الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
21. بَابُ إِذَا أَصَابَ قَوْمٌ مِنْ رَجُلٍ هَلْ يُعَاقِبُ أَوْ يَقْتَصُّ مِنْهُمْ كُلِّهِمْ:
21. باب: اگر کئی آدمی ایک شخص کو قتل کر دیں تو کیا قصاص میں سب کو قتل کیا جائے گا یا قصاص لیا جائے گا؟
(21) Chapter. If a group of people killed or injured one man, will all of them have to give Diya or be punished with the law of Al-Qisas (equality in punishment)?
حدیث نمبر: Q6896
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مطرف: عن الشعبي، في: رجلين شهدا على رجل انه سرق، فقطعه علي، ثم جاءا بآخر، وقالا: اخطانا، فابطل شهادتهما، واخذا بدية الاول، وقال: لو علمت انكما تعمدتما لقطعتكما.وَقَالَ مُطَرِّفٌ: عَنِ الشَّعْبِيِّ، فِي: رَجُلَيْنِ شَهِدَا عَلَى رَجُلٍ أَنَّهُ سَرَقَ، فَقَطَعَهُ عَلِيٌّ، ثُمَّ جَاءَا بِآخَرَ، وَقَالَا: أَخْطَأْنَا، فَأَبْطَلَ شَهَادَتَهُمَا، وَأُخِذَا بِدِيَةِ الْأَوَّلِ، وَقَالَ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا تَعَمَّدْتُمَا لَقَطَعْتُكُمَا.
اور مطرف نے شعبی سے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے متعلق گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہی دونوں ایک دوسرے شخص کو لائے اور کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی (اصل میں چور یہ تھا) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان کی شہادت کو باطل قرار دیا اور ان سے پہلے کا (جس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا) خون بہا لیا اور کہا کہ اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم لوگوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

حدیث نمبر: 6896
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال لي ابن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان غلاما قتل غيلة، فقال عمر: لو اشترك فيها اهل صنعاء لقتلتهم، وقال مغيرة بن حكيم، عن ابيه، إن اربعة قتلوا صبيا، فقال عمر مثله، واقاد ابو بكر، وابن الزبير، وعلي، وسويد بن مقرن من لطمة، واقاد عمر من ضربة بالدرة، واقاد علي من ثلاثة اسواط، واقتص شريح من سوط وخموش.وَقَالَ لِي ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ غُلَامًا قُتِلَ غِيلَةً، فَقَالَ عُمَرُ: لَوِ اشْتَرَكَ فِيهَا أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ، وَقَالَ مُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، إِنَّ أَرْبَعَةً قَتَلُوا صَبِيًّا، فَقَالَ عُمَرُ مِثْلَهُ، وَأَقَادَ أَبُو بَكْرٍ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَعَلِيٌّ، وَسُوَيْدُ بْنُ مُقَرِّنٍ مِنْ لَطْمَةٍ، وَأَقَادَ عُمَرُ مِنْ ضَرْبَةٍ بِالدِّرَّةِ، وَأَقَادَ عَلِيٌّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَسْوَاطٍ، وَاقْتَصَّ شُرَيْحٌ مِنْ سَوْطٍ وَخُمُوشٍ.
اور مجھ سے ابن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک لڑکے اصیل نامی کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سارے اہل صنعاء (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔ اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار آدمیوں نے ایک بچے کو قتل کر دیا تھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات فرمائی تھی۔ ابوبکر، ابن زبیر، علی اور سوید بن مقرن رضی اللہ عنہما نے چانٹے کا بدلہ دلوایا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے درے کی جو مار ایک شخص کو ہوئی تھی اس کا بدلہ لینے کے لیے فرمایا اور علی رضی اللہ عنہ نے تین کوڑوں کا قصاص لینے کا حکم دیا اور شریح نے کوڑے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔

Ibn 'Umar said: A boy was assassinated. 'Umar said, "If all the people of San'a took part in the assassination I would kill them all." Al-Mughira bin Hakim said that his father said, "Four persons killed a boy, and 'Umar said (as above)." Abu Bakr, Ibn Az-Zubair, 'Ali and Suwaid bin Muqarrin gave the judgement of Al-Qisas (equality in punishment) in cases of slapping. And 'Umar carried out Al-Qisas for a strike with a stick. And 'Ali carried out Al-Qisas for three lashes with a whip. And Shuraih carried out for one last and for scratching.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 34



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6896  
6896. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر اس قتل میں صنعاء کے تمام لوگ شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار مردوں نے مل کر ایک بچے کو قتل کر دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہی بات فرمائی تھی۔ حضرت ابو بکر، ابن زبیرعلی، اور سوید بن مقرن ؓ نے طمانچہ کی وجہ سے قصاص دلایا تھا حضرت عمر ؓ نے درہ مارنے کا قصاص لیا۔ حضرت علی ؓ نے تین کوڑے مارنے کا قصاص لیا۔ قاضی شریح نے کوڑے مارنے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6896]
حدیث حاشیہ:
یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔
اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے اپنا ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔
اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔
اس بچے کو قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔
اسے قتل کرنے کے بعد انہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔
بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔
باقی قاتل بھی مان گئے، حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے انہوں نے اس مقدمے کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا:
اگر تمام اہل صںعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6896   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6896  
6896. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک لڑکے کو دھوکے سے قتل کر دیا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر اس قتل میں صنعاء کے تمام لوگ شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد سے بیان کیا کہ چار مردوں نے مل کر ایک بچے کو قتل کر دیا تو اس موقع پر بھی حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہی بات فرمائی تھی۔ حضرت ابو بکر، ابن زبیرعلی، اور سوید بن مقرن ؓ نے طمانچہ کی وجہ سے قصاص دلایا تھا حضرت عمر ؓ نے درہ مارنے کا قصاص لیا۔ حضرت علی ؓ نے تین کوڑے مارنے کا قصاص لیا۔ قاضی شریح نے کوڑے مارنے اور خراش لگانے کی سزا دی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6896]
حدیث حاشیہ:
(1)
یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عورت کا خاوند کہیں باہر گیا اور اپنے ایک بچے کو، جو اس آدمی کی دوسری بیوی سے تھا، موجودہ بیوی کی گود میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی نگہداشت کرے۔
اس کے باہر جانے کے بعد عورت نے ایک آشنا بنایا اور اسے کہا کہ پہلے اس بچے کو ٹھکانے لگاؤ کیونکہ یہ ہمیں کسی وقت بھی ذلیل کر سکتا ہے۔
اس آشنا نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر مان گیا۔
اس بچے کے قتل میں عورت کا آشنا، ایک دوسرا شخص، وہ عورت اور اس کا خادم شریک ہوئے۔
اسے قتل کرنے کے بعد انھوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا اور بوری میں بند کر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔
بعد ازاں اس کے آشنا کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے اقرار جرم کر لیا۔
باقی قاتل بھی مان گئے تو حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت صنعاء کے حاکم تھے، انھوں نے اس مقدمۂ قتل کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے، مزید فرمایا:
اللہ کی قسم! اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرنے کا حکم دیتا۔
(فتح الباري: 283/12، 284) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے طمانچے اور خراش لگانے کے متعلق قصاص کا ذکر بھی اس عنوان کے تحت کیا ہے، اس کی دو وجہیں بیان کی جاتی ہیں:
٭بعض حضرات کا موقف ہے کہ طمانچوں اور خراشوں میں چونکہ مماثلت نہیں ہوتی، لہٰذا اس میں قصاص نہیں بلکہ تعزیر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کے موقف کو محل نظر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام میں ان کے متعلق قصاص لیا اور دیا جاتا تھا۔
٭ جب چھوٹے چھوٹے اور معمولی کاموں میں قصاص ہے تو اگر زیادہ آدمی ایک جرم میں شریک ہوں، خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ تمام جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے جیسا کہ معمولی کاموں میں قصاص لیا جاتا ہے، ان سے بھی قصاص لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ کوئی اور دوسری سزا نہیں دی جائے گی۔
(فتح الباري: 285/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6896   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.