الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
27. باب أَيْنَ يَقُومُ الإِمَامُ مِنَ الْمَيِّتِ لِلصَّلاَةِ عَلَيْهِ:
27. باب: نماز جنازہ کے لئے امام کس جگہ کھڑا ہو۔
حدیث نمبر: 2237
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، وعقبة بن مكرم العمي ، قالا: حدثنا ابن ابي عدي ، عن حسين ، عن عبد الله بن بريدة ، قال: قال سمرة بن جندب : لقد كنت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم غلاما، فكنت احفظ عنه، فما يمنعني من القول إلا ان ها هنا رجالا هم اسن مني، وقد " صليت وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم على امراة ماتت في نفاسها، فقام عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة وسطها "، وفي رواية ابن المثنى، قال: حدثني عبد الله بن بريدة، قال: " فقام عليها للصلاة وسطها ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ : لَقَدْ كُنْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا، فَكُنْتُ أَحْفَظُ عَنْهُ، فَمَا يَمْنَعُنِي مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا أَنَّ هَا هُنَا رِجَالًا هُمْ أَسَنُّ مِنِّي، وَقَدْ " صَلَّيْتُ وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا، فَقَامَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ وَسَطَهَا "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: " فَقَامَ عَلَيْهَا لِلصَّلَاةِ وَسَطَهَا ".
محمد بن مثنیٰ اور عقبہ بن مکرم عمی نے کہا: ہمیں ابن ابی عدی نے حسین (بن ذکوان) سے حدیث بیان کی اور انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نوعمر لڑکا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (احادیث سن کر) یاد کیا کر تا تھا اور مجھے بات کرنے سے اس کے سوا کوئی چیز نہ روکتی کہ یہاں بہت لوگ ہیں جو عمر میں مجھ سےبڑے ہیں، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک عورت کی نماز جنازہ ادا کی جوحالت نفاس میں وفات پاگئیں تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اس کے (سامنے) درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ابن مثنیٰ کی روایت میں ہے (حسین نے) کہا: مجھے عبداللہ بن بریدہ نے حدیث سنائی اور کہا: آپ اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کےلئے اس کے (سامنے) درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نوخیز تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو یاد کرتا تھا اور اب مجھے بات کرنے سے صرف یہی چیز روک رہی ہے یہاں پر بہت سے لوگ عمر میں مجھ سےبڑے (عمر رسیدہ) موجود ہیں، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک عورت کی نماز جنازہ ادا کی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ میں، اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ عبداللہ بن بریدہ کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ اس کی نماز کے لیے اس کے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 964

   صحيح البخاري332سمرة بن جندبصلى عليها النبي فقام وسطها
   صحيح البخاري1331سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح البخاري1332سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح مسلم2235سمرة بن جندبصليت خلف النبي وصلى على أم كعب ماتت وهي نفساء فقام رسول الله للصلاة عليها وسطها
   صحيح مسلم2237سمرة بن جندبصليت وراء رسول الله على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها رسول الله في الصلاة وسطها
   جامع الترمذي1035سمرة بن جندبصلى على امرأة فقام وسطها
   سنن أبي داود3195سمرة بن جندبصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها للصلاة وسطها
   سنن النسائى الصغرى1978سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن النسائى الصغرى1981سمرة بن جندبصلى على أم فلان ماتت في نفاسها فقام في وسطها
   سنن النسائى الصغرى393سمرة بن جندبقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن ابن ماجه1493سمرة بن جندبصلى على امرأة ماتت في نفاسها فقام وسطها
   بلوغ المرام451سمرة بن جندبصليت وراء النبي صلى الله عليه وآله وسلم على امراة ماتت في نفاسها فقام وسطها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا اور اس کا طریقہ دلیل کے طور پر حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت نفاس کی حالت میں مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی (یہ عورت ام کعب انصاریہ تھیں)۔ [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح للموفق العدين ابي ذر العجمي، ج1، ص45]
مقصود یہ ہے کہ بعض لوگ حالت نفاس والی کو نجس قرار دیتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ عورت نفاس کے دوران ناپاک ہوتی تو اس پر نماز نہ پڑھی جاتی حالانکہ وہ نفاس میں نماز نہیں پڑھتی اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی کیوں کہ مومن زندہ ہو یا مردہ وہ پاک ہی ہوتا ہے اس حدیث کے ذیل میں صرف باب کہہ کر حدیث پیش کرتے ہیں جس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھ کو حیض آیا کرتا تھا نماز نہیں پڑتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سجدہ گاہ کے برابر پاؤں دراز کر کے لیٹی رہتی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر نماز پڑھتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کنارہ مجھ کو لگتا تھا یعنی آپ اس کپڑے کو ناپاک نہ جانتے۔ [صحيح البخاري كتاب الحيض رقم الحديث 333]
یعنی جب حائضہ کا کپڑا پاک ہوا تو جس جسم پر یہ پہنا ہوا تھا وہ بھی پاک ہے مناسبت یہیں سے نکلتی ہے۔ کہ مومن زندہ اور مردہ دونوں حالت میں پاک ہے۔
تنبیہ:
امام کرمانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى بطن» زچگی میں مر گئی۔‏‏‏‏ اس کا معنی یہ ہے کہ ولادت میں مر گئی۔‏‏‏‏ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ مبطون حالت میں مر گئی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہیں ہے کیونکہ ایک صریح حدیث موجود ہے کتاب الجنائز میں باب الصلاۃ علی النفساء میں جس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى نفاسها» کہ وہ عورت نفاس کی حالت میں مری، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہ تھا یہ وہم امام کرمانی رحمہ اللہ کو ہوا۔ تفصیل کے لئے [فتح الباري ج1، ص469] کا مطالعہ کیجئیے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 148   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
´نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے`
«. . . أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا . . .»
. . . ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 332]

تشریح:
«في بطن» سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔
اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 332   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 393  
´نفاس والی عورتوں کی نماز جنازہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی نفاس میں وفات پا گئی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ میں ان کے بیچ میں (کمر کے پاس) کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 393]
393۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ نفاس کی حالت میں اگرچہ عورت خود نماز نہیں پڑھ سکتی مگر وہ فوت ہو جائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کا نفاس جنازے سے مانع نہیں، نیز وہ ظاہراً پلید نہیں، لہٰذا نمازی کے آگے رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مومن کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا، نہ جنابت سے، نہ حیض و نفاس سے اور نہ موت سے۔ نفاس سے جسم کی ناپاکی معنوی پلیدی ہے۔
➋ عورت کے جنازے میں امام چارپائی کے وسط کے برابر کھڑا ہو گا جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1332، و صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 964]
اس میں نفاس کا کوئی دخل نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 393   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 451  
´میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 451]
لغوی تشریح:
«فِي نِفَسِهَا» بچے کی پیدائش کے ایام میں۔ یہ خاتون ام کعب انصاریہ رضی اللہ عنہ تھیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ میت اگر مرد ہو تو امام کو اس کے سر کے برابر کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھانی چاہیے۔ [سنن ابي داود، الجنائز، حديث: 3194 وجامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1034]
امام شافعی رحمہ الله کا یہی قول ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بھی ایک قول اسی طرح منقول ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ اس کے برعکس علمائے احناف عموماً بِلا فرق مرد و عورت کے دل کے برابر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھاتے ہیں مگر اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ نصِ صریح کے مقابلے میں محض قیاس پر عمل کرتے ہیں کہ دل منبع ایمان ہے، اس لیے دل کے برابر کھڑا ہونا چاہیے لیکن یہ حقیقتاً حدیث کے خلاف ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1035  
´مرد اور عورت دونوں ہوں تو امام نماز جنازہ پڑھاتے وقت کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1035]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس عورت کا نام ام کعب ہے جیساکہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1035   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3195  
´جنازہ پڑھاتے ہوئے امام میت کے مقابل کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3195]
فوائد ومسائل:
مسلمان عورت اپنے ایام حیض اور نفاس کے دنوں میں فوت ہو تب بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3195   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2237  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

نفاس والی عورت اگرچہ اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی اور وہ اجر وثواب کے اعتبار سے شہداء کی صف میں داخل ہے۔
اس کے باوجود اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔

امام صاحب،
میت کے جنازہ میں کہاں کھڑا ہوا جائے؟ اس سلسلہ میں صرف عورت کے بارے میں روایت لائے ہیں کہ اس کے جنازہ میں امام درمیان میں کھڑا ہو گا۔
لیکن مرد کے جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو گا؟ اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
ائمہ کا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،
اور ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ مؤقف ہے کہ جنازہ میں امام مرد کے سر کے قریب اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو گا اور حدیث کی رو سے یہی صحیح ہے۔
علامہ سعیدی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول چونکہ احادیث اورآثار کے مطابق ہے اس لیے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(صحیح مسلم2/811)
اے کاش ہر جگہ صحیح احادیث پر عمل کو ہی ترجیح دیں قراءت فاتحہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بخاری شریف میں روایت موجود ہے۔
کہ انہوں نے نماز جنازہ میں بلند آواز سے فاتحہ پڑھی اورفرمایا یہ میں نے اس لیے کیا ہے تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ فاتحہ پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ اور طرز عمل ہے اور اس کی یہ تاویل کر دی ہے۔
آپﷺ نے بطور دعا اور ثنا پڑھی تھی۔
(ج2ص 898)
حالانکہ اس تاویل کا کوئی قرینہ اور دلیل نہیں ہے اور ایک بات یہ کہی ہے۔
یہ خبر واحد ہے اور خبرواحد سے فرضیت پر استدلال صحیح نہیں ہے۔
حالانکہ جس طرح قرآن کے حکم سے فرضیت ثابت ہوتی ہے حدیث صحیح سے بھی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
بخاری اور مسلم کی روایات کو تو امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔
اس وجہ سے وہ قطعیت اور یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔
ان سے فرضیت کیوں ثابت نہیں ہو گی۔
امام ابن ہمام اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی تاویل کی ہے کہ ثنا ء دعا کے طور پر پڑھی ہے چلو یہ حضرات دعا وثنا کے طور پر پڑھ لیا کریں فاتحہ پڑھا تو کریں اس جامع دعا سے محروم تو نہ رہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2237   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.