الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
5. بَابُ إِذَا قَتَلَ بِحَجَرٍ أَوْ بِعَصًا:
5. باب: جب کسی نے پتھر یا ڈنڈے سے کسی کو قتل کیا۔
(5) Chapter. If someone kills (somebody) with a stone or with a stick.
حدیث نمبر: 6877
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، اخبرنا عبد الله بن إدريس، عن شعبة، عن هشام بن زيد بن انس، عن جده انس بن مالك، قال: خرجت جارية عليها اوضاح بالمدينة، قال: فرماها يهودي بحجر، قال: فجيء بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وبها رمق، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلان قتلك؟ فرفعت راسها، فاعاد عليها، قال: فلان قتلك؟ فرفعت راسها، فقال لها في الثالثة: فلان قتلك؟ فخفضت راسها، فدعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم: فقتله بين الحجرين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَدِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: فَرَمَاهَا يَهُودِيٌّ بِحَجَرٍ، قَالَ: فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فُلَانٌ قَتَلَكِ؟ فَرَفَعَتْ رَأْسَهَا، فَأَعَادَ عَلَيْهَا، قَالَ: فُلَانٌ قَتَلَكِ؟ فَرَفَعَتْ رَأْسَهَا، فَقَالَ لَهَا فِي الثَّالِثَةِ: فُلَانٌ قَتَلَكِ؟ فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا، فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقَتَلَهُ بَيْنَ الْحَجَرَيْنِ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ہشام بن زید بن انس نے، ان سے ان کے دادا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیور پہنے باہر نکلی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اسے ایک یہودی نے پتھر سے مار دیا۔ جب اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو ابھی اس میں جان باقی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر (انکار کے لیے) اٹھایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے اس پر بھی اٹھایا۔ تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا لیا (اقرار کرتے ہوئے جھکا لیا) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھروں سے کچل کر اسے قتل کرایا۔

Narrated Anas bin Malik: A girl wearing ornaments, went out at Medina. Somebody struck her with a stone. She was brought to the Prophet while she was still alive. Allah's Apostle asked her, "Did such-and-such a person strike you?" She raised her head, denying that. He asked her a second time, saying, "Did so-and-so strike you?" She raised her head, denying that. He said for the third time, "Did so-and-so strike you?" She lowered her head, agreeing. Allah's Apostle then sent for the killer and killed him between two stones.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 16


   صحيح البخاري6885أنس بن مالكقتل يهوديا بجارية قتلها على أوضاح لها
   صحيح البخاري6876أنس بن مالكرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري2413أنس بن مالكرض رأسه بين حجرين
   صحيح البخاري2746أنس بن مالكيهوديا رض رأس جارية بين حجرين فقيل لها من فعل بك أفلان أو فلان حتى سمي اليهودي فأومأت برأسها فجيء به فلم يزل حتى اعترف فأمر النبي فرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري6877أنس بن مالكفلان قتلك فرفعت رأسها فأعاد عليها قال فلان قتلك فرفعت رأسها فقال لها في الثالثة فلان قتلك فخفضت رأسها فدعا به رسول الله فقتله بين الحجرين
   صحيح البخاري6884أنس بن مالكيهوديا رض رأس جارية بين حجرين فقيل لها من فعل بك هذا أفلان أفلان حتى سمي اليهودي فأومأت برأسها فجيء باليهودي فاعترف فأمر به النبي فرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري6879أنس بن مالكقتله النبي بحجرين
   صحيح مسلم4361أنس بن مالكيهوديا قتل جارية على أوضاح لها فقتلها بحجر قال فجيء بها إلى النبي وبها رمق فقال لها أقتلك فلان فأشارت برأسها أن لا ثم قال لها الثانية فأشارت برأسها أن لا ثم سألها الثالثة فقالت نعم وأشارت برأسها فقتله رسول الله
   صحيح مسلم4363أنس بن مالكرجلا من اليهود قتل جارية من الأنصار على حلي لها ثم ألقاها في القليب ورضخ رأسها بالحجارة فأخذ فأتي به رسول الله فأمر به أن يرجم حتى يموت فرجم حتى مات
   صحيح مسلم4365أنس بن مالكجارية وجد رأسها قد رض بين حجرين فسألوها من صنع هذا بك فلان فلان حتى ذكروا يهوديا فأومت برأسها فأخذ اليهودي فأقر فأمر به رسول الله أن يرض رأسه بالحجارة
   جامع الترمذي1394أنس بن مالكأمر به رسول الله فرضخ رأسه بين حجرين
   سنن أبي داود4535أنس بن مالكيرض رأسه بالحجارة
   سنن أبي داود4529أنس بن مالكقتل بين حجرين
   سنن أبي داود4527أنس بن مالكيرض رأسه بالحجارة
   سنن النسائى الصغرى4744أنس بن مالكيهوديا قتل جارية على أوضاح لها فأقاده رسول الله بها
   سنن النسائى الصغرى4745أنس بن مالكرضخ رأسه بين حجرين
   سنن النسائى الصغرى4783أنس بن مالكقتله بين حجرين
   سنن النسائى الصغرى4746أنس بن مالكرضخ رأسه بين حجرين
   سنن ابن ماجه2666أنس بن مالكقتله رسول الله بين حجرين
   سنن ابن ماجه2665أنس بن مالكرضخ رسول الله رأسه بين حجرين
   بلوغ المرام999أنس بن مالكفاخذ اليهودي فاقر فامر رسول الله ان يرض راسه بين حجرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2666  
´قاتل سے قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے متعلق پوچھا: (کیا فلاں نے مارا ہے؟) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کے متعلق پوچھا: تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2666]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پتھروں کے درمیان قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سرپتھر پر رکھ کر اوپر سے دوسرا پتھر مارا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوتے ہوئے فوت ہوگئی۔

(2)
گواہی کےمعاملے میں واضح اشارہ کلام کے حکم میں ہے۔
نماز میں اس قسم کا اشارہ کلام کے حکم میں نہیں۔ (صحیح البخاري، الکسوف، باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، حدیث: 1053)

(3)
سزائے موت اسی طرح دی جائے جس طرح قاتل نے قتل کیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2666   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 999  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا کہ فلاں نے، فلاں نے، اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا۔ ہاں! یہودی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اس جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم میں ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 999»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الديات، باب من أقاد بالحجر، حديث:6879، ومسلم، القسامة، باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر...، حديث:1672.»
تشریح:
1. اس حدیث میں دلیل ہے کہ مقتول کا قصاص بھاری چیزوں‘ پتھروں وغیرہ سے لینا درست ہے‘ صرف لوہے کی چیزوں کے ساتھ قصاص لینا مخصوص نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ متبوعین کا یہی مذہب ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور قاتل کو اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 999   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1394  
´جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیرکی روایت ہے جو ابن ماجہ میں لَا قودَ إلاَّ بِالسَّيف کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے،
لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم:
منکرہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1394   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4529  
´قاتل سے قصاص لیے جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا؟ فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کیا فلاں نے کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4529]
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے وہ کسی مرد کا قاتل ہو یا عورت کا یہاں عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا گیا، کیونکہ وہ اس عورت کا قاتل تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4529   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6877  
6877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مدینہ طیبہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیورات پہنے باہر نکلی۔ ایک یہودی نے اسے پتھر مارا۔ اس میں آخری سانس تھى کہ اسے نبی ﷺ کے پاس لایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے (انکار کرتے ہوئے) اپنا سر اٹھایا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے پھر(انکار کرتے ہوئے) اپنا سر اوپر کیا۔ جب آپ نے تیسری مرتبہ پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ تو اس نے (ہاں کرتے ہوئے) اپنا سر نیچے کر لیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس (یہودی) کو بلایا اور اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6877]
حدیث حاشیہ:
(1)
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ قصاص ہمیشہ تلوار سے لینا چاہیے، پتھر یا لکڑی سے قاتل کو نہیں مارا جائے گا لیکن جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ جس طرح قاتل نے قتل کیا ہے اس طرح بھی قصاص لیا جا سکتا ہے، تلوار سے قصاص لینا ضروری نہیں۔
تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک روایت حسب ذیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قصاص سرف تلوار کے ساتھ ہے۔
(سنن ابن ماجة، الدیات،، حدیث: 2667)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے صراحت سے بیان کیا ہے۔
(تلخیص الحبیر: 39/4)
اس لیے یہ مسئلہ صحیح نہیں، قصاص کسی بھی چیز کے ذریعے سے لیا جا سکتا ہے۔
(2)
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جب بھی کسی کی دست اندازی سے موت واقع ہو جائے، اس میں قصاص ہے، خواہ پتھر سے ہو یا لکڑی سے۔
کچھ حضرات نے قتل عمد کے لیے ہتھیار سے قتل کرنے کی شرط لگائی ہے، لیکن ان شرائط کی کوئی حقیقت نہیں جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6877   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.