الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
23. بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
23. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان۔
(23) Chapter. The description of the Prophet (p.b.u.h).
حدیث نمبر: 3560
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها انها، قالت:" ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما، فإن كان إثما كان ابعد الناس منه وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا، قَالَتْ:" مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ بِهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے۔

Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle was given the choice of one of two matters, he would choose the easier of the two, as long as it was not sinful to do so, but if it was sinful to do so, he would not approach it. Allah's Apostle never took revenge (over anybody) for his own sake but (he did) only when Allah's Legal Bindings were outraged in which case he would take revenge for Allah's Sake.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 760


   صحيح البخاري6786عائشة بنت عبد اللهما خير النبي بين أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يأثم إذا كان الإثم كان أبعدهما منه ما انتقم لنفسه في شيء يؤتى إليه قط حتى تنتهك حرمات الله فينتقم لله
   صحيح البخاري6126عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين قط إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه في شيء قط إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم بها لله
   صحيح البخاري6853عائشة بنت عبد اللهما انتقم رسول الله لنفسه في شيء يؤتى إليه حتى ينتهك من حرمات الله فينتقم لله
   صحيح البخاري3560عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها
   صحيح مسلم6045عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله
   صحيح مسلم6048عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله بين أمرين أحدهما أيسر من الآخر إلا اختار أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه
   صحيح مسلم6050عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله شيئا قط بيده امرأة خادما إلا أن يجاهد في سبيل الله ما نيل منه شيء قط فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شيء من محارم الله فينتقم لله
   سنن أبي داود4785عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله في أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يكن إثما إن كان إثما كان أبعد الناس منه ما انتقم رسول الله لنفسه إلا أن تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها
   سنن أبي داود4786عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله خادما امرأة قط
   سنن ابن ماجه1984عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله خادما له امرأة ضرب بيده شيئا
   المعجم الصغير للطبراني888عائشة بنت عبد اللهما ضرب رسول الله امرأة من نسائه قط لا ضرب بيده شيئا قط إلا أن يجاهد في سبيل الله ما نيل منه شيء قط فانتقم من صاحبه إلا أن تنتهك محارم الله فينتقم له
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم623عائشة بنت عبد اللهما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 623  
´دین و دنیا میں سختی سے اجتناب کر کے آسانی والا راستہ اختیار کرنا`
«. . . انها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان ابعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 623]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3560، ومسلم 2327/77، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ دین و دنیا میں سختی سے اجتناب کر کے آسانی والا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
➋ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے (اپنے شاگردوں سے) پوچھا: کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو بہت سی نمازوں اور صدقے سے بہتر ہے؟ شاگردوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: دو آدمیوں کے درمیان صلح کرا دینا اور بغض و عداوت سے بچو کیونکہ یہ (نیکیوں کو) مونڈ (کر ختم کر) دیتا ہے۔ [موطأ الامام مالك، رواية يحييٰ 904/2 ح 1741، وسنده صحيح]
● یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آدمی حسن اخلاق کی وجہ سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بر روزہ رکھنے والے کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ [موطأ الامام مالك، رواية يحييٰ 904/2 ح 1740، وسنده صحيح]
➌ دین اسلام کے لئے انتقام اور بدلہ لینا صحیح ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک بدعتی (تقدیر کے منکر) نے سلام بھیجا تھا مگر انہوں سلام کا جواب نہیں دیا اور بدعتیوں سے برأت کا اعلان کیا۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2152 وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح غريب]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 43   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1984  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رحمت و شفقت قابل تعریف صفت ہے۔

(2)
جہاں تک ممکن ہو بیوی بچوں اور نوکروں کو جسمانی سزا دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
غصے میں آکر جانوروں کو مار پیٹ کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1984   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4785  
´عفو و درگزر کرنے اور انتقام نہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4785]
فوائد ومسائل:
1) معاملات دین کے ہوں یا دنیا کے بندے کو چاہیئے کہ آسان جانب اختیار کرے اور پھر اخلاص اور پابندی کے ساتھ اس پر عمل پیرا رہے۔
یہ اس سے زیادہ افضل ہے کہ پُر مشقت عمل ایک دو بار کر کےچھوڑ دیا جائے۔

2) انسان اپنی ذات کے لیئے انتقام سے بالا تر تو اس میں بری فضیلت ہے۔

3) اللہ کی حرمتوں کی پامالی پر اللہ کے لیے غضبناک ہونا ایمان کا حصہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4785   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3560  
3560. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دوباتوں کا اختیار دیاجاتا تو آپ اس کو اختیارکرتے جو آسان ہوتی بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہوتی لیکن اگر وہ بات گناہ ہوتی تو آپ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگراللہ کی حرمت پامال ہوتی تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3560]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن حنظل یا عقبہ بن ابی معیط یا ابورافع یہودی یا کعب بن اشرف کو جو آپ نے قتل کروایا وہ بھی اپنی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے اللہ کے دین میں خلل ڈالنا، لوگوں کو بہکانا اور فتنہ وفساد بھڑکانا اپنا رات دن کا شغل بنا لیا تھا۔
اس لیے قیام امن کے واسطے ان فساد پسندوں کو ختم کرایا گیا۔
ورنہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر آپ اپنی ذات کے لیے بدلہ لیتے تو اس یہودن کو ضرور قتل کراتے جس نے دعوت دے کر بکری کے گوشت میں زہر ملا کے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا، یا اس منافق کو قتل کراتے جس نے مال غنیمت کی تقسیم پر آپ کی دیانت پر شبہ کیا تھا مگر ان سب کو معاف کردیا گیا۔
جان سے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی سے قتل کرنے والا حبشی بن حرب جب آپ کے سامنے آیا توآپ کو سخت تکلیف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے معافی دی بلکہ اس کا اسلام بھی قبول کیا اور فتح مکہ کے دن تو آپ نے جو کچھ کیا اس پر آج تک دنیا حیران ہے۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3560   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3560  
3560. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دوباتوں کا اختیار دیاجاتا تو آپ اس کو اختیارکرتے جو آسان ہوتی بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہوتی لیکن اگر وہ بات گناہ ہوتی تو آپ ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگراللہ کی حرمت پامال ہوتی تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3560]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوکاموں سے ایک کو اختیار کرنے کی دوقسمیں ہیں:
ایک یہ کہ مذکورہ اختیار کفار کی طرف سے دیاجاتا،اس اختیار میں کسی گناہ کا اختیار بھی ہوسکتاہے،ایسی صورت میں آپ گناہ کا کام نہ کرتے مثلاً:
اللہ کی نافرمانی یا قطع رحمی کی کسی صورت میں اختیار نہ کرتے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ اختیار اللہ یا اہل ایمان کی طرف سے ہوتا،مثلاً:
عبادت میں مبالغہ اور میانہ روی کا اختیار دیا جاتا تو آپ میانہ روی کو اختیارکرتے کیونکہ جو مجاہدہ یا مبالغہ انسان کو ہلاکت تک پہنچادے یا دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے توآپ اسے اختیار نہ کرتے۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ آسان کام کو اختیار کرنا چاہیے۔

حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں اور اللہ کے حق کو بے کار نہ چھوڑیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن خطل اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کردیا تھا،یہ ذاتی انتقام کانتیجہ نہ تھا بلکہ دینی حرمات کی پامالی ان کے قتل کی محرک تھی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3560   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.