الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
52. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ»:
52. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ ”قرآن کا ماہر (جید حافظ) (قیامت کے دن) لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو عزت والے اور اللہ کے تابعدار ہیں“۔
(52) Chapter. The statement of the Prophet (p.b.u.h.): “A person who is perfect in reciting and memorizing the Quran will be with the honourable, pious and just scribes (in heaven).” and, "Adorn the Quran by reciting it with your (pleasant) voices."
حدیث نمبر: 7548
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي صعصعة، عن ابيه، انه اخبره، ان ابا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال له:" إني اراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت في غنمك او باديتك، فاذنت للصلاة، فارفع صوتك بالنداء فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة، قال ابو سعيد: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ:" إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ لِلصَّلَاةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم مجھ سے امام مالک نے بیان کا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ان سے کہا میرا خیال ہے کہ تم بکریوں کو اور جنگل کو پسند کرتے ہو۔ پس جب تم اپنی بکریوں میں یا جنگل میں ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز کے ساتھ دو کیونکہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے گی اور اسے جن و انس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

Narrated `Abdullah bin `Abdur-Rahman: that Abu Sa`id Al-Khudri said to him, "I see that you like sheep and the desert, so when you are looking after your sheep or when you are in the desert and want to pronounce the Adhan, raise your voice, for no Jinn, human being or any other things hear the Mu`adh-dhin's voice but will be a witness for him on the Day of Resurrection." Abu Sa`id added, "I heard this from Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 638


   صحيح البخاري7548سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   صحيح البخاري3296سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى645سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   سنن ابن ماجه723سعد بن مالكلا يسمعه جن ولا إنس ولا شجر ولا حجر إلا شهد له
   مسندالحميدي749سعد بن مالكلا يسمعه إنس، ولا جن، ولا حجر، ولا شجر، ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 645  
´اذان میں آواز بلند کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 645]
645 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، [فائده حديث: 668]
➋ اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہو سکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے!
➌ جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔
➍ مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 645   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث723  
´اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 723]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
جہاں انسان اکیلا ہو اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے ارادے سے اذان کہہ کر نماز پڑھے اس کا ثواب گزشتہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔
ایسے موقع پر یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اذان کی آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی انسان تو سننے والا موجود نہیں جو اذان سن کر نماز باجماعت میں شریک ہونے کے لیے آ جائے۔
لیکن زیر مطالعہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بھی اذان بلند آواز سے ہی کہنا مستحب ہے۔

(2)
بے جان چیزیں بھی ایک قسم کا شعور رکھتی ہیں۔
اگرچہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔

(3)
قیامت اور آخرت کے حالات اس دنیا کے قوانین سے مختلف ہیں۔
وہاں بے جان چیزیں بھی انسان کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گی بلکہ خود انسان کے اعضاء بھی اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴾ (النور: 24/24)
جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعما ل كي گواہی دینگے۔
اسی طرح مؤذن کے حق میں شجر وحجر گواہی دینگے۔

(4)
اللہ کے ہاں مؤذن کی شان بہت بلند ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان نماز باجماعت کا ذریعہ ہے یعنی بڑی نیکی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض چھوٹی نیکیوں کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان نیکیوں کو بھی معمولی سمجھ کر ان سے بے پروائی نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 723   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7548  
7548. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7548]
حدیث حاشیہ:
اس باب کی پہلی حدیث میں قرآن کواچھی آواز سے زینت دینےکا، دوسری حدیث میں اس کی تلاوت کا، تیسری حدیث میں قراءت کی عمدگی خوش آوازی کا، چوتھی حدیث میں قراءت بلند یاپست آواز سےکرنے کا، پانچویں حدیث میں اذان بلند آواز سےدینے کا بیان ہے۔
ان سب احادیث سےامام بخاری  نے یہ نکالا کہ قراءت اورچیز ہے قرآن اورچیز ہے۔
قراءت ان صفات سے متصف ہوتی ہے اس سےمعلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اورمخلوق ہے برخلاف قرآن کے کہ وہ اللہ کا کلام اورغیر مخلوق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7548   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7548  
7548. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7548]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بلند آواز سے اذان دینے کابیان ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قراءت اور چیز ہے اورقرآن اور چیز ہے کیونکہ قراءت ہی بلند اور پست جیسی صفات سے متصف ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت اور غیر مخلوق ہے۔
بہرحال بندوں کی آواز ان کا فعل ہے جس پر اسے ثواب کا حقدار ٹھرایا جائے گا جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7548   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.