الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
10. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ
10. باب: سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها حتى كانت غزوة تبوك، إلا بدرا ولم يعاتب النبي صلى الله عليه وسلم احدا تخلف عن بدر، إنما خرج يريد العير فخرجت قريش مغوثين لعيرهم، فالتقوا عن غير موعد، كما قال الله عز وجل: ولعمري إن اشرف مشاهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس لبدر، وما احب اني كنت شهدتها مكان بيعتي ليلة العقبة حيث تواثقنا على الإسلام، ثم لم اتخلف بعد عن النبي صلى الله عليه وسلم، حتى كانت غزوة تبوك وهي آخر غزوة غزاها، وآذن النبي صلى الله عليه وسلم الناس بالرحيل فذكر الحديث بطوله، قال: فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فإذا هو جالس في المسجد وحوله المسلمون، وهو يستنير كاستنارة القمر، وكان إذا سر بالامر استنار فجئت فجلست بين يديه، فقال:" ابشر يا كعب بن مالك بخير يوم اتى عليك منذ ولدتك امك"، فقلت: يا نبي الله، امن عند الله ام من عندك؟ قال:" بل من عند الله، ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رءوف رحيم سورة التوبة آية 117، قال: وفينا انزلت ايضا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 119"، قال: قلت: يا نبي الله، إن من توبتي ان لا احدث إلا صدقا وان انخلع من مالي كله صدقة إلى الله وإلى رسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك فهو خير لك"، فقلت: فإني امسك سهمي الذي بخيبر، قال:" فما انعم الله علي نعمة بعد الإسلام اعظم في نفسي من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم حين صدقته انا وصاحباي لا نكون كذبنا فهلكنا كما هلكوا، وإني لارجو ان لا يكون الله ابلى احدا في الصدق مثل الذي ابلاني، ما تعمدت لكذبة بعد وإني لارجو ان يحفظني الله فيما بقي"، قال: وقد روي عن الزهري هذا الحديث بخلاف هذا الإسناد، وقد قيل: عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن عمه عبيد الله، عن كعب، وقد قيل غير هذا، وروى يونس بن يزيد هذا الحديث عن الزهري، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، ان اباه حدثه عن كعب بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ، إِلَّا بَدْرًا وَلَمْ يُعَاتِبِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغْوثِينَ لِعِيرِهِمْ، فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاهِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ، وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَهِدْتُهَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَهِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا، وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ الْمُسْلِمُونَ، وَهُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ، وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالْأَمْرِ اسْتَنَارَ فَجِئْتُ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَى عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ؟ قَالَ:" بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، ثُمَّ تَلَا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة التوبة آية 117، قَالَ: وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119"، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ:" فَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَدَقْتُهُ أَنَا وَصَاحِبَايَ لَا نَكُونُ كَذَبْنَا فَهَلَكْنَا كَمَا هَلَكُوا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ اللَّهُ أَبْلَى أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلَانِي، مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ"، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ بِخِلَافِ هَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَدْ قِيلَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ كَعْبٍ، وَقَدْ قِيلَ غَيْرُ هَذَا، وَرَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ولكن ليقضي الله أمرا كان مفعولا» (الأنفال: ۴۲) ۱؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہد و میثاق لیا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا۔ اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہو جاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے۔‏‏‏‏ میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے۔‏‏‏‏ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة» یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے «إن الله هو التواب الرحيم» ۱؎ تک پہنچے۔ آیت «اتقوا الله وكونوا مع الصادقين» بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‏‏‏‏ میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہو جاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک و برباد ہو گئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہو گا، اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،
۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبیداللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے،
۳- یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف بھذا السیاق الطویل، وأخرجہ مختصرا ومتفرقا کل من: صحیح البخاری/الجھاد 101 (2947، 2948)، والمغازي 79 (4418)، و سنن ابی داود/ الجھاد 101 (2637) (تحفة الأشراف: 11153) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کر لینے کا ڈر موجود تھا، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بیشک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبہ: ۱۱۷)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1912)

   صحيح البخاري4418كعب بن مالكيا كعب بن مالك أبشر قال فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج وآذن رسول الله بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من أسلم فأوفى على الجبل وكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشر
   صحيح البخاري2757كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   صحيح البخاري7225كعب بن مالكلما تخلف عن رسول الله في غزوة تبوك فذكر حديثه ونهى رسول الله المسلمين عن كلامنا فلبثنا على ذلك خمسين ليلة وآذن رسول الله بتوبة الله علينا
   صحيح البخاري6255كعب بن مالكنهى رسول الله عن كلامنا وآتي رسول الله فأسلم عليه فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام أم لا حتى كملت خمسون ليلة وآذن النبي بتوبة الله علينا حين صلى الفجر
   صحيح البخاري3556كعب بن مالكإذا سر استنار وجهه حتى كأنه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه
   صحيح البخاري4678كعب بن مالكما أعلم أحدا أبلاه الله في صدق الحديث أحسن مما أبلاني ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله إلى يومي هذا كذبا وأنزل الله على رسوله لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار إلى قوله وكونوا مع الصادقين
   صحيح البخاري4673كعب بن مالكما أنعم الله علي من نعمة بعد إذ هداني أعظم من صدقي رسول الله أن لا أكون كذبته
   صحيح البخاري4676كعب بن مالكأمسك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح البخاري6690كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح مسلم7016كعب بن مالكلم أتخلف عن رسول الله في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك غير أني قد تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنه إنما خرج رسول الله والمسلمون يريدون عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلا
   جامع الترمذي3102كعب بن مالكأبشر يا كعب بن مالك بخير يوم أتى عليك منذ ولدتك أمك فقلت يا نبي الله أمن عند الله أم من عندك قال بل من عند الله ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه ب
   سنن أبي داود3317كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قال فقلت إني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن أبي داود3321كعب بن مالكلا قلت فنصفه قال لا قلت فثلثه قال نعم قلت فإني سأمسك سهمي من خيبر
   سنن أبي داود4600كعب بن مالكعن كلامنا أيها الثلاثة حتى إذا طال علي تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام ثم ساق خبر تنزيل توبته
   سنن النسائى الصغرى3854كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   سنن النسائى الصغرى732كعب بن مالكأما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك فقمت فمضيت
   سنن النسائى الصغرى3857كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3855كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك فقلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3856كعب بن مالكأمسك عليك مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك علي سهمي الذي بخيبر
   سنن ابن ماجه1393كعب بن مالكلما تاب الله عليه خر ساجدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 732  
´بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 732]
732 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ واقعہ بہت لمبا ہے، یہاں صرف ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ تفصیل صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418: و صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769]
➋ حدیث میں صراحت نہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے تحیۃ المسجد پڑھی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تبویب سے یہی غرض ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 732   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1393  
´شکرانہ کی نماز اور سجدہ شکر کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ سجدے میں گر پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1393]
اردو حاشہ:
فائده:
 حضرت کعب بن مالک،   حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوہ تبوک سے محض سستی کی بنا پر کسی معقول عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔
جس پر اللہ کے حکم سے تمام مسلمانوں نے ان تینوں حضرات سے پچاس دن تک بائیکاٹ کردیا۔
اتنی طویل مدت تک یہ حضرات پریشان رہے اور توبہ کرتے رہے۔
آخر پچاس دن بعد توبہ قبول ہوئی۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو ان کی زندگی کا افضل ترین دن قراردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك، حدیث: 4418)
قرآن مجید میں سورہ توبہ آیت 118 میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3102  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3102]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین وانصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا،
پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔
بے شک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبة: 117)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3102   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3317  
´جو اپنا سارا مال صدقہ میں دے دینے کی نذر مانے اس کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3317]
فوائد ومسائل:
کسی گناہ اور تقصیر کی توبہ میں صدقہ کرنا بہت افضل عمل ہے۔
لیکن انسان خالی ہاتھ ہوکر رہ جائے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
البتہ صدیقین کے لئے جائز ہے۔
جو اس کے نتائج کو بخیر وخوبی برداشت کرسکتے ہیں۔
جس کی مثال ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3317   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.