: 2554)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1740   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.