الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
19. بَابُ السِّنِّ بِالسِّنِّ:
19. باب: دانت کے بدلے دانت۔
(19) Chapter. Tooth for tooth.
حدیث نمبر: 6894
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا حميد، عن انس رضي الله عنه" ان ابنة النضر لطمت جارية، فكسرت ثنيتها، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فامر بالقصاص".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ ابْنَةَ النَّضْرِ لَطَمَتْ جَارِيَةً، فَكَسَرَتْ ثَنِيَّتَهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقِصَاص".
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نضرت کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا تھا اور اس کے دانت ٹوٹ گئے تھے۔ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا۔

Narrated Anas: The daughter of An-Nadr slapped a girl and broke her incisor tooth. They (the relatives of that girl), came to the Prophet and he gave the order of Qisas (equality in punishment).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 32


   صحيح البخاري6894أنس بن مالكلطمت جارية فكسرت ثنيتها فأتوا النبي فأمر بالقصاص
   صحيح البخاري4499أنس بن مالككتاب الله القصاص
   صحيح مسلم4374أنس بن مالكالقصاص القصاص فقالت أم الربيع يا رسول الله أيقتص من فلانة والله لا يقتص منها فقال النبي سبحان الله يا أم الربيع القصاص كتاب الله قالت لا والله لا يقتص منها أبدا قال فما زالت حتى قبلوا الدية فقال رسول الله إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرى4756أنس بن مالككتاب الله القصاص

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6894  
6894. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نضر ؓ کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا اور اس کے دانت توڑ دیے، وہ نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو آپ نے قصاص کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6894]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک دوسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دیے۔
ربیع کے رشتے داروں نے اس سے معافی مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو انھوں نے اسے بھی رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے علاوہ کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔
یہ سن کر اس کے بھائی انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! کیا میری بہن ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے انس! اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔
اتنے میں وہ لوگ دیت لینے پر رضامند ہو گئے اور انھوں نے معافی دے دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4500) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔
اس سے آپ نے درج ذیل آیات کی طرف اشارہ فرمایا:
زخموں میں بھی قصاص ہے۔
(المائدة: 5: 45)
سزا دو تم جس قدر تمھیں سزا دی گئی ہو۔
(النحل16: 126)
بلکہ قرآن میں واضح نص ہے کہ دانت کے بدلے دانت ہے۔
(3)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قصاص کا فیصلہ سن کر جو کچھ کہا وہ اس فیصلے کو رد کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین کے پیش نظر اس کے وقوع کی نفی کی، چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق کام ہوا۔
(فتح الباري: 280/12)
واضح رہے کہ حدیث میں توڑنے سے مراد اکھاڑنا نہیں، چنانچہ امام ابوداودر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
دانت میں قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا:
اتنی مقدار میں ریتی سے رگڑ دیا جائے۔
(سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4595)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6894   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.