الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اے موسیٰ! میں نے تجھ کو اپنے لیے منتخب کر لیا“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “And I have chosen you for Myself.” (V.20:41) (i.e., for My Revelation and My Message, or created you for Myself or strenghtened and taught you as to how to preach My Message to My worshippers)]."
حدیث نمبر: Q4736
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال عكرمة، والضحاك بالنبطية، طه: يا رجل يقال كل ما لم ينطق بحرف او فيه تمتمة او فافاة فهي عقدة، وقال مجاهد: القى صنع، ازري: ظهري، فيسحتكم: يهلككم، المثلى: تانيث الامثل، يقول بدينكم يقال خذ المثلى خذ الامثل، ثم ائتوا صفا، يقال: هل اتيت الصف اليوم يعني المصلى الذي يصلى فيه، فاوجس: في نفسه خوفا، فذهبت الواو من خيفة لكسرة الخاء، في جذوع: اي على جذوع النخل، خطبك: بالك، مساس: مصدر ماسه مساسا، لننسفنه: لنذرينه، قاعا: يعلوه الماء والصفصف المستوي من الارض، وقال مجاهد: اوزارا اثقالا، من زينة القوم: وهي الحلي التي استعاروا من آل فرعون وهي الاثقال، فقذفتها، فالقيتها، القى: صنع، فنسي: موسى هم يقولونه اخطا الرب، لا يرجع إليهم قولا: العجل، همسا: حس الاقدام، حشرتني اعمى: عن حجتي، وقد كنت بصيرا: في الدنيا، قال ابن عباس: بقبس ضلوا الطريق وكانوا شاتين، فقال: إن لم اجد عليها من يهدي الطريق آتكم بنار توقدون، وقال ابن عيينة: امثلهم: اعدلهم طريقة، وقال ابن عباس: هضما: لا يظلم، فيهضم من حسناته، عوجا: واديا، ولا، امتا: رابية، سيرتها: حالتها الاولى، النهى: التقى، ضنكا: الشقاء، هوى: شقي بالوادي، المقدس: المبارك، طوى: اسم الوادي يفرط عقوبة، بملكنا: بامرنا، مكانا سوى: منصف بينهم، يبسا: يابسا، على قدر: موعد، لا تنيا: تضعفا.قَالَ عِكْرِمَةُ، وَالضَّحَّاكُ بِالنَّبَطِيَّةِ، طَهْ: يَا رَجُلُ يُقَالُ كُلُّ مَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلْقَى صَنَعَ، أَزْرِي: ظَهْرِي، فَيَسْحَتَكُمْ: يُهْلِكَكُمْ، الْمُثْلَى: تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ، يَقُولُ بِدِينِكُمْ يُقَالُ خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا، يُقَالُ: هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ، فَأَوْجَسَ: فِي نَفْسِهِ خَوْفًا، فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً لِكَسْرَةِ الْخَاءِ، فِي جُذُوعِ: أَيْ عَلَى جُذُوعِ النَّخْلِ، خَطْبُكَ: بَالُكَ، مِسَاسَ: مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا، لَنَنْسِفَنَّهُ: لَنَذْرِيَنَّهُ، قَاعًا: يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَوْزَارًا أَثْقَالًا، مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ: وَهِيَ الْحُلِيُّ الَّتِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ وَهِيَ الْأَثْقَالُ، فَقَذَفْتُهَا، فَأَلْقَيْتُهَا، أَلْقَى: صَنَعَ، فَنَسِيَ: مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ، لَا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا: الْعِجْلُ، هَمْسًا: حِسُّ الْأَقْدَامِ، حَشَرْتَنِي أَعْمَى: عَنْ حُجَّتِي، وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا: فِي الدُّنْيَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِقَبَسٍ ضَلُّوا الطَّرِيقَ وَكَانُوا شَاتِينَ، فَقَالَ: إِنْ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهَا مَنْ يَهْدِي الطَّرِيقَ آتِكُمْ بِنَارٍ تُوقِدُونَ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: أَمْثَلُهُمْ: أَعْدَلُهُمْ طَرِيقَةً، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَضْمًا: لَا يُظْلَمُ، فَيُهْضَمُ مِنْ حَسَنَاتِهِ، عِوَجًا: وَادِيًا، وَلَا، أَمْتًا: رَابِيَةً، سِيرَتَهَا: حَالَتَهَا الْأُولَى، النُّهَى: التُّقَى، ضَنْكًا: الشَّقَاءُ، هَوَى: شَقِيَ بِالْوَادِي، الْمُقَدَّسِ: الْمُبَارَكِ، طُوًى: اسْمُ الْوَادِي يَفْرُطُ عُقُوبَةً، بِمِلْكِنَا: بِأَمْرِنَا، مَكَانًا سِوًى: مَنْصَفٌ بَيْنَهُمْ، يَبَسًا: يَابِسًا، عَلَى قَدَرٍ: مَوْعِدٍ، لَا تَنِيَا: تَضْعُفَا.
‏‏‏‏ سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں لفظ «طه‏» کے معنی اے مرد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا رک رک کر نکلے تو اس کی زبان میں «عقدة‏.‏» گرہ ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام کی دعا «واحلل عقدة من لساني» میں یہی اشارہ ہے) «أزري‏» کے معنی میری پیٹھ۔ «فيسحتكم‏» کے معنی تم کو ہلاک کر دے۔ لفظ «المثلى‏»، «الأمثل» کا مؤنث ہے یعنی تمہارا دین۔ عرب لوگ کہتے ہیں «مثلى‏» اچھی بات کرے۔ «خذ الأمثل‏.‏» یعنی بہتر بات لے۔ «ثم ائتوا صفا‏» عرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا؟ یعنی نماز کے مقام میں جہاں جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں (جیسے عیدگاہ وغیرہ)۔ «فأوجس‏» دل میں سہم گیا۔ «خيفة» اصل میں «خوفة» تھا واؤ بہ سبب کسرہ «ما قبل» یاء ہو گیا۔ «في جذوع‏ النخل» کھجور کی شاخوں پر «في علي» کے معنی میں ہے۔ «خطبك‏» یعنی تیرا کیا حال ہے، تو نے یہ کام کیوں کیا۔ «مساس‏» مصدر ہے۔ «ماسه»، «مساسا‏.‏» سے یعنی چھونا۔ «لننسفنه‏» بکھیر ڈالیں گے یعنی جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔ «قاعا‏» وہ زمین جس کے اوپر پانی چڑھ آئے (یعنی صاف ہموار میدان)۔ «صفصفا» ہموار زمین۔ اور مجاہد نے کہا «من زينة القوم‏.‏» سے وہ زیور مراد ہے جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کر لیا تھا۔ «فقذفتها» میں نے اس کو ڈال دیا۔ «وكذالك ألقى‏ السامري» یعنی سامری نے بھی اور بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔ «فنسي‏ موسى» یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے موسیٰ چوک گیا کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر چلا گیا۔ «لا يرجع إليهم قولا‏» یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات کو جواب تک نہیں دے سکتا۔ «همسا‏» پاؤں کی آہٹ۔ «حشرتني أعمى‏» یعنی مجھ کو دنیا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے بالکل مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔ اور ابن عباس نے کہا «لعلي اتيكم منها بقبس» کے بیان میں کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی راستہ بھول گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بتانے والا ملا تو بہتر ورنہ میں تھوڑی سی آگ تمہارے تاپنے کے لیے لے آؤں گا۔ سفیان بن عیینہ نے (اپنی تفسیر میں) کہا «أمثلهم‏» یعنی ان میں کا افضل اور سمجھدار آدمی۔ اور ابن عباس نے کہا «هضما‏» یعنی اس پر ظلم نہ ہو گا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جاوے گا۔ «عوجا‏» نالا کھڈا۔ «أمتا‏» ٹیلہ بلندی۔ «سيرتها‏ الأولى» یعنی اگلی حالت پر۔ «النهى‏» پرہیزگاری یا عقل۔ «ضنكا‏» بدبختی۔ «هوى‏» بدبخت ہوا۔ «المقدس‏» برکت والی۔ «طوى‏» اس وادی کا نام تھا۔ «بملكنا‏» (بہ کسرئہ میم مشہور قرآت بہ ضمہ میم ہے بعضوں نے بہ ضم میم پڑھا ہے) یعنی اپنے اختیار اپنے حکم سے۔ «سوى‏» یعنی ہم میں اور تم میں برابر کے فاصلہ پر۔ «يبسا‏» خشک علی قدر اپنے معین وقت پر جو اللہ پاک نے لکھ دیا تھا۔ «لا تنيا‏» ضعیف مت بنو، یا سستی نہ کرو۔

حدیث نمبر: 4736
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" التقى آدم وموسى، فقال موسى لآدم: آنت الذي اشقيت الناس واخرجتهم من الجنة، قال آدم: انت موسى الذي اصطفاك الله برسالته واصطفاك لنفسه، وانزل عليك التوراة، قال: نعم، قال: فوجدتها كتب علي قبل ان يخلقني، قال: نعم، فحج آدم موسى".(مرفوع) حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْتَقَى آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى لِآدَمَ: آنْتَ الَّذِي أَشْقَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَاصْطَفَاكَ لِنَفْسِهِ، وَأَنْزَلَ عَلَيْكَ التَّوْرَاةَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَجَدْتَهَا كُتِبَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي، قَالَ: نَعَمْ، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (عالم مثال میں) آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے پسند کیا اور خود اپنے لیے پسند کیا اور آپ پر توریت نازل کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ چنانچہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ «اليم» کے معنی دریا کے ہیں۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "Adam and Moses met, and Moses said to Adam "You are the one who made people miserable and turned them out of Paradise." Adam said to him, "You are the one whom Allah selected for His message and whom He selected for Himself and upon whom He revealed the Torah." Moses said, 'Yes.' Adam said, "Did you find that written in my fate before my creation?' Moses said, 'Yes.' So Adam overcame Moses with this argument."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 260


   صحيح البخاري3409عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أخرجتك خطيئتك من الجنة
   صحيح البخاري4738عبد الرحمن بن صخرحاج موسى آدم فقال له أنت الذي أخرجت الناس من الجنة بذنبك وأشقيتهم
   صحيح البخاري4736عبد الرحمن بن صخرالتقى آدم وموسى فقال موسى لآدم آنت الذي أشقيت الناس وأخرجتهم من الجنة
   صحيح البخاري6614عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة
   صحيح البخاري7515عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى أنت آدم الذي أخرجت ذريتك من الجنة
   صحيح مسلم6742عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة
   صحيح مسلم6745عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى عند ربهما فحج آدم موسى قال موسى أنت آدم الذي خلقك الله بيده
   صحيح مسلم6745عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أخرجتك خطيئتك من الجنة
   صحيح مسلم6743عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فحج آدم موسى
   جامع الترمذي2134عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت الذي خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه
   سنن أبي داود4701عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة أن يخلقني بأربعين سنة فحج آدم موسى
   سنن ابن ماجه80عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة بذنبك
   صحيفة همام بن منبه46عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أغويت الناس فأخرجتهم من الجنة إلى الأرض
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم4عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: انت آدم الذى اغويت الناس واخرجتهم من الجنة؟
   مسند اسحاق بن راهويه30عبد الرحمن بن صخرلقي موسى آدم عليهما السلام، فقال: انت آدم الذي خلقك الله بيده
   مسندالحميدي1148عبد الرحمن بن صخرفحج آدم موسى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 4  
´تقدیر کا بیان`
«. . . 361- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: أنت آدم الذى أغويت الناس وأخرجتهم من الجنة؟ فقال له آدم: أنت موسى الذى أعطاك الله علم كل شيء واصطفاك على الناس برسالاته؟ قال: نعم، قال: أفتلومني على أمر قد قدر على قبل أن أخلق . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مباحثہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا: آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو جنت سے نکال دیا اور پھسلا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: آپ وہ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور اپنی رسالت کے ساتھ لوگوں میں سے چنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 4]

[وأخرجه مسلم 2652، من حديث مالك، والبخاري 6614، من حديث ابي الزناد به ● وفي رواية يحيي بن يحيي: بِرِسَالَتِهِ]
[ تفقه: :]
➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 198ھ) نے اس مناظرے والی حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ [ديكهئے كتاب المعرفته والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 و سنده صحيح، تاريخ بغداد 243/5 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا [ديكهئے سوره ص: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب الفقہ الاکبر میں لکھا ہوا ہے کہ «فما ذكره الله تعالىٰ فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال إن يده قدرته أو نعمته لأن فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والإعتزال ولكن يده صفته بلا كيف» اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیوں کہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔ [الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص36، 37، البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص32]
مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔
تنبیہ:
یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی وغیرہ حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص 16 تا 23)
◄ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں: غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ [مقدمة البيان الازهر ص23] اس دیوبندی لَا رَيْبَ فِيْهِ کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ اس کے بارے میں امامِ اہلِ سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا ينبغي أن يروي عنه۔۔ شيء» اس سے کوئی چیز روایت نہیں کرنی چاہئے۔ [كتاب العلل 2/258 ت1864]
◄ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: «وأبو مطيع الخراساني ليس بشيءٍ» اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز (بھی) نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760]
◄ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلا امام نسائی رحمہ اللہ، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: «فهٰذا وضعه أبومطيع عليٰ حماد» پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال 3/42]
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا الفقه الأکبر نامی رسالے کو لَا رَيْبَ فِيْهِ کہنا انتہائی عجیب وغریب ہے۔!!
➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔
➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی ان کا قول باطل ومردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہلِ سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے۔
➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان ونادم ہوتے ہیں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر اڑے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم وپشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ اصلاح ہی کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [شفاء العليل لابن القيم ص35، 36، وشرح حديث جبريل عربي ص65 67، اردو ص104 تا 107،]
● جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین وکفار کا ہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: 148) اور سورۃ النحل (آیت: 35)
➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 34٠9، 4736، 7515]
➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 361   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3409  
´آدم علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام پر غالب آنا`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ اور آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3409]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ}
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور بعد کے حالات پر استدلال فرمایا ہے، مگر مندرجہ بالا حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں نہ ہی موسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے بعد کے حالات پر کوئی واقعہ ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل دکھلائی دیتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بہت باریک بینی سے حدیث کا ترجمۃ الباب سے مناسبت قائم فرمایا ہے، اگرچہ اس کے متن پر غور کیا جائے تو آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ:
آپ مجھے ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر کر دیا۔
یہاں پر آدم علیہ السلام نے تقدیر کے لکھنے کو واضح فرمایا ہے اور ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے، لہٰذا مناسبت یہ ہو گی کہ جس طرح آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ان کا جنت سے نکالا جانا، تقدیر میں درج تھا، بعینہ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی، ان کی پیدائش سے قبل تقدیر میں درج تھا اور ان کے بعد کے سارے حالات بھی تقدیر میں درج ہیں،
اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے۔
«وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ» [فاطر: 11/35]
اور جو بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کسی کی عمر کم ہو وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
لہٰذا ترجمۃ الباب کا حدیث سے تعلق تقدیر کے لکھنے کی نوعیت کے ساتھ ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث80  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم و موسیٰ علیہا السلام میں مناظرہ ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنا دیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 80]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت آدم اور حضرت موسی علیھم السلام کی یہ ملاقات، ممکن ہے جنت میں ہوئی ہو، ممکن ہے عالم ارواح میں۔
واللہ اعلم.
(2)
حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام کو یہ طعنہ دینا نہیں کہ انہوں نے غلطی کیوں کی کیونکہ وہ غلطی تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادی تھی۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ثُمَّ اجتَبٰـهُ رَ‌بُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدٰى﴾ (طه: 122)
 پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے تمام انسانوں کو دنیا کی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کے جواب میں وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تو پہلے ہی تقدیر میں لکھے جا چکے تھے اور ان کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔

(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:
آدم علیہ السلام غالب آگئے۔
یہ تکرار تاکید کے لیے تھی تاکہ بخوبی علم ہو جائے کہ آدم علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ تقدیر الہی اور مشیت الہی کا اجرا تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 80   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2134  
´تقدیر کے مسئلہ میں آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مناظرہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا، موسیٰ نے کہا: آدم! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کر دیا تھا؟، آدم موسیٰ سے دلیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2134]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے،
اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔

2؎:
صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2134   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4736  
4736. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: حضرت آدم اور حضرت موسیٰ ؑ کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت آدم ؑ سے کہا: آپ ہی نے لوگوں کو پریشانی میں ڈالا اور انہیں جنت سے نکالا؟ حضرت آدم ؑ نے انہیں جواب دیا: تو وہی ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا اور تجھے خود اپنے لیے پسند کیا، نیز آپ پر تورات نازل فرمائی؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: ہاں۔ (میں وہی ہوں۔) حضرت آدم ؑ نے فرمایا: آپ نے تو (تورات میں لکھا) دیکھا ہی ہو گا کہ میری پیدائش سے پہلے ہی یہ سب کچھ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا؟ حضرت موسٰی ؑ نے جواب دیا: جی ہاں (معلوم ہے)، چنانچہ حضرت آدم ؑ اس طرح موسٰی ؑ پر غالب آ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4736]
حدیث حاشیہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے تکلیفوں اور پریشانیوں میں گزری، آخر ایک دن سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم اس عالم رنگ وبو میں نہ آتے تو شاید ان ذہنی کوفتوں سے دوچار نہ ہوتے پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت آدم سے ملاقات کا سوال کردیا تاکہ انھیں اپنی عرض داشت پیش کرکے اپنا غم ہلکا کرلوں جس کی تفصیل درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی:
اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام دکھلا، جنھوں نے ہمیں اور ا پنے آپ کو بھی جنت سے نکال دیا تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کرا دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ ہاں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ ہی وہ ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے ا پنی روح پھونکی تھی اور تمام چیزوں کے نام تعلیم کیے تھے اور تمام فرشتوں کو حکم دیا توانھوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
ہاں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکال باہر کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے فرمایا:
تم کون؟ انھوں نے کہا:
میں موسیٰ علیہ السلام ہوں۔
فرمایا:
تم ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے پر پردہ کلام فرمایا تھا اور اپنے اور تمہارے درمیان اپنی مخلوق میں سے کسی کو واسطہ نہیں بنایا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
ہاں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
کیاتم نے نہیں پایا کہ یہ سب کچھ میرے پیدا کیے جانے سے پہلے ہی کتاب اللہ میں تھا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:
کیوں نہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
پھر تم مجھے کس چیز پر ملامت کرتے ہو، حالانکہ وہ مجھ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں تھی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702)

"تقدیر" یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے، کہیں بھی اس سے زرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہوسکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا، لہذا انسانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور عذر اور بہانہ پیش کریں کیونکہ ہر ایک کوصحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔
لیکن ماضی کے حقائق میں تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس تقدیر کو بطور عذر پیش کیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4736   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.