الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
163. بَابُ انْتِظَارِ النَّاسِ قِيَامَ الإِمَامِ الْعَالِمِ:
163. باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا۔
(163) Chapter. The waiting of the people for the religious learned Imam to get up (after the prayer to depart).
حدیث نمبر: 867
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك. ح وحدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة، قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح، فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کیا، (دوسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے یحییٰ بن سعید انصاری سے خبر دی، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ لیتے پھر عورتیں چادریں لپیٹ کر (اپنے گھروں کو) واپس ہو جاتی تھیں۔ اندھیرے سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی۔

Narrated `Aisha: When Allah's Apostle finished the Fajr prayer, the women would leave covered in their sheets and were not recognized owing to the darkness.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 826


   صحيح البخاري867عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح البخاري872عائشة بنت عبد اللهيصلي الصبح بغلس فينصرفن نساء المؤمنين لا يعرفن من الغلس أو لا يعرف بعضهن بعضا
   صحيح البخاري372عائشة بنت عبد اللهيصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد
   صحيح البخاري578عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلاة الفجر متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة لا يعرفهن أحد من الغلس
   صحيح مسلم1459عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح مسلم1457عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات كن يصلين الصبح مع النبي ثم يرجعن متلفعات بمروطهن لا يعرفهن أحد
   صحيح مسلم1458عائشة بنت عبد اللهنساء من المؤمنات يشهدن الفجر مع رسول الله متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن وما يعرفن من تغليس رسول الله بالصلاة
   جامع الترمذي153عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء
   سنن أبي داود423عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى546عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى1363عائشة بنت عبد اللهالنساء يصلين مع رسول الله الفجر فكان إذا سلم انصرفن متلفعات بمروطهن فلا يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى547عائشة بنت عبد اللهيصلين مع رسول الله الصبح متلفعات بمروطهن فيرجعن فما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي174عائشة بنت عبد اللهكن نساء من المؤمنات يصلين مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح وهن متلفعات بمروطهن ثم يرجعن إلى أهليهن وما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي175عائشة بنت عبد اللهكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة
   مسندالحميدي176عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 80  
´نماز فجر کا وقت`
«. . . 494- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح، فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس. . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز (اس قدر اندھیرے میں) پڑھتے کہ پھر عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 80]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 867، ومسلم 645، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہئے۔
➋ عورتوں کے لئے چادر اوڑھنا ضروری ہے۔
➌ ہر عورت کو چاہئے کہ وہ مردوں سے پردہ کرے۔
➍ عورتوں کا مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے۔
➎ نیز دیکھئے: الموطأ حدیث: 45
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 494   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 423   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.