الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
80. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا»:
80. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ آسانی کرو، سختی نہ کرو۔
(80) Chapter. The statement of the Prophet , “Make things easy for the people and do not make things difficult for them."
حدیث نمبر: 6126
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، انها قالت:" ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين امرين قط إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما، فإن كان إثما كان ابعد الناس منه، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه في شيء قط إلا ان تنتهك حرمة الله فينتقم بها لله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ بِهَا لِلَّهِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیزوں کو اختیار فرمایا، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر کوئی شخص اللہ کی حرمت و حد کو توڑتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے بدلہ لیتے۔

Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle was given the choice of one of two matters he would choose the easier of the two as long as it was not sinful to do so, but if it was sinful, he would not approach it. Allah's Apostle never took revenge over anybody for his own sake but (he did) only when Allah's legal bindings were outraged, in which case he would take revenge for Allah's sake." (See Hadith No. 760. Vol. 4)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 147


   صحيح البخاري6786عائشة بنت عبد اللهما خير النبي بين أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يأثم إذا كان الإثم كان أبعدهما منه ما انتقم لنفسه في شيء يؤتى إليه قط حتى تنتهك حرمات الله فينتقم لله
   صحيح البخاري6126عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين قط إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه في شيء قط إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم بها لله
   صحيح البخاري6853عائشة بنت عبد اللهما انتقم رسول الله لنفسه في شيء يؤتى إليه حتى ينتهك من حرمات الله فينتقم لله
   صحيح البخاري3560عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها
   صحيح مسلم6045عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله
   صحيح مسلم6048عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين أحدهما أيسر من الآخر إلا اختار أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه
   صحيح مسلم6050عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله شيئا قط بيده امرأة خادما إلا أن يجاهد في سبيل الله ما نيل منه شيء قط فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شيء من محارم الله فينتقم لله
   سنن أبي داود4785عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله في أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها
   سنن أبي داود4786عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله خادما امرأة قط
   سنن ابن ماجه1984عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله خادما له امرأة ضرب بيده شيئا
   المعجم الصغير للطبراني888عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله امرأة من نسائه قط لا ضرب بيده شيئا قط إلا أن يجاهد في سبيل الله ما نيل منه شيء قط فانتقم من صاحبه إلا أن تنتهك محارم الله فينتقم له
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم623عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 623  
´دین و دنیا میں سختی سے اجتناب کر کے آسانی والا راستہ اختیار کرنا`
«. . . انها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان ابعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 623]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3560، ومسلم 2327/77، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ دین و دنیا میں سختی سے اجتناب کر کے آسانی والا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
➋ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے (اپنے شاگردوں سے) پوچھا: کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو بہت سی نمازوں اور صدقے سے بہتر ہے؟ شاگردوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: دو آدمیوں کے درمیان صلح کرا دینا اور بغض و عداوت سے بچو کیونکہ یہ (نیکیوں کو) مونڈ (کر ختم کر) دیتا ہے۔ [موطأ الامام مالك، رواية يحييٰ 904/2 ح 1741، وسنده صحيح]
● یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آدمی حسن اخلاق کی وجہ سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بر روزہ رکھنے والے کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ [موطأ الامام مالك، رواية يحييٰ 904/2 ح 1740، وسنده صحيح]
➌ دین اسلام کے لئے انتقام اور بدلہ لینا صحیح ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک بدعتی (تقدیر کے منکر) نے سلام بھیجا تھا مگر انہوں سلام کا جواب نہیں دیا اور بدعتیوں سے برأت کا اعلان کیا۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2152 وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح غريب]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 43   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1984  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رحمت و شفقت قابل تعریف صفت ہے۔

(2)
جہاں تک ممکن ہو بیوی بچوں اور نوکروں کو جسمانی سزا دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
غصے میں آکر جانوروں کو مار پیٹ کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1984   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4785  
´عفو و درگزر کرنے اور انتقام نہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4785]
فوائد ومسائل:
1) معاملات دین کے ہوں یا دنیا کے بندے کو چاہیئے کہ آسان جانب اختیار کرے اور پھر اخلاص اور پابندی کے ساتھ اس پر عمل پیرا رہے۔
یہ اس سے زیادہ افضل ہے کہ پُر مشقت عمل ایک دو بار کر کےچھوڑ دیا جائے۔

2) انسان اپنی ذات کے لیئے انتقام سے بالا تر تو اس میں بری فضیلت ہے۔

3) اللہ کی حرمتوں کی پامالی پر اللہ کے لیے غضبناک ہونا ایمان کا حصہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4785   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6126  
6126. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے بشرطیکہ گناہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آپ اس سے سب لوگوں کی نسبت زیادہ دور رہنے والے ہوتے، نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کریمہ کے لیے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا البتہ اگر اللہ کی حرمت کو پامال کیا جاتا تو محض اللہ کی رضا کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6126]
حدیث حاشیہ:
بظاہر اس حدیث میں اشکال ہے کیونکہ جو کام گناہ ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو کیسے اختیار دیا جاتا، شاید یہ مراد ہو کہ کافروں کی طرف سے ایسا اختیار دیا جاتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6126   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6126  
6126. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان دونوں میں سے آسان کو اختیار کرتے بشرطیکہ گناہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آپ اس سے سب لوگوں کی نسبت زیادہ دور رہنے والے ہوتے، نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کریمہ کے لیے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا البتہ اگر اللہ کی حرمت کو پامال کیا جاتا تو محض اللہ کی رضا کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6126]
حدیث حاشیہ:
گناہوں کے کاموں میں اختیار دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کی طرف سے اگر کسی گناہ کے کام کا اختیار دیا جاتا تو آپ اس سے دور رہتے اور اللہ تعالیٰ یا مسلمانوں کی طرف سے اختیار دیے جانے کا مطلب ہے کہ وہ آسانی گناہ تک پہنچانے والی نہ ہوتی، مثلاً! عبادت میں مشقت اور میانہ روی کے درمیان اختیار دیا جائے اور اگر وہ مشقت ہلاکت تک پہنچانے والی ہوتی تو آپ میانہ روی کو پسند کرتے۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر آسانی اور تخفیف کو پسند فرماتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6126   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.