الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
27. بَابُ مَنِ اسْتَعَانَ عَبْدًا أَوْ صَبِيًّا:
27. باب: جس نے کسی غلام یا بچہ کو کام کیلئے عاریتاً مانگ لیا۔
(27) Chapter. Whoever sought the help of a slave or a boy.
حدیث نمبر: Q6911
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر ان ام سلمة بعثت إلى معلم الكتاب ابعث إلي غلمانا ينفشون صوفا ولا تبعث إلي حرا.وَيُذْكَرُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ بَعَثَتْ إِلَى مُعَلِّمِ الْكُتَّابِ ابْعَثْ إِلَيَّ غِلْمَانًا يَنْفُشُونَ صُوفًا وَلَا تَبْعَثْ إِلَيَّ حُرًّا.
‏‏‏‏ جیسا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مدرسہ کے معلم کو لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے پاس اون صاف کرنے کے لیے کچھ غلام بچے بھیج دو اور کسی آزاد کو نہ بھیجنا۔

حدیث نمبر: 6911
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عمرو بن زرارة، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد العزيز، عن انس، قال:" لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اخذ ابو طلحة بيدي، فانطلق بي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن انسا غلام كيس، فليخدمك، قال: فخدمته في الحضر والسفر، فوالله ما قال لي لشيء صنعته لم صنعت هذا هكذا، ولا لشيء لم اصنعه لم لم تصنع هذا هكذا".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ كَيِّسٌ، فَلْيَخْدُمْكَ، قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَوَاللَّهِ مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا، وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا".
مجھ سے عمر بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، انہیں عبدالعزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو طلحہ رضی اللہ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا: یا رسول اللہ! انس سمجھ دار لڑکا ہے اور یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سفر میں بھی کی اور گھر پر بھی۔ واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے کسی چیز کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور نہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔

Narrated `Abdul-`Aziz: Anas said, "When Allah's Apostle arrived at Medina, Abu Talha took hold of my hand and brought me to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Anas is an intelligent boy, so let him serve you." Anas added, "So I served the Prophet L at home and on journeys; by Allah, he never said to me for anything which I did: Why have you done this like this or, for anything which I did not do: 'Why have you not done this like this?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 46


   صحيح البخاري6038أنس بن مالكخدمت النبي عشر سنين فما قال لي أف ولا لم صنعت ولا ألا صنعت
   صحيح البخاري6911أنس بن مالكخدمته في الحضر والسفر فوالله ما قال لي لشيء صنعته لم صنعت هذا هكذا ولا لشيء لم أصنعه لم لم تصنع هذا هكذ
   صحيح البخاري2768أنس بن مالكخدمته في السفر والحضر ما قال لي لشيء صنعته لم صنعت هذا هكذا ولا لشيء لم أصنعه لم لم تصنعه
   صحيح مسلم6011أنس بن مالكخدمت رسول الله عشر سنين والله ما قال لي أفا قط ولا قال لي لشيء لم فعلت كذا وهلا فعلت كذا
   صحيح مسلم6014أنس بن مالكخدمت رسول الله تسع سنين فما أعلمه قال لي قط لم فعلت كذا وكذا ولا عاب علي شيئا قط
   صحيح مسلم6013أنس بن مالكخدمته في السفر والحضر والله ما قال لي لشيء صنعته لم صنعت هذا هكذا ولا لشيء لم أصنعه لم لم تصنع هذا هكذا
   صحيح مسلم6016أنس بن مالكخدمته تسع سنين ما علمته قال لشيء صنعته لم فعلت كذا وكذا أو لشيء تركته هلا فعلت كذا وكذا
   سنن أبي داود4774أنس بن مالكخدمت النبي عشر سنين بالمدينة وأنا غلام ليس كل أمري كما يشتهي صاحبي أن أكون عليه ما قال لي فيها أف قط وما قال لي لم فعلت هذا أو ألا فعلت هذا
   سنن أبي داود4773أنس بن مالكخدمته سبع سنين أو تسع سنين ما علمت قال لشيء صنعت لم فعلت كذا وكذا ولا لشيء تركت هلا فعلت كذا وكذا
   المعجم الصغير للطبراني893أنس بن مالك اكتم سري تكن مؤمنا ، فما أخبرت بسره أحدا ، وإن كانت أمي ، وأزواج النبى صلى الله عليه وآله وسلم يسألنني أن أخبرهن بسره فلا أخبرهن ولا أخبر بسره أحدا أبدا ، ثم قال : يا بني أسبغ الوضوء يزد فى عمرك ويحبك حافظاك ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تبيت إلا على وضوء فافعل ، فإنه من أتاه الموت وهو على وضوء أعطي الشهادة ، ثم قال : يا بني ، إن استطعت أن لا تزال تصلي فافعل فإن الملائكة لا تزال تصلي عليك ما دمت تصلي ، ثم قال : يا بني ، إياك والالتفات فى الصلاة ، فإن الالتفات فى الصلاة هلكة ، فإن كان لا بد ففي التطوع لا فى الفريضة ، ثم قال لي : يا بني ، إذا ركعت فضع كفيك على ركبتيك ، وافرج بين أصابعك ، وارفع يديك على جنبيك ، فإذا رفعت رأسك من الركوع فكن لكل عضو موضعه ، فإن الله لا ينظر يوم القيامة إلى من لا يقيم صلبه فى ركوعه وسجوده ، ثم قال : يا بني ، إذا سجدت فلا تنقر كما ينقر الديك ، ولا تقع كما يقعي الكلب ، ولا تفترش ذراعيك افتراش السبع ، وافرش ظهر قدميك الأرض ، وضع إليتيك على عقبيك فإن ذلك أيسر عليك يوم القيامة فى حسابك ، ثم قال : يا بني بالغ فى الغسل من الجنابة تخرج من مغتسلك ليس عليك ذنب ولا خطيئة ، قلت : بأبي وأمي ، ما المبالغة ؟ ، قال : تبل أصول الشعر ، وتنقي البشرة ، ثم قال لي : يا بني ، إن إذا قدرت أن تجعل من صلواتك فى بيتك شيئا فافعل فإنه يكثر خير بيتك ، ثم قال لي : يا بني ، إذا دخلت على أهلك فسلم يكن بركة عليك وعلى أهل بيتك ، ثم قال : يا بني ، إذا خرجت من بيتك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا سلمت عليه ترجع وقد زيد فى حسناتك ، ثم قال لي : يا بني ، إن قدرت أن تمسي وتصبح وليس فى قلبك غش لأحد فافعل ، ثم قال لي : يا بني ، إذا خرجت من أهلك فلا يقعن بصرك على أحد من أهل القبلة ، إلا ظننت أن له الفضل عليك ، ثم قال لي : يا بني ، إن حفظت وصيتي فلا يكونن شيء أحب إليك من الموت ، ثم قال لي : يا بني إن ذلك من سنتي ومن أحيا سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي فى الجنة
   المعجم الصغير للطبراني906أنس بن مالك دعوه ، فإنه لا يكون إلا ما أراد الله ، وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم انتقم لنفسه من شيء قط إلا أن تنتهك لله حرمة ، فإذا انتهكت لله حرمة ، كان أشد الناس غضبا لله عز وجل ، وما عرض عليه أمران قط إلا اختار أيسرهما ما لم يكن لله فيه سخط ، فإن كان لله فيه سخط كان أبعد الناس منه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4773  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور تحمل و بردباری کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4773]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ حلم اور اخلاقِ حسنہ کی شاندار تصویر تھے اور بچوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے۔
نیز حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی کبھی نبی اکرمﷺ کو ایسا موقع نہیں دیا تھا جو آپ کے ذوق اور مزاج کے لیئے گرانی کا باعث بنتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4773   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6911  
6911. حضرت انس ؓ سے ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدنیہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو طلحہ ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سفر حضر میں آپ ﷺ کی خدمت گزاری کا فریضہ ادا کیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے کسی کے متعلق جو میں نے کیا یہ نہیں کہا: تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی کام کے متعلق جو میں نے کیا، یہ کہا تو نے وہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6911]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی کفالت میں تھے۔
انھوں نے اس بات کو سعادت خیال کیا کہ ان کا بیٹا رات دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرے کیونکہ اس میں دنیا وآخرت کی بھلائیاں تھیں۔
اس جذبے سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور اس وقت ان کے ہمراہ شوہر نامدار حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس لیے واقعے کی نسبت کبھی والدہ اور کبھی ان کے شوہر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی۔
(2)
ایک دوسرا واقعہ بھی اس طرح کا منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے خیبر جاتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے کوئی بچہ تلاش کرو جو میری دوران سفر میں خدمت کرے تو انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔
(فتح الباري: 316/12)
بہرحال غلاموں اور بچوں سے خدمت لی جا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ مدرسے کے اساتذہ کو بچوں سے خدمت لینے سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ فتنے وفساد کا دور ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6911   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.