الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
The Book of Oaths and Vows
24. بَابُ إِذَا أَهْدَى مَالَهُ عَلَى وَجْهِ النَّذْرِ وَالتَّوْبَةِ:
24. باب: جب کوئی شخص اپنا مال نذر یا توبہ کے طور پر خیرات کر دے۔
(24) Chapter. If a person gives his property in charity because of a vow and as an expiation for sins (in repetance).
حدیث نمبر: 6690
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، اخبرني يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن عبد الله بن كعب، وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك في حديثه: وعلى الثلاثة الذين خلفوا، فقال في آخر حديثه: إن من توبتي اني انخلع من مالي صدقة إلى الله ورسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك فهو خير لك".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فِي حَدِيثِهِ: وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا، فَقَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَقَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا مجھ کو یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہو گئے تھے تو ان کی اولاد میں ایک یہی کہیں آنے جانے میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے واقعہ اور آیت «على الثلاثة الذين خلفوا‏» کے سلسلہ میں سنا، انہوں نے اپنی حدیث کے آخر میں کہا کہ (میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ پیش کش کی کہ) اپنی توبہ کی خوشی میں میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کے دین کی خدمت میں صدقہ کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

Narrated Ka`b bin Malik: In the last part of his narration about the three who remained behind (from the battle of Tabuk). (I said) "As a proof of my true repentance (for not joining the Holy battle of Tabuk), I shall give up all my property for the sake of Allah and His Apostle (as an expiation for that sin)." The Prophet said (to me), "Keep some of your wealth, for that is better for you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 681


   صحيح البخاري4418كعب بن مالكيا كعب بن مالك أبشر قال فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج وآذن رسول الله بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من أسلم فأوفى على الجبل وكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشر
   صحيح البخاري2757كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   صحيح البخاري7225كعب بن مالكلما تخلف عن رسول الله في غزوة تبوك فذكر حديثه ونهى رسول الله المسلمين عن كلامنا فلبثنا على ذلك خمسين ليلة وآذن رسول الله بتوبة الله علينا
   صحيح البخاري6255كعب بن مالكنهى رسول الله عن كلامنا وآتي رسول الله فأسلم عليه فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام أم لا حتى كملت خمسون ليلة وآذن النبي بتوبة الله علينا حين صلى الفجر
   صحيح البخاري3556كعب بن مالكإذا سر استنار وجهه حتى كأنه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه
   صحيح البخاري4678كعب بن مالكما أعلم أحدا أبلاه الله في صدق الحديث أحسن مما أبلاني ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله إلى يومي هذا كذبا وأنزل الله على رسوله لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار إلى قوله وكونوا مع الصادقين
   صحيح البخاري4673كعب بن مالكما أنعم الله علي من نعمة بعد إذ هداني أعظم من صدقي رسول الله أن لا أكون كذبته
   صحيح البخاري4676كعب بن مالكأمسك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح البخاري6690كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح مسلم7016كعب بن مالكلم أتخلف عن رسول الله في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك غير أني قد تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنه إنما خرج رسول الله والمسلمون يريدون عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلا
   جامع الترمذي3102كعب بن مالكأبشر يا كعب بن مالك بخير يوم أتى عليك منذ ولدتك أمك فقلت يا نبي الله أمن عند الله أم من عندك قال بل من عند الله ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه ب
   سنن أبي داود3317كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قال فقلت إني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن أبي داود3321كعب بن مالكلا قلت فنصفه قال لا قلت فثلثه قال نعم قلت فإني سأمسك سهمي من خيبر
   سنن أبي داود4600كعب بن مالكعن كلامنا أيها الثلاثة حتى إذا طال علي تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام ثم ساق خبر تنزيل توبته
   سنن النسائى الصغرى3854كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   سنن النسائى الصغرى732كعب بن مالكأما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك فقمت فمضيت
   سنن النسائى الصغرى3857كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3855كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك فقلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3856كعب بن مالكأمسك عليك مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك علي سهمي الذي بخيبر
   سنن ابن ماجه1393كعب بن مالكلما تاب الله عليه خر ساجدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 732  
´بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 732]
732 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ واقعہ بہت لمبا ہے، یہاں صرف ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ تفصیل صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418: و صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769]
➋ حدیث میں صراحت نہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے تحیۃ المسجد پڑھی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تبویب سے یہی غرض ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 732   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1393  
´شکرانہ کی نماز اور سجدہ شکر کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ سجدے میں گر پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1393]
اردو حاشہ:
فائده:
 حضرت کعب بن مالک،   حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوہ تبوک سے محض سستی کی بنا پر کسی معقول عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔
جس پر اللہ کے حکم سے تمام مسلمانوں نے ان تینوں حضرات سے پچاس دن تک بائیکاٹ کردیا۔
اتنی طویل مدت تک یہ حضرات پریشان رہے اور توبہ کرتے رہے۔
آخر پچاس دن بعد توبہ قبول ہوئی۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو ان کی زندگی کا افضل ترین دن قراردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك، حدیث: 4418)
قرآن مجید میں سورہ توبہ آیت 118 میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3102  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3102]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین وانصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا،
پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔
بے شک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبة: 117)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3102   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3317  
´جو اپنا سارا مال صدقہ میں دے دینے کی نذر مانے اس کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3317]
فوائد ومسائل:
کسی گناہ اور تقصیر کی توبہ میں صدقہ کرنا بہت افضل عمل ہے۔
لیکن انسان خالی ہاتھ ہوکر رہ جائے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
البتہ صدیقین کے لئے جائز ہے۔
جو اس کے نتائج کو بخیر وخوبی برداشت کرسکتے ہیں۔
جس کی مثال ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3317   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6690  
6690. عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6690]
حدیث حاشیہ:
آیت شریفہ ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ الخ (التوبة: 117)
میں ان تینوں صحابیوں کا ذکر ہے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور رسول کریم ﷺ نے ان سے سخت باز پرس کی تھی وہ تین حضرت کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعہ ہیں۔
پچھلے دو نےتو معذرت وغیرہ کر کے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا مگر حضرت کعب بن مالک نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور کوئی معذرت کرنا مناسب نہ جانا۔
آخر رسول کریم ﷺ نے وحی الہی کےانتظار میں ان سے بولنا وغیرہ بند کر دیا آخر بہت کافی دنوں بعد ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت ملی اور ان کو مبارک باد دی گئی۔
انصاری خزرجی ہیں دوسری بیعت عقبہ میں یہ شریک تھے۔
77سال کی عمر پا کر 50ھ میں جب کہ بصارت چلی گئی تھی ان کا انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنه أرضاہ (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6690   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6690  
6690. عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے (وہ اپنے باپ عبداللہ بن کعب سے بیان کرتے ہیں)۔ اور جب حضرت کعب بن مالک ؓ نا بینا ہوگئے تھے تو ان کی اولاد میں سے یہی (عبداللہ بن کعب) ان کو لے کر چلا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے ان کی حدیث سنی جو ان حضرات سے متعلق تھی جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سرگزشت کے آخر میں کہا: میں نے یہ پیش کش كى کہ اپنی توبہ کی خوشی میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے لیے صدقہ کر کے اس سے خالی ہونا چاہتا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے پاس ہی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6690]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے توبہ قبول ہونے کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔
آپ نے فرمایا:
نہیں۔
پھر انہوں نے نصف مال دینے کی اجازت مانگی تو بھی آپ نے انکار کر دیا۔
آخر میں ایک تہائی مال دینے کے متعلق کہا تو آپ نے فرمایا:
ہاں۔
اس کے بعد حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
میں اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ روک لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی تمام مال صدقہ کر دیا۔
(سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3321)
اس تفصیل کی بنا پر ہمارا موقف ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی کہ میرے مریض کو شفا ملنے پر میرا تمام مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال دینے کی اجازت ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرا موقف بیان کیا ہے کہ تمام مال صدقہ کرنا انسان کے اپنے حالات پر موقوف ہے، اگر مال دار صابر و شاکر ہے تو اسے تمام مال صدقہ کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے اور جیسا کہ انصار کے ایثار کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔
اگر وہ غریب ہے تو سارا مال صدقہ کرنے کی اجازت نہیں جیسا کہ حدیث میں بہترین صدقہ اسے قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بعد انسان کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو جائے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 699/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6690   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.