The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
35. بَابُ فَضْلِ الْمَنِيحَةِ:
35. باب: تحفہ «منيحة» کی فضیلت کے بارے میں۔
(35) Chapter. The superiority of the Maniha, i.e., a milch she-camel or a sheep lent to somebody to use its milk and return it to its owner afterwards.
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، قال: حدثني عطاء، عن جابر رضي الله عنه، قال:" كانت لرجال منا فضول ارضين، فقالوا: نؤاجرها بالثلث والربع والنصف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من كانت له ارض فليزرعها او ليمنحها اخاه، فإن ابى فليمسك ارضه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَتْ لِرِجَالٍ مِنَّا فُضُولُ أَرَضِينَ، فَقَالُوا: نُؤَاجِرُهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا أَوْ لِيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُمْسِكْ أَرْضَهُ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عطاء نے بیان کیا، ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم میں سے بہت سے اصحاب کے پاس فالتو زمین بھی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ تہائی یا چوتھائی یا نصف کی بٹائی پر ہم کیوں نہ اسے دے دیا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود بونی چاہئے یا پھر کسی اپنے بھائی کو ہدیہ کر دینی چاہئے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر زمین اپنے پاس رکھے رہے۔“
Narrated Jabir: Some men had superfluous land and they said that they would give it to others to cultivate on the condition that they would get one-third or one-fourth or one half of its yield. The Prophet said, "Whoever has land should cultivate it himself or give it to his brother or keep it uncultivated."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 801
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2451
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں، جنہیں وہ تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو ان میں وہ یا تو خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے، اگر یہ دونوں نہ کرے تو اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2451]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: اپنے پاس رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین خالی پڑی رہنے دے۔ اور ظاہر ہے کہ خالی پڑی رہنے کی صورت میں زمین سےکچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ توکیا یہ بہتر نہیں کہ کسی کوفائدہ اٹھانے دے۔ یہ سخاوت اورافضل عمل کی ترغیب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2451
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2632
2632. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس فالتو زمینیں تھیں تو وہ آپس میں یوں گفتگو کرتے تھے کہ ہم ان زمینوں کو تہائی، چوتھائی یا نصف پیداوار پر کاشت کے لیے دیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بطور عطیہ مستعار دے دے۔ اگر اسے یہ منظور نہیں تو اپنی زمین اپنے ساتھ باندھ رکھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2632]
حدیث حاشیہ: (1) دراصل جب مہاجرین کی مدینہ طیبہ آمد ہوئی تو زمینوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہو گیا۔ جو زمینیں آباد تھیں ان کے متعلق بٹائی کا طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ مہاجرین دوسروں پر بوجھ نہ بنیں اور محنت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں، اس کے علاوہ کچھ زمینیں غیر آباد تھیں جنہیں فالتو زمینیں کہا گیا ہے۔ زمیندار پانی کی قلت یا کسی اور وجہ سے انہیں آباد نہیں کر پاتا۔ یہ زمینیں قابل زراعت تو ہوتی ہیں، ایسی زمینوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا کہ زمینوں کو مالک خود آباد کرے یا آنے والوں کو بطور منیحہ (عطیہ) دے تاکہ وہ انہیں آباد کریں۔ منیحہ میں وہ چیز اصل مالک کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی زمینیں مناسب موقع پر واپس کر دی جائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے منیحہ کے درخت غزوۂ خیبر کے بعد واپس کر دیے تھے۔ (2) ان احادیث کے پیش نظر اشتراکیت کے حق میں یہ فتویٰ دینا محل نظر ہے کہ زمینداری نظام حرام ہے یا غیر حاضر مالک زمین کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو شوق دلایا کہ وہ اپنی فالتو زمینیں آباد کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کریں ورنہ زمینیں اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2632