الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
30. بَابُ مَنْ أَعَادَ الْحَدِيثَ ثَلاَثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ:
30. باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے (ایک) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے۔
(30) Chapter. Repeating one’s talk thrice in order to make others understand.
حدیث نمبر: 96
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن عمرو، قال:" تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر سافرناه، فادركنا وقد ارهقنا الصلاة صلاة العصر ونحن نتوضا فجعلنا نمسح على ارجلنا، فنادى باعلى صوته: ويل للاعقاب من النار مرتين او ثلاثا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلَاةَ صَلَاةَ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔


Hum se Musaddad ne bayan kiya, un se Abu ’Awaanah ne Abi Bishr ke waaste se bayan kiya, woh Yousuf bin Maahak se bayan karte hain, woh Abdullah bin ’Amr Radhiallahu Anhuma se, woh kehte hain ke ek safar mein Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam hum se peeche reh gaye. Phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam hamaare qareeb pahunche. To Asr ki Namaz ka waqt ho chuka tha ya tang ho gaya tha aur hum wuzu kar rahe the. Hum apne pairon par paani ka haath pherne lage to Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne baland aawaaz se farmaaya ke aag ke azaab se in aydiyon ki (jo khushk reh jaayen) kharabi hai. Yeh do martaba farmaaya ya teen martaba.

Narrated `Abdullah bin `Amr: Once Allah's Apostle remained behind us in a journey. He joined us while we were performing ablution for the `Asr prayer which was over-due. We were just passing wet hands over our feet (not washing them properly) so the Prophet addressed us in a loud voice and said twice or thrice, "Save your heels from the fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 96


   صحيح البخاري96عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري60عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح البخاري163عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار مرتين أو ثلاثا
   صحيح مسلم570عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   صحيح مسلم572عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار
   سنن أبي داود97عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن النسائى الصغرى111عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء
   سنن ابن ماجه451عبد الله بن عمروويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 97  
´وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہئیے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 97]
فوائد و مسائل:
معلوم ہوا کہ وضو میں کوئی جگہ بھی خشک نہیں رہنی چاہیے، ورنہ مذکورہ وعید ثابت اور لاگو ہو گی۔ ایڑیوں کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ آدمی جلدی میں ہو اور ان کا خیال نہ کرے تو یہ خشک رہ جاتی ہیں، خاص طور پر ٹخنوں کے پیچھے کی گہری جگہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 97   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 60  
´علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کرنا`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 60]

تشریح:
بلند آواز سے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں «ليس بصخاب» آیا ہے کہ آپ شور و غل کرنے والے نہ تھے مگر یہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کر کے بتلا دیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرما دیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہو جایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 60   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 96  
´محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کر سکتا ہے`
«. . . فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 96]

تشریح:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے تو آپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے تو تیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہو جاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 96  
96. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:96]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔
تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الإستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔
ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 111  
´وضو میں دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا، تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں (خشک ہونے کی وجہ سے) چمک رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو میں ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی تباہی ہے، وضو کامل طریقہ سے کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 111]
111۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 182، و صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 274، و جامع الترمذي، الطهارة، حديث: 99]
«وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ……… الخ» بددعا بھی ہو سکتی ہے اور خبر بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 111   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:96  
96. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:96]
حدیث حاشیہ:
بوقت وضو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے متعلق وعید کو تین مرتبہ دہرایا اس سے بھی ثابت ہوا کہ کسی اہم بات کو کئی دفعہ دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 96   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.