Narrated Anas bin Seereen: I asked Ibn `Umar, "What is your opinion about the two rak`at before the Fajr (compulsory) prayer, as to prolonging the recitation in them?" He said, "The Prophet (p.b.u.h) used to pray at night two rak`at followed by two and so on, and end the prayer by one rak`a witr. He used to offer two rak`at before the Fajr prayer immediately after the Adhan." (Hammad, the sub-narrator said, "That meant (that he prayed) quickly.)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 16, Number 109
● صحيح البخاري | 993 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت |
● صحيح البخاري | 472 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشي الصبح صلى واحدة فأوترت له ما صلى اجعلوا آخر صلاتكم وترا |
● صحيح البخاري | 473 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● صحيح البخاري | 990 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح البخاري | 995 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● صحيح البخاري | 1137 | عبد الله بن عمر | كيف صلاة الليل قال مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1760 | عبد الله بن عمر | من صلى فليصل مثنى مثنى إن أحس أن يصبح سجد سجدة فأوترت له ما صلى |
● صحيح مسلم | 1763 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا رأيت أن الصبح يدركك فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1749 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بركعة |
● صحيح مسلم | 1748 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح مسلم | 1750 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1751 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فصل ركعة واجعل آخر صلاتك وترا |
● صحيح مسلم | 1761 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي ركعتين قبل الغداة كأن الأذان بأذنيه |
● جامع الترمذي | 461 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي الركعتين والأذان في أذنه |
● جامع الترمذي | 597 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● جامع الترمذي | 437 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة اجعل آخر صلاتك وترا |
● سنن أبي داود | 1326 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن أبي داود | 1295 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن أبي داود | 1421 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1668 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1669 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1670 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بركعة |
● سنن النسائى الصغرى | 1671 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إن خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1672 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1673 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1674 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1675 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1692 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى الوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1693 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● سنن النسائى الصغرى | 1696 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل ركعتين ركعتين إذا خفتم الصبح فأوتروا بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1695 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن النسائى الصغرى | 1694 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة واحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1667 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة قبل الصبح |
● سنن ابن ماجه | 1174 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● سنن ابن ماجه | 1320 | عبد الله بن عمر | يصلي مثنى مثنى إذا خاف الصبح أوتر بركعه |
● سنن ابن ماجه | 1322 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1318 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1319 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 163 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● بلوغ المرام | 291 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر ما قد صلى |
● المعجم الصغير للطبراني | 175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 182 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● المعجم الصغير للطبراني | 213 | عبد الله بن عمر | عن صلاة الليل ، فقال : مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 221 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● مسندالحميدي | 641 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1174
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نمازدو دو رکعت کرکے ادا کی جاتی ہے۔
(2)
تہجد کے بعد ایک وتر پڑھ لینا کافی ہے۔
لیکن ایک سلام سے تین یا پانچ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
(3)
ایک وترپڑھنے کی بابت رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَحَبَّ اَن يُّوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ (سنن ابی داؤد، الوتر، باب کم الوتر، حدیث: 1422)
”جوکوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے۔
تو ایک رکعت (وتر)
پڑھے“ اس سے بلا نفل بھی ایک رکعت وتر پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔
اگرچہ آپﷺکے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
کہ نوافل کی ادایئگی کے بعد ہی آپﷺنے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا ہے۔
آپﷺ کے اس عمل کو قوی حدیث کے مخالف نہیں سمجھنا چایے۔
کیونکہ جیسے آپﷺ کا عمل امت کےلئے قابل اتباع ہے۔
ویسے آپ ﷺ کا قول اور تقریر بھی قابل عمل ہیں۔
صرف ایک رکعت وتر کی موافقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں مروی ہے۔
کہ وہ نمازعشاء مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر ہی پڑھا کرتے تھے۔
۔
دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد: 64/3 ومصنف عبد الرزاق، 22، 21/3 وابن ابی شیبة: 292/2)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1174
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 437
´رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو۔“ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 437]
اردو حاشہ:
1؎:
رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو،
جبکہ ایک حدیث میں ”رات اور دن کی نماز دودو رکعت“ بھی آیا ہے،
در اصل سوال کے جواب میں کہ ”رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے“ ”آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،
اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طورسے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 437
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1295
´دن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ:
مستحب اور افضل یہ ہے کہ نوافل دن کے ہوں یا رات کے دو رکعت کر کے پڑھے جائیں، ایک سلام سے چار رکعت بھی جائز ہیں جیسے کہ سنن ابي داود گزشتہ حدیث [1270] میں گزرا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں ”دن“ کے ذکر کو وہم قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسرے علماء نے اسے ثقہ راوی کی زیادت قرار دیا ہے جو کہ مقبول ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [التعليقات السلفية: 1/198]
اس لیے سنن و نوافل، چاہے دن کے ہوں یا رات کے، دو دو کر کے پڑھناراجح ہے، گو بیک سلام، چار رکعات بھی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1295
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 995
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔
طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔
حضوراکرم ﷺ کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔
ابوبکر ؒ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاء کے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر ؓ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْإِيتَارِ بِرَكْعَةٍ وَاحِدَةٍ عِنْدَ مَخَافَةِ هُجُومِ الصُّبْحِ، وَسَيَأْتِي مَا يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ تَقْيِيدٍ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ الْجُمْهُورُ. قَالَ الْعِرَاقِيُّ:
وَمِمَّنْ كَانَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ الخ۔
یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ (حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم)
اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
حنفیہ کے دلائل! علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے:
عن محمد بن کعب أن النبي صلی اللہ علیه وسلم نھی عن البتیراء۔
یعنى رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا۔
لفظ (بتیراء)
دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔
عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔
علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت ﷺ سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں، مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے، بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بتیراء تین رکعت وتر بھی بتیراء (یعنی دم کٹی)
نماز ہے۔
فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔
حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول ہے:
إنه قال ما أجزأت رکعة قط۔
یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔
امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔
آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔
اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔
ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔
جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز (وتر)
ایک ایک رکعت ادا کی (نیل الأوطار)
بڑی مشکل! یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کا ذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 995
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:995
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں اوقات وتر کو بیان کیا گیا ہے۔
وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1168)
ہاں! جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوئے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو نبی ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کیونکہ وہ رات گئے تک تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے تھے۔
لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ آخر رات میں بیدار ہو سکتا ہے تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ یہ افضل ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر نیند کرے اور جسے اعتماد ہو کہ رات کے قیام کے لیے بیدار ہو سکے گا تو رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے اور یہ افضل ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1765 (755) (2)
حدیث ابن عمر ؓ میں ہے کہ وتر رات کے کسی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اسے صبح کی سنتوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
مزید وضاحت آئندہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 995