الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
27. بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ:
27. باب: انسانوں اور جانوروں سب پر رحم کرنا۔
(27) Chapter. (What is said regarding) being merciful to the people and to the animals.
حدیث نمبر: 6008
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي سليمان مالك بن الحويرث، قال: اتينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شببة متقاربون، فاقمنا عنده عشرين ليلة، فظن انا اشتقنا اهلنا، وسالنا عمن تركنا في اهلنا فاخبرناه، وكان رفيقا رحيما، فقال:" ارجعوا إلى اهليكم فعلموهم ومروهم وصلوا كما رايتموني اصلي، وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم، ثم ليؤمكم اكبركم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، فَظَنَّ أَنَّا اشْتَقْنَا أَهْلَنَا، وَسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا فِي أَهْلِنَا فَأَخْبَرْنَاهُ، وَكَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا، فَقَالَ:" ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیس دنوں تک رہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے۔ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال سنا دیا۔ آپ بڑے ہی نرم خو اور بڑے رحم کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کو دین سکھاؤ اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

Narrated Abu Sulaiman and Malik bin Huwairith: We came to the Prophet and we were (a few) young men of approximately equal age and stayed with him for twenty nights. Then he thought that we were anxious for our families, and he asked us whom we had left behind to look after our families, and we told him. He was kindhearted and merciful, so he said, "Return to your families and teach them (religious knowledge) and order them (to do good deeds) and offer your prayers in the way you saw me offering my prayers, and when the stated time for the prayer becomes due, then one of you should pronounce its call (i.e. the Adhan), and the eldest of you should lead you in prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 37


   صحيح البخاري6008مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فعلموهم ومروهم وصلوا كما رأيتموني أصلي وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم ثم ليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري7246مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري685مالك بن الحويرثلو رجعتم إلى بلادكم فعلمتموهم مروهم فليصلوا صلاة كذا في حين كذا وصلاة كذا في حين كذا وإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري819مالك بن الحويرثلو رجعتم إلى أهليكم صلوا صلاة كذا
   صحيح البخاري658مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا وأقيما ثم ليؤمكما أكبركما
   صحيح البخاري2848مالك بن الحويرثأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   صحيح البخاري631مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري628مالك بن الحويرثارجعوا فكونوا فيهم وعلموهم وصلوا فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   صحيح البخاري630مالك بن الحويرثإذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما
   صحيح مسلم1535مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم ثم ليؤمكم أكبركم
   صحيح مسلم1538مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما وليؤمكما أكبركما
   جامع الترمذي205مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن أبي داود589مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أكبركما سنا
   سنن النسائى الصغرى670مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا ثم أقيما ثم ليؤمكما أحدكما
   سنن النسائى الصغرى635مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن النسائى الصغرى782مالك بن الحويرثإذا سافرتما فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   سنن النسائى الصغرى636مالك بن الحويرثارجعوا إلى أهليكم فأقيموا عندهم وعلموهم ومروهم إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم
   سنن ابن ماجه979مالك بن الحويرثإذا حضرت الصلاة فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما
   بلوغ المرام155مالك بن الحويرث‏‏‏‏إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم
   بلوغ المرام259مالك بن الحويرث صلوا كما رأيتموني أصلي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 155  
´نماز کے لیے اذان کہنا`
«. . . وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه قال: قال لنا النبي صلى الله عليه وآله وسلم: إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم . . .»
. . . سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی آدمی تمہیں بلانے کے لیے اذان کہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 155]

راوئ حدیث:
(سیدنا مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ) حویرث کی حا پر ضمہ، واؤ پر فتحہ، یا ساکن اور راء مکسور ہے۔ ان کی کنیت ابوسلمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حصول تعلیم دین کے لیے آئے تھے اور بیس روز تک آپ کے پاس قیام کیا۔ جب واپس جانے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستے میں جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور جو تم میں سے عمر میں بڑا ہو وہ جماعت کرائے۔ اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ مسافروں کو بھی اذان اور جماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 628  
´سفر میں ایک ہی شخص اذان دے`
«. . . عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ:" ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 628]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں وضاحت فرمائی کہ سفر میں ایک اذان کہنی چاہئے اور دلیل میں حدیث پیش فرمائی کہ جب تم گھر کی طرف لوٹو ان کو اسلام کے احکام سکھاؤ نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے۔۔۔۔
تطبیق کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر میں بھی اذان کہنی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ ابھی بالفعل سفر میں تھے اور لازم ہوا اذان دینا بھی کیوں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة للترجمة مع ان ظاهره يخالفها لقوله، فكونوا فيهم و علموهم فاذا سيدنا فظاهره ان ذالك بعد وضوء لهم الى اهلهم و تعليمهم، لكن المصنف اشار الى الرواية الاتية فى الباب الذى بعد هذا فان فيها اذا انتما خرجتما فاذنا» [فتح الباري ج2، ص141]
ظاہر میں ترجمۃ الباب اس قول کے مخالف نظر آتا ہے کہ گھر والوں کو دین سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اذان کہو لیکن حقیقت میں (مخالفت نہیں ہے کیوں کہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے بعد والے باب میں مرقوم ہے کہ جب تم دونوں سفر کو نکلو تو اذان دیا کرو پھر اقامت کہا: کرو۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ باب میں جو سفر کا ذکر فرمایا ہے مصنف کا اشارہ دوسری حدیث کی طرف ہے جس میں واضح طور پر یہ حکم ہے کہ سفر میں بھی آپ کو اذان دینی چاہئے۔

◈ ابن الملقن اور ابن المنیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ان کے احوال کی وجہ سے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹیں (تو اذان دیں نماز کے لئے) نہ کہ سفر میں۔۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام قاصر نہیں ہے اس پر بلکہ یہ عام ہے ان کے لئے کہ جب سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (سفر میں) یعنی مؤذن کے اذان کا حکم اس وقت سے ہی ہو گیا جب صحابہ نے سفر کا قصد فرمایا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ديكهئے: [التوضيح، ج6، ص378، المتواري، ص94]

فائدہ نمبر 1:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کئی مؤذن رکھنے جائز ہیں لیکن مناسبت یہ ہے کہ سب ایک بار اذان نہ دیں بلکہ ایک بعد دوسرا اذان دے اور اگر مسجد بڑی ہو تو جائز ہے کہ ہر طرف میں ایک ایک مؤذن اذان دے خواہ ایک ہی وقت میں ہوں اسی طرح اگر شہر بڑا ہو اور اس کے کنارے دور دور ہوں تو ہر طرف ایک ایک مؤذن ایک وقت میں اگر اذان دے تو وہ بھی جائز ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب علم اور فضیلت میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا امام بنے اور اذان میں بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امامت اذان سے افضل ہے۔ «والله اعلم بالصواب» [فيض الباري از علامه ابوالحسن سيالكوٹي ج3، ص736]

فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی تو آپ نے ان کے گھر والوں کو بھی نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرق کے بارے میں آگاہی فرما دیتے مگر حدیث میں نماز کا طریقہ عام ہے۔ لہٰذا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الاراء کتاب تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں! «كانت ام الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة .» [تاريخ الصغير ص96]
یعنی ام درداء جو فقیہ تھیں نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں، ہماری معلومات کے مطابق عورتوں کی نماز کو تین جگہوں پر مردوں کی نماز سے مختلف کیا جاتا ہے۔
➊ رفع الیدین میں مرد کانوں تک اور عورت کاندھے تک ہاتھ اٹھائیں۔
➋ عورت سینے پر اور مرد ناف پر ہاتھ باندھے۔
➌ عورت سجدے میں پیٹ رانوں سے چمٹا لے جب کہ مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں۔
ان تینوں مسائل اور تخصیص کی احناف کے پاس کوئی صریح اور غیر مجروح روایت کے طور پر موجود نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احناف کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص222]

◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور خواتین کندھوں تک۔ حنفیہ کے پاس اس طرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار ج2، ص198]
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر بھی غور کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«صلوا كما رايتموني اصلي» [صحيح البخاري: 631]
نماز اسی طرح سے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو

مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کرنے والی روایت کا مختصر سا جائزہ:
«عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المراة فى الصلاة . . . . . . . .» [بيهقي 2/223]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اہنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
↰ اس کی سند میں راوی محمد بن القاسم البلحی کا ذکر حالت معلوم نہیں ہے تفصیل کے لئے لسان المیزان لابن حجر رحمہ اللہ [ت 7997] اس روایت کا دوسرا راوی عبید بن محمد اسرفی ہے اس کے حالات نا معلوم ہیں۔
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري، 2/ 222]
➋ دوسری پیش کی جانے والی تصویر کا حال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین کس طرح پڑھا کرتی تھی (نماز) تو انہوں نے فرمایا: پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ [جامع المسانيد 1؍400]

جامع المسانید محمود الخوارزمی کی کتاب ہے اس کی سند میں کئی راویوں کے حالات نامعلوم ہیں۔ مثلاً:
➊ ابراھیم بن مہدی اس کو محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔
➋ زر بن نجح البصری کے حالات نہیں ملے۔
➌ علی بن محمد البزار کے حالات نہیں مل سکے۔
➍ قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے۔
◈ امام دار قطنی فرماتے ہیں:
«و كان يكذب» [التقريب: 257، ديكهئے سوالات الحاكم للدار قطني: 252]
اور وہ جھوٹ بولتا تھا
لہٰذا یہ روایت مردود ہے استدلال کے قابل نہیں ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں مگر کوئی بھی کلام سے خالی نہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 178   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 635  
´سفر میں دو شخص ہوں تو ان کے اذان کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ۱؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 635]
635 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر مسافر ایسی جگہ ہے جہاں اذان نہیں ہوتی یا سنائی نہیں دیتی تو اسے اذان کہہ کر نماز پڑھنی چاہیے۔ ایک سے زائد ہوں تو نماز باجماعت کرائیں، البتہ اگر اذان ہوتی ہے یا سنائی دیتی ہے تو پھر اذان دینا کوئی ضروری نہیں۔ «أذانُ الحيِّ يكفينا»
➋ اذان تو کوئی شخص بھی کہہ سکتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا عامی، مگر جماعت کے لیے مناسب یہ ہے کہ افضل ہو، علم میں یا عمر میں یا مرتبے میں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے بڑے کی قید لگائی جب کہ اذان کے لیے صرف یہ فرمایا کہ اذان کہو، یعنی تم میں اذان و اقامت ہونی چاہیے، کوئی ایک کہہ دے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 635   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 636  
´حضر میں دوسرے کی اذان پر آدمی کے اکتفاء کرنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا: ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آ پہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 636]
636 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سابقہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: تم اذان کہو۔ اس سے غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ شاید سب اذان کہیں۔ یہ روایت وضاحت کرتی ہے کہ صرف ایک آدمی اذان کہے، دوسرے لوگ اسی کی اذان پر اکتفا کریں۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
➋ احکام دین کا علم حاصل کرنا چاہیے اگرچہ اس کے لیے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑے۔
➌ دین سے ناواقف آدمی کو تعلیم دینا عالم پر فرض ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 636   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 670  
´ہر ایک کا اپنے لیے الگ الگ اقامت کہنے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا: جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو، پھر دونوں اقامت کہو، پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک امامت کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 670]
670 ۔ اردو حاشیہ: ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ تم سب اذان کہو اور سب اقامت کہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی ایک شخص اذان اور اقامت کہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 635، 636) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف اسفار میں صرف ایک ہی اذان کہلوائی ہے، نیز سفر اور حضر کا فرق بھی معتبر نہیں، حکم ایک ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا ہر آدمی کے لیے اقامت کی مشروعیت کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 670   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 782  
´امامت کے لیے عمردراز شخص کو آگے بڑھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 782]
782 ۔ اردو حاشیہ: بڑی عمر والا امامت اس وقت کرائے گا جب سب علم میں برابر ہوں۔ یہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے، اکٹھے آئے اور اکٹھے آپ کے پاس رہے، لہٰذا علم میں برابر تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 782   
    الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 6008  
´تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے`
«. . . صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّيهُ . . .»
. . . اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/ بَابُ رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ:/ ح: 6008]
------------------
مرد اور عورت کی نماز میں فرق
------------------
سوال: حنفی حضرات مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق روا رکھتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی جو کیفیت وہئیت بیان فرمائی ہے اسے ادا کرنے میں مرد و زن برابر ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ اُصَلِّيْ» [بخاري، كتاب الأذان: باب رحمة الناس والبهائم 6008، أحمد 52/5، إرواء الغليل 213]
تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز کی ہئیت ایک جیسی ہے، سب کے لیے تکبیر تحریمہ، قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعائے استفتاح کا پڑھنا، سورۂ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفع الیدین، رکوع، قیام ثانی، رفع الیدین، سجدہ، جلسہ استراحت، قعدہ اولیٰ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ، تورک، درود اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں۔
عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک، مرد حالت قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں، یہ فرق کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وَاعْلَمْ اَنَّ هٰذِهِ السُّنَّةَ تَشْتَرِكُ فِيْهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَلَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا فِيْهَا وَكَذَالَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِيْ مِقْدَارِ الرَّفْعِ رُوِيَ عَنِ الْحَنَفِيَّةِ اَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ اِلَي الْاُذُنَيْنِ وَالْمَرْأَةُ اِلَي الْمَنْكِبَيْنِ لِاَنَّهُ اَسْتَرُ لَهَاوَلَا دَلِيْلَ عَلٰي ذٰلِكَ كَمَاعَرَفْتَ» [نيل الأوطار 198/2]
اور جان لیجیے کہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث ہی وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرتی ہو۔ احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لیے زیادہ ساتر ہے، لیکن اس کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي التَّفْرِقَهِ فِي الرَّفْعِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ» [فتح الباري 222/2، عون المعبود 263/1]
مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں۔
➋ مردوں اور عورتوں کو حالت قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھیں۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ حکم دینا کہ صرف وہی سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں، اس کے متعلق حنفیوں کے پاس کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فاعلم ان مذهب الامام ابي حنيفة ان الرجل يضع اليدين فى الصلاة تحت السرة و المرأة تضعهما علي الصدر ولم يرو عنه ولا عن اصحابه شيء خلاف ذٰلك» [تحفة الأحوذي 213/1]
پس جان لو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں۔
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وضعهما علي الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه اما ضعيف او لا اصل له» [صفة صلاة النبى ص/ 88]
اور سینے پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یاپھر بے اصل ہے۔
➌ حالت سجدہ میں مردوں کا اپنی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا، یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مُرْسَلٌ لَا حُجَّةَ فِيْهِ رَوَاهُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِي الْمَرَاسِيْلِ» [صفة صلاة النبى ص/89]
یہ روایت مرسل ہے، جو قابل حجت نہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسے مراسیل میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔
لیکن یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
علامہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ [الجوهر النقي على السنن الكبري للبيهقي 2/ 223]
اس کے متعلق حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے، اس طرح کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو۔ [بيهقي فى السنن الكبريٰ 222/2، 223]
اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے:
«اِنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ نِسَاءَهُ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ» [مسائل أحمد لابنه عبدالله ص/71]
وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھیں۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 182]
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
«لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
«اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ» [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب صفة السجود 897]
سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔ [زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے:
«إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا» [بخاري، كتاب الأذان: باب سنة الجلوس فى التشهد 828]
جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا ‬ فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے:
«انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة» [التاريخ الصغير للبخاري 90]
وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے:
اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ [بخاري: 6008]
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے: «تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ» [ابن أبى شيبة 2/75/1]
نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔
جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا، قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور سجدے میں زمین کے ساتھ چپک جانا موجب ستر بیان کیا ہے وہ دراصل قیاس فاسد کی بنا پر ہے، کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے ازخود دین میں اضافہ کرے؟ البتہ نماز کی کیفیت و ہئیت کے علاوہ چند چیزیں مرد و عورت کی نماز میں مختلف ہیں:
➊ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر پر اوڑھنی لیں اور اپنے پاؤں بھی ڈھانپیں۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
«لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ الْحَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ» [ابن ماجه، كتاب الطهارة: باب إذاحاضت الجارة لم تصل إلابخمار 655، أبوداؤد 641، أحمد 150/6]
اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔
لیکن مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے:
«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ» [بخاري، كتاب اللباس: باب ما أسفل من الكعبين فهو فى النار 5787]
تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں ہے۔
➋ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیدنا عطا رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَتَقُوْمُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ» [دارقطني 404/1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں آتا ہے:
«انها امت النساء فقامت و سطهن» مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: [عون المعبود2/ 212]
انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔
➌ امام جب نماز میں بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے:
«التَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ» [بخاري، كتاب العمل فى الصلاة: بَابُ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ 1203]
مردوں کے لیے سبحان اللہ اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔
➍ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالت حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی جیسا کہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➎ اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوتی ہے اور مردوں کی پہلی صف ان کی آخری صف سے بہتر ہوتی ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها وفضل الأول فالأول 440]
یہ تمام مسائل اپنی جگہ درست ہیں مگر قرآن و سنت سے ثابت شدہ فرق کو غیر ثابت شدہ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تفریقات علمائے احناف کی خود ساختہ ہیں جن کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث979  
´کون شخص امامت کا زیادہ حقدار ہے؟`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، جب ہم واپس ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان و اقامت کہو، اور تم میں جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 979]
اردو حاشہ:
فوائد مسائل:

(1)
سفر میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(2)
دو آدمی بھی جماعت سے فرض نماز ادا کرسکتے ہیں۔

(3)
اذان یا اقامت کوئی بھی آدمی کہہ سکتا ہے خواہ بڑی عمروالا ہویا کم عمر۔

(4)
امامت کا زیادہ مستحق قرآن زیادہ جاننے والا ہے۔
لیکن چونکہ یہ دونوں صحابی اکھٹے ہی آئے تھے۔
لہذا قرآن کے علم میں دونوں برابر تھے۔
اس لئے رسول اللہﷺ نے عمر کا لحاظ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 979   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6008  
6008. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم نوجوان اور ہم عمر تھے ہم نے آپ کے ہاں بیس دن تک قیام کیا۔ پھر آپ کو خیال آیا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ یاد آرہے ہیں تو آپ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے اہل وعیال میں چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ کو پورا حال سنا دیا۔ آپ انہتائی نرم دل اور بڑے مہربان تھی آپ نے فرمایا: اب تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاو اور انہیں دن کی تعلیم دو پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو نیز نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6008]
حدیث حاشیہ:
بڑا بشرطیکہ علم وعمل میں بھی بڑا ہو ورنہ کوئی چھوٹا اگر سب سے بڑا عالم ہے تو وہی امامت کا حق دار ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6008   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6008  
6008. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم نوجوان اور ہم عمر تھے ہم نے آپ کے ہاں بیس دن تک قیام کیا۔ پھر آپ کو خیال آیا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ یاد آرہے ہیں تو آپ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے اہل وعیال میں چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ کو پورا حال سنا دیا۔ آپ انہتائی نرم دل اور بڑے مہربان تھی آپ نے فرمایا: اب تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاو اور انہیں دن کی تعلیم دو پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو نیز نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6008]
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکٹھے رہے تھے، اس لیے علم کے اعتبار سے سب سے برابر تھے،ایسے حالات میں نماز کی جماعت کے لیے عمر کے اعتبار سے بڑے کا انتخاب کیا جائے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت بیان ہوئی ہے کہ آپ بہت نرم دل اور مہربان تھے،آپ کو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر ترس آیااور انھیں اپنے گھر چلے جانے کی ازخود ہدایت فرمائی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم مومن نہیں بن سکتے حتی کہ ایک دوسرے پر رحم کرو۔
"صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم تو سب ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
"تمھارا ایک دوسرے پر رحم کرنا مقصود نہیں بلکہ تمہاری شفقت ومہربانی کا فیضان تمام لوگوں کے لیے ہونا چاہیے۔
"(مجمع الزوائد: 8/340، حدیث: 13671، وفتح الباری: 10/539)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. طلب العلم والعمل به (العلم)
2. الشاهد يبلغ الغائب (العلم)
3. الرجل يبلغ امرأته و أهله (العلم)
4. قبول خبر الآحاد (العلم)
5. مراعاة حال السامع (العلم)
6. وفد بني ليث (السيرة)
7. رحمة النبي (السيرة)
8. الرحمة بالناس والبهائم (الأخلاق والآداب)
9. ما بعث النبي فاحشا (الأخلاق والآداب)
10. إمامة الأكبر سنا (العبادات)
موضوعات 1. علم حاصل کرکے اس پر عمل کرنا (علم)
2. حاضرین مجلس غیر موجود لوگوں تک علم منتقل کریں (علم)
3. مرد اپنی بیوی اور اہل خانہ کو تبلیغ کرے (علم)
4. خبر آحاد کو قبول کرنا (علم)
5. معلم کا وقفے سے تعلیم دینا (علم)
6. وفد نبو لیث (سیرت)
7. نبی اکرمﷺ کی رحمت (سیرت)
8. لوگوں حتی کہ جانوروں پر رحمت کا مظاہرہ کرنا (اخلاق و آداب)
9. نبی اکرمﷺ فحش گوئی سے دور رہتے تھے (اخلاق و آداب)
10. بڑے عمر کے آدمی کا امامت کروانا (عبادات)
Topics 1. Seeking Knowledge and Following It (The Knowledge)
2. The Attendants of the Must Transfer The Knowledge to Absentees (The Knowledge)
3. Man Should Preach His Wife and Family (The Knowledge)
4. Accepting the News of Incident (The Knowledge)
5. Facilitating the Listener (The Knowledge)
6. Delegation Of Nabu Laith (Prophet's Biography)
7. The Prophet's Mercy (Prophet's Biography)
8. Kindness for Humans and animals (Ethics and Manners)
9. Prophet PBUH was free from indecency (Ethics and Manners)
10. Elders shoupd lead the prayer (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/6008 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ہم نوجوان اور ہم عمر تھے ہم نے آپ کے ہاں بیس دن تک قیام کیا۔
پھر آپ کو خیال آیا کہ ہمیں اپنے اہل خانہ یاد آرہے ہیں تو آپ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے اہل وعیال میں چھوڑ آئے تھے۔
ہم نے آپ کو پورا حال سنا دیا۔
آپ انہتائی نرم دل اور بڑے مہربان تھی آپ نے فرمایا:
اب تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاو اور انہیں دن کی تعلیم دو پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو نیز نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
چونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکٹھے رہے تھے، اس لیے علم کے اعتبار سے سب سے برابر تھے،ایسے حالات میں نماز کی جماعت کے لیے عمر کے اعتبار سے بڑے کا انتخاب کیا جائے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت بیان ہوئی ہے کہ آپ بہت نرم دل اور مہربان تھے،آپ کو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر ترس آیااور انھیں اپنے گھر چلے جانے کی ازخود ہدایت فرمائی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم مومن نہیں بن سکتے حتی کہ ایک دوسرے پر رحم کرو۔
"صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم تو سب ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
"تمھارا ایک دوسرے پر رحم کرنا مقصود نہیں بلکہ تمہاری شفقت ومہربانی کا فیضان تمام لوگوں کے لیے ہونا چاہیے۔
"(مجمع الزوائد: 8/340، حدیث: 13671، وفتح الباری: 10/539)
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابو قلابہ نے، ان سے ابو سلیمان مالک بن حویرث ؓ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔
ہم آنحضرت کے ساتھ بیس دنوں تک رہے۔
پھر آنحضرت ﷺ کو خیال ہو کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یادآرہے ہوں گے اور آنحضرت ﷺ نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے ہم نے آنحضرت ﷺ کو سارا حال سنا دیا۔
آپ بڑے ہی نرم خو اوربڑے رحم کرنے والے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کوواپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کودین سکھاؤ اور بتاؤ اورتم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہووہ امامت کرائے۔
حدیث حاشیہ:
بڑا بشرطیکہ علم وعمل میں بھی بڑا ہو ورنہ کوئی چھوٹا اگر سب سے بڑا عالم ہے تو وہی امامت کا حق دار ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sulaiman and Malik bin Huwairith (RA)
:
We came to the Prophet (ﷺ) and we were (a few)
young men of approximately equal age and stayed with him for twenty nights. Then he thought that we were anxious for our families, and he asked us whom we had left behind to look after our families, and we told him. He was kindhearted and merciful, so he said, "Return to your families and teach them (religious knowledge)
and order them (to do good deeds)
and offer your prayers in the way you saw me offering my prayers, and when the stated time for the prayer becomes due, then one of you should pronounce its call (i.e. the Adhan)
, and the eldest of you should lead you in prayer. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
بڑا بشرطیکہ علم وعمل میں بھی بڑا ہو ورنہ کوئی چھوٹا اگر سب سے بڑا عالم ہے تو وہی امامت کا حق دار ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم6062٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
6008٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
5549٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
6008٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
5662٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5785٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6008٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6008١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6008 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔
اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔
جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔
ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔
حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔
اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔
آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔
"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث: 2449)
پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:
٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً:
خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔
انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً:
والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔
ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔
ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔
لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔
لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔
"(فتح الباری: 10/491)
اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔
دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"دین اسلام سراپا ادب ہے۔
"(مدارج الساکین: 2/363)
اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے:
"ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔
"(مدارج الساکین: 2/356)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔
انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔
ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:
ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔
دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256)
مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75)
معلق اور ایک صداکیاسی(81)
احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201)
حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55)
احادیث خالص ہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19)
احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11)
آثار پیش کیے ہیں۔
آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128)
چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔
بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔
انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔
اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6008   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.