الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menses (Menstrual Periods)
29. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ وَسُنَّتِهَا:
29. باب: اس بارے میں کہ نفاس میں مرنے والی عورت پر نماز جنازہ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟
(29) Chapter. The offering of a funeral prayer for a woman who had died during (or after) delivery and its (i.e., funeral prayer’s) legal way of its performing.
حدیث نمبر: 332
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن ابي سريج، قال: اخبرنا شبابة، قال: اخبرنا شعبة عن حسين المعلم، عن عبد الله بن بريدة، عن سمرة بن جندب،" ان امراة ماتت في بطن فصلى عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فقام وسطها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ،" أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا".
ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ بن سوار نے، کہا ہم سے شعبہ نے حسین سے۔ وہ عبداللہ بن بریدہ سے، وہ سمرہ بن جندب سے کہ ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے۔

Narrated Samura bin Jundub: The Prophet offered the funeral prayer for the dead body of a woman who died during delivery (i.e. childbirth) and he stood by the middle of her body.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 6, Number 328


   صحيح البخاري332سمرة بن جندبصلى عليها النبي فقام وسطها
   صحيح البخاري1331سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح البخاري1332سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح مسلم2235سمرة بن جندبصليت خلف النبي وصلى على أم كعب ماتت وهي نفساء فقام رسول الله للصلاة عليها وسطها
   صحيح مسلم2237سمرة بن جندبصليت وراء رسول الله على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها رسول الله في الصلاة وسطها
   جامع الترمذي1035سمرة بن جندبصلى على امرأة فقام وسطها
   سنن أبي داود3195سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها للصلاة وسطها
   سنن النسائى الصغرى1978سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن النسائى الصغرى1981سمرة بن جندبصلى على أم فلان ماتت في نفاسها فقام في وسطها
   سنن النسائى الصغرى393سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن ابن ماجه1493سمرة بن جندبصلى على امرأة ماتت في نفاسها فقام وسطها
   بلوغ المرام451سمرة بن جندبصليت وراء النبي صلى الله عليه وآله وسلم على امراة ماتت في نفاسها فقام وسطها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا اور اس کا طریقہ دلیل کے طور پر حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت نفاس کی حالت میں مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی (یہ عورت ام کعب انصاریہ تھیں)۔ [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح للموفق العدين ابي ذر العجمي، ج1، ص45]
مقصود یہ ہے کہ بعض لوگ حالت نفاس والی کو نجس قرار دیتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ عورت نفاس کے دوران ناپاک ہوتی تو اس پر نماز نہ پڑھی جاتی حالانکہ وہ نفاس میں نماز نہیں پڑھتی اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی کیوں کہ مومن زندہ ہو یا مردہ وہ پاک ہی ہوتا ہے اس حدیث کے ذیل میں صرف باب کہہ کر حدیث پیش کرتے ہیں جس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھ کو حیض آیا کرتا تھا نماز نہیں پڑتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سجدہ گاہ کے برابر پاؤں دراز کر کے لیٹی رہتی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر نماز پڑھتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کنارہ مجھ کو لگتا تھا یعنی آپ اس کپڑے کو ناپاک نہ جانتے۔ [صحيح البخاري كتاب الحيض رقم الحديث 333]
یعنی جب حائضہ کا کپڑا پاک ہوا تو جس جسم پر یہ پہنا ہوا تھا وہ بھی پاک ہے مناسبت یہیں سے نکلتی ہے۔ کہ مومن زندہ اور مردہ دونوں حالت میں پاک ہے۔
تنبیہ:
امام کرمانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى بطن» زچگی میں مر گئی۔‏‏‏‏ اس کا معنی یہ ہے کہ ولادت میں مر گئی۔‏‏‏‏ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ مبطون حالت میں مر گئی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہیں ہے کیونکہ ایک صریح حدیث موجود ہے کتاب الجنائز میں باب الصلاۃ علی النفساء میں جس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى نفاسها» کہ وہ عورت نفاس کی حالت میں مری، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہ تھا یہ وہم امام کرمانی رحمہ اللہ کو ہوا۔ تفصیل کے لئے [فتح الباري ج1، ص469] کا مطالعہ کیجئیے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 148   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

تشریح:
«في بطن» سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔
اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 332   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 393  
´نفاس والی عورتوں کی نماز جنازہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی نفاس میں وفات پا گئی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ میں ان کے بیچ میں (کمر کے پاس) کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 393]
393۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ نفاس کی حالت میں اگرچہ عورت خود نماز نہیں پڑھ سکتی مگر وہ فوت ہو جائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کا نفاس جنازے سے مانع نہیں، نیز وہ ظاہراً پلید نہیں، لہٰذا نمازی کے آگے رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مومن کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا، نہ جنابت سے، نہ حیض و نفاس سے اور نہ موت سے۔ نفاس سے جسم کی ناپاکی معنوی پلیدی ہے۔
➋ عورت کے جنازے میں امام چارپائی کے وسط کے برابر کھڑا ہو گا جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1332، و صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 964]
اس میں نفاس کا کوئی دخل نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 393   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 451  
´میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 451]
لغوی تشریح:
«فِي نِفَسِهَا» بچے کی پیدائش کے ایام میں۔ یہ خاتون ام کعب انصاریہ رضی اللہ عنہ تھیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ میت اگر مرد ہو تو امام کو اس کے سر کے برابر کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھانی چاہیے۔ [سنن ابي داود، الجنائز، حديث: 3194 وجامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1034]
امام شافعی رحمہ الله کا یہی قول ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بھی ایک قول اسی طرح منقول ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ اس کے برعکس علمائے احناف عموماً بِلا فرق مرد و عورت کے دل کے برابر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھاتے ہیں مگر اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ نصِ صریح کے مقابلے میں محض قیاس پر عمل کرتے ہیں کہ دل منبع ایمان ہے، اس لیے دل کے برابر کھڑا ہونا چاہیے لیکن یہ حقیقتاً حدیث کے خلاف ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1035  
´مرد اور عورت دونوں ہوں تو امام نماز جنازہ پڑھاتے وقت کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1035]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس عورت کا نام ام کعب ہے جیساکہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1035   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3195  
´جنازہ پڑھاتے ہوئے امام میت کے مقابل کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3195]
فوائد ومسائل:
مسلمان عورت اپنے ایام حیض اور نفاس کے دنوں میں فوت ہو تب بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3195   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:332  
332. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا زچگی میں انتقال ہو گیا تو نبی ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ پڑھتے وقت اس کے درمیان (کمر کے سامنے) کھڑے ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:332]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان میں امام بخاری ؒ دو باتیں بتلانا چاہتے ہیں:
۔
حالت نفاس میں مرنے والی کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
۔
جنازہ پڑھتے وقت اس کے وسط، یعنی کمر کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔
اس مسئلے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نفاس کی حالت نجاست کی حالت ہے اور اس حالت میں اسے موت آئی ہے، گویا موت آنے سے نجاست مستقر ہوگئی۔
اب سوال یہ ہے کہ نفاس کی حالتِ نجاست جب موت سے برقرار ہوگئی تو اس پر نماز جنازہ کی اجازت ہوگی؟ امام بخاری نے حدیث سے ثابت فرمایا کہ نفاس میں مرنے والی عورت کا جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔
یہ خیال کرنا کہ وہ تو پہلے ہی ناپاک تھی اور موت آنے سے اس کی ناپاکی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے نماز جنازہ پڑھنے کا کیا موقع ہے، یہ خیال صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک معنوی ناپاکی تھی جو موت آنے سے ختم ہوگئی اور حسی ناپاکی غسل دینے سے دھل گئی۔
وہ عورت پاک ہے۔
اس کے اندر ایمانی طہارت موجود ہے، لہذا نماز جنازہ پڑھنا درست ہوا۔
عنوان کا دوسرا جز کہ ایسی عورت کی نماز جنازہ کیسے پڑھی جائے؟ اس مسئلے کا اصل محل کتاب الجنائز ہے، چنانچہ وہاں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے:
مرد اور عورت کے جنازے میں امام کہاں کھڑا ہو؟ لیکن امام بخاری ؒ یہاں تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت کھڑے ہونے میں نفاس والی اوردوسری عورتوں میں کوئی فرق نہیں اور کتاب الجنائز میں جب مذکورہ عنوان آئے گا تو وہاں مقصد مسئلہ قیام ہی کا بیان ہوگا۔

شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ نفاس والی عورت چونکہ خود نماز نہیں پڑھ سکتی، اس لیے شاید کسی کے دل میں خیال پیدا ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔
امام بخاری نے تنبیہ فرمائی ہے کہ جنازے کے متعلق اس عورت کا حکم عام عورتوں جیسا ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی ہے تو گویا اس کے لیے طہارت کا حکم ثابت ہوا، حالت نفاس میں اس کا نماز نہ پڑھنا نجاست کی بنا پر نہیں، بلکہ یہ ایک حکم تعبدی ہے۔
اس سے اس موقف کی بھی تردید ہوگئی کہ مومن مرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے، کیونکہ ایسی بات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نفاس والی عورت کا جنازہ کیوں پڑھاتے، جبکہ نجاست دم تو پہلے ہی تھی، پھر اس کے ساتھ موت کی نجاست بھی جمع ہوگئی، جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورت کا جنازہ پڑھایا ہے تو ایسی میت جس سے خون نہیں بہتا کیونکہ مرنے سے نجاست آلود ہوگی۔
(شرح ابن بطال: 462/1)

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث پر یہ عنوان قائم کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئی تھی، شاید امام بخاری کو اس پر وہم ہوا ہے کہ انھوں نے اسے زچگی خیال کیا ہے، حالانکہ یہ بات سرے سے حقیقت کے خلاف ہے، بلکہ اس سے مراد نفاس میں فوت ہونا ہے۔
جیسا کہ امام بخاری کی بیان کردہ ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے نفاس میں فوت ہوئی تھی۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1331)
لہذا حدیث اور امام بخاری ؒ کا عنوان بالکل صحیح اوربرمحل ہے۔
نفاس اور اس کے احکام:
سرزمین حجاز کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے ایک رسالے سے نفاس اور اس کے احکام درج کیے جاتے ہیں:
۔
تعریف:
۔
وہ خون جو ولادت کی بنا پر رحم سے برآمد ہو، نفاس کہلاتا ہے، خواہ ولادت کے وقت یا اسکے بعد یا اس سے دو یاتین دن پہلے آئے بشرطیکہ اس کے ساتھ دردِزہ بھی ہو۔
۔
مدت:
۔
عام طور پر اس کی مدت چالیس دن ہوتی ہے، چالیس دنوں سے زائد ہونے کی صورت میں عورت کی سابقہ عادت کے مطابق عمل کیا جائے یا اس کے بعد اگرخون رکن کی علامتیں ظاہر ہوں تو اس کے ختم ہونے کا انتظار کیاجائے اور اسے نفاس میں شمار کیا جائے، بصورت دیگرچالیس دن پورے ہونے پر غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیا جائے۔
اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عورت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیاجائے۔
اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عوت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردے۔
واضح رہے کہ نفاس اس ولادت کے بعد شمار ہوگا جس میں بچے کی شکل وصورت بن چکی ہو۔
اگر شکل وصورت بننے سے پہلے ہی اسقاط ہوجائے تو اس وقت برآمد ہونے والے خون کو نفاس نہیں کہا جائے گا، بلکہ وہ کسی رگ کا خون ہے جس پر استحاضے کے احکام جاری ہوں گے۔
کم از کم مدت جس میں بچے کی شکل وصورت بن جاتی ہے، وہ ابتدائے حمل سے اسی (80)
دن اور زیادہ سے زیادہ نوے (90)
دن ہے۔
۔
نفاس کے احکام:
اس کے احکام حیض جیسے ہیں، البتہ درج ذیل چند مسائل میں اس کا الگ حکم ہے:
۔
عدتِ طلاق کا تعلق قطعی طور پر نفاس سے نہیں ہے، کیونکہ اگرطلاق وضع حمل سے پہلے دی گئی ہے تو اس کی مدت کو بڑھایا نہیں جائے گا اور اگرطلاق وضع حمل کے بعد دی ہے تو نفاس کے بعد حیض آنے تک انتظار کیا جائے گا۔
یعنی تین حیض گزرنے پر عدت ختم ہوگی۔
۔
ایلا کی صورت میں حیض کی مدت کو شمار کیا جائے گا لیکن نفاس کی مدت شمار نہیں ہوگی۔
ایلا یہ ہے کہ خاوند چار ماہ سے زائد یا ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے۔
عورت کے مطالبے پر خاوند کے قسم کھانے سے چار ماہ کی مدت مقرر کی جائے گی اور اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یا اسے فارغ کردے۔
اس چار ماہ کی مدت میں اگرولادت ہوجائے تو نفاس کے ایام چار ماہ میں شامل نہیں ہوں گے، البتہ ایام حیض کو چار ماہ کی مدت میں شمار کیا جائے گا۔
۔
حیض کی آمد عورت کے بالغ ہونے کی علامت ہے جبکہ خون نفاس سے پہلے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے، کیونکہ عورت کو حمل اس کے انزال سے ہوتا ہے۔
حمل سے پہلے انزال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالغ ہوچکی ہے، اس لیے خون نفاس کو بلوغ کی علامت ٹھہرانے کے بجائے حیض کو اس کے بالغ ہونے کی نشانی قراردیا جائے گا۔
۔
اگرحیض کا خون رک جائے، پھر عادت کے ایام میں دوبارہ شروع ہوجائےتو اسے قطعی طور پر حیض ہی شمار کیاجائے گا، مثلاً:
ایک عورت کو اس کی عادت کے مطابق آٹھ دن خون آتا ہے، چاردن کے بعد خون منقطع ہوگیا۔
دودن خون بند رہا، پھر ساتویں اورآٹھویں دن خون جاری ہواتو اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا اور اس پر احکام حیض ہی جاری ہوں گے۔
اس کے برعکس اگرچالیس دن سے پہلے خون نفاس بند ہوگیا، پھر چالیس دن پورے ہونے پر دوبارہ جاری ہوگیا تو اسے خون مشکوک قراردیا جائے گا، یعنی وہ عورت نماز روزہ شروع کردے گی، البتہ شوہر اس کے پاس نہیں آئے گا، طہر کے بعد پڑھی ہوئی نمازوں اور رکھے ہوئے روزوں کی قضا بھی دینی ہوگی، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خون بند ہونے کے بعد اگرایسے وقت دوبارہ آجائے کہ اس میں نفاس آنا ممکن ہوتو اسے نفاس ہی شمارکریں گے، بصورت دیگر وہ حیض کا خون ہے۔
اگرخون جاری رہتا ہے تو اسے استحاضہ شمار کیا جائے گا۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
خون نفاس انقطاع کے دو، تین دن بعد دوبارہ شروع ہوجاتا ہے تو نفاس ہی ہے، بصورت دیگراسے حیض شمار کیا جائے گا۔
۔
حیض کا خون آنے کی صورت میں اگرعورت اپنی مقررہ عادت سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو خاوند کو مقاربت کی اجازت ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن خون آنے کی صورت میں اگرچالیس دن سے پہلے عورت پاک ہوجائےتوخاوند کواس سے مقاربت کرنا مکروہ ہے، لیکن جمہور کے نزدیک اس مدت میں عورت کے پاس جانا مکروہ نہیں اور یہی بات درست ہے، کیونکہ کراہت بھی ایک شرعی حکم ہے جو دلیل کا محتاج ہے۔
اس سلسلے میں صرف عثمان بن ابی العاص ؓ کا عمل پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی بیوی چالیس دے پہلے نفاس سے فارغ ہوگئی اور وہ ان کے پاس آئی تو انھوں نے کہا:
میرے پاس نہ آنا۔
اس عمل سے کراہت کشید کی جاتی ہے۔
لیکن اس میں بھی کئی ایک احتمالات ہیں:
ممکن ہے کہ عورت کو ابھی طہر کا یقین نہ ہوا ہو، اس لیے احتیاط کے پیش نظر ایسا کیا ہو یا اس خطرے کے پیش نظر ایسا کیا ہو مبادا جماع کرنے سے خون حرکت میں آجائے اور دوبارہ جاری ہوجائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 332   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.