Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab saw a silken cloak (being sold) at the gate of the Mosque and said to Allah's Apostle, "I wish you would buy this to wear on Fridays and also on occasions of the arrivals of the delegations." Allah's Apostle replied, "This will be worn by a person who will have no share (reward) in the Hereafter." Later on similar cloaks were given to Allah's Apostle and he gave one of them to `Umar bin Al-Khattab. On that `Umar said, "O Allah's Apostle! You have given me this cloak although on the cloak of Atarid (a cloak merchant who was selling that silken cloak at the gate of the mosque) you passed such and such a remark." Allah's Apostle replied, "I have not given you this to wear". And so `Umar bin Al-Khattab gave it to his pagan brother in Mecca to wear.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 11
● صحيح البخاري | 2619 | عبد الله بن عمر | رأى عمر حلة على رجل تباع فقال للنبي ابتع هذه الحلة تلبسها يوم الجمعة وإذا جاءك الوفد فقال إنما يلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة فأتي رسول الله منها بحلل فأرسل إلى عمر منها بحلة فقال عمر كيف ألبسها وقد قلت فيها ما قلت |
● صحيح البخاري | 948 | عبد الله بن عمر | هذه لباس من لا خلاق له وأرسلت إلي بهذه الجبة |
● صحيح البخاري | 5981 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له |
● صحيح البخاري | 6081 | عبد الله بن عمر | يلبس الحرير من لا خلاق له |
● صحيح البخاري | 5841 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له النبي بعث بعد ذلك إلى عمر حلة سيراء حرير كساها إياه فقال عمر كسوتنيها وقد سمعتك تقول فيها ما قلت فقال إنما بعثت إليك لتبيعها أو تكسوها |
● صحيح البخاري | 886 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة |
● صحيح البخاري | 5835 | عبد الله بن عمر | يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة |
● صحيح البخاري | 3054 | عبد الله بن عمر | هذه لباس من لا خلاق له |
● صحيح البخاري | 2612 | عبد الله بن عمر | يلبسها من لا خلاق له في الآخرة |
● صحيح البخاري | 2104 | عبد الله بن عمر | لم أرسل بها إليك لتلبسها إنما يلبسها من لا خلاق له |
● صحيح مسلم | 5404 | عبد الله بن عمر | هذه لباس من لا خلاق له أو إنما يلبس هذه من لا خلاق له |
● صحيح مسلم | 5406 | عبد الله بن عمر | يلبس هذا من لا خلاق له أهدي إلى رسول الله حلة سيراء فأرسل بها إلي قال قلت أرسلت بها إلي وقد سمعتك قلت فيها ما قلت قال إنما بعثت بها إليك لتستمتع بها |
● صحيح مسلم | 5403 | عبد الله بن عمر | يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله بحلل سيراء فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى أسامة بن زيد بحلة وأعطى علي بن أبي طالب حلة وقال شققها خمرا بين نسائك |
● صحيح مسلم | 5401 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر منها حلة |
● سنن أبي داود | 4040 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت فقال رسول الله إني لم أكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب أخا |
● سنن أبي داود | 1076 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة |
● سنن النسائى الصغرى | 5302 | عبد الله بن عمر | رأى عمر مع رجل حلة سندس فأتى بها النبي فقال اشتر هذه |
● سنن النسائى الصغرى | 5308 | عبد الله بن عمر | من لبس الحرير في الدنيا فلا خلاق له في الآخرة |
● سنن النسائى الصغرى | 1383 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله مثلها فأعطى عمر منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت قال رسول الله لم أكسكها لتلبسها |
● سنن النسائى الصغرى | 5301 | عبد الله بن عمر | يلبس هذا من لا خلاق له أتي رسول الله بثلاث حلل منها فكسا عمر حلة وكسا عليا حلة وكسا أسامة حلة |
● سنن النسائى الصغرى | 5309 | عبد الله بن عمر | يلبس الحرير من لا خلاق له |
● سنن النسائى الصغرى | 1561 | عبد الله بن عمر | هذه لباس من لا خلاق له ثم أرسلت إلي بهذه |
● سنن النسائى الصغرى | 5297 | عبد الله بن عمر | يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله منها حلل |
● سنن ابن ماجه | 3591 | عبد الله بن عمر | يلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 412 | عبد الله بن عمر | إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة |
● مسندالحميدي | 696 | عبد الله بن عمر | إني لم أكسكها لتلبسها إنما أعطيتكها لتكسوها النساء |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة“، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لم أكسكها لتلبسها“، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔“ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔“ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 252
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو“، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟“ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1076
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔
(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔
(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔
(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔
(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔
(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3591
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 886
886. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:886]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی ؓ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیا گیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔
ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت شریف میں حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت ﷺ نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 886
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:886
886. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:886]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ اسے جمعے کے دن زیب تن کیا کریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس پہننا رائج تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اس کے خریدنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
دوسری حدیث سے جمعے کے دن اچھا لباس پہننے کی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعے کے دن رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
”کتنا اچھا ہو اگر تم لوگ محنت و مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے دو کپڑے اور خرید لو۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1078) (2)
حضرت عمر ؓ نے اپنے مادری بھائی عثمان بن حکیم کو ریشمی حلہ بطور تحفہ دیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مشرک کو ریشمی لباس بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفار فروعی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔
اس کے متعلق علمائے امت کے تین اقوال ہیں:
٭ کفار فروعی احکام کی ادائیگی و اعتقاد کے لحاظ سے مکلف ہیں اور انہیں قیامت کے دن ترک ایمان و عمل کی وجہ سے عذاب ہو گا۔
٭ فروعی مسائل کے اعتقاد اور ادائیگی کے لحاظ سے مخاطب نہیں ہیں۔
قیامت کے دن انہیں صرف ترک ایمان کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔
٭ اعتقاد مخاطب ہیں، ادائیگی کے لحاظ سے مکلف نہیں ہیں۔
قیامت کے دن انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ ترک ایمان اور فروعات کے متعلق ترک اعتقاد کے باعث ہو گا۔
محدثین کے نزدیک کفار ایمان کے علاوہ فروعی مسائل کے بھی اداء و اعتقاد مکلف ہیں۔
(3)
اس حدیث میں ہے کہ ریشمی لباس پہننے والا قیامت کے دن اس سے محروم ہو گا۔
یہ محرومی اس اعتبار سے ہو گی کہ انہیں ریشمی لباس پہننے کا خیال تو آئے گا لیکن انہیں اس سے محروم ہونا پڑے گا، یعنی وہ اس کی خواہش نہیں کریں گے اور جنت میں ہر چیز ملنے کا وعدہ اہل جنت کی خواہش پر موقوف ہو گا، جس طرح اہل جنت اپنے سے اعلیٰ مراتب والوں کے مرتبہ و مقام کی طلب و خواہش نہیں کریں گے۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ (حٰم السجدة: 31: 41)
”اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ)
ہے جو تمہارے جی چاہیں گے اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ)
ہے جو تم مانگو گے۔
“ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی محرومی کو بعض حضرات نے حقیقت پر محمول کیا ہے، خواہ انہوں نے توبہ ہی کیوں نہ کر لی ہو مگر اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد فوت ہو گا تو جنت میں اس قسم کی نعمتوں سے محروم نہیں رہے گا۔
(عمدة القاري: 29/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 886