الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
40. بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ:
40. باب: بارش اور کسی عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت کا بیان۔
(40) Chapter. It is permissible to pray at one’s dwelling during rain or if there is a genuine excuse.
حدیث نمبر: 667
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن محمود بن الربيع الانصاري، ان عتبان بن مالك كان يؤم قومه وهو اعمى، وانه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا رسول الله، إنها تكون الظلمة والسيل وانا رجل ضرير البصر، فصل يا رسول الله في بيتي مكانا اتخذه مصلى، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اين تحب ان اصلي؟ فاشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى، وَأَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالسَّيْلُ وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، فَصَلِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلَّى، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ؟ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ فَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی عتبان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے محمود بن ربیع انصاری سے کہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اور میں اندھا ہوں، اس لیے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجیئے تاکہ میں وہیں اپنی نماز کی جگہ بنا لوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ تم کہاں نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ انہوں نے گھر میں ایک جگہ بتلا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی۔

Narrated Mahmud bin Rabi` Al-Ansari: `Itban bin Malik used to lead his people (tribe) in prayer and was a blind man, he said to Allah's Apostle , "O Allah's Apostle! At times it is dark and flood water is flowing (in the valley) and I am blind man, so please pray at a place in my house so that I can take it as a Musalla (praying place)." So Allah's Apostle went to his house and said, "Where do you like me to pray?" 'Itban pointed to a place in his house and Allah's Apostle, offered the prayer there.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 636


   صحيح البخاري667عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي فأشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله
   صحيح البخاري686عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب فقام وصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا
   صحيح البخاري840عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي من بيتك فأشار إليه من المكان الذي أحب أن يصلي فيه فقام فصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا حين سلم
   صحيح البخاري424عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي لك من بيتك فأشرت له إلى مكان فكبر النبي وصففنا خلفه فصلى ركعتين
   سنن النسائى الصغرى845عتبان بن مالكأين تريد فأشرت إلى ناحية من البيت فقام رسول الله فصففنا خلفه فصلى بنا ركعتين
   سنن النسائى الصغرى789عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي لك فأشار إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله
   سنن النسائى الصغرى1328عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن يصلي فيه فقام رسول الله وصففنا خلفه ثم سلم وسلمنا حين سلم
   سنن ابن ماجه754عتبان بن مالكأين تحب أن أصلي لك من بيتك فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه فقام رسول الله وصففنا خلفه فصلى بنا ركعتين
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم90عتبان بن مالكاين تحب ان اصلي؟ فاشار إليه إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 90  
´مسجد، مدرسے، مکان وغیرہ کا کسی نیک شخصیت سے افتتاح کرانا`
«. . . ان عتبان بن مالك كان يؤم قومه وهو اعمى، وانه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنها تكون الظلمة والمطر والسيل وانا رجل ضرير البصر، فصل يا رسول الله فى بيتي مكانا اتخذه مصلى. قال: فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اين تحب ان اصلي؟ فاشار إليه إلى مكان من البيت فصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم»
بےشک سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے اور وہ نابینا تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں نابینا ہوں اور (بعض اوقات) اندھیرا، بارش اور سیلاب ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں، میں اسے جائے نماز بنا لوں گا۔ انہوں نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ انہوں (عتبان رضی اللہ عنہ) نے گھر کی ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھائی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 90]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 172/1 ح 416، ك 9، ب 24، ح 82، التمهيد 226،227/6، الاستذكار: 382 ● أخرجه البخاري 667، عن مالك به ورواه مسلم 33 بعد ح 657، من حديث ابن شهاب الزهري به نحو المعني]
تفقه:
➊ شرعی عذر کے بناء پر گھر میں نماز پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا صحیح ہے۔
➌ ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان رضی اللہ عنہ کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ دیکھئے: [مسند الامام أحمد 43/4 وطبقات ابن سعد 550/3 التمهيد 229/6] لیکن یہ روایت سفان بن عینیہ و زہری کی تدلیس اور سند میں شک کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
➍ نماز باجماعت ضروری ہے إلا یہ کہ شرعی عذر ہو۔
➎ کسی مسجد، مدرسے اور مکان وغیرہ کا کسی نیک شخصیت کے ذریعے سے افتتاح کرانا جائز ہے۔
گھر میں نماز کے لئے کسی حصے کو مختص کرنا جائز ہے۔
➐ نماز باجماعت کے لئے جگہ کا مسجد کے لئے وقف ہونا ضروری نہیں ہے۔
➑ نابینا امام کی امامت بالکل صحیح اور شرعاً جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 8   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 840  
´نماز میں مقتدی کا امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں`
«. . . فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی پھیرا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 840]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے باب قائم فرمایا کہ مقتدی امام کو سلام کا جواب علیحدہ نہ دے یعنی وہی سلام کا جواب کافی ہو گا جو نماز میں سلام کہا گیا اور حدیث میں بھی یہی وارد ہے کہ «ثم سلّم وسلّمنا حين سلّم» پھر آپ نے نماز سے سلام پھیری اور آپ کے سلام کے وقت ہم نے بھی سلام کہی۔
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله رقمطراز ہیں:
«واعتماده فيه على قوله: ثم سلم وسلمنا حين سلّم، فان ظاهره انهم سلموا نظير سلامه، وسلامه اما واحدة وهى التى يتحلل بها من الصلاة واما هي أخري معها، فيحتاج من استحب تسليمه ثالثة على الامام بين التسليمتين، كما تقوله المالكية . إلى دليل خاص، وإلي رد ذالك اشار البخاري . . . .» [فتح الباري ج2 ص411]
یعنی ظاہر اس حدیث سے (آپ نے سے سلام پھیرا اور آپ کے سلام کے وقت ہم نے بھی سلام پھیرا) یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں نے امام کے جواب میں علیحدہ کوئی سلام نہیں کہا اس لئے کہ سلام کا جواب اصل سلام کے بعد ہوتا ہے اور مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مقتدیوں کی سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلام کی طرح تھی آپ کی سلام ایک بار تھی جس کے ساتھ آدمی نماز سے حلال ہو جاتا ہے یا وہ دو بار تھیں جس مقتدیوں کی سلام بھی دوبارہ ہو گی نہ کہ تین مرتبہ جیسا کہ مالکیہ کہتے ہیں۔ پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ مالکیہ کا مسلک صحیح معلوم نہیں ہوتا جو تین بار سلام کے قائل ہیں۔
◈ صاحب توفیق الباری ڈاکٹر عبدالکبیر رقمطراز ہیں:
اس کے الفاظ «وسلمنا حين سلّم» سے یہ استدلال مقصود ہے کہ مقتدی امام کے سلام کے الفاظ «السلام عليكم ورحمة الله» ہی استعمال کریں گے۔ یہ نہیں کہ امام کے سلام کے جواب میں «و عليكم السلام» کہہ دیں۔ مالکیہ کا مسلک ہے کہ ان دونوں سلام کے درمیان مقتدی امام کے سلام کا جواب دیں مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [توفيق الباري شرح صحيح البخاري ج1 ص746]
◈ صدیق حسن خان القنوجی فرماتے ہیں:
«. . . . . . فيحتاج من استحب تسليمة ثالثة على الامام بين التسليمتين كما يقوله المالكية الي دليل خاص وإلي رد ذالك أشار البخاري فى الترجمة بقوله بابب من لم يرد السلام على الامام . .» [عون الباري ج 2 ص 59]
یعنی مالکیہ دو سلام کے درمیان تیسرے سلام کے قائل ہیں۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعہ ان کے اس تیسرے سلام کا رد فرمایا ہے کہ امام کو (تیسرا) سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام ہی کافی ہوں گے۔‏‏‏‏
◈ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أظنه كان قصد الرد على من يوجب التسليمة الثانية»
یعنی میرے خیال سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے رد کا قصد کیا جو دوسرے سلام کے بھی قائل ہیں (یعنی سلام کے جواب دینے کے)۔‏‏‏‏ [شرح ابن بطال: 2؍456]

فائدہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کو کم و بیش بیس جگہ سے زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس حدیث سے کئی اہم ترین مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ اسی حدیث کو ایک اور مقام پر بیان فرمایا جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ۔ «باب المساجد فى البيوت» یعنی اس بیان میں (کہ بوقت ضرورت) گھروں میں جائے نماز مقرر کرنا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کئی اہم مسائل کی نشاندہی فرمائی ہے۔ مثلاً:
① اندھے کی امامت کا جائز ہونا۔
② اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔
③ مذکورہ حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجدوں میں نماز کا اہتمام تھا۔
④ عتبان رضی اللہ عنہ جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اور بارشوں میں جماعت کا معاف ہونا۔
⑤ بوقت ضرورت (شرعی عذر کے) نماز گھر میں پڑھنے کے لئے ایک جگہ کا مقرر کرنا۔
⑥ صفوں کا برابر کرنا۔
⑦ ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرط یہ کہ صاحب خانہ اجازت دیں۔
⑧ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز ادا فرمائی وہاں کا متبرک ہونا۔
⑨ اگر کسی صالح نیک انسان کو گھر میں برکت کے لئے بلایا جائے تو اس کا جائز ہونا۔
⑩ بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت کو قبول کرنا۔
⑪ وعدہ پورا کرنا اور اس کے لئے ان شاء اللہ کہنا۔
⑫ اگر میزبان پر بھروسہ ہے تو بغیر بلائے ہوئے اپنے ساتھ دوسرے احباب کو لے جانا۔
⑬ گھر میں داخل ہونے سے قبل صاحب خانہ سے اجازت طلب کرنا۔
⑭ اہل محلہ کا عالم یا امام کے پاس جمع ہونا برکت حاصل کرنے کے لئے۔
⑮ جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہو اس کا حال امام کے سامنے بیان کر دینا۔
⑯ ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہ ہو گا جب تک دل میں یقین اور ظاہر میں عمل نہ ہو۔
⑰ توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔
⑱ برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔
⑲ نوافل جماعت سے ادا کرلینا۔
نوٹ: محترم قاری نکتہ 15، 16، 17 یہ تینوں نکا ت کے لئے اسی حدیث کا وہ طرق جہاں اس حدیث کو مزید تفصیل سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اسکی طرف مراجعت فرمائیں۔ «باب المساجد فى البيوت»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 200   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 789  
´نابینا (اندھے) کی امامت کا بیان۔`
محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا: تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 789]
789 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نابینے کی امامت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکروہ ہے کیونکہ وہ نجاست سے بچ نہیں سکتا۔ بعض نے اس کے برعکس کہا ہے کہ اس کی امامت افضل ہے کیونکہ نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خشوع و خضوع زیادہ ہو گا۔ یہ دونوں قول محض رائے کی بنیاد پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نابینے کی امامت صرف جائز ہے لیکن قاریٔ قرآن اور پرہیز گار صاحب علم کو مقدم کرنا افضل ہے۔ نجاست تو آنکھوں والے کو بھی لگ سکتی ہے بلکہ لگ جاتی ہے اور نابینے کا والی بھی اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اسے بصیرت عطا فرماتا ہے۔ بڑے بڑے اجل صحابہ نابینا تھے تو کیا وہ پلید ہی رہتے تھے؟ نعوذ باللہ من ذالك۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز کی گزارش بطور تبرک تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر: 702 کا فائدہ نمبر: 4 اور اس کتاب کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 789   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 845  
´نفل نماز کی جماعت کا بیان۔`
عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے اور میرے قبیلہ کی مسجد کے درمیان (برسات میں) سیلاب حائل ہو جاتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور میرے گھر میں ایک جگہ نماز پڑھ دیتے جسے میں مصلیٰ بنا لیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم آئیں گے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے پوچھا: تم کہاں چاہتے ہو؟ تو میں نے گھر کے ایک گوشہ کی جانب اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 845]
845 ۔ اردو حاشیہ: نفل نماز کی جماعت اتفاقاً ہو جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن لوگوں کو دعوت دے کر نہ بلایا جائے، البتہ مخصوص نمازیں اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً: نماز کسوف، نماز استسقاء، نماز عیدین اور نماز تراویح وغیرہ۔ ان کے لیے لوگوں کو بلانا جائز ہے کیونکہ ان کا سنت سے ثبوت ملتا ہے مگر ان کے لیے اذان و اقامت درست نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 845   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث754  
´گھروں میں مساجد بنانے کا بیان۔`
محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور ان کو وہ کلی یاد تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈول سے لے کر ان کے کنویں میں کر دی تھی، انہوں نے عتبان بن مالک سالمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی (جو اپنی قوم بنی سالم کے امام تھے اور غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے) وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نظر کمزور ہو گئی ہے، جب سیلاب آتا ہے تو وہ میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اسے پار کرنا میرے لیے دشوار ہوتا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 754]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں، یعنی جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی تھی تو ان کا بچپن کا دور تھا۔
جب کلی کرنے کا یہ واقعہ پیش آیا اس وقت حضرت محمود کی عمر پانچ سال تھی۔
اس سے محدثین نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ جو بچہ پانچ سال کی عمرمیں کسی محدث سے حدیث سنے اس کا سماع معتبر ہے۔
یہ بچہ بڑا ہو کر یہ حدیث روایت کرسکتا ہے اور وہ روایت قبول کی جائے گی۔
بشرطیکہ کوئی اور ایسا سبب نہ پایا جائے جس سے حدیث ضعیف ہوجائے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا کنوئیں میں کلی فرمانا برکت کے لیے تھا۔
آپ کے لعاب دہن سے متعدد مواقع پر برکت کا ظہور ہوا ہے جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔
دیکھے:
(صحیح البخاری، العلم، باب متی یصح سماع الصغیر، حدیث: 77)
اس سے مقصد محض دل لگی اور بچے کو خوش کرنا تھا لہٰذا بچوں سے ایسی دل لگی جس سے انھیں پریشانی نہ ہو جائز ہےاور یہ بزرگانہ شفقت کا ایک لطیف انداز ہے۔

(4)
حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے گھر ایک نشیبی جگہ تھی۔
بارش کے موقع پر وہاں سے پانی گزرتا تھا جس سے راستہ بند ہوجاتا تھا اور پانی میں سے گزر کر مسجد میں پہنچنا دشوار ہوجاتا تھا۔
اس قسم کے عذر کے موقع پر گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
مسجد میں حاضری واجب نہیں۔
لیکن معمولی بارش کونماز باجماعت سے پیچھے رہ جانے کا بہانہ بنا لینا درست نہیں۔

(5)
جس کو دعوت دی جائے وہ اپنے ساتھ کسی اور کو بھی لاسکتا ہے۔
بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میزبان کو اس سے زحمت نہیں ہوگی بلکہ خوشی ہوگی۔
ورنہ بلائے ہوئے مہمان کے ساتھ بن بلائے چلے جانا درست نہیں میزبان کو حق ہے کہ اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، الاطعمة، باب الرجل يدعي الي طعام فيقول:
وهذا معي، حديث: 5461)


(6)
جس کو بلایا گیا ہو اسے بھی گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لیکر داخل ہونا چاہیے۔

(7)
گھر میں نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا جائز ہے۔

(8)
کسی اچھے کام کی ابتداء کے موقع پر کسی نیک اور بزرگ شخصیت سے ابتدا کروانا درست ہے۔

(9)
نفل نماز باجماعت ادا کرنا جائز ہے نماز تہجد باجماعت کے متعدد واقعات کتب احادیث میں مروی ہیں۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، التهجد، باب تحريض النبي ﷺ علي قيام اليل۔
۔
۔
۔
، حدیث: 1129)

اور زيرمطالعہ حدیث کے مطابق چاشت کی نماز جماعت سے ادا کی گئی۔

(10)
قرآن مجید میں حکم ہے کہ کھانے کے لیے جس وقت بلایا گیا ہو اسی وقت جانا چاہیے بہت پہلے جا کر کھانا تیار ہونے کا انتطار کرنا اچھا نہیں۔ (سورہ احزاب آیت: 53)
زیر مطالعہ حدیث میں جو واقعہ مذکور ہے اس میں پہلے سے کھانے کا پروگرام نہیں تھا۔
جب نبی ﷺ تشریف لے آئے تو کھانا تیار کیا جانے لگا اور نبی ﷺ سے گزارش کی گئی کہ تھوڑا انتظار فرمالیں۔
یہ صورت قرآن مجید میں مذکورہ صورت سے مختلف ہے۔
حدیث میں جس کھانے کے لیے (خزيرة)
کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ ایک خاص قسم کا کھانا ہے جو اس دور میں عرب میں رائج تھا۔
گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کرکے بہت سے پانی میں پکاتے تھے جب خوب گل جاتا تو اس میں آٹا ڈال دیتے تھے اور تیار ہونے پر پیش کرتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 754   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 667  
667. حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:667]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔
جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 667   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:667  
667. حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: "تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:667]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیلاب،اندھیرا اور نابینا ہونا ہر ایک ترک جماعت کےلیے مستقل عذر ہے کیونکہ ان میں علت مشقت موجود ہے۔
عذر خواہ کوئی بھی ہو اگر اس میں مشقت موجود ہے تو وہ عذر قابل التفات ہے بصورت دیگر نہیں۔
اور اس بات کا فیصلہ خود انسان کا ضمیر کرسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال عذر کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے یا محض ایک بہانہ سازی ہے کیونکہ انسانی ضمیر ہی اپنے حالات کا صحیح ادراک رکھنے کی وجہ سے درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے (بشرطیکہ وہ مردہ نہ ہوچکا ہو)
۔
(شرح الکرمانی: 2/54) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کو ترک جماعت کی اجازت دے دی لیکن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اجازت نہ دی جبکہ وہ بھی نابینا تھے،اس کی چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلا:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت کو پسند فرمایا اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے عزیمت کا انتخاب فرمایا۔
٭حضرت عتبان رضی اللہ عنہ اذان نہ سنتے ہوں گے جبکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کی آواز سنتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
٭ممکن ہے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم درجے کا ہو،اس لیے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. التطوع في البيت (العبادات)
2. ترك الجمعة للبرد والمطر (العبادات)
3. إمامة الأعمى (العبادات)
4. إمامة الأعلم (العبادات)
موضوعات 1. گھر میں نفلی نماز پڑھنا (عبادات)
2. سردی اور بارش کی وجہ سے جمعہ چھوڑنا (عبادات)
3. نابینا کی امامت (عبادات)
4. زیادہ علم رکھنے والے کا امامت کروانا (عبادات)
Topics 1. Offering optional prayer in house (Prayers/Ibadaat)
2. Missing Jumma Prayer due to rain or cold weather (Prayers/Ibadaat)
3. Blind man leading prayer (Prayers/Ibadaat)
4. The one who has more knowledge should lead the prayer (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/667 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت محمود بن ربیع انصاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نابینا تھے اور اپنی قوم کے امام تھے۔
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اندھیری اور سیاہ راتیں ہوتی ہیں اور میں نابینا شخص ہوں (مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتا)
، لہذا آپ میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ لیں تاکہ میں اس جگہ اپنا "مصلیٰ" بنا لوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا:
"تم میری نماز کے لیے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہو؟" انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز ادا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیلاب،اندھیرا اور نابینا ہونا ہر ایک ترک جماعت کےلیے مستقل عذر ہے کیونکہ ان میں علت مشقت موجود ہے۔
عذر خواہ کوئی بھی ہو اگر اس میں مشقت موجود ہے تو وہ عذر قابل التفات ہے بصورت دیگر نہیں۔
اور اس بات کا فیصلہ خود انسان کا ضمیر کرسکتا ہے کہ موجودہ صورت حال عذر کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے یا محض ایک بہانہ سازی ہے کیونکہ انسانی ضمیر ہی اپنے حالات کا صحیح ادراک رکھنے کی وجہ سے درست فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے (بشرطیکہ وہ مردہ نہ ہوچکا ہو)
۔
(شرح الکرمانی: 2/54) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کو ترک جماعت کی اجازت دے دی لیکن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اجازت نہ دی جبکہ وہ بھی نابینا تھے،اس کی چند ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، مثلا:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت کو پسند فرمایا اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے لیے عزیمت کا انتخاب فرمایا۔
٭حضرت عتبان رضی اللہ عنہ اذان نہ سنتے ہوں گے جبکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کی آواز سنتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
٭ممکن ہے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کم درجے کا ہو،اس لیے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک ؓ علیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے محمود بن ربیع انصاری سے کہ بن مالک انصاری ؓ نابینا تھے اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اور میں اندھا ہوں، اس لیے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجیئے تا کہ میں وہیں اپنی نماز کی جگہ بنا لوں۔
پھر رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ تم کہاں نماز پڑھنا پسند کرو گے۔
انھوں نے گھر میں ایک جگہ بتلا دی اور رسول اللہ ﷺ نے وہاں نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔
جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Mahmuid bin Rabi' Al-
Ansari (RA)
:
'Itban bin Malik used to lead his people (tribe)
in prayer and was a blind man, he said to Allah's Apostle, "O Allah's Apostle (ﷺ)! At times it is dark and flood water is flowing (in the valley)
and I am blind man, so please pray at a place in my house so that I can take it as a Musalla (praying place)
." So Allah's Apostle (ﷺ) went to his house and said, "Where do you like me to pray?" 'Itban pointed to a place in his house and Allah's Apostle, offered the prayer there. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔
جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم677٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
667٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
627٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
667٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
636٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
659٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
667٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
667١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
667 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے:
اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔
اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔
اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔
اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔
اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔
اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔
ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔
(فتح الباری: 2/102)
چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔
اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔
کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔
چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔
کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔
جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔
"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔
اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔
ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
٭ اذان اور اس کے متعلقات:
اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔
یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔
٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات:
اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔
یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔
٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:
یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔
آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔
واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔
دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔
نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔
چونکہ ارشاد نبوی ہے:
تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 631)
اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔
اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔
اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔
یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند)
روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔
ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔
اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
(آمين)
والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 667   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.