25. باب: سفر اور حضر میں یتیم سے کام لینا جس میں اس کی بھلائی ہو اور ماں اور سوتیلے باپ کا یتیم پر نظر ڈالنا۔
(25) Chapter. The employment of an orphan on a journey and at home, provided it is beneficial for him. And (it is obligatory) for the mother and the stepfather of an orphan to look after him (even if they were not his guardians).
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن كثير، حدثنا ابن علية، حدثنا عبد العزيز، عن انس رضي الله عنه، قال:" قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ليس له خادم، فاخذ ابو طلحة بيدي، فانطلق بي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن انسا غلام كيس فليخدمك، قال: فخدمته في السفر والحضر، ما قال لي لشيء صنعته لم صنعت هذا هكذا، ولا لشيء لم اصنعه لم، لم تصنع هذا هكذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ كَيِّسٌ فَلْيَخْدُمْكَ، قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا، وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ، لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن کثیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ‘ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا۔ اس لیے ابوطلحہ (جو میرے سوتیلے باپ تھے) میرا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس سمجھ دار بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر اور حضر میں خدمت کی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی کسی کام کے بارے میں جسے میں نے کر دیا ہو ‘ یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا ‘ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جسے میں نہ کر سکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔
Narrated Anas: When Allah's Apostle came to Medina; he did not have any servant. Abu Talha (Anas' step-father) took me to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Anas is a wise boy, so let him serve you." So, I served him at home and on journeys. If I did anything, he never asked me why I did it, and if I refrained from doing anything, he never asked me why I refrained from doing it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 29
اكتم سري تكن مؤمنا ، فما أخبرت بسره أحدا ، وإن كانت أمي ، وأزواج النبى صلى الله عليه وآله وسلم يسألنني أن أخبرهن بسره فلا أخبرهن ولا أخبر بسره أحدا أبدا ، ثم قال : يا بني أسبغ الوضوء يزد فى عمرك ويحبك حافظاك ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تبيت إلا على وضوء فافعل ، فإنه من أتاه الموت وهو على وضوء أعطي الشهادة ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تزال تصلي فافعل فإن الملائكة لا تزال تصلي عليك ما دمت تصلي ، ثم قال : يا بني ، إياك والالتفات فى الصلاة ، فإن الالتفات فى الصلاة هلكة ، فإن كان لا بد ففي التطوع لا فى الفريضة ، ثم قال لي : يا بني ، إذا ركعت فضع كفيك على ركبتيك ، وافرج بين أصابعك ، وارفع يديك على جنبيك ، فإذا رفعت رأسك من الركوع فكن لكل عضو موضعه ، فإن الله لا ينظر يوم القيامة إلى من لا يقيم صلبه فى ركوعه وسجوده ، ثم قال : يا بني ، إذا سجدت فلا تنقر كما ينقر الديك ، ولا تقع كما يقعي الكلب ، ولا تفترش ذراعيك افتراش السبع ، وافرش ظهر قدميك الأرض ، وضع إليتيك على عقبيك فإن ذلك أيسر عليك يوم القيامة فى حسابك ، ثم قال : يا بني بالغ فى الغسل من الجنابة تخرج من مغتسلك ليس عليك ذنب ولا خطيئة ، قلت : بأبي وأمي ، ما المبالغة ؟ ، قال : تبل أصول الشعر ، وتنقي البشرة ، ثم قال لي : يا بني ، إن إذا قدرت أن تجعل من صلواتك فى بيتك شيئا فافعل فإنه يكثر خير بيتك ، ثم قال لي : يا بني ، إذا دخلت على أهلك فسلم يكن بركة عليك وعلى أهل بيتك ، ثم قال : يا بني ، إذا خرجت من بيتك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا سلمت عليه ترجع وقد زيد فى حسناتك ، ثم قال لي : يا بني ، إن قدرت أن تمسي وتصبح وليس فى قلبك غش لأحد فافعل ، ثم قال لي : يا بني ، إذا خرجت من أهلك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا ظننت أن له الفضل عليك ، ثم قال لي : يا بني ، إن حفظت وصيتي فلا يكونن شيء أحب إليك من الموت ، ثم قال لي : يا بني إن ذلك من سنتي ومن أحيا سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي فى الجنة
دعوه ، فإنه لا يكون إلا ما أراد الله ، وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم انتقم لنفسه من شيء قط إلا أن تنتهك لله حرمة ، فإذا انتهكت لله حرمة ، كان أشد الناس غضبا لله عز وجل ، وما عرض عليه أمران قط إلا اختار أيسرهما ما لم يكن لله فيه سخط ، فإن كان لله فيه سخط كان أبعد الناس منه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4773
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور تحمل و بردباری کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4773]
فوائد ومسائل: رسول اللہﷺ حلم اور اخلاقِ حسنہ کی شاندار تصویر تھے اور بچوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی کبھی نبی اکرمﷺ کو ایسا موقع نہیں دیا تھا جو آپ کے ذوق اور مزاج کے لیئے گرانی کا باعث بنتا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4773
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2768
2768. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کا کوئی خدمت گزار نہیں تھا۔ حضرت ابوطلحہ ؓ میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یقینا!انس ایک زیرک بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سفر و حضر میں آپ کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ نے مجھے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ کبھی نہ فرمایا: تم نے اس طرح کیوں کیا؟ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جو میں نہ کر سکا، آپ نے کبھی سر زنش نہ کی تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2768]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو طلحہ نے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے سوتیلے باپ تھے‘ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کردیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے نکل رہے تھے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ قابل صد مبارک باد ہیںکہ ان کو سفر و حضر میں پورے دس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع حاصل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا بہت قریب سے انہوں نے معائنہ کیا اور قیامت تک کے لئے وہ خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے دنیا میں یادگار رہ گئے (رضی اللہ عنہ وارضاہ) یہ ابو طلحہ زید بن سہل انصاری شوہر ام سلیم (والدہ انس) کے ہیں اوراس حدیث کے جملہ راوی بصری ہیں جس طرح کہ قسطلانی نے بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2768
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2768
2768. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کا کوئی خدمت گزار نہیں تھا۔ حضرت ابوطلحہ ؓ میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یقینا!انس ایک زیرک بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سفر و حضر میں آپ کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ نے مجھے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ کبھی نہ فرمایا: تم نے اس طرح کیوں کیا؟ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جو میں نہ کر سکا، آپ نے کبھی سر زنش نہ کی تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2768]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب یتیم میں خدمت کرنے کی صلاحیت ہو تو اسے سفر میں ساتھ لے جانا جائز ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ حضرت انس ؓ کے سوتیلے باپ تھے کیونکہ ان کی والدہ ام سلیم ؓ سے انہوں نے نکاح کر لیا تھا۔ حضرت انس ؓ کی عمر دس سال تھی جب انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا، پھر انہیں دس سال تک سفر و حضر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا موقع ملا۔ انہوں نے بہت قریب سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا مطالعہ کیا اور قیامت تک وہ رسول اللہ ﷺ کے خدمت گزار کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ جب حضرت انس ؓ فوت ہوئے تو ان کی عمر سو سال سے زیادہ تھی۔ (2) حضرت انس ؓ کے خادم بننے کی تفصیل اس طرح ہے کہ ان کی والدہ ام سلیم نے انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے پیش کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1982) پھر حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان کی اجازت سے غزوۂ خیبر کے لیے جاتے وقت دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 2893)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2768