الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
116. بَابُ مُبَادَرَةِ الإِمَامِ عِنْدَ الْفَزَعِ:
116. باب: خوف اور دہشت کے وقت (حالات معلوم کرنے کے لیے) امام کا آگے بڑھنا۔
(116) Chapter. The setting out of the Imam, before the people at the time of fright.
حدیث نمبر: 2968
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، حدثني قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: كان بالمدينة فزع فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرسا لابي طلحة، فقال:" ما راينا من شيء وإن وجدناه لبحرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَزَعٌ فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ، فَقَالَ:" مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيْءٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک دفعہ کچھ دہشت پھیل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر (حالات معلوم کرنے کے لیے سب سے آگے تھے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو کوئی بات نہیں دیکھی۔ البتہ اس گھوڑے کو ہم نے دوڑنے میں دریا کی روانی جیسا تیز پایا ہے (باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے)۔

Narrated Anas bin Malik: Once there was a feeling of fright at Medina, so Allah's Apostle rode a horse belonging to Abu Talha and (on his return) he said, "We have not seen anything (fearful), but we found this horse very fast."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 212


   صحيح البخاري2867أنس بن مالكوجدنا فرسكم هذا بحرا
   صحيح البخاري2862أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2857أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2627أنس بن مالكاستعار النبي فرسا من أبي طلحة يقال له المندوب فركب فلما رجع قال ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2866أنس بن مالكعلى فرس عري ما عليه سرج في عنقه سيف
   صحيح البخاري2908أنس بن مالكلم تراعوا لم تراعوا ثم قال وجدناه بحرا أو قال إنه لبحر
   صحيح البخاري6033أنس بن مالكلن تراعوا لن تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه سيف فقال لقد وجدته بحرا أو إنه لبحر
   صحيح البخاري2820أنس بن مالكسبقهم على فرس وقال وجدناه بحرا
   صحيح البخاري6212أنس بن مالكما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري3040أنس بن مالكتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ثم قال رسول الله وجدته بحرا يعني الفرس
   صحيح البخاري2968أنس بن مالكما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2969أنس بن مالكلم تراعوا إنه لبحر فما سبق بعد ذلك اليوم
   صحيح مسلم6006أنس بن مالكأحسن الناس وكان أجود الناس وكان أشجع الناس فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق ناس قبل الصوت فتلقاهم رسول الله راجعا وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري في عنقه السيف وهو يقول لم تراعوا لم تراعوا قال وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال وكان فرسا يبطأ
   صحيح مسلم6007أنس بن مالكفزع فاستعار النبي فرسا لأبي طلحة يقال له مندوب فركبه فقال ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذي1685أنس بن مالكما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذي1687أنس بن مالكأحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس قد فزع أهل المدينة ليلة سمعوا صوتا قال فتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا فقال النبي وجدته بحرا
   جامع الترمذي1686أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن أبي داود4988أنس بن مالكما رأينا شيئا أو ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن ابن ماجه2772أنس بن مالكلن تراعوا يردهم ثم قال للفرس وجدناه بحرا أو إنه لبحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4988   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2968  
2968. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں خوف و ہراس پھیلا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو کر خود پیش قدمی کی اور واپس آکر فرمایا: ہم نے تو وہاں کچھ نہیں دیکھا، البتہ اس گھوڑے کو دریا جیسا پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2968]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒنے متعدد مسائل کااستباط کیا ہے۔
اس مقام پر عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ خوف و ہراس کے وقت کسی سپاہی کو حکم دینے کی بجائے خود امام کافریضہ ہے کہ وہ اس کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے پیش قدمی کرے،چنانچہ ایسے حالات میں خود رسول اللہ ﷺ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اورگلے میں تلوار لٹکائی، پھر مقام خوف کی طرف پیش قدمی کی اورلوگوں کوتسلی دی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2968   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.