الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
The Book of Ghusl (Washing of the Whole Body)
4. بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا:
4. باب: اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے۔
(4) Chapter. Pouring water thrice on one’s head.
حدیث نمبر: 256
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا معمر بن يحيى بن سام، حدثني ابو جعفر، قال: قال لي جابر: واتاني ابن عمك يعرض بالحسن بن محمد بن الحنفية، قال: كيف الغسل من الجنابة؟ فقلت" كان النبي صلى الله عليه وسلم ياخذ ثلاثة اكف ويفيضها على راسه، ثم يفيض على سائر جسده، فقال لي الحسن: إني رجل كثير الشعر، فقلت: كان النبي صلى الله عليه وسلم اكثر منك شعرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَامٍ، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَابِرُ: وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: كَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقُلْتُ" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلَاثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، فَقَالَ لِي الْحَسَنُ: إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ، فَقُلْتُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا".
ہم سے ابونعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر بن یحییٰ بن سام نے روایت کیا، کہا کہ ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی) آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔


Hum se Abu Nu’aim (Fazl bin Dukain) ne bayan kiya, kaha ke hum se Ma’mar bin Yahya bin Saam ne riwayat kiya, kaha ke hum se Abu Ja’far (Muhammed Baqir) ne bayan kiya, unhon ne kaha ke hum se Jabir ne bayan kiya ke mere paas tumhaare chacha ke bete (un ki muraad Hasan bin Muhammed Ibn-e-Hanafiyyah se thi) aaye. Unhon ne poocha ke janabat ke ghusl ka kya tareeqa hai? Main ne kaha ke Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam teen chullu paani lete aur un ko apne sar par bahaate the. Phir apne tamaam badan par paani bahaate the. Hasan ne us par kaha ke main to bahut baalon waala aadmi hun. Main ne jawab diya ke Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke baal tum se ziyada the.

Narrated Abu Ja`far: Jabir bin `Abdullah said to me, "Your cousin (Hasan bin Muhammad bin Al-Hanafiya) came to me and asked about the bath of Janaba. I replied, 'The Prophet uses to take three handfuls of water, pour them on his head and then pour more water over his body.' Al-Hasan said to me, 'I am a hairy man.' I replied, 'The Prophet had more hair than you'. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 256


   صحيح البخاري256جابر بن عبد اللهيأخذ ثلاثة أكف ويفيضها على رأسه ثم يفيض على سائر جسده
   صحيح البخاري252جابر بن عبد اللهيكفي من هو أوفى منك شعرا وخير منك
   صحيح البخاري255جابر بن عبد اللهيفرغ على رأسه ثلاثا
   صحيح مسلم742جابر بن عبد اللهأفرغ على رأسي ثلاثا
   صحيح مسلم743جابر بن عبد اللهإذا اغتسل من جنابة صب على رأسه ثلاث حفنات من ماء
   سنن النسائى الصغرى426جابر بن عبد اللهإذا اغتسل أفرغ على رأسه ثلاثا
   سنن ابن ماجه577جابر بن عبد اللهأنا في أرض باردة فكيف الغسل من الجنابة فقال أما أنا فأحثو على رأسي ثلاثا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 256  
´جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے`
«. . . حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَابِرُ: وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: كَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقُلْتُ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلَاثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، فَقَالَ لِي الْحَسَنُ: إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ، فَقُلْتُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا " . . . .»
. . . ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی) آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا:: 256]

تشریح:
چچاکے بیٹے مجازاً کہا۔ دراصل وہ ان کے باپ یعنی زین العابدین کے چچازاد بھائی تھے کیونکہ محمد ابن حنفیہ جناب حسن اور جناب حسین رضی اللہ عنہما کے بھائی تھے۔ جو حسن کے باپ ہیں، جنہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔ ترجمۃ الباب اور احادیث واردہ کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت میں سر مبارک پر تین چلو پانی بہاتے تھے۔ پس مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بہرصورت لائق اتباع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 256   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:256  
256. حضرت ابو جعفر ؓ کا بیان ہے کہ ہم سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس تمہارے چچا زاد آئے تھے، ان کا اشارہ حسن بن محمد ابن حنفیہ کی طرف تھا، انهوں نے پوچھا: غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: نبی ﷺ تین چلو لیتے اور انہیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے تھے۔ حسن نے کہا: میں تو بہت بالوں والا شخص ہوں۔ میں نے جواب دیا: نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:256]
حدیث حاشیہ:

حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور اس مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔
اس سے زیادہ پرصفائی کا مدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔
(فتح الباري: 478/1)

اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔
(عمدة القاري: 24/3)

اس سے معلوم ہوا کہ حسن بن محمد کا یہ سوال ابو جعفر کے ذکر کردہ سوال سے الگ ہے، دونوں واقعات میں حضرت جابر ؓ سے تعرض کرنے والے حسن بن محمد ہیں۔
سابق الذکر میں انھوں نے مقدار پانی پر اعتراض کیا تھا کہ مجھے اتنا کافی نہیں ہوتا اور یہاں انھوں نے کیفیت پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح میرے بال صاف نہیں ہوتے۔
پہلے واقعے کے وقت ابو جعفر موجود تھے، جبکہ اس واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔
(فتح الباري: 478/1)

حضرت جابر ؓ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین حضرت حسین ؓ کے بیٹے ہیں۔
اورحسن حضرت محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہیں گویا حضرت حسین اور حضرت محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔
لہٰذا حضرت حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت جابر ؓ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔
(فتح الباري: 478/1)

حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی تھیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔
کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ حضرت علی ؓ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔
واللہ أعلم۔
انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 256   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.