الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
7. بَابُ مَنْ أَقَادَ بِالْحَجَرِ:
7. باب: پتھروں سے قصاص لینے کا بیان۔
(7) Chapter. Whoever punished ( a killer) with a stone (in retaliation).
حدیث نمبر: 6879
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن هشام بن زيد، عن انس رضي الله عنه، ان يهوديا قتل جارية على اوضاح لها، فقتلها بحجر، فجيء بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وبها رمق، فقال:" اقتلك فلان؟ فاشارت براسها ان لا، ثم قال: الثانية، فاشارت براسها ان لا، ثم سالها الثالثة، فاشارت براسها ان نعم، فقتله النبي صلى الله عليه وسلم بحجرين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً عَلَى أَوْضَاحٍ لَهَا، فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ، فَجِيءَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ:" أَقَتَلَكِ فُلَانٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، ثُمَّ قَالَ: الثَّانِيَةَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، ثُمَّ سَأَلَهَا الثَّالِثَةَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ، فَقَتَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجَرَيْنِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے چاندی کے زیور کے لالچ میں مار ڈالا تھا۔ اس نے لڑکی کو پتھر سے مارا پھر لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں جان باقی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، کیا تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے اقرار کیا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دو پتھروں میں کچل کر قتل کر دیا۔

Narrated Anas: A Jew killed a girl so that he may steal her ornaments. He struck her with a stone, and she was brought to the Prophet while she was still alive. The Prophet asked her, "Did such-and-such person strike you?" She gestured with her head, expressing denial. He asked her for the second time, and she again gestured with her head, expressing denial. When he asked her for the third time, she beckoned, "Yes." So the Prophet killed him (the Jew) with two stones.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 18


   صحيح البخاري6885أنس بن مالكقتل يهوديا بجارية قتلها على أوضاح لها
   صحيح البخاري6876أنس بن مالكرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري2413أنس بن مالكرض رأسه بين حجرين
   صحيح البخاري2746أنس بن مالكيهوديا رض رأس جارية بين حجرين فقيل لها من فعل بك أفلان أو فلان حتى سمي اليهودي فأومأت برأسها فجيء به فلم يزل حتى اعترف فأمر النبي فرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري6877أنس بن مالكفلان قتلك فرفعت رأسها فأعاد عليها قال فلان قتلك فرفعت رأسها فقال لها في الثالثة فلان قتلك فخفضت رأسها فدعا به رسول الله فقتله بين الحجرين
   صحيح البخاري6884أنس بن مالكيهوديا رض رأس جارية بين حجرين فقيل لها من فعل بك هذا أفلان أفلان حتى سمي اليهودي فأومأت برأسها فجيء باليهودي فاعترف فأمر به النبي فرض رأسه بالحجارة
   صحيح البخاري6879أنس بن مالكقتله النبي بحجرين
   صحيح مسلم4361أنس بن مالكيهوديا قتل جارية على أوضاح لها فقتلها بحجر قال فجيء بها إلى النبي وبها رمق فقال لها أقتلك فلان فأشارت برأسها أن لا ثم قال لها الثانية فأشارت برأسها أن لا ثم سألها الثالثة فقالت نعم وأشارت برأسها فقتله رسول الله
   صحيح مسلم4363أنس بن مالكرجلا من اليهود قتل جارية من الأنصار على حلي لها ثم ألقاها في القليب ورضخ رأسها بالحجارة فأخذ فأتي به رسول الله فأمر به أن يرجم حتى يموت فرجم حتى مات
   صحيح مسلم4365أنس بن مالكجارية وجد رأسها قد رض بين حجرين فسألوها من صنع هذا بك فلان فلان حتى ذكروا يهوديا فأومت برأسها فأخذ اليهودي فأقر فأمر به رسول الله أن يرض رأسه بالحجارة
   جامع الترمذي1394أنس بن مالكأمر به رسول الله فرضخ رأسه بين حجرين
   سنن أبي داود4535أنس بن مالكيرض رأسه بالحجارة
   سنن أبي داود4529أنس بن مالكقتل بين حجرين
   سنن أبي داود4527أنس بن مالكيرض رأسه بالحجارة
   سنن النسائى الصغرى4744أنس بن مالكيهوديا قتل جارية على أوضاح لها فأقاده رسول الله بها
   سنن النسائى الصغرى4745أنس بن مالكرضخ رأسه بين حجرين
   سنن النسائى الصغرى4783أنس بن مالكقتله بين حجرين
   سنن النسائى الصغرى4746أنس بن مالكرضخ رأسه بين حجرين
   سنن ابن ماجه2666أنس بن مالكقتله رسول الله بين حجرين
   سنن ابن ماجه2665أنس بن مالكرضخ رسول الله رأسه بين حجرين
   بلوغ المرام999أنس بن مالكفاخذ اليهودي فاقر فامر رسول الله ان يرض راسه بين حجرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2666  
´قاتل سے قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے متعلق پوچھا: (کیا فلاں نے مارا ہے؟) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کے متعلق پوچھا: تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2666]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پتھروں کے درمیان قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سرپتھر پر رکھ کر اوپر سے دوسرا پتھر مارا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوتے ہوئے فوت ہوگئی۔

(2)
گواہی کےمعاملے میں واضح اشارہ کلام کے حکم میں ہے۔
نماز میں اس قسم کا اشارہ کلام کے حکم میں نہیں۔ (صحیح البخاري، الکسوف، باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، حدیث: 1053)

(3)
سزائے موت اسی طرح دی جائے جس طرح قاتل نے قتل کیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2666   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 999  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا کہ فلاں نے، فلاں نے، اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا۔ ہاں! یہودی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اس جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم میں ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 999»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الديات، باب من أقاد بالحجر، حديث:6879، ومسلم، القسامة، باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر...، حديث:1672.»
تشریح:
1. اس حدیث میں دلیل ہے کہ مقتول کا قصاص بھاری چیزوں‘ پتھروں وغیرہ سے لینا درست ہے‘ صرف لوہے کی چیزوں کے ساتھ قصاص لینا مخصوص نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ متبوعین کا یہی مذہب ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور قاتل کو اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 999   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1394  
´جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیرکی روایت ہے جو ابن ماجہ میں لَا قودَ إلاَّ بِالسَّيف کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے،
لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم:
منکرہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1394   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4529  
´قاتل سے قصاص لیے جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا؟ فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کیا فلاں نے کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4529]
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے وہ کسی مرد کا قاتل ہو یا عورت کا یہاں عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا گیا، کیونکہ وہ اس عورت کا قاتل تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4529   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6879  
6879. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کو اس کے زیورات کے لالچ میں آ کر پتھر سے قتل کر دیا۔ وہ لڑکی نبی ﷺ کے پاس لائی گئی تو اس کے جسم میں کچھ جان باقی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا تو اس مرتبہ بھی اس نے سر کے اشارے سے انکار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارے سے اقرار کیا، چنانچہ نبی ﷺ نے اس (قاتل یہودی) کو دو پتھروں سے کچل کر قتل کرا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6879]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کے کہنے سے ہی یہودی کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق وتفتیش کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہودی سے پوچھا۔
جب اس نے اعتراف کیا تو پھر اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔
(2)
قصاص کے لیے ضروری نہیں کہ تلوار یا تیز دھار ہتھیار ہی سے قتل کیا جائے، بلکہ کوئی بھی چیز قصاص کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
اگرچہ تلوار سے قصاص لینے کے متعلق ایک حدیث بیان کی جاتی ہے لیکن وہ قانل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔
(فتح الباري: 249/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6879   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.