الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
138. بَابُ الْجِهَادِ بِإِذْنِ الأَبَوَيْنِ:
138. باب: ماں باپ کی اجازت لے کر جہاد میں جانا۔
(138) Chapter. The participation in Jihad with one’s parent’s permission.
حدیث نمبر: 3004
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا حبيب بن ابي ثابت، قال: سمعت ابا العباس الشاعر وكان لا يتهم في حديثه، قال: سمعت عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، يقول: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاستاذنه في الجهاد، فقال:" احي والداك"، قال: نعم، قال:" ففيهما فجاهد".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ وَكَانَ لَا يُتَّهَمُ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ:" أَحَيٌّ وَالِدَاكَ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے کہا، ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوالعباس (شاعر ہونے کے ساتھ) روایت حدیث میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد تھے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر انہیں میں جہاد کرو۔ (یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو)۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: A man came to the Prophet asking his permission to take part in Jihad. The Prophet asked him, "Are your parents alive?" He replied in the affirmative. The Prophet said to him, "Then exert yourself in their service."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 248


   صحيح البخاري3004عبد الله بن عمروجاء رجل إلى النبي فاستأذنه في الجهاد فقال أحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح البخاري5972عبد الله بن عمرولك أبوان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح مسلم6507عبد الله بن عمروارجع إلى والديك فأحسن صحبتهما
   صحيح مسلم6504عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   جامع الترمذي1671عبد الله بن عمروألك والدان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن أبي داود2529عبد الله بن عمروفيهما فجاهد
   سنن أبي داود2528عبد الله بن عمروارجع عليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن النسائى الصغرى3105عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن النسائى الصغرى4168عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن ابن ماجه2782عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   بلوغ المرام1083عبد الله بن عمرو أحي والداك ؟
   مسندالحميدي595عبد الله بن عمروفارجع إليهما وأضحكهما كما أبكيتهما
   مسندالحميدي596عبد الله بن عمروففيهما فجاهد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2782  
´ماں باپ کی زندگی میں جہاد کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2782]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین کو پریشان اور غمگین کرنے س بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
والدین کو پریشان کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا کام کیا جائے جس سے وہ خوش ہو جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2782   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1083  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ (بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1083»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»
تشریح:
1. اس حدیث سے والدین کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں جہاد جیسا فریضہ بھی والدین کی رضامندی کے بغیر ادا نہیں کیا جاسکتا۔
2.آج کا نوجوان والدین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اپنی من مانی کرتا ہے اور والدین کو اپنی رائے کا پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
3.والدین کی رضامندی کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی ہے کہ جہاد تو فرض کفایہ ہے جبکہ والدین کی اطاعت فرض عین ہے۔
ظاہر ہے کہ فرض عین کو فرض کفایہ پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1083   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1671  
´ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو،
کیوں کہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں،
اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہوگا،
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضا کارانہ طورپرجہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے،
لیکن اگر حالات وظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں،
بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1671   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2528  
´ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2528]
فوائد ومسائل:
والدین مسلمان ہوں او ر جہاد فرض نہ ہو تو ان کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ دیگر مجاہدین اس کی کفایت کر سکتے ہیں۔
لیکن جب جہاد فرض ہو تو اجازت لینے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم ایسے حالات میں کہ والدین باوجود مسلمان ہونے کے جہاد کی شرعی اہمیت و ضرورت سے آگاہ نہ ہوں۔
یا آگاہ نہ ہونا چاہیں۔
اور بذدلی کا شکار ہوں۔
مادی خدمات کے لئے اولاد بھی موجود ہو اور پھر بھی اجازت نہ دیں تو پھر مسئلہ امیر جہاد کے سامنے پیش کیا جائےاور اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2528   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3004  
3004. حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کرنے میں خوب محنت کر(یہی تیرا جہاد ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3004]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان کی خدمت بجا لانا یہی تیرا جہاد ہے۔
اسی سے امام بخاریؒ نے باب کا مطلب نکالا کہ ماں باپ کی رضا مندی جہاد میں جانے کے واسطے لینا ضروری ہے۔
کیونکہ آنحضرتﷺ نے ان کی خدمت جہاد پر مقدم رکھی۔
کہتے ہیں کہ حضرت اویس قرنیؒ کی والدہ ضعیفہ زندہ تھیں‘ اور یہ ان کی خدمت میں مصروف تھے۔
اس لئے آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر نہ ہوسکے اور صحابیت کے شرف سے محروم رہ گئے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3004   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3004  
3004. حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔ آپ نےفرمایا: کیا تمھارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کرنے میں خوب محنت کر(یہی تیرا جہاد ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3004]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے والدین کی خدمت کو جہاد پر مقدم کیا ہے۔
یہ اس لیے کہ ماں باپ کی خدمت فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے البتہ دشمن سے لڑنے کے لیے حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے تو اس صورت میں جہاد فرض عین ہو گا ایسے حالات میں جہاد میں شرکت کے لیے والدین کی اجازت ضروری نہیں۔
ہمارے ہاں اس مسئلے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں؟ بعض عسکری تنظیمیں جہاد کے لیے والدین کی اجازت کو لائق توجہ ہی خیال نہیں کرتیں ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے۔
کہ جہاد اگر فرض عین ہو تو والدین کی اجازت لینا ضروری نہیں اور جہاد دو صورتوں میں فرض عین ہوتا ہے۔
دشمن جب اسلامی ملک پر حملہ کردے۔
حاکم وقت جہاد کا عام حکم دے دے۔
مذکورہ دو صورتوں میں والدین کی اجازت ضروری نہیں ان کے علاوہ جہاد کی جو صورت ہو گی اس میں والدین سے اجازت لینا ہو گی،چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
رسول اللہ ﷺنے اس سے دریافت فرمایا:
یمن میں تمھارا کوئی رشتے دار موجود ہے؟ اس نے کہا:
میرے والدین موجود ہیں آپ نے پوچھا:
تمھارے والدین نے تمھیں اجازت دی تھی؟ اس نے کہا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
پھر تم واپس چلے جاؤ اور اپنے والدین سے اجازت طلب کرو اگر وہ تمھیں اجازت دیں تو جہاد میں شرکت کرو بصورت دیگر ان سے سلوک کرتے رہو۔
(مسند أحمد: 57/3،76)
اگرچہ اس حدیث سند میں کچھ کلام ہے تاہم دیگر صحیح احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔
بہر حال جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں والدین سے اجازت لینا ضروری ہے اجازت نہ لینے کے متعلق ایک حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اور عرض کرنے لگا۔
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! سب سے افضل عمل کون ساہے؟ آپ نے فرمایا:
نماز اس نے عرض کی:
اس کے بعد کس عمل کی فضیلت ہے؟ آپ نے فرمایا:
جہاد کی۔
اس نے کہا میرے تو والدین زندہ ہیں۔
آپ نے فرمایا:
میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
اس نے کہا:
اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے!میں اپنے والدین کو چھوڑ کر ضرور جہاد میں شرکت کروں گا۔
آپ نے فرمایا:
پھر تم بہتر جانتے ہو۔
(مسند أحمد172/2)
لیکن اس روایت کی سند میں ابن لہیعہ اور حیی بن عبد اللہ المعافری ضعیف راوی ہیں۔
محدثین نے ان کے متعلق کلام کیا ہے اگر اس کی صحت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو حافظ ابن حجر ؒنے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے اس روایت کو جہاد کی اس صورت پر محمول کیا جائے گا جو فرض عین ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 170/6)
الغرض والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا انتہائی ضروری ہے اور جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں ان سے اجازت لینا بھی لازم ہے اس کے بغیر جہاد میں شرکت کرنا محل نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3004   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.