الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نکاح کے مسائل کا بیان
निकाह के नियम
3. باب عشرة النساء
3. عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان
३. “ पत्नियों के साथ संबंध के नियम ”
حدیث نمبر: 873
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن جابر بن عبد الله قال: كانت اليهود تقول: إذا اتى الرجل امراته من دبرها في قبلها كان الولد احول فنزلت: «نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم» متفق عليه , واللفظ لمسلموعن جابر بن عبد الله قال: كانت اليهود تقول: إذا أتى الرجل امرأته من دبرها في قبلها كان الولد أحول فنزلت: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» متفق عليه , واللفظ لمسلم
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کہتے تھے کہ مرد جب اپنی بیوی سے پچھلی جانب سے قبل میں مجامعت و مباشرت کرتا ہے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» عورتیں تمہاری کھیتی ہیں لہذا اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
हज़रत जाबिर रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि यहूदियों कहते थे कि मर्द जब अपनी पत्नी से पिछली ओर से आगे के अंग में संभोग करता है तो बच्चा भेंगा पैदा होता है। इस समय पर अल्लाह तआला ने ये आयत नाज़िल फ़रमाई कि « نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ » औरतें तुम्हारी खेती हैं इसलिए अपनी खेती में जिस तरह चाहो आओ। (बुख़ारी और मुस्लिम) और ये शब्द मुस्लिम के हैं।

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التفسير، باب نساء كم حرث لكم.......، حديث:4528، ومسلم، النكاح، باب جواز جماعة امرأة في قبلها......،حديث:1435.»

Narrated Jabir bin 'Abdullah (RA): The Jews used to say, "When a man has intercourse with his wife through the vagina, but from her back side, the child will be squint-eyed." Then, the Verse came down: "Your wives are a tilth to you, so come to your tilth however you wish [2:223]." [Agreed upon; the wording is Muslim's].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري4527ابن عمرفاتوا حرثكم انى شئتم
   صحيح البخاري4526ابن عمرانزلت في كذا وكذا
   صحيح البخاري4528ابن عمرنساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم
   بلوغ المرام873ابن عمرنساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 4527  
´تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ , فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ، قَالَ:" يَأْتِيهَا فِي . . .»
. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ آیت «فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ» سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4527]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں
قولہ: حدیث سوم: «عن ابن عمر: فاتوا حرثكم أني شئتم قال يأتيها في» اس حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور چھوڑ دیا ہے اور وہ «دبر» ہے، اور یہ فلاں فلاں حدیث کے مخالف ہے۔
{أقول:} اے جناب! یہ حدیث نہیں ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر ہے اور «في» کا مجرور «دبر» نہیں ہے، بلکہ «فرج» ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ الله فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ امام حمیدی نے اپنی کتاب «جمع بين الصحيحين» میں اس اثر کو «يأتيها فى الفرج» کے جملہ سے نقل کیا ہے اور حافظ ممدوح فرماتے ہیں کہ میں نے صغانی کے نسخہ کو دیکھا، اس میں برقانی نے «في» کا مجرور «فرج» زیادہ کیا ہے۔ ۱؎

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس حدیث میں «في» کا مجرور «فرج» ماننے کے کئی قرینے ہیں:
اول: یہ کہ اثر ابن عمر جس روایت میں «في الدبر» کی تصریح ہے، نافع نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ ۲؎
دوم: یہ کہ سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ ابن عمر کے اس قول کا مطلب یہ نقل کیا ہے: «لا بأس أن يوتي فى فروجهن من أدبارهن» ۳؎ [جواھر منیفہ: 100/2]
سوم: یہ کہ سيدنا ابن عمر نے خود اس فعل سے بایں الفاظ انکار کیا ہے: «وهل يفعل ذلك أحد من المسلمين» ۴؎ (جواھر) یعنی کیا اس کو کوئی مسلمان کر سکتا ہے؟
چہارم: یہ کہ «في» کا مجرور «دبر» ماننے سے آیت «حرث لكم» کے مفاد کے خلاف ہو گا۔
پنجم: یہ کہ بقول آپ کے بہت سی احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔ ۵؎
یہ سب قرائن صاف بتلاتے ہیں کہ حدیث بخاری میں «في» کا مجرور «فرج» ہے نہ «دبر» ۔

باقی رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور «فرج» ذکر کیوں نہیں کر دیا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ «في» کا مجرور محض «فرج» ہی نہیں بلکہ «في فروجهن من أدبارهن» بھی ہے، اس لیے اس کے ذکر میں استکراہ سمجھا اور یہ غایت تہذیب و دانائی ہے۔ ۶؎
------------------
۱؎ لیکن بعد میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور «فرج» نکالنے کی تردید کی ہے اور حمیدی کا «فرج» کو مجرور ذکر کرنا ان کا اپنا فہم اور صریح روایت کے مخالف قرار دیا ہے۔ [فتح الباری:189/8]
۲؎ دیکھیں: [السنن الکبریٰ للنسائی:315/5، شرح معاني الآثار:42/3]
۳؎ [تفسير البغوي:259/1 شرح معاني الآثار:42/3]
۴؎ [سنن الدارمي:277/1، شرح معاني الآثار:41/3، غريب الحديث للخطابي:400/2]
۵؎ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ «تحريم إتيان فى الدبر» کے بارے میں وارد احادیث کے متعلق لکھتے ہیں: «قلت لكن طرقها كثيرة فمجموعها صالح للاحتجاج به، ويؤيد القول بالتحريم أنا لو قدمنا أحاديث الإباحة، للزم أنه أبيح بعد أن حرم، والأصل عدمه، فمن الأحاديث الصالحة الإسناد حديث خزيمة بن ثابت أخرجه أحمد والنسائي وبن ماجة وصححه بن حبان وحديث أبى هريرة أخرجه أحمد والترمذي وصححه بن حبان أيضا وحديث بن عباس وقد تقدمت الإشارة إليه وأخرجه الترمذي من وجه آخر بلفظ لا ينظر الله إلى رجل آتي رجلا أو امرأة فى الدبر وصححه ابن حبان أيضا وإذا كان ذلك صلح أن يخصص عموم الآية.» [فتح الباري:191/8، التلخيص الحبير:179/3، إرواء الغليل:68/7، برقم:2006]
۶؎ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مجرور کے عدم ذکر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «وهذا الذى استعمله البخاري، نوع من أنواع البديع يسمى الاكتفاء، ولا بدله من نكتة يحسن سببها استعماله» [فتح الباري:190/8]
   دفاع صحیح بخاری، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4526  
´تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں`
«تَدْرِي فِيمَ أُنْزِلَتْ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا"، ثُمَّ مَضَى»
معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4526]
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔
تبصرہ:
❀ صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے کہ:
«حدثني إسحاق: أخبرنا النضر بن شميل: أخبرنا ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا قرأ القرآن لم يتكلم حتي يفرغ منه، فأخذت عليه يومًا فقرأ سورة البقرة حتي انتهي إلى مكان قال: تدري فيما أنزلت؟ قلت: لا، قال: أنزلت فى كذا وكذا ثم مضي۔ وعن عبدالصمد: حدثني أبى: حدثني أيوب عن نافع عن ابن عمر ﴿فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ﴾ قال: يأيتها فى . رواه محمد بن يحيٰي بن سعيد عن أبيه عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر .»
ہمیں اسحاق (بن راہویہ) نے حدیث بیان کی: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی: ہمیں (عبداللہ) ابن عون نے خبر دی وہ نافع سے بیان کرتے ہیں، کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما جب قرآن پڑھتے تو (قرأت سے) فارغ ہونے تک کوئی کلام نہ کرتے۔ ایک دن میں نے ان کے سامنے (قرآن مجید) لیا تو آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، جب آپ ایک مقام پر پہنچے، فرمایا: تجھے پتا ہے یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہ اس اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر آپ (تلاوت میں لگ) گئے۔
❀ عبدالصمد (بن عبدالوارث) سے روایت ہے: مجھے میرے ابا (عبدالوارث) نے حدیث بیان کی: مجھے ایوب (سختیانی) نے حدیث بیان کی وہ نافع سے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے «فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ» اپنی کھیتی کو آؤ جس طرح چاہو۔ [البقرة: 223] کی تشریح میں فرمایا:۔۔۔ میں آئے۔
❀ روایت کیا محمد بن یحییٰ بن سعید (القطان) نے اپنے والد سے انہوں نے عبیداللہ (بن عمر) سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے۔ [صحيح بخاري: 4526، 4527]
↰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔ کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، لہٰذا منکر حدیث نے صحیح بخاری پر جھوٹ بولا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی سے بچہ پیدا ہونے والی جگہ میں جماع کرنا چاہئیے دیکھئے: صحیح بخاری مترجم ترجمہ و تشریح محمد داود راز [100/6] مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور، والسنن الکبریٰ للنسائی [8978 وسنده حسن، دوسرا نسخه: 8929]
↰ لہٰذا اس قول سے لواطت کا جواز ثابت کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 20   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.