الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
46. بَابُ اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ:
46. باب: گھوڑوں اور گدھوں کا نام رکھنا۔
(46) Chapter. To name a horse and a donkey.
حدیث نمبر: 2857
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، سمعت قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" كان فزع بالمدينة فاستعار النبي صلى الله عليه وسلم فرسا لنا، يقال له: مندوب، فقال: ما راينا من فزع وإن وجدناه لبحرا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لَنَا، يُقَالُ لَهُ: مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے قتادہ سے سنا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا (ایک رات) مدینہ میں کچھ خطرہ سا محسوس ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا جو آپ کے عزیز تھے) گھوڑا منگوایا، گھوڑے کا نام مندوب تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خطرہ تو ہم نے کوئی نہیں دیکھا البتہ اس گھوڑے کو ہم نے سمندر پایا ہے۔

Narrated Anas bin Malik: Once there was a feeling of fright in Medina, so the Prophet borrowed a horse belonging to us called Mandub (and he rode away on it). (When the Prophet returned) he said, "I have not seen anything of fright and I found it (i.e. this horse) very fast."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 109


   صحيح البخاري2867أنس بن مالكوجدنا فرسكم هذا بحرا
   صحيح البخاري2862أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2857أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2627أنس بن مالكاستعار النبي فرسا من أبي طلحة يقال له المندوب فركب فلما رجع قال ما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2866أنس بن مالكعلى فرس عري ما عليه سرج في عنقه سيف
   صحيح البخاري2908أنس بن مالكلم تراعوا لم تراعوا ثم قال وجدناه بحرا أو قال إنه لبحر
   صحيح البخاري6033أنس بن مالكلن تراعوا لن تراعوا وهو على فرس لأبي طلحة عري ما عليه سرج في عنقه سيف فقال لقد وجدته بحرا أو إنه لبحر
   صحيح البخاري2820أنس بن مالكسبقهم على فرس وقال وجدناه بحرا
   صحيح البخاري6212أنس بن مالكما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري3040أنس بن مالكتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا ثم قال رسول الله وجدته بحرا يعني الفرس
   صحيح البخاري2968أنس بن مالكما رأينا من شيء وإن وجدناه لبحرا
   صحيح البخاري2969أنس بن مالكلم تراعوا إنه لبحر فما سبق بعد ذلك اليوم
   صحيح مسلم6006أنس بن مالكأحسن الناس وكان أجود الناس وكان أشجع الناس فزع أهل المدينة ذات ليلة فانطلق ناس قبل الصوت فتلقاهم رسول الله راجعا وقد سبقهم إلى الصوت وهو على فرس لأبي طلحة عري في عنقه السيف وهو يقول لم تراعوا لم تراعوا قال وجدناه بحرا أو إنه لبحر قال وكان فرسا يبطأ
   صحيح مسلم6007أنس بن مالكفزع فاستعار النبي فرسا لأبي طلحة يقال له مندوب فركبه فقال ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذي1685أنس بن مالكما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا
   جامع الترمذي1687أنس بن مالكأحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس قد فزع أهل المدينة ليلة سمعوا صوتا قال فتلقاهم النبي على فرس لأبي طلحة عري وهو متقلد سيفه فقال لم تراعوا لم تراعوا فقال النبي وجدته بحرا
   جامع الترمذي1686أنس بن مالكما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن أبي داود4988أنس بن مالكما رأينا شيئا أو ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا
   سنن ابن ماجه2772أنس بن مالكلن تراعوا يردهم ثم قال للفرس وجدناه بحرا أو إنه لبحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2772  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں میں سب سے ممتاز تھے۔

(2)
مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہوتو ہر مسلمان کو اس کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار ہونا چاہیے۔

(3)
گھوڑے پر زین وغیرہ ڈالے بغیر سوار ہونا چاہیے جو عوام کے لیے ایک نمونہ بن سکے۔

(5)
کسی کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس سے ساتھیوں اور ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے البتہ بے موقع تعریف جس سے فخر وتکبر کے جذبات پیدا ہونے کا خطرہ ہو اور خوشامد ممنوع ہے۔

(6)
رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ سے کثیر مواقع پر حاصل ہونے والی برکت رسول اللہﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2772   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1685  
´گھبراہٹ کے وقت باہر نکلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1685]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1685   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4988  
´الفاظ کے استعمال میں توسع کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا: ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4988]
فوائد ومسائل:
1) رسول اللہﷺ نے گھوڑے کی سبک رفتاری کو اس کے سمندر ہونے سے تشبیہ دی ہے۔
تو اس سے محدث رحمتہ اللہ کا استد لال یہ ہے کہ اگر اندھیرے کی نسبت سے عشاء کی نماز کو کبھی عتمہ یاسوتے کی نماز کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
2) صاحب ایمان کو جری اور بہادر ہوناچاہئےاور اپنے معاشرے میں عام اصلاحی کاموں میں سب سے آگے ہونا چاہئےجیسے رسول اللہﷺ تھے۔
3) کبھی کبھار عام استعمال کی چیزیں عاریتا لے لینےمیں کوئی قباحت نہیں ہےاور مسلمانوں کو اس سلسلے میں بخیل نہیں ہونا چاہئے لیکن عاریتا لینے والے کوبھی چاہئے کہ فراغت کے بعد اس چیز کو پوری ذمے داری کےساتھ واپس کردے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4988   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2857  
2857. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک رات مدینہ طیبہ میں کچھ دہشت سی طاری ہوئی تو نبی ﷺ نے ہمارا ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھاپھر آپ نے فرمایا: ہم نے تو کوئی خوف کی بات نہیں دیکھی، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح (خوب تیز رو) پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2857]
حدیث حاشیہ:
ایک دفعہ مدینہ میں رات کو ایسا خیال لوگوں کو ہوا کہ اچانک کسی دشمن نے شہر پر حملہ کردیا ہے‘ آنحضرت ﷺ خود بنفس نفیس مندوب گھوڑے پر سوار ہو کر اندھیری رات میں اس کی تحقیق کے لئے نکلے مگر اس افواہ کو آپ ﷺ نے غلط پایا‘ یہی واقعہ یہاں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2857   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2857  
2857. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک رات مدینہ طیبہ میں کچھ دہشت سی طاری ہوئی تو نبی ﷺ نے ہمارا ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جاتا تھاپھر آپ نے فرمایا: ہم نے تو کوئی خوف کی بات نہیں دیکھی، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح (خوب تیز رو) پایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2857]
حدیث حاشیہ:
1ان احادیث سے مقصود یہ ہے کہ نام وغیرہ رکھنا صرف انسان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ حیوانات کے نام رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
امام بخاری ؒنے اس سلسلے میں چار احادیث پیش کی ہیں۔
پہلی حدیث میں حضرت ابوقتادہ ؓ کے گھوڑے کا نام جرادہ ذکر ہوا جبکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺکے ایک گھوڑے کا نام"لحیف یالخیف" بیان ہواہے۔
تیسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا گدھے پر سوار ہونا ذکر کیا جس کانام عفیر تھا اور چوتھی حدیث میں حضرت ابوطلحہ ؓکے گھوڑے کا نام "مندوب" بیان ہوا ہے۔
ان احادیث میں صرف گھوڑوں اور گدھے کے نام ہیں۔
دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک"دلدل" نامی خچر بھی تھا اور ایک اونٹنی کا نام "قصواء" اور دوسری کا نام "عضباء" تھا، نیز آپ کی سات بکریاں تھیں جن کے الگ الگ نام تھے۔
ان میں سے ایک کا نام "عیثہ" تھا اور رسول اللہ ﷺ کے چوبیس گھوڑے جن کے الگ نام تھے،چنانچہ سکب اور مرتجز کے نام کتب احادیث میں ملتے ہیں۔
(عمدة القاري: 172/10)

دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اگرسواری کا جانور برداشت کرسکتا ہو تو زیادہ افراد اس پر سواری کرسکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2857   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.