الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حدود کا بیان
The Book of Legal Punishments
2. باب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِيفِ وَغَيْرِهِ وَالنَّهْيِ عَنِ الشَّفَاعَةِ فِي الْحُدُودِ:
2. باب: چور اگرچہ شریف ہو اس کا ہاتھ کاٹنا اور حدود میں سفارش نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 4411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيى واللفظ لحرملة، قالا: اخبرنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، " ان قريشا اهمهم شان المراة التي سرقت في عهد النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة الفتح، فقالوا: من يكلم فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقالوا: ومن يجترئ عليه إلا اسامة بن زيد حب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتي بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمه فيها اسامة بن زيد، فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: اتشفع في حد من حدود الله؟، فقال له اسامة: استغفر لي يا رسول الله، فلما كان العشي قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فاختطب، فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد فإنما اهلك الذين من قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف، تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف، اقاموا عليه الحد، وإني والذي نفسي بيده لو ان فاطمة بنت محمد سرقت، لقطعت يدها، ثم امر بتلك المراة التي سرقت فقطعت يدها "، قال يونس: قال ابن شهاب: قال عروة: قالت عائشة: فحسنت توبتها بعد وتزوجت وكانت تاتيني بعد ذلك، فارفع حاجتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الَّتِي سَرَقَتْ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ فِيهَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟، فَقَالَ لَهُ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَطَبَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ، تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ، أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَإِنِّي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ، لَقَطَعْتُ يَدَهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقُطِعَتْ يَدُهَا "، قَالَ يُونُسُ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدُ وَتَزَوَّجَتْ وَكَانَتْ تَأتِينِي بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یونس بن یزید نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ قریش کو اس عورت کے معاملے نے فکر مند کیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں، غزوہ فتح مکہ (کے دنوں) میں چوری کی تھی۔ انہوں نے کہا: اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا؟ (کچھ) لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی اس کی جراءت کر سکتے ہیں۔ وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں بات کی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا: "کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟" تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے لئے مغفرت طلب کیجیے۔ جب شام کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، خطبہ دیا، اللہ کے شایانِ شان اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "امام بعد! تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کر ڈالا کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے اور میں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بارے میں حکم دیا جس نے چوری کی تھی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ یونس نے کہا: ابن شہاب نے کہا: عروہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس کے بعد اس کی توبہ (اللہ کی طرف توجہ بہت) اچھی (ہو گئی) اور اس نے شادی کر لی اور اس کے بعد وہ میرے پاس آتی تھی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتی تھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ قریش کو اس عورت کے مسئلہ نے پریشان کر ڈالا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فتح مکہ کے وقت چوری کی تھی تو انہوں نے آپس میں کہا، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات چیت کر سکتا ہے؟ پھر کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کون یہ جراءت کر سکتا ہے؟ اس عورت کو لایا گیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کی حدود میں ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، اے اللہ کے رسول! میرے لیے اللہ سے معافی طلب فرمائیں، جب شام ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کے شایان شان تعریف کی، پھر فرمایا: حمد صلوٰۃ کے بعد، تم سے پہلے لوگوں کو اس چیز نے تباہ کیا کہ ان کی عادت تھی جب ان کا کوئی قدر و منزلت والا چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں سے کوئی کم مرتبہ کمزور حیثیت کا مالک چوری کرتا تو اس پر حد جاری کر دیتے اور میں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بالفرض اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بارے میں جس نے چوری کی تھی، یہ فرمان جاری فرمایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں بعد میں اس نے صحیح توبہ کر لی اور شادی کر لی اور اس کے بعد میرے پاس آیا کرتی تھی، میں اس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی تھی، (آپصلی اللہ علیہ وسلم پوری فرما دیتے تھے۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1688

   صحيح البخاري3475عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   صحيح البخاري4304عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد والذي نفس محمد بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   صحيح البخاري3733عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف قطعوه لو كانت فاطمة لقطعت يدها
   صحيح البخاري6788عائشة بنت عبد اللهإذا سرق الشريف تركوه وإذا سرق الضعيف فيهم أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطع محمد يدها
   صحيح البخاري6800عائشة بنت عبد اللهقطع يد امرأة قالت عائشة وكانت تأتي بعد ذلك فأرفع حاجتها إلى النبي فتابت وحسنت توبتها
   صحيح البخاري6787عائشة بنت عبد اللهيقيمون الحد على الوضيع ويتركون الشريف والذي نفسي بيده لو أن فاطمة فعلت ذلك لقطعت يدها
   صحيح البخاري2648عائشة بنت عبد اللهسرقت في غزوة الفتح فأتي بها رسول الله ثم أمر بها فقطعت يدها قالت عائشة فحسنت توبتها وتزوجت وكانت تأتي بعد ذلك فأرفع حاجتها إلى رسول الله
   صحيح مسلم4411عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وإني والذي نفسي بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها ثم أمر بتلك المرأة التي سرقت فقطعت يدها
   صحيح مسلم4410عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   جامع الترمذي1430عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   سنن أبي داود4396عائشة بنت عبد اللهاستعارت امرأة تعني حليا على ألسنة أناس يعرفون ولا تعرف هي فباعته فأخذت فأتي بها النبي فأمر بقطع يدها
   سنن أبي داود4373عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   سنن النسائى الصغرى4899عائشة بنت عبد اللهإذا أصاب الشريف فيهم الحد تركوه ولم يقيموا عليه وإذا أصاب الوضيع أقاموا عليه لو كانت فاطمة بنت محمد لقطعتها
   سنن النسائى الصغرى4901عائشة بنت عبد اللهلو كانت فاطمة لقطعتها
   سنن النسائى الصغرى4902عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإن سرق فيهم الدون قطعوه وإنها لو كانت فاطمة بنت محمد لقطعتها
   سنن النسائى الصغرى4904عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   سنن النسائى الصغرى4907عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد والذي نفس محمد بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها ثم أمر رسول الله بيد تلك المرأة فقطعت فحسنت توبتها بعد ذلك قالت عائشة ا وك
   سنن النسائى الصغرى4899عائشة بنت عبد اللهلو كانت فاطمة لقطعت يدها
   سنن النسائى الصغرى4903عائشة بنت عبد اللهإذا سرق الشريف فيهم تركوه وإذا سرق الضعيف فيهم أقاموا عليه الحد والذي نفس محمد بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها ثم قطع تلك المرأة
   سنن النسائى الصغرى4905عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق الوضيع قطعوه والذي نفسي بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعتها
   سنن النسائى الصغرى4906عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو سرقت فاطمة بنت محمد لقطعت يدها
   سنن النسائى الصغرى4907عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد ثم قال والذي نفسي بيده لو أن فاطمة بنت محمد سرقت قطعت يدها
   سنن ابن ماجه2547عائشة بنت عبد اللهإذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها
   بلوغ المرام1056عائشة بنت عبد الله أتشفع في حد من حدود الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2547  
´حدود میں سفارش کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، قریش کافی فکرمند ہوئے اور کہا: اس کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے علاوہ کون اس کی جرات کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2547]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
بنومخزوم کی اس خاتون کا نام فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد تھا جوابوسلمہ کی بھتیجی تھی۔
یہ ابوسلمہ ام المومنین ام سلمہ کے پہلے شوہر تھے۔ (فتح الباري، 108/12)

(2)
حضرت زید بن حارثہ رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
جنھیں رسول اللہﷺ نے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔
بعد میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولا بیٹا بنانے سے منع فرما دیا۔
حضرت اسامہ ان کے بیٹے تھے اور رسول اللہ ﷺان سے بہت محبت کرتے تھے۔

(3)
حضرت اسامہ کو رسول اللہﷺ کی خدمت عرض کرنے کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ وہ کمسن بچے تھےاس لیے خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺنے سفارش نہ بھی مانی تو اسامہ سے ناراض نہیں ہوں گئے کیونکہ وہ بچے تھے۔

(4)
حدود کے نفاذ میں کسی کی رعایت نہیں جائز نہیں۔

(5)
قانون کے نفاذ میں امیر غریب کا فرق کرنا اللہ کے غضب کا موجب ہے کیونکہ اس سے قانون کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

(6)
جس غلطی میں متعدد افراد شریک ہوں اس کی شناعت سب کے سامنے ذکر کر دینی چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی تنبیہ ہو۔

(7)
اپنی بات میں قسم کھانا جائزہے اگرچہ کسی کو اس پر شک نہ ہو البتہ بلاضرورت قسم کھانا مکروہ ہے۔
اور جھوٹی قسم کھانا حرام اور بڑا گناہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2547   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1056  
´چوری کی حد کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے ایک حد میں سفارش کرتا ہے؟ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے پھر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا لوگو! بیشک تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک و تباہ ہوئے کہ جب ان سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور مسلم میں ایک اور سند سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے منقول ہے کہ ایک عورت لوگوں سے ادھار مانگا کرتی تھی اور پھر انکار کر دیتی تھی۔ پس اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1056»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب كراهية الشفاعة في الحد إذا رفع إلي السطان، حديث:6788، ومسلم، الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره...، حديث:1688.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت سے امام احمد‘ امام اسحق رحمہما اللہ اور ظاہریہ نے استدلال کیا ہے کہ جو عاریتاً چیز لے کر انکار کرے اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے مگر جمہور کی رائے ہے کہ انکار پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مخزومیہ خاتون کا قصہ کئی سندوں سے مروی ہے۔
اکثر روایات میں ہے کہ وہ چوری کرتی تھی اور بعض میں یہاں تک صراحت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے چادر چوری کی تھی‘ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم چوری کی وجہ سے تھا۔
2.رہا اس کے عاریتاً لے کر انکار کرنے کا ذکر تو وہ اس کی عادت تھی اور اپنی اسی عادت کی بنا پر وہ اس طرح معروف و مشہور تھی‘ جیسے وہ قبیلۂمخزوم سے ہونے کی وجہ سے مخزومیہ مشہور تھی‘ اس لیے یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ اس کے لیے قطع ید کی سزا کا حکم عاریتاً لی ہوئی چیز کے انکار کرنے کی وجہ سے تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1056   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1430  
´حد میں سفارش کرنا مکروہ ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت ۱؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1430]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا،
اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی توپھر اس سے مکر جاتی۔

2؎:
نبی اکرمﷺ کا ارشاد کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی،
یہ بالفرض والتقدیر ہے،
ورنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں،
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت وطہارت کی خبر دی ہے ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾  (الأحزاب: 33) فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺکے نزدیک آپﷺ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1430   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4373  
´شرعی حدود کو ختم کرنے کے لیے سفارش نہیں کی جا سکتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش کو ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی کے معاملہ نے فکرمند کر دیا، وہ کہنے لگے: اس عورت کے سلسلہ میں کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرے گا؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا اور کس کو اس کی جرات ہو سکتی ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ! کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے سلسلہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4373]
فوائد ومسائل:
1) مقدمہ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد شرعی حدود کو ٹالنے کے لئے سفارش کرنا بہت بڑا گناہ اور جرم ہے۔

2) قانون معاشرے کے سب افراد کے لئے برابر ہونا چاہئے۔

3) گزشتہ قوموں کی ہلاکت کا ایک اہم سبب ان میں رائج طبقاتی امتیاز بھی تھا، اسلام نے سختی کے ساتھ اسے روکا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4373   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.