الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
14. بَابٌ في الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ:
14. باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
(14) Chapter. (Tricks play in case of) gift-giving and pre-emption.
حدیث نمبر: Q6975
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال بعض الناس: إن وهب هبة الف درهم او اكثر حتى مكث عنده سنين واحتال في ذلك ثم رجع الواهب فيها فلا زكاة على واحد منهما فخالف الرسول صلى الله عليه وسلم في الهبة واسقط الزكاة.وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنْ وَهَبَ هِبَةً أَلْفَ دِرْهَمٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّى مَكَثَ عِنْدَهُ سِنِينَ وَاحْتَالَ فِي ذَلِكَ ثُمَّ رَجَعَ الْوَاهِبُ فِيهَا فَلَا زَكَاةَ عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمَا فَخَالَفَ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْهِبَةِ وَأَسْقَطَ الزَّكَاةَ.
‏‏‏‏ اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہو گی اور ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف کیا جو ہبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزرنے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے۔

حدیث نمبر: 6975
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ايوب السختياني، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه، ليس لنا مثل السوء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ، لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے ‘ ہمارے لیے بری مثال مناسب نہیں۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said, "The one who takes back his gift is like a dog swallowing its own vomit, and we (believers) should not act according to this bad example."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 105


   صحيح البخاري2589عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   صحيح البخاري6975عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالكلب يعود في قيئه ليس لنا مثل السوء
   صحيح البخاري2621عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   صحيح البخاري2622عبد الله بن عباسكالكلب يرجع في قيئه
   صحيح مسلم4176عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   صحيح مسلم4174عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   صحيح مسلم4173عبد الله بن عباسمثل الذي يتصدق بصدقة ثم يعود في صدقته كمثل الكلب يقيء ثم يأكل قياه
   صحيح مسلم4170عبد الله بن عباسمثل الذي يرجع في صدقته كمثل الكلب يقيء ثم يعود في قيئه فيأكله
   جامع الترمذي1298عبد الله بن عباسليس لنا مثل السوء العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   سنن أبي داود3538عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3728عبد الله بن عباسليس لنا مثل السوء العائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3726عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3724عبد الله بن عباسمثل الذي يتصدق بالصدقة ثم يرجع فيها كمثل الكلب قاء ثم عاد في قيئه فأكله
   سنن النسائى الصغرى3729عبد الله بن عباسليس لنا مثل السوء العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3730عبد الله بن عباسليس لنا مثل السوء الراجع في هبته كالكلب في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3723عبد الله بن عباسمثل الذي يرجع في صدقته كمثل الكلب يرجع في قيئه فيأكله
   سنن النسائى الصغرى3727عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3721عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3731عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3732عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن النسائى الصغرى3725عبد الله بن عباسمثل الذي يرجع في صدقته كمثل الكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   سنن ابن ماجه2385عبد الله بن عباسالعائد في هبته كالعائد في قيئه
   سنن ابن ماجه2391عبد الله بن عباسمثل الذي يتصدق ثم يرجع في صدقته مثل الكلب يقيء ثم يرجع فيأكل قيئه
   بلوغ المرام789عبد الله بن عباس العائد في هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه
   المعجم الصغير للطبراني730عبد الله بن عباس العائد فى هبته كالعائد فى قيئه
   مسندالحميدي540عبد الله بن عباسليس لنا مثل السوء العائد في هبته كالكلب يعود في قيئه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2385  
´ہبہ کر کے واپس لینے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ کر کے واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کے مانند ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2385]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہبہ کا مطلب کسی کو کوئی چیز بلامعاوضہ دے دینا ہے۔
اس کامقصد محض اللہ کی رضا کاحصول اورایک مومن سےحسن سلوک ہوتا ہے لہٰذا اسےواپس لینا اپنی نیکی کالعدم کرنے کےبرابر ہے۔
اور حان بوجھ کرنیکی ضائع کرنا بہت بری بات ہے۔

(2)
ہبہ کا ایک فائدہ مسلمانوں کی باہمی محبت واحترام میں اضافہ بھی ہے۔
ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے سے نہ صرف یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ باہمی محبت واحترام میں بھی کمی آ جاتی ہے اس طرح فائدے سے نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔

(3)
کتےکےعمل سےتشبیہ دینے کا مقصد اس کام سےنفرت دلانا ہے۔

(4)
والد اولاد کوعطیہ دے کر واپس لےسکتا ہے کیونکہ اولاد کی ملکیت اس کی اپنی ملکیت کےحکم میں ہے۔
دیکھے:
(حدیث: 2377)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2385   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 789  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہبہ کر کے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو خود قے کرتا ہے اور پھر اسے کھا لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ہمارے لیے اس سے بری مثال اور کوئی نہیں کہ جو شخص اپنے ہبہ کو دے کر واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مانند ہے جو خود ہی قے کرتا ہے اور پھر اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 789»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة الرجل لامرأته والمرأة لزوجها، حديث:2589، ومسلم، الهبات، باب تحريم الرجوع في الصدقة بعد القبض، حديث:1622.»
تشریح:
یہ حدیث ہبہ کردہ چیز کو واپس لینے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ البتہ والد اپنی اولاد کو دیے ہوئے ہبہ کے بارے میں اس سے مستثنیٰ ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں موجود ہے۔
مگر احناف کا مذہب یہ ہے کہ ہبہ کردہ چیز کو واپس لینا حلال ہے اور بعض احناف نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کَالْکَلْبِ… اس کی عدم حرمت پر دلالت کرتا ہے‘ اس لیے کہ کتا تو غیر مکلف ہے اور اس کی اپنی قے اس کے لیے حرام نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ جب کتا غیر مکلف ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس کی قے اس کے لیے حلال ہے یا حرام کیونکہ تحلیل و تحریم ان فروع میں سے ہے جس کا کسی کو مکلف بنایا گیا ہو جیسا کہ شجر و حجر (درخت اور پتھر) کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ اندھا یا بینا ہے‘ اس لیے کہ وہ اندھے پن اور بصارت کا محل ہی نہیں‘ لہٰذا اس حدیث میں تشبیہ‘ تحلیل یا تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے۔
اور جب یہ تشبیہ‘ تحلیل و تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے تو پھر یہ تحلیل و تحریم کے لیے سرے سے دلیل ہی نہیں بن سکتی۔
تحریم تو نص صریح سے ثابت ہے‘ اس لیے اسی کو دلیل بنانا چاہیے۔
اور جہاں تک تشبیہ کا تعلق ہے تو اس سے مقصود اس حرام فعل کی قباحت بیان کرنا‘ اس سے نفرت دلانا‘ اس کی شدید خباثت کا اظہار کرنا اور بدہیبت منظر کی صورت پیش کرنا ہے۔
افسوس! انسان کیسے پسند کرے گا کہ وہ کتے کے درجہ تک پہنچ جائے‘ پھر اس درجہ تک اتر جائے کہ پہلے قے کرے اور پھر اپنی قے چاٹ لے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 789   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1298  
´ہبہ کو واپس لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1298]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت وقباحت واضح ہوتی ہے،
ایک تو ایسے شخص کو کُتے سے تشبیہ دی گئی ہے،
دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیرکیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1298   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6975  
6975. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6975]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ موہوب لہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد پھر ہبہ میں رجوع کرنا حرام ہے اور ناجائز ہے اور جب رجوع ناجائز ہوا تو موہوب لہ پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی۔
اہل حدیث کا یہی قول ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب رجوع جائز ہوا گو مکروہ ان کے نزدیک بھی ہے تو نہ واہب پر زکوٰۃ ہوگی نہ موہوب لہ پر اور یہ حیلہ کر کے دونوں زکوٰۃ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6975   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6975  
6975. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6975]
حدیث حاشیہ:

کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا جائز نہیں چنانچہ ایک روایت میں ہے۔
"ہدیہ واپس لینے والا اس طرح ہے جیسے خود قے کر کے اسے چاٹ جائے۔
" (صحیح البخاري، الھبة حدیث: 2621)
اپنی قے کو چاٹنا حرام ہے لہٰذا ہبہ واپس لینا بھی حرام ہے۔
اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے ہاں والد جو اپنے بچے کو عطیہ دیتا ہے وہ اس سے واپس لے سکتا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث 3539)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث میں کتے کی حالت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے لیے اس طرح کی بری مثال مناسب نہیں ہے لیکن حیلہ سازوں کی چابکدستی ملاحظہ فرمائیں ان کے نزدیک کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینے میں کوئی حرج نہیں خواہ وہ ہدیہ قبول کرنے والے کے ہاں سال بھر پڑا رہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی اپنے ہبے کا زیادہ حق دار ہے جب تک اس کا بدلہ نہ دیا جائے۔
(سنن ابن ماجة، الهبات حدیث: 2387)
یہ حدیث قابل حجت نہیں کیونکہ اس میں ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع ضعیف ہے نیز اس میں عمروبن دینار راوی ہے جس کا سماع حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں۔
اگر صحیح بھی ہو تو اس سے مراد وہ ہبہ ہے جو معاوضہ لینے کی غرض سے دیا گیا ہو مطلق ہبہ کے متعلق واپس لینے کا موقف اس حدیث سے ثابت نہیں ہو تا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا ہے کہ ان حیلہ سازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کی ہے جو دین اسلام میں انتہائی خطرناک حرکت ہے۔
حیلہ سازوں نے دوسری نا زیبا حرکت یہ کی ہے کہ حیلے کے ذریعے سے زکاۃ بھی ساقط کر دی۔
حالانکہ جس شخص کو ہبہ کیا گیا تھا وہ اس نے قبول کرنے کے بعد سال بھر ملکیت میں رکھا اس دوران میں اس پر زکاۃ فرض ہو چکی تھی پھر ہبہ کرنے والے کے رجوع کی وجہ سے اس کی ملکیت روز اول سے ظاہر ہو گئی، لہٰذا اس پر بھی زکاۃ فرض ہونی چاہیے تھی لیکن حیلہ سازوں نے دونوں ہی سے زکاۃ ساقط کر دی اور زکاۃ فریضۃ اسلام ہے جس کا ساقط کرنا کسی صورت میں جائز نہیں پھر ان حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی کہ اگر کسی نے یہ حماقت کر لی ہے تو اسے بہر حال نافذ ہونا چاہیے لیکن ہمارا موقف ہے کہ جو امر جائز نہیں اس کا نفاذ کیونکر ہو سکتا ہے۔

بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دونوں اعتراض اپنی جگہ پر ناقابل تردید ہیں ایک تو حدیث کی مخالفت کرنا اور دوسرا فریضہ اسلام زکاۃ کو حیلے سے ساقط کرنا۔
اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6975   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.