الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
علم کا بیان
حدیث نمبر: 207
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن شقيق: كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس فقال له رجل يا ابا عبد الرحمن لوددت انك ذكرتنا كل يوم قال اما إنه يمنعني من ذلك اني اكره ان املكم وإني اتخولكم بالموعظة كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها مخافة السآمة علينا ‏‏‏‏وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا
شقیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے، کسی آدمی نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر روز ہمیں وعظ و نصیحت کیا کریں، انہوں نے فرمایا: سن لو! ہر روز وعظ و نصیحت کرنے سے مجھے یہی امر مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا ناپسند کرتا ہوں، میں وعظ و نصیحت کے ذریعے تمہارا ویسے ہی خیال رکھتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس اندیشے کے پیش نظر کے ہم اکتا نہ جائیں، ہمارا خیال رکھا کرتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (68) و مسلم (82/ 2821)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري70عبد الله بن مسعوديتخولنا بها مخافة السآمة علينا
   صحيح البخاري68عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا
   صحيح البخاري6411عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام كراهية السامة علينا
   صحيح مسلم7129عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا
   جامع الترمذي2855عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا
   مشكوة المصابيح207عبد الله بن مسعوديتخولنا بها مخافة السآمة علينا
   صحيح مسلم 7127عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الايام مخافة السآمة علينا
   مسندالحميدي107عبد الله بن مسعودكان يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 70  
´اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 70]

تشریح:
احادیث بالا اور اس باب سے مقصود اساتذہ کو یہ بتلانا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں، تعلیم میں اس قدر انہماک اور شدت صحیح نہیں کہ طلباءکے دماغ تھک جائیں اور وہ اپنے اندر بے دلی اور کم رغبتی محسوس کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے درس و مواعظ کے لیے ہفتہ میں صرف جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل عبادت اتنی نہ کی جائے کہ دل میں بے رغبتی اور ملال پیدا ہو۔ بہرحال اصول تعلیم یہ ہے کہ «يسروا والاتعسروا وبشروا ولاتنفروا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 207  
´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .»
. . . سیدنا شقیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتے میں ہر جمرات کو وعظ اور نصیحت کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب نے ان سے کہا کہ اے ابوعبد الرحمن! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت فرماتے رہیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ (ایسا میں کر سکتا ہوں) لیکن اس طرح کرنے سے یہ چیز مانع ہے کے میں تمہں پریشانی میں ڈال دوں گا۔ اور یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ تم کو ملال میں ڈال دوں۔ (کیونکہ تم روزانہ وعظ سنتے سنتے اکتا کر وعظ سننا چھوڑ دو گے) میں تمہں اس معاملے میں اس طرح رعایت اور خبرگیری رکھتا ہوں۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبرگیری کرتے تھے اور ہمارے اکتا جانے کا اندیشہ سے خاص رعایت و لحاظ فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 207]

تخريج الحدیث:
[صحيح بخاري 70]،
[صحيح مسلم 7127]

فقہ الحدیث:
➊ وعظ و نصیحت کی طوالت اور اختصار میں موقع محل اور عام سامعین کا خیال رکھنا مسنون ہے۔
➋ دعوتی تقاریر اور تبلیغ کے لئے کوئی دن مخصوص کر لینا جائز ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔
➍ جو لوگ ساری ساری رات یا رات کے بہت زیادہ حصے میں دھواں دھار تقریریں کرتے رہتے ہیں اور پھر صبح کی نماز سے غافل ہو کر سو جاتے ہیں، ان کا یہ عمل غلط اور قابل مذمت ہے۔
➎ سائل کے سوال کا جواب دلیل سے دینا چاہئے۔
➏ اگر کوئی پوچھے کہ حدیث مذکور میں سائل سے مراد کون ہیں؟ تو عرض ہے کہ ان سے مراد مشہور زاہد و عابد یزید بن معاویہ النخعی ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 1؍164 ح70]
یاد رہے کہ یہ مشہور یزید بن معاویہ الاموی کے علاوہ دوسرے شخص تھے، ان کی روایتیں کتاب الزہد للامام أحمد وغیرہ (اور ان کا ذکر صحیح بخاری میں جیسا کہ تقریب التہذیب: 7776 میں ہے) میں موجود ہیں اور قاضی ابوبکر بن العربی المالکی کو اپنی کتاب العواصم من القواصم [ص232۔ 233] میں عجیب غلطی لگی تھی۔ وہ یزید بن معاویہ النخعی کو یزید بن معاویہ الاموی سمجھ بیٹھے، حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ ديكهئے: [كتاب الزهد للامام أحمد ص367 ح2150]
◄ قاضی ابوبکر نے کتاب الزہد کی طرف جو روایت منسوب کی ہے وہ اصل کتاب میں نہیں ملی اور نہ دنیا کی کسی کتاب میں امام احمد کی سند سے ملی ہے۔
یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا درج ذیل قول علامہ ابن الجوزی نے نقل کیا ہے:
«فأنبأنا أبوبكر محمد بن عبدالباقي البزاز عن أبى إسحاق البرمكي عن أبى بكر عبدالعزيز بن جعفر قال: ثنا مهنا بن يحييٰ قال: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية فقال: هو الذى فعل بالمدينة ما فعل. قلت: وما فعل؟ قال: نهبها، قلت: فنذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثًا. قلت: ومن كان معه حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام» [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص4۔ وسنده حسن]
اس روایت کی سند حسن ہے۔
محمد بن عبدالباقی بن محمد بن عبداللہ الانصاری قاضی مرستان جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔ نیز دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍23۔ 28]
◄ انھیں ابن الجوزی نے (ثقہ) «ثبت حجة» قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [المنتظم 18؍14، وفيات 535ه] اور [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍26] ابواسحاق البرمکی صدوق تھے۔ [تاريخ بغداد 6؍139]
◄ محمد بن عبدالباقی کی ان سے روایت بطریقہ سماع نہیں بلکہ بطریقہ اجازت ہے جو کہ جمہور محدثین کے اصول سے مقبول ہے۔ عبدالعزیز بن جعفر روایت میں ثقہ تھے۔ ديكهئے: [سير اعلام النبلاء 16؍144]
◄ مھنا بن یحییٰ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔
تنبیہ: امام احمد کا یہ قول [السنة للخلال فقره: 845 وسنده صحيح] میں بھی صحیح سند سے موجود ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 207   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2855  
´فصاحت و بیان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ و نصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم پر اکتاہٹ طاری نہ ہو جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2855]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ وعظ ونصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقررکرنا چاہئے،
کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ ونصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2855   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.