الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
The Book of al-Bay'ah
10. بَابُ : الْبَيْعَةِ عَلَى الْهِجْرَةِ
10. باب: ہجرت پر بیعت کا بیان۔
Chapter: Pledging To Emigrate (Al-Hijrah)
حدیث نمبر: 4168
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن حبيب بن عربي، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني جئت ابايعك على الهجرة ولقد تركت ابوي يبكيان، قال:" ارجع إليهما فاضحكهما كما ابكيتهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَلَقَدْ تَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، قَالَ:" ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا: تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 33 (2528)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 12 (2782)، (تحفة الأشراف: 8640)، مسند احمد (2/160، 194، 197، 198، 204) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت پر بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا، صرف اس آدمی کے مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کی بجائے ماں باپ کی خدمت میں لگے رہنے کی ہدایت کی، اس لیے اس حدیث سے ہجرت پر بیعت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح البخاري3004عبد الله بن عمروجاء رجل إلى النبي فاستأذنه في الجهاد فقال أحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح البخاري5972عبد الله بن عمرولك أبوان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   صحيح مسلم6507عبد الله بن عمروارجع إلى والديك فأحسن صحبتهما
   صحيح مسلم6504عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   جامع الترمذي1671عبد الله بن عمروألك والدان قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن أبي داود2529عبد الله بن عمروفيهما فجاهد
   سنن أبي داود2528عبد الله بن عمروارجع عليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن النسائى الصغرى3105عبد الله بن عمروأحي والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
   سنن النسائى الصغرى4168عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   سنن ابن ماجه2782عبد الله بن عمروارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
   بلوغ المرام1083عبد الله بن عمرو أحي والداك ؟
   مسندالحميدي595عبد الله بن عمروفارجع إليهما وأضحكهما كما أبكيتهما
   مسندالحميدي596عبد الله بن عمروففيهما فجاهد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4168  
´ہجرت پر بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا: تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4168]
اردو حاشہ:
(1) ہجرت پر بیعت لینا مشروع نہیں رہا‘ ہاں دار کفر سے دار اسلام کی طرف ہجرت باقی ہے لیکن بغیر بیعت کے۔
(2) ترجمۃ الباب یعنی ہجرت پر بیعت کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت پر بیعت کی نیت سے آنے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے،اس کے والدین کی عدم رضا مندی کی وجہ سے بیعت نہیں لی۔ اگر اس کے والدین کا مسئلہ نہ ہوتا تو آپ  بیعت لے لیتے۔ واللہ أعلم
(3) والدین کی نافرمانی اور ان کوایذا پہنچانا حرام اور ناجائز ہے۔ اسی طرح اگر جہاد کی فرضیت کے حالات بھی نہ ہوں تو اجازت کے بغیر جانا درست نہیں۔
(4) ہر دار کفر سے ہجرت کرنا فرض نہیں اگر قبضہ کافروں کا ہومگر وہ دینی امور میں رکاوٹ نہ ڈالتے ہوں تو وہاں سے ہجرت فرض نہیں جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں کو خود حبشہ بھیجا‘حالانکہ وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4168   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2782  
´ماں باپ کی زندگی میں جہاد کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2782]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین کو پریشان اور غمگین کرنے س بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
والدین کو پریشان کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا کام کیا جائے جس سے وہ خوش ہو جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2782   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1083  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ (بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1083»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»
تشریح:
1. اس حدیث سے والدین کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں جہاد جیسا فریضہ بھی والدین کی رضامندی کے بغیر ادا نہیں کیا جاسکتا۔
2.آج کا نوجوان والدین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اپنی من مانی کرتا ہے اور والدین کو اپنی رائے کا پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
3.والدین کی رضامندی کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی ہے کہ جہاد تو فرض کفایہ ہے جبکہ والدین کی اطاعت فرض عین ہے۔
ظاہر ہے کہ فرض عین کو فرض کفایہ پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1083   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1671  
´ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو،
کیوں کہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں،
اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہوگا،
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضا کارانہ طورپرجہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے،
لیکن اگر حالات وظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں،
بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1671   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2528  
´ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2528]
فوائد ومسائل:
والدین مسلمان ہوں او ر جہاد فرض نہ ہو تو ان کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ دیگر مجاہدین اس کی کفایت کر سکتے ہیں۔
لیکن جب جہاد فرض ہو تو اجازت لینے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم ایسے حالات میں کہ والدین باوجود مسلمان ہونے کے جہاد کی شرعی اہمیت و ضرورت سے آگاہ نہ ہوں۔
یا آگاہ نہ ہونا چاہیں۔
اور بذدلی کا شکار ہوں۔
مادی خدمات کے لئے اولاد بھی موجود ہو اور پھر بھی اجازت نہ دیں تو پھر مسئلہ امیر جہاد کے سامنے پیش کیا جائےاور اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2528   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.