(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني سليمان، عن عمرو بن ابي عمرو، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، انه قال: قيل يا رسول الله، من اسعد الناس بشفاعتك يوم القيامة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لقد ظننت يا ابا هريرة، ان لا يسالني عن هذا الحديث احد اول منك لما رايت من حرصك على الحديث، اسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة، من قال لا إله إلا الله خالصا من قلبه او نفسه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان نے عمرو بن ابی عمرو کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ سعید بن ابی سعید المقبری کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا۔
Hum se Abdul ’Aziz bin Abdullah ne bayan kiya, unhon ne kaha mujh se Sulaiman ne ’Amr bin Abi ’Amr ke waaste se bayan kiya. Woh Sa’eed bin Abi Sa’eed Al-Maqburi ke waaste se bayan karte hain, woh Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se riwayat karte hain ke unhon ne arz kiya, ya RasoolAllah! qiyamat ke din Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ki sifarish se sab se ziyada sa’adat kise milegi? To Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya, aye Abu Hurairah Radhiallahu Anhu mujhe yaqeen tha ke tum se pehle koi is ke baare mein mujh se daryaaft nahi karega. Kiunki main ne Hadees ke mutalliq tumhaari hirs dekh li thi. Suno! Qiyamat main sab se ziyada faiz-e-yaab meri sifarish se woh shakhs hoga, jo sachche dil se ya sachche ji se «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ» kahega.
Narrated Abu Huraira: I said: "O Allah's Apostle! Who will be the luckiest person, who will gain your intercession on the Day of Resurrection?" Allah's Apostle said: O Abu Huraira! "I have thought that none will ask me about it before you as I know your longing for the (learning of) Hadiths. The luckiest person who will have my intercession on the Day of Resurrection will be the one who said sincerely from the bottom of his heart "None has the right to be worshipped but Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 98
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 99
´اہل حدیث کی فضیلت` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 99]
تشریح: حدیث شریف کا علم حاصل کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحسین فرمائی۔ اسی سے اہل حدیث کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ دل سے کہنے کا مطلب یہ کہ شرک سے بچے، کیونکہ جو شرک سے نہ بچا وہ دل سے اس کلمہ کا قائل نہیں ہے اگرچہ زبان سے اسے پڑھتا ہو۔ جیسا کہ آج کل بہت سے قبروں کے پجاری نام نہاد مسلمانوں کا حال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 99
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:99
99. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی سفارش سے کون زیادہ حصہ پائے گا؟ تو آپ نے فرمایا: ”ابوہریرہ! مجھے یقین تھا کہ تجھ سے پہلے کوئی مجھ سے یہ بات نہیں پوچھے گا، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تجھے حدیث کی بڑی حرص ہے۔ قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور وہ شخص ہو گا جس نے اپنے دل یا خلوص نیت سے لا إله إلا الله کہا ہو گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:99]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے مطلق علم کی ترغیب کے متعلق بیان کیا تھا اب علم حدیث کی فضیلت کے متعلق حدیث لائے ہیں۔ حدیث لغوی طور پر نئی چیز کو کہتے ہیں قرآن کریم چونکہ قدیم ہے اس کے مقابلے میں حدیث نئی چیز ہے محدثین کی اصطلاح میں حدیث کی تعریف یہ ہے۔ ہر وہ قول و فعل اور اقرار واخلاق جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم حدیث سے خصوصی شغف تھا۔ خود فرماتے ہیں کہ میرے انصاری بھائی کھیتی باڑی میں مصروف رہتے اور مہاجرین اپنے کاروبار میں مشغول رہتے اور میں ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا، مبادا آپ کی کوئی بات یا ادارہ جائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسیان کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھائی اس پر کچھ پڑھا پھر فرمایا: ”ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے اپنے سینے سے لگالو۔ “ جس سے ان کا سینہ گنجینہ احادیث بن گیا۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119) 2۔ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مختلف اندازسے ہوگی۔ 1۔ ترقی درجات و رفع منازل کی سفارش۔ 2۔ بلا حساب و کتاب دخول جنت کی سفارش۔ 3۔ عذاب جہنم سے تخفیف کی سفارش۔ 4۔ دوزخ سے بعض اہل ایمان کو نکالنے کی سفارش 5۔ مستحق نار کو عذاب سے نجات کی سفارش۔ 6۔ محشر کی ہولنا کی سے نجات کی سفارش 3۔ دل سے کلمہ اخلاص کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، کیونکہ جو شخص شرک کرتا ہے اس کا محض زبانی دعوی ہے، دل سے اس کا اقرار نہیں کرتا، ان میں سفارش کا زیادہ حقدار وہ ہوگا جس نے اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھا ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 99