الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
26. بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْفَجْرِ:
26. باب: نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں۔
(26) Chapter. Superiority of the Fajr (early morning) prayer.
حدیث نمبر: 573
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لي جرير بن عبد الله: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ نظر إلى القمر ليلة البدر، فقال:" اما إنكم سترون ربكم كما ترون هذا، لا تضامون او لا تضاهون في رؤيته، فإن استطعتم ان لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا، ثم قال: وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها سورة طه آية 130".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ لِي جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَالَ:" أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُّونَ أَوْ لَا تُضَاهُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَالَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا سورة طه آية 130".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر (راوی ہیں) یہ زیادتی نقل کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے ۔

Narrated Jarir bin `Abdullah: We were with the Prophet on a full moon night. He looked at the moon and said, "You will certainly see your Lord as you see this moon, and there will be no trouble in seeing Him. So if you can avoid missing (through sleep, business, etc.) a prayer before the rising of the sun (Fajr) and before its setting (`Asr) you must do so. He (the Prophet ) then recited the following verse: And celebrate the praises Of Your Lord before The rising of the sun And before (its) setting." (50.39)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 547


   صحيح البخاري554جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   صحيح البخاري7436جرير بن عبد اللهسترون ربكم يوم القيامة كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته
   صحيح البخاري7434جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروب الشمس فافعلوا
   صحيح البخاري7435جرير بن عبد اللهسترون ربكم عيانا
   صحيح البخاري573جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون أو لا تضاهون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قال سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   صحيح البخاري4851جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   صحيح مسلم1434جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها يعني العصر والفجر ثم قرأ جرير وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   جامع الترمذي2551جرير بن عبد اللهستعرضون على ربكم فترونه كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وصلاة قبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   سنن أبي داود4729جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ هذه الآية فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها
   سنن ابن ماجه177جرير بن عبد اللهسترون ربكم كما ترون هذا القمر لا تضامون في رؤيته فإن استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا ثم قرأ وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب
   المعجم الصغير للطبراني96جرير بن عبد الله لا إيمان لمن لا أمانة له ، ولا صلاة لمن لا طهور له ، ولا دين لمن لا صلاة له ، إنما موضع الصلاة من الدين كموضع الرأس من الجسد
   مسندالحميدي817جرير بن عبد اللههل ترون هذا القمر؟ فإنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر، لا تضامون في رؤيته، فمن استطاع منكم أن لا يغلب على صلاة قبل طلوع الشمس، ولا قبل غروبها فليفعل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 573  
´نماز فجر کی فضیلت`
«. . . حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ لِي جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَالَ: " أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لَا تُضَامُّونَ أَوْ لَا تُضَاهُونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ثُمَّ قَالَ: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا سورة طه آية 130 " . . . .»
. . . جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر (راوی ہیں) یہ زیادتی نقل کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے ۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْفَجْرِ:: 573]

تشریح:
جامع صغیر میں امام سیوطی فرماتے ہیں کہ عصر اور فجر کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ دیدارِ الٰہی ان ہی وقتوں کے اندازے پر حاصل ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 573   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث177  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو۔‏‏‏‏ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 177]
اردو حاشہ:
(1)
فرقہ جہمیہ، جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہے، اس بدعتی فرقے کا اہل سنت سے کئی مسائل میں اختلاف ہے، مثلا:
یہ لوگ بندے کو مجبور محض قرار دیتے ہیں، اسی لیے انہیں جبریہ بھی کہتے ہیں اور اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔
وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ صفات الہی تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ ماننا پڑتا ہے جو اللہ کی شان کے لائق نہیں، حالانکہ اہل سنت اللہ کی صفات کو مخلوقات کی صفات کے مشابہ قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ جس طرح اس کی ذات بندوں کی ذات سے مشابہ نہیں، اسی طرح اس کی صفات کو تسلیم کرنے سے اس کی بندوں سے تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ بندوں کی صفات بندوں کی حالت سے مناسبت رکھتی ہیں اور اللہ کی صفات ویسی ہیں جیسی اس کی شان کے لائق ہیں اور یہ تشبیہ نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (شوریٰ: 11)
یعنی اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا دیکھنے والا ہے۔

(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے، قیامت کو اور جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار ہو گا۔
دنیا میں اس لیے ممکن نہیں کہ موجودہ جسم اور موجودہ قوتوں کے ساتھ بندہ اللہ کے دیدار کی تاب نہیں لا سکتا بلکہ اس دنیا کی کوئی قوت اس کی زیارت کی متحمل نہیں ہو سکتی اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے (دیکھیے:  سورۃ الاعراف: 143)
لیکن عالم آخرت میں اللہ تعالیٰ بندوں کو طاقت عطا فرمائے گا کہ وہ اللہ کی تجلی کو برداشت کر سکیں۔

(3)
اس حدیث کا مقصد اللہ تعالیٰ کو چاند سے محض تشبیہ دینا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں لاکھوں افراد بیک وقت چاند کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، اسی طرح جنت میں بے شمار مومن بیک وقت دیدار الہی کا شرف حاصل کر سکیں گے اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

(4)
نماز باقاعدی سے ادا کرنا، بالخصوص نماز فجر اور عصر قضا نہ ہونے دینا ایک بہت بڑا نیک عمل ہے، جس کا بدلہ زیارت باری تعالیٰ ہے۔

(5)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تین نمازوں کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ جو شخص فجر اور عصر باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، وہ دوسری نمازیں بدرجہ اولیٰ باقاعدگی سے ادا کرتا ہے کیونکہ فجر کی نماز کے وقت نیند اور سستی کا غلبہ ہوتا ہے اور عصر کے وقت کاروبار وغیرہ کے روزمرہ کاموں میں انتہائی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے انہیں بروقت اور باجماعت ادا کرنا دوسری نمازوں کی نسبت مشکل ہے۔
جو شخص یہ مشکل کام کر لیتا ہے، وہ دوسری نمازیں بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور اس طرح جنت میں داخل ہونے اور اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کی امید رکھ سکتا ہے۔

(6)
چاند کے ساتھ تشبیہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے علو (اوپر ہونے)
کا بھی اثبات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 177   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2551  
´جنت میں رب تبارک و تعالیٰ کے دیدار کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں ہو گی۔ اگر تم سے ہو سکے کہ سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعد کی نماز (فجر اور مغرب) میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: «سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة الجنة/حدیث: 2551]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2551   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4729  
´رویت باری تعالیٰ کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں شب کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: تم لوگ عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی، لہٰذا اگر تم قدرت رکھتے ہو کہ تم فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو تو ایسا کرو پھر آپ نے یہ آیت «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها» اور اپنے رب کی تسبیح کرو، سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورۃ طہٰ: ۱۳۰) پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4729]
فوائد ومسائل:
1: قیامت میں اور جنت میں رب ذوالجلال کا دیدار عین حق ہے اور یہ شرف اہل ایمان کو انتہائی آسانی کے ساتھ اور بغیر کسی دھکم پیل کے حاصل ہو گا۔
مگر وہی ایمان دار اس سے بہرہ ور ہوں گے جو نمازوں کی پابندی کرنے والے ہوں گے۔

2: جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر اور غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی پابندی کر لے وہ نمازوں سے بھی غافل نہیں روہ سکتا۔

3: رسول ؐ کا چاند کی طرف دیکھ کر یہ مسئلہ بیان کرنا نظر کو نظرسے تشبیہ دینے کے لئے تھا۔
ورنہ عزوجل کے مثل کوئی شے نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4729   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:573  
573. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں کوئی دشواری یا اشتباہ نہیں ہو گا، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:573]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت (554)
پہلے گزرچکی ہے۔
وہاں الفاظ کا اختلاف نہیں تھا۔
اس روایت میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے لَا تُضَامُونَ کے الفاظ ذکر فرمائے۔
لاتضامون اگر "ضم" سے مشتق ہے تواس کے معنی ہوں گے:
تم ایک دوسرے پر ازدحام (بھیڑ)
نہیں کرو گے۔
اور اگر اس کا اشتتاق''ضيم'' سے ہے تو معنی یہ ہیں کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرو گے۔
اور اگر''تضاهون'' ہے تو اس کے معنی اشتباہ کے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ہر شخص بغیر ازدحام، بغیر پریشانی اور بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے اپنی جگہ پر رہتے ہوئے رؤیت باری تعالیٰ سے شرف یاب ہوگا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے اگر ہوسکے تو طلوع وغروب سے پہلے کی نمازوں کی پابندی کرو۔
اس سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)
اس سے نماز فجر کی فضیلت معلوم ہوگئی کہ یہ اتنی اہم نماز ہے جس کی پابندی رؤیت باری تعالیٰ جیسی عظیم نعمت کے حصول میں مؤثر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 573   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.