الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
تقدیر کا بیان
The Book of Destiny
2. باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ:
2. باب: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ۔
حدیث نمبر: 6742
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن حاتم ، وإبراهيم بن دينار ، وابن ابي عمر المكي ، واحمد بن عبدة الضبي جميعا، عن ابن عيينة ، واللفظ لابن حاتم، وابن دينار، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو ، عن طاوس ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتج آدم، وموسى، فقال موسى: يا آدم انت ابونا خيبتنا واخرجتنا من الجنة، فقال له آدم: انت موسى اصطفاك الله بكلامه وخط لك بيده، اتلومني على امر قدره الله علي قبل ان يخلقني باربعين سنة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فحج آدم موسى، فحج آدم موسى ". وفي حديث ابن ابي عمر، وابن عبدة، قال احدهما: خط، وقال الآخر: كتب لك التوراة بيده.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، وأحمد بن عبدة الضبي جميعا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، وَابْنِ دِينَارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجَّ آدَمُ، وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ". وَفِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ، وَابْنِ عَبْدَةَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: خَطَّ، وقَالَ الْآخَرُ: كَتَبَ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ.
محمد بن حاتم، ابراہیم بن دینار، ابن ابی عمر مکی اور احمد بن عبدہ ضبی نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی، الفاظ ابن حاتم اور ابن دینار کے ہیں۔۔ ان دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاوس سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے (ایک دوسرے کو) اپنی اپنی دلیلیں دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آدم! آپ ہمارے والد ہیں، آپ نے ہمیں ناکام کر دیا اور ہمیں جنت سے باہر نکال لائے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: تم موسیٰ ہو، تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب فرمایا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لیے (اپنے احکام کو) لکھا، کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس سال پہلے مقدر کر دیا تھا؟" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو حضرت آدم علیہ السلام (دلیل میں) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے، حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔" ابن ابی عمر اور ابن عبدہ کی حدیث میں ہے کہ ایک نے کہا: "لکھا" اور دوسرے نے کہا: "تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا مباحثہ ہو تو موسیٰ ؑ نے کہا، اے آدم ؑ! آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں ناکام کیا اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا تو آدم ؑ نے انہیں جواب دیا،آپ موسیٰ ؑ ہیں اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بخشا اور اپنے ہاتھ سے تجھے لکھ کر دیا۔کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے بارے میں فیصلہ کر دیا تھا؟"چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ، موسیٰ ؑ پر غالب آگئے، آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔"ابن ابی عمر اور ابن عبدہ میں سے ایک نے کہا خط (لکھ دیا) دوسرے نے کہا تجھے توراۃ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2652

   صحيح البخاري3409عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أخرجتك خطيئتك من الجنة
   صحيح البخاري4738عبد الرحمن بن صخرحاج موسى آدم فقال له أنت الذي أخرجت الناس من الجنة بذنبك وأشقيتهم
   صحيح البخاري4736عبد الرحمن بن صخرالتقى آدم وموسى فقال موسى لآدم آنت الذي أشقيت الناس وأخرجتهم من الجنة
   صحيح البخاري6614عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة
   صحيح البخاري7515عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى أنت آدم الذي أخرجت ذريتك من الجنة
   صحيح مسلم6742عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة
   صحيح مسلم6745عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى عند ربهما فحج آدم موسى قال موسى أنت آدم الذي خلقك الله بيده
   صحيح مسلم6745عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أخرجتك خطيئتك من الجنة
   صحيح مسلم6743عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فحج آدم موسى
   جامع الترمذي2134عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت الذي خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه
   سنن أبي داود4701عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة أن يخلقني بأربعين سنة فحج آدم موسى
   سنن ابن ماجه80عبد الرحمن بن صخراحتج آدم وموسى فقال له موسى يا آدم أنت أبونا خيبتنا وأخرجتنا من الجنة بذنبك
   صحيفة همام بن منبه46عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فقال له موسى أنت آدم الذي أغويت الناس فأخرجتهم من الجنة إلى الأرض
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم4عبد الرحمن بن صخرتحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: انت آدم الذى اغويت الناس واخرجتهم من الجنة؟
   مسند اسحاق بن راهويه30عبد الرحمن بن صخرلقي موسى آدم عليهما السلام، فقال: انت آدم الذي خلقك الله بيده
   مسندالحميدي1148عبد الرحمن بن صخرفحج آدم موسى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 4  
´تقدیر کا بیان`
«. . . 361- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تحاج آدم وموسى فحج آدم موسى، فقال له موسى: أنت آدم الذى أغويت الناس وأخرجتهم من الجنة؟ فقال له آدم: أنت موسى الذى أعطاك الله علم كل شيء واصطفاك على الناس برسالاته؟ قال: نعم، قال: أفتلومني على أمر قد قدر على قبل أن أخلق . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مباحثہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا: آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے لوگوں کو جنت سے نکال دیا اور پھسلا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا: آپ وہ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور اپنی رسالت کے ساتھ لوگوں میں سے چنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 4]

[وأخرجه مسلم 2652، من حديث مالك، والبخاري 6614، من حديث ابي الزناد به ● وفي رواية يحيي بن يحيي: بِرِسَالَتِهِ]
[ تفقه: :]
➊ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہوا تھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی 198ھ) نے اس مناظرے والی حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ الله سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کر دیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ [ديكهئے كتاب المعرفته والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي 181/2، 182 و سنده صحيح، تاريخ بغداد 243/5 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا [ديكهئے سوره ص: 75] جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے۔ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب الفقہ الاکبر میں لکھا ہوا ہے کہ «فما ذكره الله تعالىٰ فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال إن يده قدرته أو نعمته لأن فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والإعتزال ولكن يده صفته بلا كيف» اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیوں کہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرین تقدیر اور معتزلہ کا مذہب ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے۔ [الفقه الاكبر مع شرح ملا على قاري ص36، 37، البيان الازهر، اردو ترجمه صوفي عبدالحميد سواتي ديوبندي ص32]
مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔
تنبیہ:
یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی وغیرہ حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تصنیف مانتا ہے۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص 16 تا 23)
◄ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں: غرضیکہ فقہ اکبر سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہی کی تصنیف ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ [مقدمة البيان الازهر ص23] اس دیوبندی لَا رَيْبَ فِيْهِ کتاب کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ اس کے بارے میں امامِ اہلِ سنت امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا ينبغي أن يروي عنه۔۔ شيء» اس سے کوئی چیز روایت نہیں کرنی چاہئے۔ [كتاب العلل 2/258 ت1864]
◄ اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: «وأبو مطيع الخراساني ليس بشيءٍ» اور ابومطیع الخراسانی کچھ چیز (بھی) نہیں ہے۔ [تاريخ ابن معين رواية الدوري: 4760]
◄ ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلا امام نسائی رحمہ اللہ، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: «فهٰذا وضعه أبومطيع عليٰ حماد» پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال 3/42]
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک ابومطیع مذکور وضاع (جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا الفقه الأکبر نامی رسالے کو لَا رَيْبَ فِيْهِ کہنا انتہائی عجیب وغریب ہے۔!!
➌ تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔
➍ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی ان کا قول باطل ومردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہلِ سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیدا شدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے۔
➎ غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور سخت پشیمان ونادم ہوتے ہیں اور آئندہ اصلاح کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
دوم: جو غلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر اڑے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نادم وپشیمان بھی نہیں ہوتے اور نہ اصلاح ہی کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے [شفاء العليل لابن القيم ص35، 36، وشرح حديث جبريل عربي ص65 67، اردو ص104 تا 107،]
● جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین وکفار کا ہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: 148) اور سورۃ النحل (آیت: 35)
➏ صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے۔ [ح 34٠9، 4736، 7515]
➐ بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح و برحق تسلیم کرتا ہے، بالکل صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 361   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3409  
´آدم علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام پر غالب آنا`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ اور آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3409]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ}
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور بعد کے حالات پر استدلال فرمایا ہے، مگر مندرجہ بالا حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں نہ ہی موسی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے بعد کے حالات پر کوئی واقعہ ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل دکھلائی دیتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق بہت باریک بینی سے حدیث کا ترجمۃ الباب سے مناسبت قائم فرمایا ہے، اگرچہ اس کے متن پر غور کیا جائے تو آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ:
آپ مجھے ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر کر دیا۔
یہاں پر آدم علیہ السلام نے تقدیر کے لکھنے کو واضح فرمایا ہے اور ترجمۃ الباب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے، لہٰذا مناسبت یہ ہو گی کہ جس طرح آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ان کا جنت سے نکالا جانا، تقدیر میں درج تھا، بعینہ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی، ان کی پیدائش سے قبل تقدیر میں درج تھا اور ان کے بعد کے سارے حالات بھی تقدیر میں درج ہیں،
اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے۔
«وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ» [فاطر: 11/35]
اور جو بڑی عمر والا عمر دیا جائے اور جس کسی کی عمر کم ہو وہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
لہٰذا ترجمۃ الباب کا حدیث سے تعلق تقدیر کے لکھنے کی نوعیت کے ساتھ ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث80  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم و موسیٰ علیہا السلام میں مناظرہ ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں ناکام و نامراد بنا دیا، اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب کیا، اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا!، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 80]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت آدم اور حضرت موسی علیھم السلام کی یہ ملاقات، ممکن ہے جنت میں ہوئی ہو، ممکن ہے عالم ارواح میں۔
واللہ اعلم.
(2)
حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام کو یہ طعنہ دینا نہیں کہ انہوں نے غلطی کیوں کی کیونکہ وہ غلطی تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادی تھی۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ثُمَّ اجتَبٰـهُ رَ‌بُّهُ فَتابَ عَلَيهِ وَهَدٰى﴾ (طه: 122)
 پھر انہیں ان کے رب نے نوازا، ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کی رہنمائی کی۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی وجہ سے تمام انسانوں کو دنیا کی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اس کے جواب میں وضاحت فرما دی کہ یہ مصائب تو پہلے ہی تقدیر میں لکھے جا چکے تھے اور ان کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔

(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:
آدم علیہ السلام غالب آگئے۔
یہ تکرار تاکید کے لیے تھی تاکہ بخوبی علم ہو جائے کہ آدم علیہ السلام سے جو کچھ ہوا وہ تقدیر الہی اور مشیت الہی کا اجرا تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 80   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2134  
´تقدیر کے مسئلہ میں آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مناظرہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا، موسیٰ نے کہا: آدم! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کر دیا تھا؟، آدم موسیٰ سے دلیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2134]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے،
اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔

2؎:
صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2134   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6742  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق دنیا میں بھیجنے کے لیے ہوئی تھی،
اس میں حضرت آدم علیہ السلام کے فعل یا عمل کو کوئی دخل نہیں ہے،
ایک تکوینی چیز ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے عمل سے توبہ کر لی تھی اور معافی مانگ لی تھی،
اس لیے انہوں نے تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت نہیں بنایا،
بلکہ جنت سے نکالنے جانے کی مصیبت پر دلیل بنایا اور تقدیر کو اپنے عمل کے لیے حجت بنانا جائز نہیں ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی مصیبت پر دلیل و حجت بنانا درست ہے،
اس لیے کہا جاتا ہے،
تقدیر کو معایب کے لیے حجت و دلیل نہیں بنانا چاہیے،
تاکہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کر سکے اور ان سے باز آنے کی کوشش کرے،
لیکن مصائب پر دلیل و حجت بنانا چاہیے تاکہ صبر و تسلی ہو سکے،
کیونکہ تکلیف و مصیبت سے دوچار ہو جانے کے بعد اس پر جزع و فزع کا کوئی فائدہ نہیں ہے،
بلکہ نقصان ہے کہ صبر و شکیب سے محروم ہو کر انسان اجروثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور اس جزع و فزع کے نتیجہ میں کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے تمہیں توراۃ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی۔
" اللہ اس کائنات کا خالق ہے اور کائنات اور اس کی ہر چیز مخلوق ہے تو جس طرح ہم خالق کی ذات کی حقیقت و ماہیت سے آگاہ نہیں ہیں،
اسی طرح اس کے ہاتھ کی کیفیت و صورت سے بھی آگاہ نہیں،
جس طرح اس کی ذات،
اس کی خالقیت کے لائق اور مناسب ہے،
اسی طرح اس کا ہاتھ بھی اس کی خالقیت کی شان کے مطابق ہے،
ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی کیفیت و صورت پر بحث نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6742   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.