الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
4. بَابُ: {وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا} :
4. باب: اور اللہ نے جو حکم دیا ہے (تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا ہے) وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
(4) Chapter. “And the Command of Allah is a decree determined.” (V.33:38)
حدیث نمبر: 6601
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسال المراة طلاق اختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإن لها ما قدر لها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا وَلْتَنْكِحْ، فَإِنَّ لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنی کسی (دینی) بہن کی طلاق کا مطالبہ (شوہر سے) نہ کرے کہ اس کے گھر کو اپنے ہی لیے خاص کر لینا چاہے۔ بلکہ اسے نکاح (دوسری عورت کی موجودگی میں بھی) کر لینا چاہئے کیونکہ اسے اتنا ہی ملے گا جتنا اس کے مقدر میں ہو گا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "No woman should ask for the divorce of her sister (Muslim) so as to take her place, but she should marry the man (without compelling him to divorce his other wife), for she will have nothing but what Allah has written for her."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 598


   صحيح البخاري5152عبد الرحمن بن صخرلا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها لتستفرغ صحفتها فإنما لها ما قدر لها
   صحيح البخاري6601عبد الرحمن بن صخرلا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح فإن لها ما قدر لها
   جامع الترمذي1190عبد الرحمن بن صخرلا تسأل المرأة طلاق أختها لتكفئ ما في إنائها
   سنن أبي داود2176عبد الرحمن بن صخرلا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح فإنما لها ما قدر لها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم6عبد الرحمن بن صخرلا تسال المراة طلاق اختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 6  
´تقدیر کا بیان`
«. . . 362- وبه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح، فإنما لها ما قدر لها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ (اپنے لئے) خالی کرائے اور خود نکا ح کر لے، پس اسے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 6]

[وأخرجه البخاري 6601، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ کوئی عورت اپنے شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی دوسری بیوی یعنی اس عورت کی سوکن کو طلاق دے اور نہ عام عورت کسی دوسری عورت کو طلاق دلوا کر اپنا گھر آباد کرنے کے سپنے دیکھئے۔
➋ تقدیر برحق ہے۔
➌ آدمی کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا» کہہ دو! ہمیں وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لئے لکھا ہوتا ہے۔ [التوبه: 51]
➍ عورت کے ولی کے لئے یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے کہ نکاح کرنے والا شخص بعد میں دوسرا نکاح نہیں کرسکتا۔
➎ اگر نکاح کے وقت دولہا سے یہ شرط منوالی جائے کہ وہ اس شادی کے بعد جو نکاح بھی کرے گا تو اس کی بیوی کو تین طلاق یا طلاقِ بائن ہے وغیرہ تو یہ شرط فاسد وباطل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے اسی کو اختیار کرکے راجح قرار دیا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 18/166] بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ قسم کے حکم میں ہے لہٰذا اُسے قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔
➏ جس حدیث میں آیا ہے کہ نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کی جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے تو اس سے مراد جائز شرطیں ہیں۔ [التمهيد 18/168]
معلوم ہوا کہ ہر وہ شرط جو کتاب و سنت کے مطابق ہے، اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
➐ ابوالزناد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ شرط مقرر کی تھی کہ میرا گھر اس کا ہو گا پھر وہ بعد میں اسے نکالنے لگا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ گھر اس عورت کا ہے، وہ اپنی بیوی کو اس گھر سے نہیں نکال سکتا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2٠٠/4 ح16448، وسنده صحيح]
➑ اپنے مفاد کی خاطر کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا انتہائی مذموم عمل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 362   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2176  
´عورت اپنے (ہونے والے) شوہر سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیدے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کر لے، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2176]
فوائد ومسائل:
یعنی کسی مسلمان بہن کو طلاق دلوانا بہت بری بات ہے بلکہ چاہیے کہ رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرے۔
اس کو طلاق دلوا کر یہ نہ اپنے لیے کچھ اضافہ کرسکتی ہے اور نہ اسکا کچھ نقصان کر سکتی ہے. لہذا اگر اسی مرد کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2176   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6601  
6601. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت اپنی کسی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے پیالے کو بالکل خالی کر دے بلکہ چاہیئے وہ نکاح کرلے کیونکہ اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس کا مقدر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6601]
حدیث حاشیہ:
یہ حکم اس وقت ہے جب کہ عدل و انصاف کے ساتھ ہر دو کے حق ادا کرسکے ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ (النساء: 3)
اگر ہر دو بیویوں کے حقوق ادا نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6601   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6601  
6601. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت اپنی کسی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے پیالے کو بالکل خالی کر دے بلکہ چاہیئے وہ نکاح کرلے کیونکہ اس کے لیے وہی کچھ ہے جو اس کا مقدر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6601]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ شرط نہ لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دے تاکہ یہ اس کی تنہا بیوی ہو اور مباشرت میں کوئی عورت اس کی شریک نہ ہو۔
انسانی پست ہمتی اور خود غرضی کی یہ بدترین مثال ہے کہ کوئی عورت دوسری عورت کی طلاق کا مطالبہ اس لیے کرے کہ اس کی اسلامی بہن کا حصہ بھی اسے مل جائے۔
اسلام اپنے نفع کی خاطر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی اس بدترین صورت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس مشکل کام کو یہ کہہ کر آسان کر دیتا ہے کہ سرے سے لالچ کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ کسی کے مقدر کا رزق دوسرے کو مل جائے۔
یہ ممکن ہی نہیں، تو پھر مفت میں خود غرضی پر مبنی اس غیر شرعی اور غیر اخلاقی مطالبے کی کیا ضرورت ہے۔
(2)
بہرحال تقدیر کا مسئلہ بہت سی مشکلات کا حل ہے۔
زندگی کا کوئی بھی گوشہ جب انسان کے لیے مشکل بن رہا ہو تو تقدیر کا سبق اسے بڑی آسانی سے حل کر دیتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6601   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.